دلوں کی اہمیت:
گذشتہ سطور میں ہم نے دل کے اعمال ذکر کئے تھے،یاد رہے کہ ”دل“اعضاء میں سےسب سے افضل ہے،لہٰذا دل کے اعمال بھی اعضاء کے اعمال سے افضل و برتر ہے،اسی طرح دل کی اصلاح بھی ظاہر کی اصلاح سے زیادہ اہم،ضروری،اور مطلوب ہے۔
اس کائنات کے آغاز میں اللہ تعالی نے آسمان و زمین جیسی عظیم مخلوقات کوپیشکش کی کہ وہ تکالیف شرعیہ کی امانت کا بوجھ اٹھالیں،مگر وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے ڈر گئے اور انکار کردیا،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
(الاحزاب:72)
ہم نے آسمانوں،زمینوں اور پہاڑوں کو امانت اٹھانے کی پیشکش کی تو انہوں اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور وہ اس سے ڈر گئے،لیکن انسان نے اسے اٹھالیا،یقیناً وہ بڑا ہی ظالم اور نادان ہے۔
چنانچہ آسمان و زمین اور پہاڑ عقل و اختیاراور ابدیت و خلدیت سے محروم کردیئے گئے،جبکہ انسان نے اپنی بہت سی نااہلی اور لاعلمی کے باوجوداس بوجھ کو اٹھانے کی حامی بھرلی اوراسےعقل و اختیار اور ابدیت و خلدیت سے نواز دیا گیا ،لیکن اس بوجھ کو اٹھانے کی اہلیت کو ثابت کرنے کے لئے اسےعارضی زندگی کے ساتھ اس دنیا میں بھیج دیا گیا،جیسا کہ آدم و حوا؉کو جنت میں بسانے،پھر شیطان کے بہکاوے میں آکر جنت سے بے دخل کریئے جانے،اور زمین پر بھیج دیئے جانے کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (البقرۃ:36)
تمہارے لئے زمین پر رہنے کی جگہ اور زندگی گذارنے کا سامان ہے،ایک مدت تک۔
اب جو اس امانت کا بوجھ اٹھا لیتا ہے اسکی ابدیت کا محل جنت ہوگا،جبکہ جو اس بوجھ کو اٹھانے میں ناکام رہتا ہے اسکی ابدیت کا محل جہنم ہوگا،جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے یہ مضمون ثابت ہے،مثلاً:
تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ(النساء:13-14)
یہ اللہ کے احکامات ہیں،سو جو اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جنکے نیچے نہریں بہتی ہونگی،جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اور یہی بڑی کامیابی ہے،اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اسکے احکامات کو پامال کرے گا،تو اسے وہ جہنم میں داخل فرمائے گا،جس میں وہ ہمیشہ رہے گا،اور اسے رسوا کن عذاب ہوگا۔
پر وہ امانت جو اس سارے سلسلے کی بنیاد ہے اسکا محل انسان کا دل ہے،جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِى جِذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ (مسلم:384)
امانت انسانی قلوب کی گہرائیوں میں نازل ہوئی،پھر قرآن نازل ہوا،تو لوگوں نے قرآن سے جانا اور سنت سے جانا۔
قلب انسانی کی اس سے زیادہ اہمیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس پروہ بوجھ اترا جسے اٹھانےسے آسمان و زمین بھی گھبراگئے،انسانی جذبات و احساسات خواہ مثبت ہوں یا منفی انکی کی پیدائش و موت کا مرکز،علم وحی کا محل قراراور وحی الٰہی جیسی عظیم المرتبت شے کے نزول کا مرکز، الہامات ربانیہ کے القاء کا محل،انسانی اعمال کو نیک یا بد میں تقسیم کرنے اور ان میں فرق کرنے کی صلاحیت کا حامل،کچھ اور نہیں،رب کائنات کا عظیم تحفہ ”دل“ہے،علم و عمل تو محض اسکے معاون ہیں،چنانچہ انسان کو اپنے دل کی سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیئے،اور اسکی حفاظت سے لمحہ بھر کے لئے بھی غافل نہ ہونا چاہیئے،اور سب سے بڑی حفاظت،دلوں کی حفاظت اوردین کی نگرانی ہے،کہ انہیںکفر و نفاق ،مختلف فتنوں،خواہشات و بدعات سے بچایا جائے،تاکہ وہ صراط مستقیم سے ہٹنے نہ پائے۔
سب سے افضل دل؟:
بلا شبہ تمام انسانوں میں سب سے افضل دل محمد رسول اللہ ﷺ کا تھا،جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود نے کہا:
’’اللہ تعالی نے انسانی قلوب کی جانب نگاہ کی تو سب سے بہتر محمد ﷺ کے دل کو پایا،تو انہیں اپنی ذات کے لئے چن لیا،اور اپنی رسالت سے نوازدیا،پھر انکے دل کے بعد دوبارہ بندوں کے دلوں کو دیکھا تو آپ ﷺ کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہتر پایا،چنانچہ انہیں آپ ﷺ کا معاون بنادیا،وہ اسکے دین کی خاطر لڑتے ہیں‘‘(مسنداحمد 3600،حسن،تخریج الطحاویۃ للالبانی ص :530)
نبی کریمﷺ کے قلب اطہرکی حفاظت کا اہتمام بچپن سے کیا گیا (مسلم:431)،پھر دس سال کی عمرمیں(مسند احمد:21261) ،پھر غار حراء میں(فتح الباری)،پھر معراج کے موقع پر (مسلم:433)،پھر آپکا دل ہر لمحہ بیدار رہتا(بخاری:7281)،اور قرین جن جو دل میں وسوسے ڈالتا ہے اسے بھی آپکے تابع کردیا گیا (مسلم:7288)،اس سارےاہتمام کے باوجود بھی آپ اپنے دل کی حفاظت کی دعائیں کرتے رہتے ،جیسا کہ آئندہ سطور میں آئے گا،یہ سب اس لئے کہ اس دل پر کلام مقدس کا نزول مقدر تھا،نبی اکرمﷺنے انسانیت کی رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دینا تھا،اور پھرقیامت تک کے لئے اس قرآن کا محافظ بھی انسانی قلوب نے بننا تھا،جیسا کہ امام محمد بن محمد بن علی بن يوسف بن الجزری نےکہا:
قرآن کو نقل کرنے میں اعتماد دلوں کے حفظ پر ہے نہ کہ مصاحف اور کتب کے حفظ پر،اور یہ اس امت کے لئے اللہ تعالی کا خصوصی شرف ہے،صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ:نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
میرے رب نے مجھ سے کہا:قریش کو ڈر سناؤ،میں نے عرض کیا:پروردگار،پھر تو وہ میرا سر پھوڑ کر اسکی چپاتی بناڈالیں گے،تو اللہ نے فرمایا:
میں تجھے آزماؤں گا اور تیرے ذریعے آزماؤں گا،اور تجھ پر ایسی کتاب نازل کروں گاجسے پانی بھی دھو نہ سکے گا،جسے تو سوتے ،جاگتے پڑھ سکے گا،سو تو ایک جماعت تیار کر ،میں اسکی مثل ایک جماعت بھیج دوں گا اور اپنے فرمانبرداروں کے ساتھ ملکر اپنے نافرمانوںسے قتال کر، اور خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔
اللہ تعالی نے خبر دی کہ قرآن کی حفاظت کے لئے کسی صحیفے کی ضرورت نہیں جسے پانی دھو سکے،بلکہ آپ ﷺ اسے ہر حال میں پڑھیں گے،جیسا کہ آپکی امت کی یہی صفت ہے کہ:انکی اناجیل(آسمانی کتاب)انکے سینوں میں ہے(طبرانی:10046،مجمع الزوائد:8 /274) ،جبکہ اہل کتاب اپنی کتاب کی حفاظت نہ کرسکے،نہ کتابی صورت میں ،نہ ہی وہ اسے زبانی پڑھ سکتے ہیں۔
(النشر فی القراءات العشر:1/14)
دل اللہ کے اختیار میں ہیں:
انسانی قلوب کی صفات وکیفیات کبھی بھی ایک حالت پر برقرار نہیں رہتیں بلکہ ان میں ہمیشہ تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے،اور ایسا بہت ہوتا ہے، صبح کچھ توشام میں کچھ، رات کچھ،تودن میں کچھ،جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
لَقَلْبُ ابْنِ آدَمَ أَشَدُّ انْقِلَابًا مِنَ القِدْرِ إِذَا اجْتَمَعَتْ غَلْيانا(مسند احمد:23816 ،الصحیحۃ :1772)
ابن آدم کا دل بہت زیادہ تبدیل ہوتا ہے،ہنڈیا سے بھی زیادہ جب وہ جوش میں آجائے۔
نیز فرمایا:
إِنَّ هَذَا القَلْبَ كَرِيشَةٍ بِفَلَاةٍ مِنَ الأَرْضِ، يُقِيمُهَا الرِّيحُ ظَهْرًا لِبَطنٍ(مسنداحمد:19757 ،ظلال الجنۃ:227)
یہ دل کھلے میدان میں پڑے ہوئے کسی تنکے کی مانند ہے جسے ہوا الٹتی پلٹتی رہتی ہے۔
اوریہ تبدیلیاں اسکے اعمال ظاہریہ کی بنا پر رونما ہوتی ہیں،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوا صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ(التوبۃ:127)
جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو (منافقین)ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ،کہ کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا؟پھر وہ لوٹ جاتے ہیں،اللہ نے انکے دلوں کو پھیر دیا،کیونکہ وہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔
یعنی منافقین کی بداعمالیوں کے سبب اللہ تعالی نے انکے دلوں کو گمراہی کی جانب موڑ دیا،لیکن اس تغیر کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے،جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
إِنَّ قُلُوبَ بَنِى آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ كَقَلْبٍ وَاحِدٍ يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ (مسلم:6921)
انسانوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ،وہ انہیں جہاں چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔
جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے زیور سے آراستہ ہوں اللہ انکے دل اپنی جانب موڑدیتا ہے،جیسا کہ فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا(مریم:96)
جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک اعمال کرنے لگے،جلد ہی اللہ انکے لئے محبت پیدا فرمادے گا۔
یعنی وہ اللہ کا ،ملائکہ کا،اور جمیع اہل ایمان کا محبوب بن جائے گا،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّ فُلاَنًا فَأَحِبَّهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ يُنَادِي جِبْرِيلُ فِي السَّمَاءِ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، وَيُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي أَهْلِ الأَرْضِ(بخاری:7047)
اللہ تبارک و تعالی جب بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام سے کہتا ہے کہ:اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہذا تو بھی اس سے محبت کر،پس جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر جبریل علیہ السلام آسمان میں اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو ،پس آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،اور زمین والوں میں بھی اسکی قبولیت ڈال دی جاتی ہے ۔
امام طبری نے کہا:
اللہ تعالی فرمارہا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائیں اور انکے پاس سے جوبھی حکم صادر ہو اسکی تصدیق کریں کہ اس پر عمل کریں ،اسکے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانیں،تو”جلد ہی اللہ انکے لئے محبت پیدا فرمادے گا“یعنی دنیا میں اپنے مومن بندوں کے دلوں میں،امام قتادہ نے کہا:اللہ کی قسم اہل ایمان کے دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا،ہمیں بتایا گیا کہ :ہرم بن حیان کہا کرتے تھے کہ:بندہ جب دل سے اللہ کی جانب متوجہ ہوجائے تواللہ اپنے مومن بندوں کے دلوں کو اسکی جانب پھیر دیتا ہے،پھر اسے بھی انکی محبت و شفقت عطا فرمادیتا ہے۔(تفسیر طبری:18/262)
اور جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہتا ہے اسکا دل پلٹ دیتا ہے،جیسا کہ فرمایا:
مَنْ يُرِدِ اللهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ(المائدۃ:41)
جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے تو اے نبی آپ اللہ کے مقابلے میں اسکے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتے،اللہ نہیں چاہتا کہ انکے دلوں کو پاک کرے،دنیا میں انکے لئے رسوائی اور آخرت میں انکے لئے بڑا عذاب ہے۔
فتنے میں ڈالنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں،دلوں کی سختی،کجی،حق و ہدایت کو سمجھنے سے محرومی،شہوات و خواہشات کی اتباع،نفاق،حسد،کینہ، بغض وغیرہ یہ سب دلوں کے فتنے ہیں،اللہ تمام مسلمانوںکو ان تمام فتنوں سے محفوظ رکھے۔آمین
دل پیمانے ہیں:
انسانی قلوب پیمانے ہیں جنکے ذریعے وہ اپنے رب کے ہاں اپنے مقام و مرتبے کا اندازہ لگا سکتا ہے،جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
إن لله تعالى آنية من أهل الأرض، وآنية ربكم قلوب عباده الصالحين، وأحبها إليه ألينها وأرقه(طبرانی،مسند الشامیین:840، الصحیحۃ:1691)
اہل زمین میں اللہ تعالی کے کچھ پیمانے ہیں،اور تمہارے رب کے پیمانے اسکے نیک بندوں کے دل ہیں،ان میں سے اسکے نزدیک سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو سب سے زیادہ نرم اور رقیق ہوں۔
امام ابن تیمیہ نے کہا:
جَاءَ عَنْ بَعْضِ السَّلَفِ أَنَّهُ قَالَ: إذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَعْلَمَ كَيْفَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ؟ فَلْيَنْظُرْ كَيْفَ مَنْزِلَةُ اللَّهِ مِنْ قَلْبِهِ؟ فَإِنَّ اللَّهَ يُنْزِلُ الْعَبْدَ مِنْ نَفْسِهِ حَيْثُ أَنْزَلَهُ الْعَبْدُ مِنْ قَلْبِهِ(طبرانی،مسند الشامیین:840، الصحیحۃ :1691)
سلف نے کہا:اگر تم میں سے کوئی اپنے رب کے ہاں اپنا مقام و مرتبہ جاننا چاہے تو وہ اپنے دل میں اللہ کے مقام و مرتبے کو دیکھ لے،کیونکہ اللہ تعالی بندے کو اپنے ہاں وہی مقام دیتا ہے جومقام بندہ اسے اپنے دل میں دیتا ہے۔(مجموع الفتاوی:2/384)
ضروری تنبیہ:
یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ اللہ تعالی ہر مومن کے دل میں بستا ہے،اگر اس سے مراد اللہ کی محبت اور اسکی یاد ہے تو یہ درست ہے لیکن اگر اس سے اللہ کی ذات مراد لی جائے تو یہ صریح کفر ہے،کیونکہ اس سے بہت سی آیات و احادیث کا انکار لازم آتا ہے،نیز یہ اللہ تعالی کی وحدانیت کے بھی منافی ہے،کیونکہ قلوب متعدد ہیں جب کہ اللہ کی ذات وحدہ لا شریک ہے،اور ذات واحد کا متعدد میں سمانا محال ہے،اس سلسلے میں چند روایات پیش کی جاتی ہیں،کہ:
(1)ما وسعني أرضي ولا سمائي، ووسعني قلب عبدي المؤمن(الاحیاء للغزالی:2369)
مجھے نہ آسمان سمو سکا نہ ہی زمین لیکن میرے مومن بندے کے دل نے مجھے سمو لیا۔
یہ روایت موضوع ہے،ملاحظہ ہو:الضعیفۃ: 5103
(2)القلب بيت الرب
دل رب کا گھر ہے۔
اس کی بھی کوئی سند نہیں۔(الدررالمنتثرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ للسیوطی:1/157:315)
(3)نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا کہ :زمین پر اللہ کہاں ہے؟تو آپ نے جواب دیا:
في قلوب عباده المؤمنين(الاحیاء للغزالی:2368)
’’اپنے مومن بندوں کے دلوں میں‘‘
اس معنی کی تمام روایات کا یہی حال ہے کہ یا تو وہ بے سند ہیں یا موضوع،تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :
تخریج الاحیاء للعراقی،المقاصد الحسنۃ للسخاوی،مجموع الفتاوی:18/122
دلوں کی حفاظت کے طریقے:
کتاب و سنت میں دل کی حفاظت کے لئے بہت سے طریقے بیان کئے گئے ہیں ،جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1-ایمان
ایمان کا محل قرار دل ہے جیسا کہ ہم ثابت کرآئے ہیں،اوردل کے لئے ایمان مطلوب حقیقی اور ساکن اصلی ہے،کیونکہ دخول جنت اور جہنم سے بچاؤ کا بنیادی ذریعہ یہی ہے،ایمان دل کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دل جسم کے لئے ضروری ہے،اسکے بغیر دل کی حیات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،یہ سلامت رہے تو دل کے دیگر افعال و صفات بھی کارگر رہتے ہیں،اس میں کمی ہوجائے تو دل سست پڑجاتا ہے اور تبعاً ظاہری اعمال بھی بگڑنے لگتے ہیں،اس میں کمال پیدا ہونے لگے تو بندہ عبودیت کی منازل طے کرنے لگتا ہے،اللہ اور اسکے رسول ﷺکی محبت اسکا مقصود بن جاتی ہے،مادی حیات محض اسکی ضرورت بن جاتی ہے،وہ معارف و لطائف کے بحر مدید و عمیق میں ڈوب جاتا ہے،زہد و ورع ،تقوی و خشیت و احسان کے اعلی مراتب پر فائز ہوجاتا ہے،اور اس پر انوار و تجلیات ،سکینت و صلوات کا نزول ہونے لگتا ہے،کیونکہ اسکی لوح قلب پر ایمان کی دستاویز ثبت ہوجاتی ہے،چنانچہ دل کے لئے ایمان سے بڑھ کر اور کوئی محافظ نہیں،اورایمان کی حفاظت سے بڑھ کر دل کی اور کوئی حفاظت نہیں، اس معیار کا ایمان رکھنے والوں کے متعلق اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۰ۭ وَيُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۰ۭ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۲۲ۧ (المجادلۃ:22)
آپ ایسی قوم ہرگز نہ پاؤ گے جو اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھنے کے ساتھ اللہ اور اسکے مخالفین سے محبت رکھتے ہوں، اگرچہ وہ انکے باپ دادا، بیٹے، بھائی، خاندان والےہی کیوں نہ ہوں،اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا اور اپنی روح(جبریل)کے ذریعے انکی مدد کی،اور انہیں جنتوں میں داخل کرے گا جنکے نیچے نہریں بہتی ہیں،جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے،یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں ،جان رکھو اللہ کا گروہ ہی غالب آئے گا۔
ایمان کے اس درجے پر پہنچ کر مومن اپنی سب سے قیمتی متاع ”اپنی جان“بھی اللہ کی خوشنودی کے حصول کی خاطر نچھاور کرکے حیات جاوداں کے حصول کا انتظام کرلیتا ہے،خود رب کریم انہیں یہ اعزاز عطا فرماتا ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
ترجمہ:اے نبی آپ ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے ہر گز مردہ نہ سمجھیں،بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں،انہیں رزق دیا جارہا ہے،اللہ کی نعمتوں اور فضل کی بشارت پاتے ہیں،اور اس بات کی کہ اللہ ایمان والوں کا اجر ضائع نہ کرے گا،وہ جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول کی پکار پر لبیک کہا،حالانکہ انہیں زخم لگے تھے،ان میں سے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے احسان اور تقوی اختیار کیا،اجر عظیم ہے،وہ جن سے لوگوں نے کہا:کہ سب لوگ تمہارے خلاف متحد ہوگئے لہذا انکا خوف کرو تو انہوں نے جواب دیا:ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔(آل عمران:169-173)
خود نبی کریم ﷺ اس شہادت کی تمنا کرکے ضمناًاس اعلی مرتبہ ایمانی کی دعا کرتے،حالانکہ آپ اس پر بدرجہ اتم فائز تھے :
انْتَدَبَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ، لاَ يُخْرِجُهُ إِلَّا إِيمَانٌ بِي وَتَصْدِيقٌ بِرُسُلِي، أَنْ أُرْجِعَهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ، أَوْ أُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، وَلَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ(بخاری:36)
اللہ نے اس شخص کی تعریف کرتے ہوئےجو اسکی راہ میں نکلتا ہے،ارشاد فرمایا:اسے نہیں نکالا مگر صرف مجھ پر ایمان نے،اور میرے رسولوں کی تصدیق نے،یہ کہ میں اسے لوٹاؤں گا اس اجریا غنیمت کے ساتھ جو اس نے حاصل کی، اور میں اسے جنت میں داخل کروں گا(نبی ﷺ نے فرمایا)اگر میری امت پر مشقت نہ ہوتی تو میں کسی ٹکڑی سے پیچھے نہ رہتا،اور میری تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں،پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں،پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں ۔
2:تقوی
تقوی کامحل دل ہے،جیسا کہ ہم گذشتہ سطور میں ذکر کر آئے ہیں،اس میں کارفرما حکمت الہیہ یہی سمجھ آتی ہے کہ اس سے عمدہ کوئی خصلت نہیں،لہذا اسکے لئے دل سے عمدہ کوئی محل نہیں ہوسکتا،جیسا کہ فرمایا:
وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ(البقرۃ:197)
زاد راہ لے کر نکلو،اور سب سے بہترین زاد تو تقوی ہے،اے عقل والو مجھ سے ڈرتے رہنا۔
امام غزالی نے کہا:
اس جہاں میں بندے کے لئے تقوی کے مقابلے میں ایسی کوئی خصلت نہیں جو اجر میں سب سے بڑی،بندگی میںسب سے با کمال،قدر میں سب سے اعلی،حال میں سب سے باوفااور انجام میں سب سے زیادہ باعث نجات ہواسی لئے تو اللہ نے اپنے خاص الخاص بندوں کو اسکی تاکید کی،کیونکہ اس سے آگے کوئی انتہا نہیں،اسکے بغیر کچھ کفایت نہیں،اللہ نے اس میں ہر نوع کی نصیحت و دلالت،تادیب و ارشاد اور تعلیم کو جمع کردیا،چنانچہ یہ دونوں جہانوں کی خیر کو جمع کرنے والی،اعلی درجات تک پہچانےکے تمام اہم ذرائع کو جمع کرنے والی ہے۔(فیض القدیر للمناوی:3/74)
3-علم نافع
علم کہتے ہیں کہ اپنے نفس سے جہالت کو دور کردینا،اور جس چیز کا علم نہ ہو اسکا علم حاصل کرنا نہ کہ بلاعلم اسکے پیچھے پڑجانا،اس سے دل (باطن)اور سماعت و بصارت (ظاہر)دونوں کا نقصان ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا(الاسراء:36)
جس بات کا تجھےعلم نہ ہو اسکے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان ،آنکھ اور دل ان سب کے متعلق بھی پوچھا جائے گا۔
کان اورآنکھ یہ حصول علم کے راستے ہیں،جبکہ دل اس علم کا مسکن ہے،اور علم اسکا ساکن،ساکن جسقدر خوبصورت اورکامل ہوگا راستے اور مسکن بھی اسی قدر مکمل ہونگےجبکہ ان تینوں کی حفاظت جہل سے بچاؤ پر منحصر ہے، اور ”جہل“ دل کی سب سے بڑی بیماری ہے،اسکا علاج صرف ”علم“ہے،جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ
(ابوداؤد:336،حسن،تمام المنۃ،ص:131)
انہوں نے پوچھا کیوں نہیں جب انہیں علم نہ تھا،کیونکہ نادان کے لئے پوچھ لینا باعث اطمینان ہے۔
اور اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو اسکا علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے نہ کہ بلاعلم اسکے پیچھے پڑجانا چاہیئے، علامہ جمال الدين ابو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفی: 597هـ)نے کہا:
کان دل تک سنی ہوئی جبکہ آنکھ دیکھی ہوئی خبریں پہنچاتے ہیں،اور کچھ دیکھی چیزیں دل میں ایسا نقش چھوڑ جاتی ہیں جنکا مٹنا مشکل ہوجاتا ہے،انسان بازار میں جاتا ہے تو اسکا دل بدل جاتا ہےجبکہ عزلت نشینی دل کی سلامتی کو یقینی بناتی ہے،بعض صالحین بازار جاکر صرف باکفایت کماتے ،چنانچہ عزلت نشینی کے ذریعے دلوں کی ہر موذی سے حفاظت میں تیزی کرو۔(التبصرۃ :2/274)
اصلاح قلب کی نیت سے حصول علم کے لئے قرآن سے بہتر کچھ نہیں ،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (محمد:24)
کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا انکے دلوں پر تالے پڑے ہیں؟۔
تدبر میں تلاوت بالاولی شامل ہے،نیز تدبر میں طلب علم بھی شامل ہے،نیز قرآن کے علم سے افضل و نافع کوئی علم نہیں،اور دل کی اصلاح میں اس سے زیادہ سریع الاثر کوئی دوا نہیں،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
ياأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ(یونس:57)
اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا آچکی۔
اما م ابن القیم نے کہا:
جسطرح زندہ رہنے کے لئے ہوا میں سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے،دل کا علم کا محتاج ہونا ایسا نہیںبلکہ اس سے بڑھ کرہے ، خلاصہ یہ کہ دل کے لئے علم ایسے ہے جیسے مچھلی کے لئے پانی اسکے بغیر وہ مرجائیگی،جیسے آنکھ کے لئے روشنی،کان کے لئے سماعت،زبان کے لئے گویائی،اسکے بغیر وہ اندھا ،بہرا اور گونگا ہے،اسی لئے اللہ تعالی نے جاہلوں کو اندھا،بہرا اور گونگا قرار دیا،دراصل یہ انکے دلوں کی کیفیت ہے جن میں علم نہیں،چنانچہ وہ اندھے بہرے اور گونگے ہی رہے،اللہ تعالی نے فرمایا:
جو اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا اور بھٹکا رہے گا۔(الاسراء:72)
مراددنیا میں دل کا اندھا پن ہے نہ کہ حقیقی نابینا پن،اللہ تعالی نے فرمایا:
رو قیامت ہم انہیں انکے چہروں کے بل اندھا ،گونگا،اور بہرہ کرکے اٹھائیں گے،انکا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ (الاسراء:97)
کیونکہ وہ دنیا میں بھی ایسے ہی تھے۔(مفتاح دار السعادۃ :1/111)
علامہ ابو العباس احمد بن محمد بن علي بن حجر الہيتمی (المتوفی: 974 هـ)نے کہا:
جب یہ واضح ہوگیا کہ دل کی اصلاح سب سے بڑی مصلحت اور اسکا فساد سب سے بڑا بگاڑ ہےتو اس شے کی معرفت ضروری ہوگئی جس سے دل کی اصلاح ہو، تاکہ اسے حاصل کیا جائےایسے ہی اس شے کی معرفت بھی ضروری ہوگئی جس سے دل کا بگاڑ ہو، تاکہ اس سے بچا جائے،پس جس سے دل کی اصلاح ہے وہ علم ہے،یعنی اللہ تعالی کی ذات،صفات اور اسماء کا علم،اور اسکے رسولوں کے لائی ہوئی شریعتوں کا علم،اسکے احکام اور انکی مرادوں کا علم،ایسے ہی دلوں کی حرکات اور خیالات کا علم،اسکے مقاصد اور محمود و مذموم اوصاف کا علم۔
( الفتح المبين بشرح الاربعين،ص:250)
4-اطاعت و اتباع
اطاعت کا تعلق دل سے ہے،جبکہ اتباع کا تعلق ظاہر سے ہے،یعنی دل کی خوشی سے وہ راستہ چننا اور اس پر چلنا جو اللہ تعالی نے بندے کے لئے منتخب کیا ،اسے ہدایت کہتے ہیں،یعنی وہ صراط مستقیم جسکی انتہا جنت اور رب کی رضا پر ہوتی ہے،اس پر چلنے کا طریقہ سمجھانے کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا،اور انہیں ”اسوۃ حسنۃ“قرار دیا،اورجذبہ اطاعت کے ساتھ انکی مکمل موافقت و اتباع کا حکم دیا،چنانچہ دل کی خوشی کے ساتھ ظاہر جس قدر نبی مکرمﷺ کا تابع ہوگا دل کی صالحیت اور سلیمیت میں اسی قدر اضافہ ہوگا،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ(الحجرات:03)
جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی آوازیں پست کرلیتے ہیں اللہ نے انکے دلوں کو تقوی سے بھردیا،انکے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی آوازوں کو پست کرلینے کا حقیقی معنی اسکے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ رسول ﷺ کے قول و فعل اور سنت کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا جائے،خواہ ایسا کرنے میں کسی کے بھی قول و فعل اور رائے کی مخالفت ہواور اس آیت میں اسکی تین جزائیں بیان کی گئیں ہیں،دلوں کو تقوی سے بھر دینا، مغفرت، اوراجر عظیم۔
نیز فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَبِّهِمْ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ(محمد:2-3)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے،اور وہ ہر اس بات پر ایمان لائے جو محمد ﷺ پر نازل کی گئی اور انکے رب کی جانب سے حق ہے،تو اللہ نے انکے گناہ مٹادیئے اور انکے ”بال“کی اصلاح کردی،یہ اس لئے کہ انکار کرنے والے باطل پر چل پڑے جبکہ وہ اپنے رب کی جانب سے نازل کردہ حق پر چلے،اللہ لوگوں کے لئے انکی مثالیں بیان کرتارہے گا۔
واضح ہو کہ ”بال“دلی اطمینان و سکون اور حالات و کیفیات کو کہتے ہیں(کتب اللغۃ)یعنی ایمان،عمل صالح اور اتباع حق کی جزا دو چیزیں ہیں ایک گناہوں کی معافی دوسری اصلاح بال دوسرے لفظوں میں اصلاح قلب۔
علامہ طنطاوی نے کہا:
یہ عظیم جملہ”اور انکے بال کی اصلاح کردی“عظیم نعمت ہے جسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے اللہ اسکی توفیق دے،زمین بھر کے خزانے کسی انسان کو نفع نہیں دے سکتے جب اسکا دل شکستہ ہو،اسکا نفس بے چین ہو،اسکے احساسات اور احوال مضطرب ہوں،
لیکن اسے کوئی شے نفع دے سکتی ہے تو وہ ہے دل کی راحت،اطمینان قلب،دل کی خوشی اور امن و سلامتی کا احساس۔ (التفسیر الوسیط:13/219)
5-عدم معصیت
ظاہر جس قدر نبی اکرمﷺ کا مخالف و معارض ہوگا دل اسی قدر زائغ اور فاسد ہوگا،جیسا کہ جب بنی اسرائیل نے موسی کی نافرمانیاں کیں تو اللہ تعالی نےانکی نافرمانیوں کی سزا یہی بیان کی کہ انکے دلوں کو ٹیڑھا کردیا،جیسا کہ فرمایا:
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُو لُ اللّهِ إِلَيْكُمْ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُمْ وَاللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ(الصف:05)
یاد کرو جب موسی نے اپنی قوم سے کہا:میری قوم ،تم مجھے کیوں تکلیف دیتےہو؟حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کارسول ہوں،پس جب وہ ٹیڑھے رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو ٹیڑھا کردیااور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اس آیت میں رسالت پر ایمان کے باوجود معصیت کی سزا دلوں کی کجی بیان ہوئی ہے۔
کیونکہ معصیت دل کے بگاڑ کا سبب بھی ہے اور اسکی علامت بھی،اور معصیت کی سزا دل کے بگاڑ کی صورت میں بھی ملتی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے بعض منافقین کے متعلق فرمایا:
وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ(التوبۃ:75-77)
ان میں سے کچھ نے اللہ سے وعدہ کیا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوزا تو ہم صدقہ کریں گے اور نیک بن جائیں گےپھر جب اللہ نے انہیں اپنا فضل عطا فرمایا تو وہ اس میں بخیلی کرنے لگے،اور منہ پھیرنے لگے،چنانچہ اللہ نے انہیںانکے دلوں میں نفاق کی سزا دی اس دن تک جب وہ اس سے ملیں گے(یعنی موت تک)کیونکہ انہوںنے اللہ سے وعدے کی خلاف ورزی کی اور جھوٹ بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔