ایک مدتِ دراز سے اسلامی دستور مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوتی ہیں۔ اسلام کا کوئی دستور مملکت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے اصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیا اصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس میں مختلف اسلامی فرقوں کے علماء متفق ہوسکیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کر دیا ہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام اسلامی فرقوں کے چیدہ اور معتمد علیہ علماء کی ایک مجلس منعقد کی جائے اور وہ بالاتفاق صرف اسلامی دستور کے بنیادی اصول ہی بیان کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان اصولوں کے مطابق ایک ایسا دستوری خاکہ بھی مرتب کردے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابل قبول ہو۔
اس غرض کیلئے ایک اجتماع بتاریخ 12۔13۔14 اور15 ربیع الثانی 1370ھ مطابق 21۔22۔23 اور 24 جنوری 1951ء بصدارت مولانا سید سلیمان ندوی کراچی میں منعقد ہوا اس اجتماع میں اسلامی دستور کے جو بنیادی اصول بالاتفاق طے ہوئے ہیں انہیں فائدہ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔
اسلامی مملکت کے بنیادی اصول
اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے :
۱۔ اصل حاکم تشریعی وتکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
۲۔ ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
(تشریحی نوٹ) اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیئے جائیں گے۔
۳۔ مملکت کسی جغرافیائی،نسلی ،لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول ومقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔
۴۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیاء واعلاء اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
۵۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ولسانی علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ واستحکام کا انتظام کرے۔
۶۔ مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لا بدی انسانی ضروریات یعنی غذا،لباس، مسکن ،معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں، یا نہ رہے ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
۷۔ باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جوشریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں یعنی حدودِ قانون کے اندر تحفظ جان ومال وآبرو،آزادی مذہب ومسلک، آزادیٔ عبادت،آزادیٔ اکتساب رزق ،ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
۸۔مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیاجائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمیٔ موقعۂ صفائی وفیصلۂ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
۹۔ مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انہیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے ان کے شخصی معاملات کے فیصلےان کے اپنے فقہی مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیں گے ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہیں کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
۱۰۔ غیر مسلم باشندگانِ مملکت کو حدودِ قانون کے اندر مذہب وعبادت، تہذیب وثقافت اورعیسائیتعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یارسم ورواج کے مطابق رکانے کا حق حاصل ہوگا۔
۱۱۔غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شریعہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر 7 میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگان ملک اور مسلم باشندگان ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
۱۲۔ رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین ،صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہوری ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
۱۳۔رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا البتہ وہ اپنے خیالات کا کوئی جزوکسی فرد یا جماعت کو تفویض کرسکتاہے۔
۱۴۔رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی یعنی وہ ارکان حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
۱۵۔ رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کلاً یا جزوا معطل کرکے شوری کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
۱۶۔ جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
۱۷۔رئیس مملکت شہر حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر ہوگا۔
۱۸۔ ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون وضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
۱۹۔ محکمۂ عدلیہ، محکمۂ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئتِ انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
۲۰۔ ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامیہ کے اساسی اصول ومبادی کے انہدام کا باعث ہوں ۔
۲۱۔ملک کے مختلف ولایات واقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی،لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنہیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیاست کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا مگر انہیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
۲۲۔ دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس
۱۔ علامہ سلیمان ندوی (صدر مجلس ہذا)
۲۔مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی ( امیر جماعت اسلامی پاکستان)
۳۔ مولانا شمس الحق افغانی (وزیر معارف ریاست قلات )
۴۔(مولانا) محمد بدر عالم (استاذ الحدیث دار العلوم اسلامیہ اشرف آباد ٹنڈو اللہ یار سندھ)
۵۔ مولانا احتشام الحق تھانوی (مہتمم دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد سندھ )
۶۔ مولانا محمد عبد الحامد قادری ہدایونی (صدر جمعیۃ العلمائے پاکستان سندھ)
۷۔ مفتی محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان )
۸۔ مولانا محمد ادریس ( شیخ الجامعہ جامع عباسیہ بھاولپور)
۹۔ مولانا خیر محمد (مہتمم مدرسہ خیر المدارس ملتان شہر)
۱۰۔ مولانا مفتی محمد حسن (مہتمم مدرسہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور)
۱۱۔پیر صاحب محمد امین الحسنات (مانکی شریف ، پختونخواہ)
۱۲۔ مولانا محمد یوسف بنوری (شیخ التفسیر دار العلوم اسلامیہ اشرف آباد سندھ)
۱۳۔ حاجی خادم الاسلام محمد امین (خلیفہ حاجی ترنگ زئی ، المجاہد آباد پشاور صوبہ خیبر پختونخواہ)
۱۴۔قاضی عبد الصمد سربازی (قاضی قلّات بلوچستان)
۱۵۔مولانا اطہر علی (صدر عامل جمعیۃ العلماء اسلام مشرقی پاکستان )
۱۶۔مولانا ابو جعفر محمد صالح (نائب صدر جمعیۃ العلماء اسلام مشرقی پاکستان )
۱۷۔مولانا راغب احسن (نائب صدر جمعیۃ العلماء اسلام مشرقی پاکستان)
۱۸۔مولانا محمد حبیب الرحمن (نائب صدر جمعیۃ المدرسین سرسینہ شریف مشرقی پاکستان )
۱۹۔ مولانا محمد علی جالندھری ( مجلس احرار اسلام پاکستان)
۲۰ مولانا داؤد غزنوی (صدر جمعیۃ اہل حدیث مغربی پاکستان)
۲۱۔مفتی جعفر حسین مجتہد (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان)
۲۲۔مفتی حافظ کفایت حسین مجتہد (ادارہ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان لاہور)
۲۳۔مولانا محمد اسماعیل ( ناظم جمعیت اہل حدیث پاکستان گوجرانوالہ)
۲۴۔ مولانا حبیب اللہ ( جامعہ دینیہ دار الہدی ٹیڑھی خیر پور میر)
۲۵۔ مولانا احمد علی ( امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ لاہور)
۲۶۔ مولانا محمد صادق ( مہتمم مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی)
۲۷۔ پروفیسر عبد الخالق (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان )
۲۸۔ مولانا شمس الحق فرید پوری (صدر مہتمم مدرسہ اشرف العلوم ڈھاکہ)
۲۹۔مفتی محمد صاحبداد عفی عنہ (سندھ مدرسہ الاسلام کراچی)
۳۰۔ مولانا محمد ظفر احمد انصاری ( سیکرٹری بورڈ آف تعلیمات مجلس دستور ساز پاکستان )
۳۱۔ پیر صاحب محمد ہاشم مجددی (ٹنڈو سائیں داد، سندھ)
نفاذِ شریعت کے رہنما اصولوں کے حوالے سے 57 جید علماء کرام کے متفقہ 15 نکات
چونکہ اسلامی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن وسنت کے مطابق گزاریں اور پاکستان اسی لئے بنایا گیا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ بنے لہٰذا 1951ء میں سارے دینی مکاتب فکر کے معتمد علیہ 31 علماء کرام نے عصر حاضر میں ریاست وحکومت کے اسلامی کردار کے حوالے سے جو 22 نکات تیار کیے تھے انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو ٹھوس بنیادیں فراہم کیں اور ان کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے کئی دستوری انتظامات بھی کر دیئے گئے لیکن ان میںسے اکثر زینت قرطاس بنے ہوئے ہیں اور ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا مزید براں کچھ اور دستوری خلا بھی سامنے آئے ہیں جو پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں چنانچہ نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی تساہل پسند کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض عناصر نے بزورِ قوت شریعت کی من مانی تعبیرات کو نافذ کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔
اس مسلح جدوجہد کے شرکاء نے ایک طرح سے حکومتی رٹ کو چیلنج کر دیا جبکہ اس صورت حال کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرکے افواج پاکستان کو اس مسلح جدوجہد کے شرکاء کے سامنے لاکھڑاکیا اور یوں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا ہی خون بہہ رہا ہے حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان سرگرمیوں کی پشت پناہی بھی خود امریکہ،بھارت اور اسرائیل ہی کر رہے ہیں پا کستان کے دیگر پر امن علاقے بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں تقریباً تمام بڑے شہروں میں آئے دن دہشتگردی اور خودکش حملوں کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں جن میں اب تک ہزاروں معصوم شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام ایک مرتبہ پھر مل بیٹھیں اور باہمی غوروفکر اور اتفاق رائے سے ان اُمور کی نشاندہی کردیں جن کی وجہ سے پاکستان ابھی تک ایک مکمل اسلامی ریاست نہیں بن سکا اور نہ ہی یہاں نفاذ شریعت کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکا ہے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کی یہ کوشش اس مرحلہ پر اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کی اس کوشش سے ہی نہ صرف ان اسباب کی نشاندہی ہوگی جو نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں بلکہ نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصولوں کے ذریعے وہ سمت اور راستہ بھی متعین ہوجائے گا جس پرچل کر یہ منزل حاصل کی جاسکتی ہے ۔ دراصل نفاذ شریعت کی منزل کا حصول ہی اس بات کی ضمانت فراہم کر سکتاہے کہ آئندہ پاکستان کے کسی علاقے سے نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جارحیت کا ارتکاب اور حکومتی رٹ کو چیلنج نہ کیا جاسکے چنانچہ اس حوالے سے تجویز کیے گئے اقدامات پیش خدمت ہیں:
۱۔ شریعت پر عمل سب کی ذمہ داری ہے :
ہمارے حکمرانوں کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کو بھی شریعت پر عمل کے قابل بنائیں اور معاشرے اور ریاست کو بھی شریعت کے مطابق چلائیں۔ دینی عناصر کا بھی فرض ہے کہ وہ دعوت واصلاح اور تبلیغ وتذکیر کے ذریعے فرد کی بھی تربیت کریں ،حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی دینی ذمہ داریاںپوری کریں اور جہاں تک قانون اجازت دے خود بھی نفاذ شریعت کے لیے ضروری اقدامات کریں اسی طرح ہر مسلمان کی یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرے۔
۲۔ ۲۲ نکات کی مرکزی حیثیت :
یہ کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی بنیاد 1951ء میں سارے مکاتب فکر کے علماء کرام کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کردہ 22 نکات ہیں اور موجود دستاویز کے 15 نکات کی حیثیت بھی ان کی تفریع اور تشریح کی ہے۔
۳۔ نفاذ شریعت بذریعہ پُر امن جدوجہد اور بمطابق متفقہ راہنما نکات :
یہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ پرامن جدوجہد کے ذریعے ہونا چاہیے کیونکہ یہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کا مشترکہ تقاضا ہے اور عملاً بھی اس کے امکانات موجود ہیں نیز شریعت کا نفاذ سارے دینی مکاتب فکر کی طرف سے منظر شدہ متفقہ راہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے (یہ 15 نکات اس قرارداد کا حصہ ہیں) اور کسی گروہ یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا اسلامی سارے معاشرے پر قوت سے ٹھونس دے۔
۴۔دستوری اصلاحات :
دستور پاکستان کے قابل نفاذ حصے میں بصراحت یہ لکھا جائے کہ قرآن وسنت مسلمانوں کا سپریم لاء ہے اور اس تصریح سے متصادم قوانین کو منسوخ کر دیا جائے۔ یہ دستوری انتظام بھی کیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو اور دستور کی کسی بھی شق اور مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کسی بھی فیصلے کو کتاب وسنت کے خلاف ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکے۔ نیز ان دستوری دفعات کو دستور میں بنیادی اور ناقابل تنسیخ دفعات قرار دیا جائے۔ آئین توڑنے سے متعلق دفعہ 6Aاور عوامی نمائندوں کی اہلیت سے متعلق دفعات 62،63کو مؤثر اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی ریاستی یا حکومتی عہدیدار کی قانون سے بالاتر حیثیت اور استثنیٰ پر مبنی دستوری شقوں کا خاتمہ کیا جائے۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلنٹ پنج کے جج صاحبان کو دیگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی طرح باقاعدہ جج کی حیثیت دی جائے اور ان کے سٹیٹس اور شرائط تقرری وملازمت کو دوسری اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے سٹیٹس اور شرائط تقرری وملازمت کے برابر لایاجائے۔ بعض قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دینے کے فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے اور وفاقی شرعی عدالت کو ملک کے کسی بھی قانون پر نظر ثانی کا اختیار دیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلنٹ بنچ کو آئینی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ مناسب وقت (Time Frame) کے اندر شریعت پٹیشنوں اور شریعت اپیلوں کا فیصلہ کر دیں۔ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی طرح صوبائی،ضلعی اور تحصیل سطح کی عدالتوں میں بھی علماء ججوں کا تقرر کیا جائے اور آئین میں جہاں قرآن وسنت کے بالاتر قانون ہونے کا ذکر ہے نبی کریم ﷺ کے شارع ہونے کا ذکر بھی کیا جائے۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء بطور رکن نامزد کرے ہر مکتبہ فکر اپنا نمائدہ اپنے حلقوں سے مشاورت کے بعد تجویز کرے نفاذ شریعت کے حوالے سے جن نکات پر ارکان کی اکثریت کا اتفاق ہوجائے حکومت چھ ماہ کے اندر اسے قانون بنا کر پاس کرنے کی پابند ہو۔
۵۔موجودہ اسلامی قوانین پر مؤثر عمل درآمد:
پاکستان کے قانونی ڈھانچے میں پہلے سے موجود اسلامی قوانین پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کیا جائے اور اسلامی عقوبات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ مؤثر اصلاحی کوششیں بھی کی جائیں۔
۶۔ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی :
اسلامی اصول واقدار کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات وسہولیات زندگی مثلاً روٹی ،کپڑا،مکان ، علاج معالجہ اور تعلیم فراہم کرنے،غربت وجہالت کے خاتمے اور عوامی مشکلات ومصائب دور کرنے اور پاکستانی عوام کو دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کو اولین ریاستی ترجیح بنایا جائے۔
۷۔سیاسی اصلاحات :
موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی تعلیمات کے مطابق اصلاح کی جائے مثلاً عوامی نمائندگی میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حوصلہ شکنی اور غریب اور متوسط طبقے کی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں نمائندگی کے لیے شرعی شہادت کی اہلیت کو لازمی شرط قرار دیاجائے متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا جائے علاقائی،نسلی،لسانی اورمسلکی تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں۔
۸۔نظام تعلیم کی اصلاح :
تعلیمی نظام کی اسلامی تناظر میں اصلاح کے لیے قومی تعلیمی پالیسی اور نصابات کو اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دیا جائے جس سے یکساں نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی اور طبقاتی نظام تعلیم کاخاتمہ ہو اساتذہ کی نظریاتی تربیت کی جائے اور تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور مغربی لباس کی پابندی اور امور تعلیم میں مغرب کی اندھی نقالی کی روش ختم کی جائے تعلیم کامعیار بلند کیا جائے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی نصاب اپنانے کا پابند بنانے اور ان کی نگرانی کا مؤثر نظام وضع کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے تعمیر سیرت اور کردار سازی کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ تعلیم سے ثنویت کا خاتمہ کیا جائے دینی مدارس کے نظام کو مزید مؤثر ومفید بنانے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ضروری اقدامات کیے جائیں تاکہ بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے اور فرقہ واریت میں کمی واقع ہو دینی مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جائے۔ تعلیم کے لیے وافر فنڈز مہیا کئے جائیں ۔ ملک میں کم از کم میٹرک تک لازمی مفت تعلیم رائج کی جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔
۹۔ ذرائع ابلاغ کی اصلاح :
ذرائع ابلاغ کی اصلاح کی جائے اسلامی تناظر میں نئی ثقافتی پالیسی وضع کی جائے جس میں فحاشی وعریانی کو فروغ دینے والے مغربی وبھارتی ملحدانہ فکر وتہذیب کے اثرات ورجحانات کو رد کر دیا جائے۔ صحافیوں کے لیے ضابطۂ اخلاق تیار کیا جائے اور ان کی نظریاتی تربیت کی جائے۔ پرائیویٹ چینلز اور کیبل آپریٹرز کی مؤثر نگرانی کی جائے۔ اسلامی اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف پروگراموں پر پابندی ہونی چاہیے بلکہ تعمیری انداز میں عوام کے اخلاق سدھارنے اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینے والے پروگرام پیش کیے جائیں اور صاف ستھری تفریح مہیا کی جائے۔
۱۰۔ معیشت
پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے اور افلاس اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے ائیں جیسے جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا،شعبہ زراعت میں ضروری اصلاحات کو اولین حکومتی ترجیح بنانا،تقسیم دولت کے نظام کو منصفانہ بنانا اور اس کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف موڑنا۔ بیرونی قرضوں اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرنا۔ معاشی خود کفالت کے لیے جدوجہد کرنا اور عالمی معاشی اداروں کی گرفت سے معیشت کو نکالنا۔ سود اور اسراف پر پابندی اور سادگی کو رواج دینا۔ ٹیکسز اور محاصل کے نظام کو مؤثر بنایا جائے اور بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بڑے قرضوں کے اجراء کے ساتھ ساتھ مائیکروکریڈٹ کا بھی اجراء کریں تاکہ غریب اور ضرورت مند لوگ ان بلا سود قرضوں کے ذریعے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکیں نیز قرضوں کو بطور سیاسی رشوت دینے پر قانونی پابندی عائد کی جائے۔ زکوۃ اور عشر کی وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 38 میں درج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح وبہبود کے متعلقہ امور کی تکمیل کے لیے حکومت خود اور نجی شعبے کے اشتراک سے فوری طور ٹھوس اقدامات کرے۔ لوٹ مار سے حاصل کردہ اور بیرون ملک بینکوں میں جمع خطیر رقوم کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
۱۱۔عدلیہ
عدلیہ کی بالفعل آزادی کو یقینی بنایا جائے اور اسے انتظامیہ سے الگ کیا جائے۔اسلامی تناظر میں نظام عدل کی اصلاح کے لیے قانون کی تعلیم،ججوں، وکیلوں، پولیس اور جیل سٹاف کے کردار کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں ۔ انصاف سستار اور فوری ہونا چاہیے۔
۱۲۔امن وامان
امن وامان کی بحالی اور لوگوں کے جان ومال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ان مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔
۱۳۔ خارجہ پالیسی :
خارجہ پالیسی کو متوازن بنایا جائے تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے جائیں اور اپنی قومی خود مختاری کا تحفظ کیاجائے۔ اپنے ایٹمی اثاثوں کےتحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے۔مسلمانان عالم کے رشتہ اخوت واتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے او آئی سی کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار ادا کر ے۔
۱۴۔ افواج پاکستان :
افواج میں روح جہاد پیدا کرنے کے لیے سپاہیوں اور افسروں کی دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام ہونا چاہیے بنیادی فوجی تربیت ہر مسلم نوجوان کے لیے لازمی ہونی چاہیے۔فوجی افسروں کی اس غرض سے خصوصی تربیت کی جائے کہ ان کا فرض ملک کا دفاع ہے نہ کہ حکومت چلانا۔ بیوروکریسی کی تربیت بھی اسلامی تناظر میں ہونی چاہیے تاکہ ان کے ذہنوں میں یہ راسخ ہوجائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں حکمران نہیں۔
۱۵۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر:
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ایک آزاد اور طاقتور ریاستی ادارہ قائم کیا جائے جو ملک میں اسلامی معروفات اور نیکیوں کے فروغ اور منکرات وبرائیوں کے خاتمے کے لیے کام کرے اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جس میں نیکی پر عمل آسان اور برائی پر عمل مشکل ہوجائے اور شعائر اسلامی کا احیاء واعلاء ہو اور دستور کے آرٹیکل 31 میں جن امور کو ذکر کیا گیا ہے ان پر مؤثر عمل درآمد ہوسکے۔ دفاع اسلام خصوصاً اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات کے ازالے اور مسلمانوں وغیر مسلموں تک مؤثر انداز میں دین پہنچانے کے لیے بھی حکومت پاکستان کو فنڈز مختص کرنے چاہئیں اور وسیع الاطراف کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔

فہرست علماء کرام :

جو اتحاد امت کانفرنس میں شریک ہوئے اور جنہوں نے اس قرار داد کی منظوری دی:
۱۔ مولانا مفتی محمد خان قادری (مہتمم جامعہ اسلامیہ وصدر ملی مجلس شرعی ،لاہور)
۲۔ پیرعبدالخالق قادری(صدر مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان)
۳۔علامہ احمد علی قصوری (صدر مرکز اہل سنت ،لاہور)
۴۔صاحبزادہ علامہ محب اللہ نوری( مہتمم جامعہ حنفیہ فریدیہ بصیر پور اوکاڑہ)
۵۔علامہ قاری محمد زوار بہادر (ناظم اعلیٰ ، جمعیت علماء پاکستان ، لاہور)
۶۔مولانا حافظ غلام حیدر خادمی( مہتمم جامعہ رحمانیہ رضویہ،سیالکوٹ)
۷۔ مولانا مفتی شیر محمد خان ( صدر دار الافتاء دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ سرگودھا)
۸۔ علامہ حسان الحیدری ( حیدر آباد سندھ)
۹۔مولانا راغب حسین نعیمی ( مہتمم جامعہ نعیمیہ،لاہور)
۱۰۔ مولانا خان محمد قادری ( مہتمم جامعہ محمدیہ غوثیہ داتانگر لاہور)
۱۱۔مولانا محمد خلیل الرحمن قادری(ناظم اعلیٰ جامعہ اسلامیہ،لاہور)
۱۲۔علامہ محمد شہزاد مجددی (سربراہ دار الاخلاص ۔مرکز تحقیق لاہور)
۱۳۔ علامہ محمد بوستان قادری (شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ (ضلع سرگودھا)
۱۴۔ سید منور حسن ( امیر جماعت اسلامی پاکستان منصورہ لاہور)
۱۵۔ مولانا عبد المالک (صدر رابطہ المدارس الاسلامیہ منصورہ لاہور )
۱۶۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی منصورہ لاہور)
۱۷۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر (امیر جماعت اسلامی پنجاب لاہور)
۱۸۔ مولانا سید محمود الفاروقی (ناظم تعلیمات رابطہ المدارس الاسلامیہ ، لاہور)
۱۹۔ مولانا محمد ایوب بیگ ( ناظم نشر واشاعت تنظیم اسلامی پاکستان ، لاہور)
۲۰۔مولانا ڈاکٹر محمد امین (ڈین صفاء اسلامک سنٹر وناظم اعلیٰ ملی مجلس شرعی،لاہور)
۲۱۔مولانا محمد حنیف جالندھری (ناظم اعلیٰ ، وفاق المدارس العربیہ، ملتان )
۲۲۔مولانا مفتی رفیق احمد ( دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی)
۲۳۔ مولانا حافظ فضل الرحیم ( نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ ، لاہور)
۲۴۔ مولانا زاہد الراشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکیڈمی،گوجرانوالہ)
۲۵۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی ( ناظم اعلیٰ جمعیت علماء اسلام ، لاہور)
۲۶۔ مولانا محمد امجد خان (ناظم اطلاعات جمعیت علماء اسلام، لاہور)
۲۷۔ مولانا مفتی محمد طاہر مسعود (مہتمم جامعہ مفتاح العلوم سرگودھا)
۲۸۔ مولانا مفتی محمد طیب ( مہتمم جامہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد)
۲۹۔ مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی (نائب مہتمم جامعہ دار العلوم الاسلامیہ ، لاہور)
۳۰۔مولانا اللہ وسایا (عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ،ملتان)
۳۱۔ مولانا مفتی محمد گلزار احمد قاسمی (مہتم جامعہ قاسمیہ،گوجرانوالہ )
۳۲۔ مولانا قاری محمد طیب (مہتمم جامعہ حنفیہ بورے والا،وہاڑی)
۳۳۔مولانا رشید میاں (مہتمم جامعہ مدنیہ،کریم پارک ، لاہور)
۳۴۔ مولانا محمد یوسف خان (مہتمم مدرسنۃ الفیصل للبنات ، ماڈل ٹاؤن لاہور)
۳۵۔مولانا عزیز الرحمن ثانی (مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ، لاہور)
۳۶۔ مولانا رضوان نفیس ( خانقاہ سید احمد شہید،لاہور)
۳۷۔مولانا حافظ محمد نعمان (مہتمم جامعہ الخیر جوہر ٹاؤن لاہور)
۳۸۔مولانا قاری جمیل الرحمن اختر (مہتمم جامعہ حنفیہ قادریہ ، لاہور)
۳۹۔ مولانا قاری ثناء اللہ( امیر جمعیت علماء اسلامی لاہور)
۴۰۔ پروفیسر مولانا ساجد میر (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان لاہور)
۴۱۔ پروفیسر حافظ محمد سعید ( امیر جماعت الدعوۃ پاکستان لاہور)
۴۲۔ مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی( امیر جماعت اہل حدیث پاکستان ، لاہور)
۴۳۔ مولانا عبید اللہ حنیف ( امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان ، لاہور)
۴۴۔ مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری ( ناظم اعلیٰ متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان )
۴۵۔مولانا حافظ عبد الوہاب روپڑی(نائب امیر جماعت اہلحدیث پاکستان )
۴۶۔ مولانا محمد شریف خان چنگوانی (نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان )
۴۷۔مولانا ڈاکٹر محمد حماد لکھوی ( پروفیسر پنجاب یونیورسٹی وخطیب جامع مسجد مبارک اہلحدیث لاہور)
۴۸۔ مولانا ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (نائب مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) لاہور)
۴۹۔ مولانا امیر حمزہ (کنوینر تحریک حرمت رسول(جماعۃ الدعوۃ) لاہور)
۵۰۔ مولانا قاری شیخ محمد یعقوب ( جماعۃ الدعوۃ لاہور)
۵۱۔ مولانا رانا نصر اللہ (امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث لاہور)
۵۲۔ مولانا محمد زاہد ہاشمی الازہری (ناظم اعلیٰ جماعت غرباء اہلحدیث پنجاب)
۵۳۔ علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (مہتمم ادارہ منہاج الحسین، لاہور)
۵۴۔علامہ حافظ کاظم رضا نقوی (تحریک اسلامی، اسلام آباد)
۵۵۔ مولانا محمد مہدی (جامعہ المنتظر ، لاہور )
۵۶۔ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی( دار العلوم کورنگی کراچی)
۵۷۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (دار العلوم کورنگی کراچی )
مفتی رفیع عثمانی اور مولانا تقی عثمانی صاحب کانفرنس میں تشریف نہ لاسکے لیکن انہوں نے بعد میں تحریراً ان نکات کی تائید کی۔
دینی مسالک میں تقارب اور رواداری کا فروغ ملی مجلس شرعی کے 23 علماء کرام کا 18 نکاتی متفقہ اعلامیہ
ملی مجلس شرعی کے اجلاس مؤرخہ 8 جولائی 2013ء میں سارے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے دینی مسالک اور جماعتوں میں تقارب اور رواداری کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل 18 نکات کی متفقہ طور پر منظوری دی :
شدت اختلاف میں کمی :
۱۔ دینی جرائد اورمجالس میں ایسی جذبانی تقریروں ،تحریروں،مناظروں اور مباحثوں سے اجتناب کیا جائے جن کا مقصد ایک مسلک کی فتح اور دوسرے مسلک کی تغلیط ہو ۔
۲۔ مسلک ومشرب کو دین نہ سمجھا جائے اور نہ مسلکی اختلافات کو حق وباطل کی جنگ قرار دیا جائے۔
۳۔ بین المسالک اختلافات کی وجہ سے کسی مسلک کی تکفیر نہ کی جائے اور نہ کسی پر ہاتھ اٹھانا جائز قرار دیا جائے نیز اشتعال دلانے والی اور دل آزاری کا سبب بننے والی تحریریں کتابوں سے نکال دی جائیں۔
۴۔ علماء کرام اور مسالک کے درمیان اختلافات کو علمی سطح تک محدود رکھا جائے اور اسے عوام کی سطح تک نہ لے جایا جائے۔
۵۔دینی حلقے اور عامۃ الناس،واعظین اور ذاکرین کی بجائے ان ثقہ وسنجیدہ علماء کرام کو اہمیت دیں جو رسوخ فی العلم اور تقویٰ رکھتے ہوں اور رائے کے اظہار میں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوں۔
۶۔ چونکہ مسالک میں مشترکات کی کثرت ہے اور اختلافت کم اور معمولی ہیں اور عموماً فروعی،اجتہادی اور ترجیحی نوعیت کے ہیں اس لیے مشترکات کی اساس پر ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے اور اختلافات کو برداشت کرنے اور ان سے صَرف نظر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے سارے مسالک کو چاہیے کہ بیرونی حمایت اور پروپیگنڈے کو ردکردیں اور دوسروں کے کہنے پر اپنے گھر میں نفرت اور تشدد پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔
مساجد
۷۔ جمعہ وعیدین کے خطبات اور دیگر دروس وغیرہ میں فرقہ وارانہ موضوعات نہ چھیڑے جائیں اور بین المسالک اختلافات کو ہوا نہ دی جائے بلکہ خطبات اصلاحی نوعیت کے ہوں۔
۸۔ مساجد کو بلا تخصیص عامۃ الناس کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے استعمال کیا جائے خصوصاً طلبہ اور نوجوانوں کو مسجد سے جوڑا جائے اور علاقہ کے مستحقین (یتیم، مسکین،بیوہ،معذور افراد وغیرہ) کی بلا تفریق مالی مدد کے لیے کمیٹیاں بنائیں جائیں۔
۹۔ اگر کوئی مسجد کسی مسلک کی تحویل میں ہو تو کسی دوسرے مسلک والے کو اس پر قبضہ کی کوشش کرنے اور فرقہ واریت وفساد بڑھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

دینی مدارس

۱۰۔ دینی مدارس اصلاً ’’دین‘‘ کی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے ہیں نہ کہ کسی مسلک کی تعلیم وتغلیب کے لیے لہٰذا مدارس کو فرقہ واریت کی نرسریاں بنانے کی بجائے دینی تعلیم کے مراکز بنایا جائے، مشترکات کو ابھارا جائے،اختلافات کو سمیٹا جائے اور مسالک کے درمیان تقارب اور رواداری کو شامل نصاب کیا جائے۔
۱۱۔ دوران تدریس علماء کرام،اساتذہ اور شیوخ یہ رویہ ترک کردیں کہ انہوں نے اپنے مسلک کو واحد حق ثابت کرنا اوردوسرے مسالک کو باطل قرار دیتے ہوئے ان کی تغلیط اور نفی کرنا ہے۔
۱۲۔اس خودساختہ پابندی کو ختم کر دیا جائے کہ ہر مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ کا مسلک لازماً ایک ہی ہو۔
۱۳۔ دینی مدارس کو صرف مخصص علماء تیار کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ عوام خصوصا جدید سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے (روزانہ بعد عصر اور گرمیوں کی چھٹیوں میں )استعمال کیاجائے۔
۱۴۔ دینی تعلیم کے نصاب پر اس طرح نظر ثانی کی جائے کہ طلبہ فراغت کے بعد عصر حاضر کے مسائل اسلامی تناظر میں حل کرنے کے قابل ہوسکیں اور مغربی فکر وتہذیب خصوصاً جدید معاشی،سیاسی،قانونی اور تعلیمی مسائل سے اور انگریزی زبان سے اچھی واقفیت رکھتے ہوں۔
فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی بجائے دعوت واصلاح کی تعمیری مصروفیت :
۱۵۔ معاشر میں بڑھتے ہوئے اخلاقی بگاڑ،فساد اور بے دینی کی وجہ سے جس کا بنیادی سبب دین سے دوری اور مغرب پرستی ہے علماء کرام کا فرض ہے کہ وہ اپنے موجودہ کاموں کے علاوہ دعوت واصلاح اور بالمعروف ونہی عن المنکر کے کام کو بنیادی اہمیت دیں اور اس پر اپنی توانائیاں صرف کریں خصوصاً جدید تعلیم اور میڈیا کی اصلاح پر توجہ کریں۔
۱۶۔ ایک اہم شعبہ جو علماء کرام کی توجہ کا محتاج ہے وہ خدمت کا ہے تاکہ مسلمان عامۃ الناس کے دکھ درد کم ہوسکیں اور علماء کرام کی سیادت وقیادت پر ان کا اعتقاد مزید پختہ ہو اور ان کا یہ وقار اور مقام نصر دین میں ممدومعاون ثابت ہو۔
دینی سیاسی جماعتیں
۱۷۔ دینی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مسلک کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانے کی بجائے پاکستان میں نفاذ شریعت کے ایک متفقہ پروگرام پر جمع ہوکر ایک مضبوط سیاسی جماعت ، تحریک ،محاذ بن جائیں تاکہ ان کا وزن اور اہمیت بھی ہو اور عوام بھی ان کا ساتھ دیں۔
۱۸۔ انتخابات میں نشستیں جیتنے کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کی آپس میں کشمکش اور محاذ آرائی ناپسندیدہ ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔

فہرست علماء کرام

اس اعلامیہ پر جن علماء کرام نے دستخط کیے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
۱۔ مولانا مفتی محمد خان قادری ( مہتمم جامعہ اسلامیہ، جوہر ٹاؤن لاہور)
۲۔ مولانا عبد الرؤف فاروق (جمعیت علماء اسلام(س)
۳۔مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی (جامعہ اہلحدیث ،لاہور)
۴۔مولانا عبد المالک (جامعہ مرکز علوم اسلامیہ، منصورہ)
۵۔علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (ناظم ادارہ منہاج الحسین لاہور)
۶۔مولانا مرزا ایوب بیگ (ناظم اطلاعات ، تنظیم اسلامی پاکستان)
۷۔مولانا حافظ محمد نعمان حامد ( جامعۃ الخیر ، لاہور)
۸۔مولانا سید عبد الوحید شاہ (جماعۃ الدعوۃپاکستان )
۹۔مولانا حافظ عبد الوہاب روپڑی (جماعت اہلحدیث پاکستان )
۱۰۔ مولانا مہدی حسن ( جامعہ المنتظر ، ماڈل ٹاؤن لاہور)
۱۱۔ مولانا ایس ایم عبد اللہ جان (مدیر اقراء تہذیب الاسلام ، لاہور )
۱۲۔ مولانا نصرت علی شہانی (وفاق المدارس الشیعہ ، لاہور)
۱۳۔ مولانا محمد توقیر عباس (جامعہ العروۃ الوثقی لاہور)
۱۴۔ مولانا ڈاکٹر محمد امین ( صفاء اسلامک سنٹر،لاہور)
اس کے علاوہ ملی مجلس شرعی کے مندرجہ ذیل علماء کرام نے بھی اس کی حمایت کی ہے :
۱۵۔ مولانا زاہد الراشدی ( شریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ )
۱۶۔ مولانا حافظ عاکف سعید ( تنظیم اسلامی پاکستان )
۱۷۔ مولانا حافظ فضل الرحیم (جامعہ اشرفیہ لاہور)
۱۸۔ مولانا احمد علی قصوری ( مرکز اہل سنت لاہور)
۱۹۔ مولانا محمد خلیل الرحمن قادری ( جامعہ اسلامیہ جوہر ٹاؤن لاہور)
۲۰۔ مولانا راغب حسین نعیمی ( جامعہ نعیمیہ لاہور)
۲۱۔ مولانا شہزاد مجددی ( دار الاخلاص لاہور)
۲۲۔ مولانا شیخ محمد یعقوب ( جماعۃ الدعوۃ ، پاکستان )
۲۳۔ مولانا قاری احمد میاں تھانوی (دار العلوم اقبال ٹاؤن لاہور)
۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے