نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد فاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْہِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّۃً كَـمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ
(التوبۃ36)
”مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔“
کسی ایک رات کو عبادت کیلئے خاص کرنا منع ہے !
آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
(لا تخصوا لیلۃ الجمعۃ بصیام من بین اللیالی ، ولا تخصوا یوم الجمعۃ بصیام من بین الایام الا ان یکون فی صوم یصومہ احدکم )
”راتوں میں سے صرف جمعہ کی رات کو قیام کیلئے اور دنوں میں سے صرف جمعہ کے دن کو روزہ کیلئے خاص نہ کرو ۔ ہاں اگر جمعہ کا دن ان دنوں میں آجائے جن میں تم میں سے کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو تو اس کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔“( مسلم: 1144)
ماہِ شعبان کے روزوں کے فضائل !
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
مارأیت النبیﷺفی شھر اکثر صیاما منہ فی شعبان ، کان یصومہ الا قلیلا ،بل کان یصومہ کلہ
”میں نے نبی کریم ﷺ کوشعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔آپ اس میں روزے رکھتے تھے سوائے چندایام کے ۔ بلکہ آپ پورے مہینے میں ہی روزے رکھتے تھے ۔ “(ترمذی : 736)
شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی حکمت !
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا:
ذاك شھر تغفل الناس فیہ عنہ بین رجب ورمضان ،وھو شھر ترفع فیہ الاعمال الی رب العالمین ، وأحب أن یرفع عملی وأنا صائم
”یہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگ رجب اور رمضان کے درمیان روزے سے غافل ہوجاتے ہیں ۔ حالانکہ اس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائےجاتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اوپر کو اٹھائے جائیں ۔“ (نسائی: 2357)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ
كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ
” رسول اللہ ﷺ جب روزہ رکھنے لگتے تھے تو ہم کہتے کہ اب افطار نہیں کریں گے، اور جب روزہ رکھنا چھوڑدیتے تو ہم کہتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے.اور میں نے نہیں دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں مکمل ایک ماہ روزہ رکھا، اور میں نے نہیں دیکھا ہے کہ آپﷺ رمضان کے بعد ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزہ رکھتے ہوں۔“
(بخاری :736کتاب الصوم )
نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا منع ہے !
آپ ﷺ شعبان کے تقریباً پورے مہینے روزہ رکھتے تھے، دوسرے مہینوں کے مقابلے میں اس مہینہ میں اہتمام زیادہ تھا، اسی طرح چونکہ آپ ﷺ امت پر بڑے شفیق، رؤف اور رحیم تھے؛ اس لیے آپ ﷺنے امت کو بتایا کہ تم میری ہمسری نہیں کرسکتے، مجھے تم سے زیادہ طاقت دی گئی ہے، اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خصوصیت حاصل ہے (یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ ) کہ مجھے میرے رب کھلاتے پلاتے رہتے ہیں، مجھے روحانی غذا ملتی رہتی ہے؛ اس لیے تم لوگ شعبان میں روزہ رکھ سکتے ہو؛ لیکن نصف شعبان آتے ہی روزہ رکھنا بند کردو پھر جب رمضان آئے تو نئی نَشاط کے ساتھ روزہ شروع کرو! (ابن ماجہ: 1/303)
استقبا ل رمضان کے روزے رکھنا منع ہے !
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺشعبان کے تقریباً مکمل مہینے میں روزہ رکھتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو شعبان کے روزہ بہت پسند ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سال انتقال کرنےوالوں کے نام اس ماہ میں لکھ دیتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میری موت کا فیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزہ سے ہوں۔بعض دیگر احایث میں شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے تا کہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو ۔( بخاری ، کتاب الصوم)
صرف نبی اکرمﷺ اور خلفاء راشدین کی اتباع ہی کافی ہے !
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ وایاکم ومحدثات الامور ، فان کل محدثة بدعة ، وکل بدعة ضلالة وفی روایة النسائی وکل ضلالة فی النار
” مسلمانو! تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے ہی کو اختیار کرنا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور دین میں اضافہ شدہ چیزوں سے اپنے کو بچاکررکھنا اس لئے کہ دین میں نیا کام ( چاہے وہ بظاہر کیسا ہی ہو) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ ہر گمراہی جہنم تک لے جانے والی ہے ۔“(ابو داود:4607 کتاب السنۃ )
شبِ برأت کی نسبت سے من گھڑت روایات !
1-(شعبان شھری ورمضان شھراللہ ) ”شعبان میرامہینہ ہے اور رمضان اللہ کا ۔“(ضعیف الجامع للالبانی)اسے البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیاہے۔
2-بیان کیا جاتا ہے کہ ایک رات رسول اللہﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تھے ،آپ اچانک وہاں سے نکلے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے گئیں توکیا دیکھتی ہیں کہ آپ بقیع میں ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں دیکھا توفرمایا ”کیا تمہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ تم پر ظلم کریں گے ؟“ انہوںنے کہا اے اللہ کے رسولﷺ !مجھے یہ شک ہواتھا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں ۔تو آپ نے فرمایا(ان اللہ تعالی ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی السماء الدنیا ،فیغفر لأکثرمن شعر غنم کلب )
”بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ شعبان کی پندھوریں رات کو آسمان دنیا پر آتاہے ،پھر اتنے لوگوں کی مغفرت کرتاہے جتنے بنوکلب کی بکریوں کے بال ہیں۔“
(ترمذی:739ضعفہ الالبانی)
دیگر ائمہ کے علاوہ خود امام ترمذی نے بھی اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ انہوں نے امام بخاری سے بھی نقل کیا ہے کہ وہ اسے ضعیف کہتے تھے۔
واضح رہے کہ قصۂ عائشہ رضی اللہ عنہا جو رسول اللہﷺ کے بقیع میں جانے اور اہل بقیع کیلئے دعا کرنے کے متعلق ہے وہ صحیح ہے اورصحیح مسلم وغیرہ میں تفصیلا موجود ہے لیکن اس میں شعبان کی پندرھویں رات کاکوئی ذکر نہیں ۔
3-”جب شعبان کی پندرھویں رات آئے توتم اس میں قیام کیاکرو اور اگلے روز کا روزہ رکھاکرو ،کیونکہ اس رات کی شام سے ہی اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آکر فرماتا ہے :کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو معاف کردوں ؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو رز ق دوں؟کیا کوئی بیمار ہے کہ میں اسے عافیت دے دوں ؟کیا کوئی سوال کرنے والاہے کہ میں اسے دوں؟ کیا کوئی ....کیاکوئی ....یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔“(ضعیف الجامع للالبانی )
یہ روایت بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔اس کے بجائے وہ صحیح حدیث ذکر کرنی چاہئے جس میں نبی اکرم ﷺ نے ذکر کیا ہے کہ ”ہمارا رب جو بابرکت اور بلند و بالا ہے ہر رات کا جب آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تووہ آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتاہے ،پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تومیں اس کی دعا کو قبول کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تومیں اسے عطا کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردوں؟(بخاری:7494)
اس صحیح حدیث کے مطابق یہ فضیلت ہر رات نصیب ہوسکتی ہے ،لہٰذا اسے شعبان کی پندرھویں رات کے ساتھ خاص کرنا یقیناً غلط اور آپ ﷺ پر بہت بڑا جھوٹ ہے۔
4-سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وہ روایت جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شعبان کی پندرھویں رات میں چودہ رکعات پڑھیں ،اس کے بعد کچھ سورتوں کی تلاوت کی ،پھر فرمایا ”جو شخص اس طرح کرے جیساکہ میں نے کیا ہے تو اسے بیس مقبول حجوں اور بیس سال کے مقبول روزوں کا ثواب ملتاہے ۔“
ابن الجوزی اس روایت کو ”الموضوعات “میں روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں۔ ”یہ روایت بھی من گھڑت ہے اوراس کی سند نہایت تاریک ہے ۔“
(الموضوعات:2/445)
5-الصلاۃ الألفیۃ یعنی وہ نماز جس کے بارے میں نبی کریمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہا کو ارشاد فرمایاکہ ”جو شخص اس رات میں سورکعات نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعدسورۃ الاخلاص دس بار پڑھے تواللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت پو ری کردیتا ہے ،اگر وہ لوح محفوظ میں بدبخت لکھا گیا ہوتواللہ تعالیٰ اسے مٹاکر اسے خوش نصیب لکھ دیتا ہے ........اور اس کے آئندہ ایک سال کے گناہ نہیں لکھے جاتے ۔“
”الموضوعات“میں ابن الجوزی اس روایت کے مختلف طرق ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔ ”اس روایت کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اس کے زیادہ تر راوی مجہول ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو بالکل ضعیف ہیں اور اس طرح کی حدیث کا نبی کریمﷺ سے صادر ہونا ناممکن ہے ۔
۔۔۔۔۔