Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں قسط 5

Written by پروفیسر ڈاکٹرعمر بن عبد اللہ المقبل, ترجمہ: ابو عبدالرحمن شبیر بن نور 03 Jul,2016
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

بارہواں اصول
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰـٹکُمْ
’’یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘
قرآنِ کریم کے محکم ترین اصولوں میں سے ایک یہ اصول ہے‘ جو اِس دین کی عظمت بیان کر رہا ہے ‘اس کی بلندی کا اَمین اوراس کے اصولوںکا پاسبان ہے۔ یہ آیت ِ کریمہ سورۃ الحجرات میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سارے اخلا قِ فا ضلہ اوراچھی خصلتوں کے ذکر کے بعد اس آیت کو ذکر فرمایا ہے‘ اوربرے اخلاق اورگھٹیا عادتوں سے روکنے کے بعد اس بات کو بیان کیا ہے۔ اِس آیت میں اس جامع اصول کو بیا ن فرمایا ہے جس سے تمام اچھے اخلاق جنم لیتے ہیں اور تمام غلط اخلاق کا راستہ بند ہو تا ہے یاوہ بہت کمزور ہو جاتا ہے ‘اور یہی آیت اللہ تعالیٰ کے ہاں باہمی فضیلت یا عزت کا معیارہے۔ فرمایا:
یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَـبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْااِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰٹکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات13)
’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیے ہیں تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو ۔ یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ دانا اور باخبر ہے۔‘‘
یقینا یہ بڑی عظیم آیت ہے جو عدل وانصاف کو واضح کررہی ہے جو اس دین کے علاوہ کسی دوسرے دین میں واضح نہیں ہوئے ۔
اس آیت ِکریمہ کی اہمیت آپ کے سامنے اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتی جب تک آپ اپنے ذہن میں ان حالات کو تازہ نہ کر لیں جن سے عرب معاشرہ گزر رہا تھا کہ وہ کس طرح سے دوسرے قبائل سے معاملہ کیا کرتے تھے ‘خواہ ان کا تعلق ایسے قبائل کے ساتھ تھا جن کو وہ نسب کے اعتبار سے نیچ قبیلے مانتے تھے ‘یا ان کا تعلق غیر عرب قبائل کے ساتھ تھا ‘ یا ان کا تعلق غلاموں یا آزاد شدہ قبائل کے ساتھ تھا ۔
نبی اکرم ﷺ کی انتہائی کوشش تھی کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت اس آیت ِ کریمہ کی روشنی میں کریں اور آپﷺ نے زبانی اور عملی طور پر باربار اس آیت پر عمل کیا۔ میں یہاں صرف دو مثالیں پیش کر رہا ہوں جن کو قیامت تک نہ تو عرب بھلا سکیں گے اور نہ ہی قریش۔   
پہلا واقعہ: یہ فتح مکہ کا دن ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ جاؤ اور بلند آواز سے اذان دو۔ جو لوگ وہاں پر موجود تھے ان میں سے کافر قریشیوں کی بات تو چھوڑیے‘ جدید مسلمانوں کوبھی یقین نہیںآرہاتھا کہ وہ اپنی کھلی آنکھوں سے اس قسم کا منظر دیکھیں گے کہ ایک حبشی غلام اس مقام پر پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ اسلام اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کا اعجاز تھا جو زبانی اور عملی دونوں طرح سے لوگوں کی تربیت کررہا تھا۔ اور یہ فتح مکہ ہی کے دن کی بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے جاتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں وہ کون کون سی شخصیات ہو سکتی
ہیں جو آپ ﷺ کے ہمراہ داخل ہونے کا شرف پا سکی ہوں گی؟ اور جن لوگوں کو آپ ﷺاپنے ہمراہ لے کر گئے تھے اُن کے داخل ہوتے ہی آپﷺ نے خانہ کعبہ کا دروازہ بند کر دیا! آپﷺ کے ہمراہ صرف تین آدمی داخل ہوئے :
(۱)  اُسامہ بن زید (جو خود بھی آپﷺ کے غلام اور ان کا باپ بھی آپﷺ کا غلام)
(۲)  بلال حبشی
(۳)  عثمان بن طلحہ جو خانہ کعبہ کے کلید بردار (چابی کے ذمہ دار) تھے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
جاہلیت کے معیارات کو ملیامیٹ کرنے کے لیے اس سے بڑی کون سی عملی دلیل ہو سکتی ہے؟ حالانکہ حاضرین میں سیدنا بلال وسیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہماسے افضل لوگ بھی موجود تھے‘ جیسے چاروں خلفاء راشدین اور باقی حضراتِ عشرہ مبشرہ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
دوسرا واقعہ:یہ واقعہ اس دن پیش آیاجواس وقت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا واقعہ تھا‘ یعنی حجۃ الوداع کا اجتماع۔ اس اجتماع کے موقع پر لوگ وہاں سے کوچ کی تیاری کررہے تھے اور لوگوں کی نگاہیں اس جانور پر لگی ہوئی تھیں جس پر نبی اکرم ﷺ کو سوار ہونا تھا کہ آج وہ کون خوش قسمت ہے جسے آپ ﷺ کے پیچھے اس جانور پر سوار ہونے کا موقع ملے گا! کیا دیکھتے ہیں کہ وہ کالا کلوٹا نوجوان جو آپﷺ کا غلام ہے اور اس کا والد بھی آپ کا غلام تھا وہ آپ ﷺ کے پیچھے سوار ہوا اور لوگ یہ منظر اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ یہ کام اُس نبیﷺ نے عملًا کر کے دکھایاجس نے اسی دن وہ عظیم خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس میں توحید اور اسلام کے بنیادی اصول بیان کیے تھے‘ نیز شرک اور جاہلیت کے اصولوں کو پاش پاش کیا تھا اور وہ مشہور قول ارشاد فرمایا تھا: ’’یقینا جاہلیت کی ہر بات آج میرے قدموں کے درمیان رکھی ہوئی ہے‘‘۔ یہ دو واقعات آپ ﷺ کی گلبہار سیرت میں سے ایسے ہی ہیں جیسے سمندر کے دو قطرے ہوں ۔
اس دین کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کے مقام و مرتبے کو کسی ایسی چیزسے منسلک نہیں کیا جو اس کے اپنے اختیار میں نہ ہو۔ چنانچہ انسان کے اپنے بس میں نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے بڑے خاندان کا انتخاب کرے‘ ورنہ ہر آدمی کی خواہش ہوتی کہ اس کا تعلق خاندانِ نبوت سے ہو۔ نہ کسی کے لمبے قد یا چھوٹے قد یا خوبصورت یا بدصورت ہونے سے اس کے مقام کا تعلق ہے اور نہ کسی دوسری چیز سے مقام ومرتبے کا تعلق ہے جو انسان کے بس میں نہیں ۔بلکہ انسان کے مقام ومرتبے کا اُس معیار سے تعلق ہے جو اُس کے بس میں ہے۔ اسی لیے قرآنِ حکیم میں ایک بھی آیت ایسی نہیں جس میں کسی کی تعریف اس کے نسب کے حوالے سے کی گئی ہو اور نہ ہی کسی کی مذمت اس کے نسب کی وجہ سے ہوئی ہے۔ مدح کا معیار ایمان و تقویٰ ہے اور مذمت کا معیار کفر ‘ فسق اور نافرمانی ہے ۔
 اس بات کی گواہی کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورت ابولہب کی مذمت میں نازل فرمائی کہ اس کا کفر اور نبی اکرم ﷺ سے اس کی دشمنی بہت واضح تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو اس بات سے منع فرمایا کہ دنیوی طور پر اپنے کمزورصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اپنے سے دور کریں‘ اگرچہ آپ ﷺ کا مقصد سردارانِ قریش کے دلوں کو اپنے قریب کرنا تھا۔
فی زمانہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی قابل ِ افسوس ہے‘ جس کی ایسی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں جو اس شرعی
قاعدے کے سخت خلاف ہیں: {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ} ’’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘ جو کہ جاہلانہ قبائلی عصبیت کی شکل میں نظر آرہا ہے‘ کہ صرف قبیلے کے افراد کے درمیان باہمی پہچان ہی نہیں رہ گیا اور نہ ہی قابل ِ قبول مدح تک محدود رہ گیا ہے‘ بلکہ مدح میں بھی غلو کی حدوں کو پار کر گیا ہے۔ اور لوگ قبیلے کا ساتھ دینے میں بھی قبیلہ پرستی کا شکار ہیں ‘ بلکہ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دوسرے قبیلے والوں یا دوسرے شہر والوں کی مذمت کی باتیں ہوتی ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر شرعی معیارات بالکل بکھر کر رہ گئے ہیں۔جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سنتا ہے: {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ} ’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے‘‘ اسے قابل ِ مذمت باہمی فخر کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔ مؤمن کو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ’’جس کو اس کا عمل سست کر دے اس کا نسب اس کو تیز نہیں کرسکتا۔‘‘
تیرہواں اصول :
{اٰبَــآؤُکُمْ وَاَبْـنَــآؤُکُمْ لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّـہُـمْ اَقْرَبُ لَــکُمْ نَفْعًا}(سورۃ النساء:11)
’’تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے‘ تمہیں نہیں معلوم کہ اِن میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔‘‘
قرآنِ کریم میں بیان کردہ اصولوں میں سے یہ اصول بندے کو مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ‘ شریعت میں اس کی حکمت اور بندے کو اپنے علم کی کمی وکوتاہی کے پاس لا کھڑا کرتا ہے۔ سورۃ النساء کے شروع میں آیات ِ میراث کے حوالے سے یہ قاعدہ بیان ہوا ہے۔ فرمایا:
{اٰبَــآؤُکُمْ وَاَبْـنَــآؤُکُمْ لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّـہُـمْ اَقْرَبُ لَــکُمْ نَفْعًا} (آیت۱۱)
’’تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے‘ تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے ۔‘‘
یعنی تمہیں معلوم نہیں کہ دین ودنیا کے اعتبار سے کون تمہارے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ باپ زیادہ فائدہ مند ہے‘ مگر عملاًبیٹا زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے ‘ اور کوئی سمجھتا ہے کہ بیٹا زیادہ فائدہ مند ہے ‘مگر عملاً باپ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے زیادہ صحیح پتا ہے کہ تمہارے لیے زیادہ فائدہ مند کون ہے۔ جس میں تمہارے لیے زیادہ فائدہ تھا میں نے اسی طرح حکم دیا ہے‘ لہٰذا اسی کی پیروی کرو۔ زمانۂ جاہلیت کے لوگ وراثت کو بغیر کسی اصول وضابطہ کے تقسیم کیاکرتے تھے ‘ کبھی والدین کی ضرورت کا زیادہ خیال رکھتے اور کبھی اولاد کی ضرورت کا‘ اور کبھی درمیان درمیان میں رہتے۔ بالآخر یہ پاکیزہ شریعت آگئی تاکہ سابقہ ساری خود ساختہ صورتوںکو بدل دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود وراثت تقسیم کر دی۔ اگر ہم اس قاعدے کو اپنے آج کے حالات پر لاگو کر کے دیکھیں تو ہمیں اپنی سوچ اورمعاشرتی معاملات میں بہت ساری غلطیوں کی اصلاح کا موقع ملے گا۔ چند ایک باتیں درجِ ذیل ہیں:
۱) بعض والدین کی اولاد صرف لڑکیاں ہوا کرتی ہیں‘ جن کی وجہ سے وہ گھبراتے ہیںاور اس آزمائش پر غمگین ہوتے ہیں۔ اب یہ قاعدہ ان کے سامنے آگیا جس نے ان کے دل میں یقین اور اللہ کی رضا جاگزیں کر دی ۔ کتنی ہی بیٹیاں اپنے والدین کے لیے لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مندثابت ہوتی ہیں۔ کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔میں ایک آدمی کو جانتا ہوں جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اس کے بیٹے رزق کمانے کی وجہ سے دور ہوگئے۔ اَب اس بوڑھے انسان کے پاس جس کی جسمانی قوت ختم ہو رہی تھی اور اس کی ہڈیاں بھی کمزور ہو چکی تھی صرف ایک بیٹی تھی جس نے اس بوڑھے باپ پر بہت توجہ دی‘ بہت اہتمام سے اس کی ضروریات کو پورا کیا اور اس کی صحت کا خیال رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایاہے:
{اٰبَــآؤُکُمْ وَاَبْـنَــآؤُکُمْ لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّـہُـمْ اَقْرَبُ لَــکُمْ نَفْعًا} (النساء :۱۱)
’’تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے‘ تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔‘‘
یہ تو تھا دنیا کا معاملہ ‘ آخرت کی بات تو اور بھی زیادہ عظیم ہے ۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’تمہارے والدین یا تمہاری اولاد میں سے جو زیادہ اللہ کا اطاعت گزار ہوگا‘ وہی قیامت کے روز زیادہ اونچے درجے پر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اہل ِ ایمان کی باہم ایک دوسرے کے حق میں سفارش قبول کریں گے۔ اگر جنت میں والد کا درجہ بلند ہوا تواس کے بچے کو اس کے مقام تک پہنچا دیا جائے گا اور اگر بچے کا مقام بلند ہوا تو اس کے والد کو بچے کے مقام تک پہنچا دیا جائے گا‘ تاکہ اس طرح ان کی نگاہیں ٹھنڈی رہیں ۔
 افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم سنتے وپڑھتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہوں وہ سخت پریشان ہو جاتے ہیں اور بعض تو اپنی بیویوں کو دھمکیاں دینے لگتے ہیں کہ خبردار! اگر بیٹی پیداکی۔ گویا کہ یہ معاملہ ان عورتوں کے اپنے ہاتھ میں ہے! درحقیقت یہ جہالت کی بات ہے۔ کسی انسان کو کسی ایسے کام پرکیونکر ملامت کیا جاسکتا ہے جو اس کے بس میں نہ ہو؟
اے کاش! جو لوگ اس قسم کا طرزِ عمل  اختیار کرتے ہیںوہ اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان پر غور کرلیتے:
 لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَاَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ} (الشوریٰ 49۔50)
’’آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ۔وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ یا انہیں جمع کردیتا ہے‘ بیٹے بھی بیٹیاں بھی ‘اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔‘‘
 اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور بندہ اس پر ناراض ہو! کیا ایسے بندے کو اس پر سزانہیں ہونی چاہیے؟
جس کسی کے حصے میں یہ بیٹیاں آجائیں اُسے اِن احادیث کو یاد کرنا چاہیے جن میں بیٹیوں کی پرورش کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے بیٹیوں کی پرورش کی اور بالغ ہونے تک انہیں پالا ‘وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
بچیوں کی وجہ سے پریشان ہونے والے کو نصیحت کی خاطر کہا جائے گا :
مان لیا تو پریشان ہے اور تجھے سخت تکلیف ہے۔ کیا اس طرح تیرے گھر میںبیٹے پید ا ہوجائیں گے؟ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ لوگوں کی اکثریت لڑکوں کو پسند کرتی ہے ‘ لیکن مؤمن اس آزمائش کو دوسری نظر سے دیکھتا ہے ‘اور وہ ہے صبر کی شکل میں عبادت ‘ اور اللہ کی رضا پر راضی رہ کر عبادت کا حق ادا کرنا۔ کچھ اہل توفیق ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسی بات پر اللہ کاشکر ادا کرتے ہیں۔ اُن کو علم ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے پسند کی ہے وہ اُن کی اپنی پسند سے زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں لڑکوں سے محروم کرکے بہت بڑے شر سے محفوظ کر لیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اس ناخلف لڑکے پر سیدناخضر uکو مسلط نہیں کیا تھا جسے بعد میں انہوں نے قتل کردیا تھا‘ پھر اپنے اس فعل کی وجہ بیا ن کرتے ہوئے فرمایا تھا:
وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا}
(الکہف80۔81)
’’اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے‘ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اورکفر سے عاجز اور پریشان نہ کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ انہیں ان کا پروردگار اس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس زیادہ محبت اور پیار والا بچہ عطا فرمائے۔‘‘
جس طرح اس قرآنی اصول میں ان لوگوں کے لیے تسلی کا سامان ہے جن کو بیٹیاں عطا ہوئیں اسی طرح ان لوگوں کے لیے دل کو مضبوط کرنے کی بات ہے جن کو معذور اولاد ملی ہو‘ چاہے ان کی معذوری کانوں سے متعلق ہو یا آنکھوں سے متعلق یا عقل سے متعلق یا پھر جسمانی ہو۔ ان سے کہا جا رہا ہے :
وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ} (البقرۃ:216)
’’اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری سمجھو حالانکہ وہ تمہارے لیے اچھی ہو۔‘‘
اور ان سے یہ بھی کہا جائے گا : اللہ کی قسم !تمہیں قطعاً علم نہیں تمہاری کون سی اولاد تمہیں زیادہ نفع دینے والی ہوگی۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہی معذوربچہ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی تمہارے لیے فائدہ مند ثابت ہو جائے۔
دنیا کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ ممکن ہے ان معذوربچوں کے والدین کے لیے ان آزمائشوں نے تعلق باللہ ‘ خلوت کی دعاؤں اور اس آزمائش سے نکلنے کی امید کی راہیں کھول دی ہوں اور ان معذور بچوں کے والدین کے دلوں میں صبر وبرداشت کا کس قدر جذبہ پیدا ہوگیا ہو۔ اگر اس طرح کی آزمائشیں نہ ہوتیں تو یہ خوبیاں انہیں کہاں سے نصیب ہوتیں؟ اور اسی طرح کے بہت سارے فائدے انہیں کہاں سے حاصل ہوتے!
اور آخرت کے فائدے کو سامنے رکھیں۔ ان معذور بچوں کی وجہ سے دنیا میں ان کو جو آزمائش آئی ‘ اس طرح یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے بلندی ٔدرجات کا سبب بن گئے۔ ممکن ہے ان کو ان کے اپنے اعمال اس درجے تک نہ پہنچاتے۔        (جاری ہے)

Read 836 times Last modified on 03 Jul,2016
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in مئی 2016

Related items

  • مقامِ صحابہ بزبانِ کلام اللہ تعالیٰ
    in اکتوبر نومبر 2020
  • معاشرتی مسائل اور قر آن و سنت کی تعلیمات
    in دسمبر 2019
  • اسلام میں اصولِ قیادت
    in دسمبر 2019
  • (تبصرۂ کتاب (سلف وصالحین کے سنہرے اقوال
    in اکتوبر 2019
  • فہم قرآن کورس سبق 16 سورۃالفیل تا سورۃ الکوثر
    in فہمِ قرآن کورس
More in this category: « ستم کی داستانوں کا بیاں آسان نہیں ہوتا رُباعیّات الجامع الصحیح البخاری حدیث 4 »
back to top

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2016