اس کائنات کے اندر جتنی بھی عظیم شخصیات کا گزر ہوا ہےوہ اعلیٰ اخلاق وکردارکی بنیاد پر دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے ان میں ہمارے نبی کریم ﷺ سرفہرست ہیںآپ ایسے اعلیٰ اخلاق وکردار کا پیکرتھے جس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک جب تک آپ نے نبوت کا تاج نہ پہنا تھا، مشرکین عرب میں آپ صادق وامین کے لقب سے موصوف تھے۔وہ آپ سے اپنے بیٹوں سے زیادہ محبت والفت کرتے تھے۔آپ کے داداعبدالمطلب کے ہاں آپ کا مقام اور شان تواتنی اعلیٰ وارفع تھی کہ وہ خاص مقام یا جگہ جو ان کے لیے مخصوص تھی،جس پر ان کی سگی اولاد کو بھی بیٹھنے کی اجازت نہ تھی،مگریہ دریتیم صاحب حسن وجمال جناب محمدﷺاس پر آکر براجمان ہو جاتے آپ کے چچاعبدالمطلب کے بیٹے آپ کو ٹوکتے کہ یہاں نہ بیٹھو،مگر جب عبدالمطلب کواس کا علم ہوتا تو کہتے:’’میرے پوتے کویہاں براجمان ہونے سے مت روکاکروکیونکہ اس کی شان نرالی ہے،اس کا مرتبہ اعلیٰ ہے۔‘‘جب بھی عرب میں کوئی امانت رکھوانا چاہتا توآپ ﷺ کے پاس آکر اپنی امانت رکھواجاتا،کیونکہ ان میں مشہورتھا کہ آپ ﷺسے بڑھ کر کوئی بڑاامین مکہ کی سرزمین موجود نہیں۔آپ کی ہربات کووہ من وعن تسلیم کر لیتے۔جب نبوت کا تاج آپ کے سرپرسجایاگیا،توآپ کے کمال اخلاق نے بڑے بڑے دشمنوں کواپناگرویدہ اوراسلام کا جانثاربنادیا۔ جوجان لینے کی غرض سے آتے وہ اسلام کے لیے اپنادل دے بیٹھتے۔اپنے خونی رشتوں کوآپ کے لیے چھوڑنا گوارہ کرلیتے مگرآپ سے جدائی کاصدمہ برداشت کرناان کیلئے محال ہوجاتا۔آپ کےاعلیٰ اخلاق سے قرآن وحدیث کے ذخائر بھرے پڑے ہیں۔حتیٰ کہ سابقہ شریعتوں کی کتب میں بھی آپ کے اعلیٰ اخلاق کو ذکر کیا گیا ہے۔تورات میں آپ کے اخلاق کے متعلق یہ مذکور ہے کہ:’’آپ نہ بداخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں۔نہ ہی بازاروں میں اونچی آواز سے بات کرتے ہیں۔اور برائی کا جواب برائی سے نہیں بلکہ معاف کردیتے ہیں اوردرگزر کردیتے ہیں۔‘‘آپ کے ساتھ زندگی بسرکرنے والے چاہے وہ آپ کے اصحاب ہوں یا مشرکین عرب آپ کے اخلاق کی عمدگی پر توسب ہی متفق تھے۔چنانچہ جب آپ نے اعلانیہ دعوت کے لیے پہلا قدم اٹھایا توصفا پہاڑی پرچڑھ کر آواز لگائی اورپوچھا:’’کیا میں جوکہوں گا تم میری بات پر یقین کروگے ؟‘‘سب نے بیک آواز کہا:’’ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہی پایا ہے۔‘‘اسی طرح آپ کے اصحاب سے جب بھی اَخلاق نبویﷺ کے بارے میں دریافت کیاگیاتوانہوں نے ہمیشہ آپ کے اعلیٰ اخلاق وکردار کی تعریف کی۔اس وقت چونکہ غلامی کاسلسلہ بھی تھا اس لیے غلاموں کے مالک اپنے غلاموں کے ساتھ بہت برا رویہ اپناتے تھے لیکن سیدنا انس رضی اللہ عنہ جو آپ کےخادم تھے اوردس سال خدمت نبوی میںگزارے۔ آپ ﷺ کا رویہ ان کے ساتھ اتنا عمدہ تھا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ:’’نبی کریم نہ برابھلا کہتے تھے،نہ بے ہودہ گفتگوکرتے تھے،نہ کسی پراپنی ذات کے لیے لعنت بھیجتے۔‘‘آپ کے پاس کوئی سائل آتا تو کبھی ناامید ہوکرنہ لوٹتا بلکہ غنی ہوکر ہی واپس جاتا۔آپ میں عاجزی وانکساری کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کربھراہواتھا۔صحابہ کرام سے ہمیشہ گھل مل کر رہتے جوکوئی بھی آپ سے ملناچاہتاتھا بغیرکسی تگ ودوکے آپ سے مل کراپنا مسئلہ بیان کردیتاتھا۔آپ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے :’

’اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْناً وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘

اے اللہ! مجھے اس حال میں زندہ رکھ کہ میں مسکین رہوںاوراسی حال میں مجھے موت دینا اورقیامت کے دن مجھے مسکینوں کے گروہ میں اٹھانا۔ایک بار مومنوں کی ماں سیدہ عائشہ صدیقہ ومطھرہ رضی اللہ عنھا نے یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا تو فرمانے لگیں:’’ آپ یہ دعا کیوں کرتے ہیں؟توآپ فرمانے لگے:’’بے شک مساکین مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔پھرآپ فرمانے لگے:اے عائشہ!مسکین کو خالی نہ لوٹایا کرواگرچہ آدھی کھجور ہی دو۔عائشہ !تم مسکینوں سے محبت کرو اور انہیں اپنے قریب کرو،اس طرح اللہ تمہیں روز قیامت اپنا قرب نصیب کرے گا۔‘‘(الترمذی:2352) مساکین حقیقی محتاج مراد تھے ناکہ آج کل کے پیشہ وربھکاری ، جنہوں نے مانگنے کو پیشہ بنا لیا ہے۔ایسے لوگوں کے بارے میں تو یہ وعید آئی ہے کہ کل قیامت والے دن جب اللہ کے دربار میں آئیں گے تو ان کا چہرہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچا ہی ہوگا،گوشت نہ ہوگا۔آپ ﷺ کے ساتھ اپنے ساتھیوں کا رشتہ اتنا گہرہ تھا کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا کوئی لونڈی آپ کے پاس آتی اور آپ کو اپنا مسئلہ حل کروانے کے لیے آپ کو ساتھ لے جاتی توآپ اس کے ساتھ چل پڑتے(صحیح البخاری:6072) آج کل کے حکمرانوں کی طرح تکلف نامی بیماری کا تو دور تک کوئی نام ونشان تک نہ تھا۔غرض کہ آپ اپنی امت کے لیے سب کچھ قربان کیے ہوئے تھے۔اسی طرح ایک ذمہ دار کی حیثیت سے آپ پر رعایا کی جو ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ان کا بھی خاص خیال رکھتے چنانچہ آپ کمزورومسلمانوں کے پاس آتے،ان سے ملاقات کرتے، ان میں سے جو بیمار ہوتا اس کی عیادت کرتے، جو فوت ہوجاتا اس کی نماز جنازہ ادا کرتے اورتدفین میں شریک ہوتے۔اسی طرح سلام میں پہل کرتے،آپ میں تکلف نام کی تو کوئی چیز تھی ہی نہیں حتیٰ کہ زمین پر بیٹھ جاتے اور زمین پر بیٹھ کر ہی کھانا کھاتے۔بکری کو باندھتے اور جو کی روٹی پر بھی کوئی غلام دعوت دیتا تواس کا دل رکھنے کے لیے دعوت قبول کرلیتے۔ صحابہ کرام کو کوئی شخص آپ سے بڑھ کرعزیز ،قابل احترام اور محبوب نہ تھا۔

اس کے باوجود بھی جب آپ صحابہ کی مجلس میں تشریف لاتے توصحابہ میں سے کوئی احتراماً کھڑا نہ ہوتا کیونکہ آپ نے اس عمل سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔(سنن الترمذی:2754)مگر آج ایسا نہ کرنے والے سزا کے مستحق قرارپاتے ہیں اورکوئی نام نہاد حکمران کے سامنے احتراماً کھڑا نہ ہوتو وہ اس میں اپنی توہین سمجھتا ہے۔جس طرح آپ کا کرداراجلا اورصاف ستھرا تھا بعینہ آپ کا گفتار بھی عمدہ تھا۔کبھی زبان سے کسی کوتکلیف نہ دی مگرآج نام نہادعاشق رسول ﷺکا دعویٰ کرنے والوں کا اخلاق و کردارایسا ہے کہ اللہ معاف کرے ۔ان کی زبان سے کوئی محفوظ ہے نہ کردارسے،ان کی زبان وہاتھ مسلمانوں کے خلاف چلتے ہیں۔حالانکہ ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پرخون بہانا،مال کھانااور عزت وآبرو حرام ہے۔مگرنام نہاد مسلمانوں کے ہاتھ اپنے ہی بھائیوں کے خون سے رنگ چکے ہیں۔ان کی زبانیں اپنوں کے خلاف نشتر بن چکی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیںاخلاق  نبوی ﷺ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے