Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں

Written by پروفیسر ڈاکٹرعمر بن عبد اللہ المقبل (استاذ کلیۃ الشریعہ والدراسات الاسلامیہ) ترجمہ: ابو عبدالرحمن شبیر بن نور 10 Apr,2016
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

گیارھواں اصول:
وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی
’’اور جادو گر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا ۔‘‘
یہ قرآنِ حکیم کے مضبوط ترین اصولوں میں سے ایک اصول ہے ‘ انتہائی ضروری ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے لایا جائے‘ بالخصوص اس زمانے میں جب کہ جادوگروں اور شعبدہ بازوں کے کام کا بازار گرم ہے۔ اس اصول کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان واضح کر رہا ہے:
وَلاَ یُفْلِحُ السّٰحِرُونَ (یونس77)
’’امر واقعہ یہ ہے کہ جادو گر کامیاب نہیں ہواکرتے ۔‘‘
فرعون کی طرف سے لائے گئے جادو گروں سے جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ ہواتو آپ علیہ السلام نے اُن کو ایک خاص دن میں اکٹھے ہونے کا وعدہ دیا اس موقع کی مناسبت سے یہ اصول سامنے آیاجس کا ذکر سورۃ طٰہٰ میں ہے۔ پھر جب یہ لوگ اکٹھے ہو گئے تو کیا ہوا:
قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی قَالَ بَلْ اَلْقُوْافَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰی فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْااِنَّمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سٰحِرٍوَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی (طہ 65۔69)
’’کہنے لگے: اے موسیٰ! یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں!جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو۔ اب تو موسیٰ(علیہ السلام) کو خیال گزرنے لگا کہ اِن کی رسیاں اور لکڑیاں اِن کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں‘ تو موسیٰ نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔ ہم نے فرمایا:کچھ خوف نہ کر‘ یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا۔ اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اُسے ڈال دے کہ ان کی ساری کاریگری کو نگل جائے۔ انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ سب جادو گروں کے کرتب ہیں ‘ اور جادو گر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا ۔‘‘
جادو گر سے کامیابی کی نفی کا معنی ہے کہ وہ کافرہے۔ (اللہ محفوظ فرمائے!) دوسری بہت ساری آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے ‘ فرمایا:
{وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰـکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ}(البقرۃ:102)
’’سلیمان (علیہ السلام) نے تو کفر نہ کیا تھابلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا ‘ وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان: {وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ} ’’سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا‘‘ا س بات کو واضح کر رہا ہے کہ اگر (بفرضِ محال) سلیمان جادوگر ہوتا توکافر ہوتا (اللہ کی پناہ!) اور فرمایا:
وَلٰـکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ
’’بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا ‘ وہ لوگوں کوجادوسکھایا کرتے تھے‘‘۔
یہ آیت کریمہ صراحت کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ جادو سکھانے والاکافرہے۔
قرآنِ حکیم میں بہت ساری آیات جادو اور جادو گروں کے بارے میںآئی ہیں جن میں ان کی گمراہی اور دنیا وآخرت میں ان کے خسارے کی بات ہوئی ہے ۔ اس کے باوجود اہل ایمان کے لیے مقامِ تعجب ہے کہ اسلامی ملکوں میں پھر بھی جادو پھیل رہا ہے۔
تعجب اس بات پر نہیں کہ جادوگر زندہ ہیں یہ تو کائنات کے سب سے زیادہ افضل زمانے میں بھی پائے جاتے تھے ‘دوسرے زمانوں کی تو بات ہی دوسری ہے۔ اور اس بات پر بھی کوئی حیرانی نہیں کہ جادو گر مال کمانے کے لیے کوئی بھی طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن مقامِ تعجب یہ ہے کہ جو امت قرآنِ کریم کی تلاوت کرتی ہے اور اس میں ان واضح اور صریح آیات کی بھی تلاوت کرتی ہے جن میں جادو اور جادوگروں سے خبردار کیا گیا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کا دنیا وآخرت میں انجام بہت بھیانک ہے‘ اس کے باوجود لوگ قطار در قطار ان جادو ٹونہ کرنے والوں کے دروازوں پر کھڑے ملیں گے یا ایسے ٹی وی چینلوں (channels) کو دیکھ رہے ہوں گے جن میں جادو اور شعبدے بازی دکھائی جارہی ہوتی ہے۔ ایک زمانے سے انہی چینلوں نے اس کاروبار کو چمکایا ہواہے۔ یہ لوگ تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح فلاں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے یا اس نقصان کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ گویا انہوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھا ہی نہیں ہے :
{وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَا لَـہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ} (البقرۃ 102)
’’اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے‘ اور بالیقین جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وہ بد ترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں۔ کاش کہ جانتے ہوتے!‘‘
ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اگر لوگ اس کثرت کے ساتھ جادُو ٹونہ کرنے والوں کے پاس نہ جائیں تو نہ اُن کے کاروبار کا بازار گرم ہو اور نہ ان کا یہ باطل پھیل سکے۔ اگر کسی انسان کو شدید بیماری گھیر لے یا کو ئی دماغی مشکل آجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے لیے جادو ٹونہ کرنے والوں کے پاس جانا جائز ہو گیا ہے ۔
ان لوگوں سے کسی فائدے کی کیا اُمید کی جاسکتی ہے جن کے بارے میں خود اُن کے رب نے خسارے اور گھاٹے کا فیصلہ لکھ دیا ہو؟ خوداللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ رحمتوں والا اور حکمتوں والا ہے کہ (اگر کوئی فائدہ ہوتا تو اس کے باوجود) وہ ان کو جادو گروں کے پاس جانے سے روک دیتا۔ اور جس مصیبت کا وہ شکار ہو چکے ہیں اس کے لیے کوئی دوا نہ اتاری ہو جبکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے :
((لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ ، فَاِذَا اُصِیْبَ دَوَاءٌ الدَّاءَ بَرِءَ بِاِذْنِ اللّٰہِ))(صحیح مسلم‘ حدیث ۲۲۰۴، بروایت سیدنا جابر )
’’ہر بیماری کا علاج ہوتا ہے۔ پس جب کوئی دوا بیماری کے موافق بیٹھ جاتی ہے تو اللہ کے اِذن سے شفا مل جاتی ہے ۔‘‘
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ دَاءً اِلَّا اَنْزَلَ لَہُ شِفَاءً))
’’اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس سے شفادلانے والی دوا نہ اُتاری ہو۔‘‘
چونکہ جادو کے نقصانات بہت بڑے ہیں اسی لیے تمام شریعتوں میں جادو حرام ہے‘ اور جس شخص کو یقین ہو جائے کہ جادو گر جہاں سے مرضی آجائے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا اور جسے یقین ہو جائے کہ جادو گر لوگ کامیاب نہیں ہوا کرتے‘ وہ درجِ ذیل کام ضرور کرے گا:
1 وہ اس قسم کے لوگوں سے بہت دور رہے گا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا وآخرت میں کامیابی کی نفی کی ہے ‘نہ تو علاج کی خاطر اُن کے پاس جائے گااور نہ کسی اور مقصد کی خاطر۔
2 جادو کی جملہ اقسام کو استعمال کرنے سے کوسوں دور رہے گا خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں ‘نہ دوسروں کی محبت پانے اور نہ کسی کی محبت میں خلل ڈالنے کے لیے‘ جیسا کہ بہت ساری عورتوں کاشیوہ ہے۔ عورت کا خیال ہوتا ہے کہ اپنے خاوند کو اپنی طرف مائل کرنے یا خاوند کو دوسری شادی سے روکنے کی خاطر یا اسی طرح کے کسی دوسرے کام کی خاطر جادو ٹونے کا استعمال جائز ہے۔ واضح رہے یہ سب شیطان کی پٹی پڑھائی ہوئی ہے اور اسی نے اس کام کو خوبصورت نام دیے ہیں۔
3واضح رہنا چاہیے کہ جو کوئی جادو والے کام کرتا ہے یا اس کام میں مددگار بنتا ہے‘ وہ شدید خطرے میں ہے۔ اس نے اپنے دین کو چند کوڑیوں میں بیچ دیا ہے اور اس کام میں شیاطین ہی اس کے مرشداور استاد ہیں۔
4 اگرکسی لمحہ انسان کمزور پڑ جائے اور ایسے کبیرہ گناہ کو شیطان اس کے سامنے خوبصورت بنا کر پیش کرے (اور وہ یہ گناہ کرگزرے) تو اُسے فوراًتوبہ کرنی چاہیے ‘اس باطل کام کو فوراً چھوڑ دے اور اس کام کی وجہ سے جس جس کو تکلیف پہنچی ہو اس سے معافی مانگے‘ اور یہ کام اس سے پہلے پہلے کر لے کہ اُس عظیم ذات کے سامنے حساب کے لیے کھڑا ہوجس سے کوئی چھوٹی بڑی بات چھپتی نہیں‘ جو ذات یہ بھی جانتی ہے کہ جادوگر کون ہے؟ کس پرجادو کیا گیا ہے؟ اور اس کام میں کس کس نے مدد کی ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ ظالم سے مظلوم کا بدلہ لے گا‘ اور یہ وہ وقت ہو گا جب ایک نیکی بھی ساری کائنات سے زیادہ عزیز ہوگی۔
جب مؤمن کو اس اصول پر پختہ یقین ہو جائے کہ
وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی
’’اور جادو گر کہیں سے بھی آئے‘ کامیاب نہیں ہوتا‘‘۔
تو اس کی توکل والی عبادت مضبوط ہو جائے گی اور جادوگرجیسی نیچ اوربے کارقوم کے ڈر کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یاد رکھے گا:
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ (الزمر:36)
’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟‘‘ اور دوسری قراء ت کے اعتبار سے
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عِبٰدَہُ
’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی نہیں ہے؟‘‘ جواب واضح ہے: ’’قسم بخداایسا ہی ہے۔‘‘
یہاں قابل ِ غوربات یہ ہے بھلے یہ جادو گر بے حساب مال ودولت کے مالک ہوں اور لوگوں کی ان کی طرف والہانہ توجہ کی وجہ سے ایک نشے کے عالم میں جیتے ہوں پھر بھی وہ سب سے زیادہ بد بختی کی زندگی جیتے ہیں اور ان کی روحیں انتہائی خبیث اور ناپاک ہوتی ہیں اور اس بات پر کسی حیرانی کی ضرورت نہیں۔ جس شخص نے شیطانوں کو اپنا لیڈر مان لیا ہو اورربّ العالمین کا انکار کرتا ہو وہ کس طرح خوش بخت ہو سکتا ہے یا کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے؟(جاری ہے)

Read 1157 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in اپریل 2016

Related items

  • اسلام میں اصولِ قیادت
    in دسمبر 2019
  • (تبصرۂ کتاب (سلف وصالحین کے سنہرے اقوال
    in اکتوبر 2019
  • قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں قسط 16
    in مئی 2017
  • قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں۔ قسط ۱۸
    in ستمبر/ اکتوبر2017
  • 13 قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں قسط
    in فروری 2017
More in this category: « رُباعیّات الجامع الصحیح البخاری وہ روایات جن میں رسولِ اکرم ﷺ اور امام بخاری a کے درمیان صرف چار واسطے ہیں۔ دلوں کی حفاظت »
back to top

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2016