ہر انسان اور مسلمان تین چیزوں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اپنے مال،اپنی اولاداور اپنی عزت سے، عزت کو مال اور اولاد پر فوقیت حاصل ہے۔ انسان اپنے عزت کو بچانے کے لئے اپنے مال اور اولاد کی قربانی دے دیتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح میری عزت کا دفاع ہو سکے۔مسلمان آدمی کی عزت بہت قیمتی چیز ہے اور جو آدمی کسی مسلمان کی بے عزتی کرتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتاہے۔
سب سے بڑا سود:
سیدنا سعیدبن زید؄ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“مِنْ أَرْبَى الرِّبَا الاسْتِطَالَةُ فِي عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَيْرِ حَقٍّ، وَإِنَّ هَذِهِ الرَّحِمَ شِجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، فَمَنْ قَطَعَهَا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ ”
(مسند امام احمد بن حنبل،مسند باقی العشرۃ المبشرین بالجنۃ:اسنادہ صحیح،رقم حدیث:1651)

؏”سب سے بڑا سود یہ ہے کہ ناحق کسی مسلمان کی عزت پر دست درازی کی جائے،اور بیشک رحم (قرابت داری)رحمٰن کی شاخ ہے جو شخص قرابت داری ختم کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیں گے۔ “
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ سب سے چھوٹے درجے کا سود اس قدر مہلک ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے،توسود کا سب سے بڑا درجہ کس قدر خطرناک ہوگا؟ اس بڑےدرجے کے برابر جس گناہ کو قرار دیا گیاہے وہ کسی مسلمان کی بے عزتی کرناہے۔
مسلمان کی بے عزتی کرنے والاہلاک ہوگیا:
سیدنا اسامہ بن شریک؄ بیان فرماتے ہیں کہ میں نبی مکرمﷺ کے ساتھ حج میں روانہ ہوا کہ لوگ آپ ﷺ کے پاس آتے تھےاور جو آدمی بھی یہ کہتا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی(اور مجھے پتانہ چلا)یا کوئی کام پہلے کرلیایاکوئی کام مؤخر کرلیا؟ تو آپ ﷺ فرماتے تھے:

“لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ، إِلَّا عَلَى رَجُلٍ اقْتَرَضَ عِرْضَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَهُوَ ظَالِمٌ، فَذَلِكَ الَّذِي حَرِجَ وَهَلَكَ “

”کوئی حرج نہیں کوئی حرج نہیں،مگر جوکوئی ظلم کرتے ہوئے کسی مسلمان کی عزت کو کاٹے(غیبت یالعن وتشنیع وغیرہ کرے)تو وہ آدمی حرج (گناہ وغیرہ ) میں پڑھ گیا اور ہلاک ہوگیا۔ “
(سنن ابوداؤد:کتاب المناسک،باب فيمن قدم شيئا قبل شيء في حجه،2015،سنن الدارقطنی:2565،حکم الالبانی: صحیح،)
مسلمان کی عزت کو پامال کرنا حرام ہے:
سیدنا ابوبکرہ؄ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص اس کی نکیل یا ناگ تھامے ہوئے تھا،آپ ﷺ نے (صحابہ؇ سے مخاطب ہو کر)فرمایا:”یہ کون سا دن ہے؟“۔ ہم لوگ اس خیال سے خاموش رہے کہ شاید آپ اس کے اصل نام کے علاوہ کوئی اور نام بتائیں گے۔ توآپ ﷺ نے فرمایا:”کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے ؟“ہم نے عرض کیا :کیوں نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:یہ کون سا مہینہ ہے ؟“ہم پھر اس خیال سے چپ رہے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ تو آپﷺ نے فرمایا:”کیا یہ ماہ ذوالحجہ نہیں؟“ہم نے کہا :کیوں نہیں۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا:

“فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا “

”تمہارے خون،تمہارےمال،تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسا کہ تمہارے ہاں اس شہر اور اس مہینے میں اس دن کی حرمت ہے۔ “

” لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ، فَإِنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أَنْ يُبَلِّغَ مَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ مِنْهُ “

”چاہیے کہ جو یہاں حاضر ہے وہ غائب کو یہ خبر پہنچا دے،اس لیے کہ شاید حاضر ایسے شخص کو خبر کردے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھے۔ “
(صحیح بخاری:کتاب العلم،باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: رب مبلغ أوعى من سامع:67،وصحیح مسلم 1679)
اس طرح رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر صحابہ کرام کے جم غفیر میں ایک مسلمان کے خون،مال اور اس کی عزت کی حرمت کوبیان فرمایا،لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی عزتوں، جانوں اور مالوں کو اپنی طرف سے ظلم وزیادتی کا نشانہ بنانے سے پرہیز کرے اور ان کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے انہیں تحفظ فراہم کرے۔
ایک دوسری روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ؄ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الْمُسْلِمُ أَخُوالْمُسْلِمِ،لَايَظْلِمُهُ وَلَايَخْذُلُهُ، وَلَايَحْقِرُهُ

”مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتاہے،نہ اسے رسوا کرتا ہے اورنہ اس کی تحقیر کرتاہے۔ “
(صحیح مسلم:كتاب البر والصلة والآداب،باب تحريم ظلم المسلم، وخذله، واحتقاره ودمه، وعرضه، وماله:2564)
ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ “

”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ “
(صحیح بخاری :کتاب الایمان،باب: المسلم من ..:10،صحیح مسلم:41،سنن ابی داؤد:2481،جامع ترمذی:2627)
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں سیدنا ابوہریرہ؄ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ مَالُهُ، وَعِرْضُهُ، وَدَمُهُ حَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ”

”ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کےمال(کا نقصان کرنا)عزت(پامال کرنا) اور خون(بہانا) حرام ہے۔ بندے کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ “
(سنن ابی داؤد:کتاب الادب،باب فی الغیبۃ،4882،سنن الترمذی:أبواب البر والصلة ..1927)
مسلمان کو ذلیل کرنا،اس کی غیبت کرنا،اس پر کسی قسم کا چھوٹا الزام لگانا،غلطیوں کی تشہیر کرنااور مسلمان کی عزت کو پامال کرنا سب کبیرہ گناہ ہیں۔
اللہ رب العزت کافرمانِ عالیشان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ( الحجرات:12)

”اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے،ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کوبرے القاب سے پکارو،ایمان کے بعد برا نام(رکھنا)گناہ ہےاور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ “
مزید فرمایا:

وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ(الحجرات:12)

”اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیاتم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟پس تم اسے ناپسند کرتے ہواور اللہ تعالیٰ سے ڈرو،بے شک اللہ بہت رجوع کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ “
جس طرح غیبت کرنا حرام ہے اسی طرح غیبت سننا بھی حرام ہے۔ غیبت کرنے والے کوروکنا اور مسلمان کی پیٹھ پیچھے ان کی عزت کا دفاع کرنا فرض ہے کیونکہ جس طرح زبان کے اعمال کی باز پرس ہوگی اسی طرح کانوں کے اعمال کی بھی باز پرس ضرور ہوگی۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا(بنی اسرآئیل:36)

”بے شک کان،آنکھ اور دل ہرایک کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ “
مسلمان دوسرے مسلمان کو مضبوط کرتاہے:
سیدنا ابوموسیٰ ؄نبی کریم ﷺ سے بیان فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

“المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا “

”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے اس عمارت کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتاہے۔
(صحیح البخاری:كتاب المظالم والغصب،باب نصر المظلوم :2446،صحیح مسلم:2585،سنن الترمذی:1928)
مسلمان کی عزت کا دفاع کرنا اسےتقویت دیتا ہے،اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو مضبوط کرنے کے لیے ہے۔
مسلمان کی عزتوں کو پامال کرنے والوں کا انجام:
سیدنا انس بن مالک؄ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“لَمَّا عُرِجَ بِي مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمُشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ، قَالَ : هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ، وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ “

”جب مجھے معراج کروائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کےتھے جو اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے،میں نے پوچھا :اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا :یہ وہ لوگ ہیں جودوسرے لوگوں کا گوشت کھایاکرتے(یعنی غیبت کیا کرتے تھے )اور ان کی عزتوں کو پر حملہ آور ہوتے تھے۔
(سنن ابی داؤد:کتاب الادب،باب فی الغیبۃ،رقم حدیث :4878،حکم الالبانی : صحیح،)
ایک اورروایت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“مَنْ حَمَى مُؤْمِنًا مِنْ مُنَافِقٍ، أُرَاهُ قَالَ: بَعَثَ اللَّهُ مَلَكًا يَحْمِي لَحْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، وَمَنْ رَمَى مُسْلِمًا بِشَيْءٍ يُرِيدُ شَيْنَهُ بِهِ، حَبَسَهُ اللَّهُ عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ “

”جس نے کسی مؤمن کا منافق سے بچاؤکیا۔ راوی کہتاہے میرا خیال ہے آپ ﷺ نے یوں فرمایا:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس کے گوشت کو جہنم سے بچائے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان پر کسی چیزکی تہمت لگائی کہ اس کے ذریعے اس نے اس پر عیب لگانا چاہا،تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کےپل صراط پر روکے رکھے گاحتیٰ کہ اس کے کہے کہ سزا پوری ہو جائے۔ “
(سنن ابی داؤد :کتاب الادب،باب من رد عن مسلم غیبۃ:4883،حکم الالبانی : حسن)
قارئین کرام :مذکورہ بالاآیاتِ کریمہ اور احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان صاحب ایمان کی عزت پر حملہ آور ہوناکتنا بڑا گناہ ہے جسے آج کل ہم کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتے،ایک طرف کسی مسلمان کی عزت کو داغدار کیا جارہا ہے تودوسری طرف سننے والے بھی بڑے غور سے سنتے ہیں اور اس بات کو دوسرے تک بھی بڑے اہتمام کے ساتھ بتاتے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان صاحب ایمان کی عزت کا دفاع کرتا،اس کے سامنے ہو یا اس کی غیر موجودگی میں۔
مسلمان کی عزت کی حفاظت کرنے کا اجر:
سیدہ اسماء ؅کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

“مَنْ ذَبَّ عَنْ لَحْمِ أَخِيهِ فِي الْغِيبَةِ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُعْتِقَهُ مِنَ النَّارِ “(صحیح الجامع الصغیر،رقم حدیث: 6240،ومسنداحمد ،27610)

”جس نے کسی (مسلمان)بھائی کی عدم موجودگی میں اس کی عزت سے برائی کو دور کیا،اللہ تعالیٰ پر اس کا حق ہے کہ اس کو آگ سے آزاد فرمائے۔ “
ایک دوسری روایت میں ہےسیدنا ابودرداء؄ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ القِيَامَةِ “

”جس کسی شخص نے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کیا تو اللہ رب العزت روزِ قیامت اس کے چہرے سے جہنم کی آگ ہٹا دیں گے۔ “
(جامع ترمذی:ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الذب عن عرض المسلم،1931،حکم الالبانی رحمہ اللہ: صحیح)
مسلمان صاحبِ ایمان کی عزت کا دفاع کرنا،اس کے سامنے ہو یا پھر اس کی عدم موجودگی میں،یہ بہت بڑی فضیلت کا کام ہے ایساکرنے سےایک صالح معاشرہ تشکیل پاتاہے۔
مسلمان،مسلمان کی عزت کا محافظ ہوتاہے:
سیدنا عبداللہ بن عمر؆ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ “(صحیح البخاری:کتاب المظالم،باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ، رقم حدیث:2442،وصحیح مسلم :كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم :2580)

”مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر زیادتی کرتا ہے نہ اسے بے یارومددگارچھوڑتاہے،جوشخص اپنے بھائی کے کام میں ہوگا (اس کی کوئی ضرورت پوری کرے گا) تو اللہ تعالیٰ اس کے کام میں ہوگا(یعنی اللہ رب لعزت بھی اس کی ضرورت پوری کرےگا)اور جو شخص اپنے بھائی کا دکھ دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کا دکھ دور کرے گا،اور جس نے کسی مسلمان آدمی کے عیب پر پردہ ڈالا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔ “
ایک دوسری روایت میں ہے جو آدمی کسی مسلمان کی مدد کرتاہے اللہ رب العزت اس کی مددکرتے ہیں:
سیدنا ابوہریرہ؄ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ “

”اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتارہتا ہے جب تک بندہ اپنے (مسلمان)بھائی کی مدد میں مشغول رہتاہے۔ “
(صحیح مسلم:کتاب كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر:2699،سنن ابی داؤد:4946،جامع ترمذی:1425، صحیح ابن حبان،534)
رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کی عزت کا دفاع کرتے:
امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؅بیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ سے کہا کہ آپ کو سیدہ صفیہ ؅ میں یہی کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے (یعنی پست قد والی)ہے۔ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُزِجَتْ بِمَاءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ”

”تحقیق تونے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائےتو(تیرے ان کلمات کی وجہ سے ) سمندر کا پانی کڑوا ہوجائے۔ “
(سنن ابی داؤد:کتاب الادب،باب فی الغیبۃ:4875،سنن الترمذی: 2505، حکم الالبانی رحمہ اللہ: صحیح)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک عورت کو رجم کیا جارہا تھا، رجم کے وقت جب سیدنا خالد بن ولید؄ آگے بڑھے اور اس عورت کے سر پر پتھر ماراتوان کے چہرے پر خون کے چھینٹے آپڑے،جس پر انہوں نے اس عورت کو برا بھلا کہنا شروع کردیا،نبی اکرمﷺ نے ان الفاظ کو سنااور خالد بن ولید؄ کی طرف دیکھ کرفرمایا:

“مَهْلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ “

”اے خالد!ٹھہر جاؤ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا(جو ظلماً لاتعداد انسانوں کا حق کھاتاہے)ایسی توبہ کرتا تو اسے بھی معاف کردیا جائے “
(صحیح مسلم :کتاب الحدود،باب من اعترف على نفسه بالزنى،1695)
صحیح البخاری میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عتبان بن مالک ؄کے گھر گئےآپ ﷺ نے ان کے گھر میں دورکعت نماز اداکی،آپ ﷺ کے اردگرد بہت سے لوگ جمع تھے ان لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ مالک بن دخشن ؄کہاں ہے کسی دوسرے آدمی نے جواب میں کہا کہ وہ تو منافق ہے اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“لاَ تَقُلْ ذَلِكَ، أَلاَ تَرَاهُ قَدْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذٰلِكَ وَجْهَ اللَّهِ “

”ایسے مت کہو،کیا تم نہیں جانتے کہ اس نے خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ” لا الہ الا اللہ “ کا اقرار کیاہے۔

“فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ “

”پس بے شک اللہ رب العزت نے اس شخص کو آگ پر حرام کردیا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر ” لا الہ الا اللہ “ کہا۔ “

(صحیح البخاری:کتاب الصلاۃ،باب المساجد فی البیوت،رقم حدیث:425،وصحیح مسلم:کتاب المساجد،باب الرخصۃ فی التخلف عن الجماعۃ لعذر:33)

قارئین محترم! مندرجہ بالا تمام روایات سے پتا چلاکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی عزت کی حفاظت کرنا اور اگر کوئی دوسرا شخص کسی مسلمان کی عزت کو داغدار کرے تو اس کا دفاع کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
اگر آج ہم احساس کرتے ہوئے اپنی عزت کی طرح دوسرے مسلمان کی عزت کی حفاظت کریں تو یقینًا معاشرے میں امن عافیت کی فضاء پیدا ہوگی جس سے نیکی اور خیر کی فضاء لہلہا اٹھے گی۔ ان شاء اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے