تمام تعریفیں اللہ وحدہ لاشریک کیلئے ہیں اور بے شمار درودوسلام ہوں رحمۃ للعالمین جناب محمد رسول اللہ _ﷺ اور ان کی آل و اصحاب پر۔
ہر قسم کی تعریف کے لائق رب العزت کی ذات اقدس ہے اور اس ہی کو دوام ہے۔ ہم نے آج نہیں تو کل اس دار الامتحان سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوجانا ہے لہذا دنیا کا قاعدہ ہے کہ انسان جس ملک میں رہتا ہے اور جس کسی ملک کی طرف سفر کرتا ہے تو اس پر وہاں کے قوانین و ضوابط لاگو ہوتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے پر سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ لہذا ہم اللہ رب العزت کی زمین پر رہتے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اس اعتبار سے انسان کے دو گروہ ہیں “فریق فی الجنۃ” ایک گروہ جنتی ہے جو مومنین یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ماننے اور ان کی ماننے والے ہیں اور دوسرا گروہ “فریق فی السعیر” یعنی جہنمی گروہ ہے اور یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے منکر اور انکی نافرمانی کرنے والے ہیں۔
آج ہم سب دوسرے گروہ کی پیروی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جس کی ایک انتہائی بھیانک شکل اللہ  اور اس کے رسول ﷺکے منکر و نافرمان کفار و مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ بالخصوص آج ہماری مائیں بہنیں بلکہ ہم سب ان کی مشابہت کو بہت معمولی چیز سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ آپ ﷺکا واضح حکم ہے کہ:

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(ارواء الغليل صححہ الالباني)

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔
وہ انہی کے ساتھ روز محشر اٹھایا جائیگا!! اللہ کیلئے بتاؤ مسلمانوں کفار و مشرکین کا ٹھکانہ کہاں ہے؟ جنت یا جہنم!!؟
میری ماؤں بہنوں، امت کی بیٹیوں تمہیں کیا ہوگیا ہے!!؟؟چند لمحوں کے فیشن کی خاطر ہمیشہ کی آخرت برباد کرنے کی ٹھان لی!!
فیشن کی آڑمیں شرم و حیا کی نیلامی
فیشن کی آڑ میں شرم و حیا نیلام ہوچکی۔ پہلے عبایاتنگ ہوا پھر آستینیں چڑھ گئیں، پھر نقاب اترا اور دیکھتے ہی دیکھے پردہ سرے سے غائب ہوگیا مگر اب تمام حدیں پار ہوچکیں۔ عزت بے شرمی و بے حیائی کے بدلے بک چکی، ماؤں بہنوں نے عزت وعفت اور حیا کی چادر سرعام نیلام کر دی۔ والدین اور بھائی بے غیرت و بے شرمی کا جام پیئے مد ہوش ہیں کسی کو ہوش نہیں آتا، کسی کی غیرت نہیں جاگتی جب مائیں بہنیں بنا کپڑوں کے گھروں سے نکلتی ہیں۔ اے اللہ امت محمدیہ ﷺ پر رحم فرما اور اس کو ہلاکت سے پہلے عفت وحیا اور عافیت عطا فرما۔آمین یا رب العالمین
نصیحت وانذار :
میری ماؤں بہنوں، امت کی بیٹیوں جہنمکی آگ سے بچ جاؤں اللہ کیلئے بچ جاؤ! جہنم کی آگ بڑی سخت ہے اور یہ نصیحت وانذار(ڈرانا) غور سے سنو۔ اللہ آپ سب پر اپنا خاص رحم وکرم فرمائے اور ہم سب کو جہنم کی آگ سے نجات عطافرمائے ۔ اللھم اجرنا من النار (آمین یا رب العالمین
اسکن ٹائٹ پائجامہ اور جینز درحقیقت لباس یا برہنگی(بے لباسی)؟؟
کفار ومشرکین( اللہ اور اس کے رسول ﷺکے دشمن) کی ’’فیشن‘‘نامی اندھی تقلید نے ہماری آنکھیں چندھیا دیں یا تو ہمیں جگہ جگہ برہنہ پھرتی مائیں بہنیں نظر آتی ہیں یا پھر ہمیں یہ آزاد خیالی اور روشن خیالی نظر آتی ہے۔
باغیرت اور عقلمندوں سے سوال :
اگر کوئی شلوار اور پائجامے کے بجائے اپنی ٹانگوں پر طرح طرح کے رنگ کرکے آجائے تو کون عقلمند ایسا ہوگا جو اس کو بالباس کہے گا؟ بلکہ ہر عقلمندو بے وقوف بآسانی یہ فیصلہ کرسکتاہے کہ یہ بے لباسی وعریانی ہے کیونکہ جسم پر طرح طرح کے رنگ کر لینے کو بالباسی نہیں کہتے۔بالکل اسی طرح جینز اور بالخصوص اسکن ٹائٹ پائجامہ پہننا اور ناپہننا برابر ہے اور اس حقیقت کا انکار خود ہماری مائیں بہنیں بھی نہیں کرسکتیں لہٰذا راہ چلتے ان کی شرم گاہیں ظاہر ہوتی ہیں اور اکثر بالکل منکشف بھی ہوجاتی ہیں جس کا اثر معاشرے میں یہ پڑتا ہے کہ گناہ اور عصمت دری کے واقعات بڑھتے ہیں اور باعزت مسلمانوں کے ہاں ایسی لڑکیاں اور عورتیں فاحشہ،بے حیا اور بدکار کے ناموں سے پہچانی جاتی ہیں اور معاشرے میں ایسی عورتیںہر بری نظر کا مرکز بن کر رہ جاتی ہیں نہ ہی ان کی کوئی عزت ہوتی ہے یہ تو دنیا کی ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ایسی عورتوں کاٹھکانہ محض جہنم ہے۔
جہنمیوں کی دو قسمیں جنہیں آپ ﷺ  نے نہیں دیکھا!!
دورِ جاہلیت میں زنا سے لے کر قتل وغارتگری تک ہر ہر جرم اور گناہ موجود تھا جن سب کا آپ ﷺ کو بخوبی علم تھا مگر دور جاہلیت سے لے کر اسلام آنے تک بلکہ آپ ﷺ کے اس دنیا سے رحلت فرمانے تک دو جہنمیوں کی قسمیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے:

صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا

’’جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی

ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا‘‘۔ آپ ﷺ کا ان ڈرادینے والے الفاظ کے ساتھ ان دو گروہوں کا تذکرہ کرنا ان کی ہلاکت کیلئے یقینی اور ہر عقلمند ماں باپ اور بھائی بہن کو ڈرانے اور ان کو اس یقینی ہلاکت سے باز رکھنے کیلئے کافی ہے۔
حدیث سے پہلے :
جو حدیث مبارک یہاں ہمارا موضوع ہے اور جس نے ہمیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا کیونکہ برائی کو دیکھ کر خاموش رہنا اس سے بڑی برائی ہے اور جب برائی متعدی اور یقینی ہلاکت کا باعث ہو تو اس پر خاموش رہنا بے غیرتی وہلاکت اور معاشرے کی تباہی کے سوا کچھ نہیں لہٰذا اس حدیث کو غور سے پڑھیں، سمجھیں اور اپنی بھی آخرت بچائیں اور تمام امت مسلمہ کو اس عظیم فتنے سے بچانے کی کوشش کریں۔
جہنمیوں کے دو گروہ :
حدیث میں مذکور دو گروہوں میں سے یہاں ہمارا موضوع دوسرے گروہ یعنی کپڑے پہنی برہنہ عورتوں کے بارے میں ہے اور پہلے گروہ پر سرسری نظر ڈالی جائے گی۔
حدیث مبارک
امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم (جو احادیث کی مشہور کتب میں دوسرا درجہ رکھتی ہے) میں کتاب اللباس والزینۃ(لباس اور زینت کے احکام ومسائل) میں جو حدیث روایت کی ہے اس پر امام نووی (جو کہ اس کتاب کے شارح ہیں) نے ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا اور فرمایا : باب نساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات ‘‘کپڑے پہنی ہوئی برہنہ فحاشی وبرائی کی دعوت دینے والی اور خود اس طرف مائل ہونے والی عورتوں کا بیان۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا(رواہ مسلم)

’’سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ دو قسمیں ہیں دوزخیوں کی جن کو میں نے نہیں دیکھا ایک تو وہ لوگ جن کے پاس کوڑے ہیں بیلوں کی دموں کی طرح کے لوگوں کو اس سے مارتے ہیں، دوسری وہ عورتیں جو کپڑا پہننے کے باوجود بھی ننگی ہیں دوسروں کو سیدھی راہ سے بہکانے والی اور خود بہکنے والی، ان کے سربختی(لمبی گردنوں اور بڑے کوہان والے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے (ہیں) وہ جنت میں نہ جائیں گی جنت میں جاتا تو دورکی بات اس کی خوشبو بھی نہ پاسکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور ہوتی ہے (دوسری حدیث کے مطابق پانچ سو سال کی مسافت سے)
اور ابن حبان اور حاکم کی روایت میں ہے :
(صحیح الترغیب والترہیب ۔ امام حاکم نے اسے صحیح علی شرط مسلم کہا ہے اور امام البانی نے اسے حسن کہا ہے)
’’ایسی (ننگی عورتوں) پر لعنت کرویقیناً یہ ملعون ہیں۔‘‘
علماء کے اقوال:
بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے :
۱۔ اس سے مراد پولیس ہے یہ کچھ عرصہ پہلے تک ایسے کوڑے تھامے ہوتے تھے جنہیں ہمارے ہاں (دمشق)  میں ’’الکرابیج‘‘ کہا جاتاہے۔(امام البانی مختصر المنذری ص:363 بحوالہ مسلم بشرح النووی وتحقیق رضوان جامع رضوان )
۲ ۔ یہ ظاہر ہوچکا ہے اور عموماً ممالک کے پولیس والے ہیں اور آج کل یہ لوگ کوڑے کے بجائے ڈنڈے تھامے ہوتے ہیں۔ (صفی الرحمن مبارکپوری منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم ، ج3 ، ص:421 طبع دار السلام)
کاسیات عاریات:
یعنی لباس پہننے کے باوجود بھی ننگی ہوں گی کیونکہ وہ ایسا لباس پہنیں گی جس سے ستر نہیں ڈھکے گا یا تو کپڑا اتنا باریک ہوگا جو جلد کا رنگ ظاہر کرے گا یا اتنا چست(ٹائٹ/تنگ) ہوگا کہ جس کی بناوٹ اور اس کے ہر ظاہر وپوشیدہ اعضاء کو ظاہر کرے گا(جو آج کل جینز اور اسکن ٹائٹ پائجاموں سے ظاہر ہے) یاپھر اتنا چھوٹا ہوگا کہ واجب ستر اعضاء کو چھپانے سے قاصر ہوگا جیسا کہ سینہ،گردن،کلائی سے کہنی اور پنڈلیاں وٹخنے وغیرہ ۔ (ممیلات) خود ان فحاشی وبے حیائی کے کاموں میں مائل ہوتی ہیں (مائلات) اور دوسروں کو بھی اپنے کرداروگفتار سے عریانی وگناہ کے کاموں کی طرف مائل کرتی ہیں۔
رووسھن کأسنمۃ البخت المائلۃ
اپنے سروں کو یا تو (وگ) لگا کر بڑا کرتی ہیں یا اپنے جوڑے پیچھے سے اوپر کی طرف لاکر باندھتی ہیں(جو آج کل عرب اسٹائل کے نام سے مشہور ہے جیسا کہ عرب وترک عورتیں اپنے سر پر اونچے سے جُوڑے باندھتی ہیں۔ (صفی الرحمن مبارکپوری ، منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم) واللہ أعلم

تنبیہ :
یادرکھ

یں اس (بے لباسی) میں وہ مرد بھی شامل ہیں جو ٹائٹ ٹراؤزریاجینز پہنتے ہیں اور بالخصوص نماز کی حالت میں کیونکہ قابل ستر اعضاء کا چھپا ہونا نماز کی شرائط میں سے ہے۔

شرعی لباس :

مومن عورت کو اللہ نے قرآن میں پاکیزہ عورت کہا ہے اور پاکیزہ چیز قابل احترام ہوتی ہے مگر کفار ومشرکین کی اندھی تقلید کرتے ہوئے قابل احترام ہستی (مومن عورت) کو ہم نے مادی کھولنا بنا کر رکھ دیا اور اس کھلونے کی اپنی خواہشات کے مطابق نمائش کرتے پھرتے ہیں ویسے بھی اگر صرف لفظ (عورت) پر ہی غور کر لیا جائے تو ہر عقلمند بآسانی یہ فیصلہ کر سکتاہے کہ عورت کا لباس کس طرح کا ہونا چاہیے کیونکہ’’عورۃ‘‘ عربی کا کلمہ ہے جس کا معنی ہے چھپائے جانے والی چیز اور یہی الفاظ آپ ﷺ کی دعا مبارک میں استعمال ہوئے ہیں۔

اللھم استر عوراتنا

اے اللہ ہمارے پوشیدہ عیبوں پر پردہ ڈال دے۔

خلاصہ:

چنانچہ قرآن وسنت کے دلائل اور علمائے امت کے اقوال کو جمع کیا جائے تو خلاصہ یہ بنتا ہے کہ لڑکی جب بالغ ہوجائے تو سر سے پاؤں تک(سوائے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں کے) ہر نامحرم سے پردہ کرنا فرض اور واجب ہے اور محرم کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے اور شوہر سے کوئی پردہ نہیں۔ واللہ اعلم
آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے گناہوں کو معاف فرماکر ہمیں آپ ﷺ کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جہنم سے بچاکر جنت الفردوس کا وارث بنائے۔ آمین
وما علینا الا البلاغ المبین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے