نیکیوںاوررحمتوں کے موسم بہار کی آمدآمدہے،اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کےلیے خصوصی عنایا ت اورمہربانیاں ہوتی ہیں،خوابِ غفلت میں پڑے انسان کوتوبہ اورانابت کے مواقع نصیب ہوتےہیں،اس مقدس ماہ میں روزہ ،قیام اللیل ہرعبادت کی اپنی لذت ہوتی ہے۔
چنانچہ آپ ﷺ کافرمان عالی شان ہے
’’من صام رمضان إیمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ ‘‘ (بخاری:38،صحیح مسلم:760)
ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے ایمان کےحالت میں اورثواب کی نیت سے رکھے اس کے سارے گناہ معاف کردیےجاتےہیں۔
ایک اور روایت میں اس بابرکت ماہ کی بابت فرمایا:
’’ إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنۃ وغلقت أبواب النار وصفدت الشیاطین‘‘ (صحیح بخاری:1899،صحیح مسلم:1030)
ترجمہ:’’جب رمضان آتاہے توجنت کےدروازے کھول دیےجاتےہیں ،جہنم کے دروازے بندکردیے جاتےہیں اور شیاطین کوجکڑدیاجاتاہے‘‘۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس ماہ میں خوب محنت کی جائے،گناہوں سے توبہ کرکے جہنم کی آگ سے نجات حاصل کی جائے،او رحصولِ تقویٰ کےبعد شیاطین کے مکروفریب سے اپنے آپ کومحفوظ رکھاجائے۔اس مضمون میں اس ماہ مقدس کےحوالے کچھ مسائل واحکام بیان کرنےکی کوشش کی جائےگی۔  ان شاءاللہ العزیز۔

روزے کامعنی:

عربی زبان میں روزےکو ’’صوم‘‘ کہاجاتاہے،جس کے لغوی معنی ’’ رک جانے‘‘کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اس کامطلب ہے: ’’ طلوع فجرسےلےکر غروبِ آفتاب تک ثواب کی نیت کےساتھ ان تمام چیزوں سے اجتناب کرناجن کےارتکاب سے روزہ ٹوٹ جاتاہے‘‘

روزہ کے ارکان:

اس کے تین رکن ہیں1نیت کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیںاورفرض روزہ کےلیے طلوع فجرسے قبل نیت ضروری ہے جیساکہ حدیث میں ہے:
’’ من لم یجمع النیۃ قبل الفجرفلاصیام لہ ‘‘ (صحیح بخاری:1899،صحیح مسلم:1030)
’’جس نے فجرسے پہلے روزہ کی نیت نہیں کی اس کا روزہ ہی نہیں۔‘‘
نفلی روزہ کےلیے زوال سے پہلے نیت کی جاسکتی ہے بشرطیکہ خلافِ روزہ کوئی کام نہ کیاہو۔
نیز نیت دل کاعمل ہے روزے کےلیے زبان سے نیت کرناشرعاً ثابت نہیں ہے۔
2 روزہ کوتوڑدینےوالے امورسے اجتناب کرنا۔
3روزہ کےلیے بیان کردہ وقت(طلوعِ فجرسے لے کر غروبِ آفتاب)کی پابندی نہایت ضروری ہے۔
روزہ کن پر فرض ہے؟:
ہر اس شخص پر فرض ہے جس میں یہ شرائط پائی جاتی ہوں : مسلمان ہو،مکلّف ہو،روزہ رکھنےکی قدرت رکھتا ہوجیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:

فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ[سورہ البقرہ:185]

’’تم میں سے جوبھی اس مہینہ کوپائےوہ روزہ رکھے۔‘‘
اس آیت سے واضح ہواکہ ہر بالغ مکلف مسلمان پرروزہ فرض ہے،اس عموم سے وہ خارج ہیں جن کا استثناء قرآن وحدیث میں آیا ہے جیسے نابالغ ،مسافر،حیض، نفاس،حمل اور دودھ پلانےوالی عورتیںنیز بیمار،اورشرعی معذور وغیرہ۔

رمضان المبارک کی ابتدا:

رمضان کے روزے کےلیے رؤیتِ ہلال ضروری ہےآپﷺ نے فرمایا: چانددیکھ کرروزہ رکھو اور چانددیکھ کرعیدکرو اگر(انتیس شعبان کو)بادل ہوں توشعبان کے تیس دن مکمل کرکے رمضان کےروزے رکھو۔
نوٹ :شک کے دن کاروزہ رکھنا درست نہیں( شک سے مرادیہ ہےکہ کوئی یہ سمجھ کر روزہ رکھےکہ چلواگرآج یکم رمضان نہ ہواتومیرانفلی روزہ ورنہ رمضان کاپہلا فرضی روزہ ہوجائےگا)حدیث میں ہے’’ جس نےشک کے دن روزہ رکھااس نے ابوالقاسم محمدﷺکی نافرمانی کی‘‘ (سنن ابی داؤد:2336)
اسی طرح استقبال رمضان کے نام سے رمضان سے ایک دودن قبل روزہ رکھنابھی درست نہیں ہےآپ ﷺ کاارشادگرامی ہے:
’’لاتتقدموا صوم رمضان بیوم أو یومین إلا أن یکون صوم یصومہ رجل فلیصم ذلک الیوم۔‘‘ (صحیح بخاری:1914،صحیح مسلم:1082،مسنداحمد:7722)
’’رمضان سے۱ ایک دودن پہلے روزہ نہ رکھو ہاں مگر ایسادن ہوجس میں کوئی پہلےسے روزہ رکھتا رہتا ہے (مثلاسوموار،جمعرات کےدن)تووہ رکھ سکتاہے۔‘‘

روزےکاآغاز:

’’ فجرِثانی‘‘ جسےصبح صادق بھی کہتےہیں کے طلوع ہوتےہی روزے کا آغازہوجاتاہےاور اختتام غروب آفتاب کے ساتھ ہوتاہے۔ جیساکہ ارشادِباری تعالی ہے:

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ  [سورہ البقرہ:187]

’’اور کھاتے پیتےرہو یہاں تک کہ صبح کاسفیددھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے، پھررات تک روزے کومکمل کرو۔‘‘
اس آیت میں’’ خیط ابیض‘‘ اور’ ’  خیط اسود ‘‘سے مراد صبح کے اجالے کارات کی تاریکی سے الگ ہوناہے ۔

سحری کرنا:

یہ وقت نہایت برکت والاہے اس موقع کوغنیمت جانتے ہوئےنوافل،اذکار،دعاوغیرہ میںصرف کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت آسمانِ دنیاپہ نزول فرماتاہے۔
شریعت نے سحری کھانےکی ترغیب دی ہے اوراس کھانے کوبابرکت قراردیاہےجیساکہ حدیث میں ہے:

’’تسحروا فإن فی السحوربرکۃ‘‘

(صحیح بخاری:1923،صحیح مسلم:2524)
سحری کیاکرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
ایک روایت میں اسے یہودکی مخالفت قراردیاہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے:

’’ إن فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب أكلة السحور۔‘‘(سنن نسائی:2166)

’’ہمارے اوراہل کتاب کےروزوں میں یہ فرق ہے کہ وہ سحری نہیں کرتے‘‘۔
آپ ﷺنےا س میں تاخیرکی ترغیب دلائی ہے،آپ ﷺکی سحری اوراذان میں جووقفہ ہوتاتھا وہ پچاس آیتوں کے بقدرہوتاتھااس وقفہ کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے چھے منٹ کے برابر قراردیاہے۔(تنبیہ الأفھام بشرح عمدۃ الأحکام، صفحہ:463)
اگرکوئی شخص تاخیرسے بیدار ہوااسےجنابت کاعارضہ لاحق ہوگیاہےتوپہلے وہ سحری کرے پھر نماز فجرسے پہلےغسل جنابت کرلے۔
(صحیح مسلم:1109، سنن ابی داؤد:2390)
اگرکوئی شخص طلوع فجرکےبعدبیدارہواہےتووہ کھائے پیئے بغیرروزہ رکھ لےکیونکہ سحری کاوقت ختم ہوچکاہے، اوراگردوران کھانااذان ِفجرشروع ہوجائے تو وہ اپنا کھانا پور اکرےجیساکہ حدیث میں ہے:

’’ إذاسمع أحدکم النداء والإناء علی یدہ فلایضعہ حتی یقضی حاجتہ منہ‘‘(سنن ابی داؤد:2350)

’’جب تم میںسے کوئی فجرکی اذان سنے اورکھانےکابرتن اس کےہاتھ میں ہوتووہ اس برتن کواس وقت تک نہ چھوڑےجب تک وہ اپنے کھانے کی حاجت پوری نہ کرلے‘‘۔
سحری میں کھجورکوشامل کرنااچھاہے بلکہ آپ ﷺنے اس کوبہترین کھاناقراردیاہے

’’نعم سحورالمؤمن التمر ‘‘ (سنن ابی داؤد:2345،ابن حبان:3475)

مؤمن کی بہترین سحری کھجورہے‘‘۔

افطاری کا بہترین وقت:

غروب آفتاب ہوتےہی روزہ افطار کرلیناچاہیے،اس میں احتیاطی تاخیردرست نہیں ہے (جیساکہ کچھ لوگوں کی عادت ہےکہ احتیاطی طورپہ ایک دومنٹ تاخیرسےروزہ افطار کرتےہیں) حدیث میں ہے:

’’ لایزال الناس بخیرماعجلواالفطر۔‘‘(صحیح بخاری :1957،صحیح مسلم :2549)

’’لوگ اس وقت تک خیرپررہیں گے جب تک وہ روزہ کےافطارمیں جلدی کرتےرہیں گے۔‘‘
ایک حدیث قدسی میں ہے :

’’إنَّ أحبَّ عبادي إلیّ أعـجلھم فطرا۔‘‘(سنن ترمذی،کتاب الصوم،باب ماجاءفی تعجیل الافطار،حدیث:704)

’’میرےنزدیک میرے وہ بندےزیادہ محبوب ہیں جوروزہ افطارمیں جلدی کرتے ہیں‘‘ (یعنی غرو ب ِآفتاب ہوتےہی افطارکرلیتےہیں)۔
تازہ تر کھجورسے روزہ افطار کیا جائے اگروہ بھی میسرنہ ہوتو پانی کےچندگھونٹ پی کربھی روزہ افطار کیاجاسکتاہے۔ کچھ لوگ افطار پہ دسترخوان پہ بیٹھے مسلسل کھانےپینے میں مشغول رہ کر نمازمغرب کو ضائع کردیتےہیں،یہ نہایت قبیح عمل ہے اس سےاجتناب کرناچاہیے کچھ کھاپی کرنمازکوباجماعت ادا کیا جائےباقی نماز کے بعد آکر کھا پینا کیا جائے تاکہ فرض نمازضائع نہ ہو۔
اگرکوئی یہ سمجھ کرکہ سورج غروب ہوگیااورروزہ افطار کرلے توپھربعدمیں علم ہواکہ سورج غروب نہیں ہوا تھا تواس پرکوئی قضانہیں ہے جیساکہ اللہ پاک کافرمان ہے:

[وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ ۙ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ][سورۃ الاحزاب:5]

’’تم سے بھول چوک میں جوکچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ جس کاتم دل سے ارادہ کرو۔‘‘
صحابہ کرام  کے ساتھ آپ ﷺکی زندگی میں ایساواقعہ پیش آیاتھا(مطلع ابرآلودہونے کی وجہ سے وہ سمجھے کہ سورج غروب ہوگیاہے اورروزہ افطارکرلیا) آپ نے انہیں روزہ کےقضاکاحکم نہیں دیا، اسی طرح کاواقعہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دورمیں بھی پیش آیاتھا آپ نےبھی قضا کاحکم نہیں دیا۔(مصنف عبدالرزاق)
افطار کےوقت دعائیں کرنایہ بہت اچھاعمل ہے بلکہ وہ وقت تودعاؤں کی قبولیت کاہوتاہے اس موقع پرکثرت سے دعاکااہتمام کرناچاہیےجیساکہ حدیث میںہے:
’’إن للصائم عندفطرہ دعوۃ ماترد‘‘ (سنن ابن ماجہ:1753)
روزہ دارکی افطارکےوقت کی دعائیں رد نہیں ہوتیں‘‘۔
افطارکے وقت یہ دعاپڑھی جائے:

’’ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘ (سنن ابی داؤد:2357)

’’پیاس ختم ہوگئی رگیں تر ہوئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہوگیا۔‘‘
علاوہ ازیں یہ دعابھی پڑھی جاسکتی ہے:

’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘ (سنن ابی داؤد:2358)

’’اے اللہ میں نے تیرےلیےروزہ رکھااورتیرے رزق پرافطارکیا‘‘۔

مسائل اعتکاف

یہ ایک مشروع اورمسنون عمل ہے اس کی فضیلت بھی حدیث میں آئی ہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے:
’’من اعتکف یوماابتغاء وجہ اللہ جعل اللہ بینہ وبین النار ثلاث خنادق کل خندق أبعدمابین الخافقین‘‘(معجم اوسط طبرانی7/220،حدیث:7326)
آپﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیاکرتےتھے(صحیح بخاری:2025،صحیح مسلم:1171) آپ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے رمضان میں اعتکاف کیا آپﷺ کی وفات کے بعدامہات المؤمنین نے مسجدمیں اعتکاف کیا۔ (صحیح بخاری:2026،صحیح مسلم:1172)
اعتکاف کی جگہ مسجدہے اوریہ مسجدکی عبادت ہےجیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ  [سورۃالبقرہ:187]

’’عورت بھی مسجد میں اعتکاف کرےجیساکہ امہات المؤمنین مسجدمیں اعتکاف کرتی تھیں۔‘‘
(صحیح بخاری:2033، صحیح مسلم:1173)
اعتکاف کرنےوالااکیسویں کی رات کو مسجدمیں آجائے اورفجرپڑھ کراپنی اعتکاف کی جگہ میںداخل ہوجائے۔
یہ آخری عشرہ نہایت فضیلت کاحامل ہے اس میں اللہ پاک نے لیلۃ القدر کورکھاہے جس کی ’’عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہترہے‘‘(سورۃ القدر:3)
اس رات کے قیام کی فضیلت کاذکر بھی حدیث میں آیاہے:
’’من قام لیلۃ القدر إیمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔‘‘(صحیح بخاری:2008،صحیح مسلم:7609)
جوشخص لیلۃ القدرکاقیام ایمان کےساتھ اورثواب کی نیت سے کرےگااس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
اور اس رات کےتلاش کی ترغیب آپﷺ نے اپنے صحابہ کودی ہے جیساکہ حدیث میں ہے:
’’ تحروا لیلۃ القدر فی الوترمن العشر الأواخر من رمضان‘‘(صحیح بخاری:2020)
’’رمضان کی آخری طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو‘‘
آپ ﷺ کا اس آخری عشرے میں یہی معمول ہوتاتھا جیساکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؅ فرماتی ہیں کہ
’’ کان رسول ﷺ إذادخل العشرالأواخرمن رمضان أحیالیلہ،وأیقظ أھلہ، وجدّ وشدّ مئزرہ۔‘‘ (صحیح بخاری:7074،صحیح مسلم:1174)
’’جب رمضان کاآخری عشرہ آتا آپﷺ شب بیداری کرتے اپنےگھروالوں کوجگاتے خوب محنت کرتے اورکمرکس لیتےتھے‘‘
آپ ﷺنے اس بابرکت رات میں پڑھنے کےلیے یہ دعاسکھائی ہے:

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي
(سنن ترمذی:3513)

’’ اے اللہ!بے شک تومعاف کرنے والا معافی کوپسند کرنےوالاہے مجھے معاف کردے‘‘
ہمارے ہاںاس رات کے حوالےسے جتنے بھی غیر مسنون امور رائج ہیں ان سے اجتناب کرتے ہوئے ان مبارک ساعات کوقیمتی جانتےہوئے انفرادی طورپر عبادات میں صرف کرناچاہیے، نہ کہ ان اوقات کوکھانے پینے کے امورمیں ضائع کرناچاہیے۔

صدقۃ الفطرکے مسائل

یہ وہ صدقہ ہے جورمضان المبارک کے اختتام پراداکیا جاتاہےاس کی مشروعیت کی بہت سی حکمتیں ہیں، روزوں میں ہونے والی کمی کوتاہیوں کودورکرتاہے۔فقرا مساکین کی عیدکی خوشیوں کاسبب بنتاہے روزوں کے اختتام پر اللہ پاک کے شکرکااظہارہے۔
صدقۃ الفطر فرض ہے اسے رسول اللہﷺ نے ہرمسلمان آزاد ،غلام، مرد،عورت ہرچھوٹے بڑے پر فرض قرار دیا ہےجوکہ ایک صاع کھجوروں گندم یاجووغیرہ سے ادا کیا جاتاہے۔(صحیح بخاری:1503،صحیح مسلم:2275)
ایک صاع تقریبا اڑھائی کلو بنتاہے،جنس سے اداکرنا زیادہ افضل ہے جیساکہ محولہ بالا حدیث میں مذکورہے، صدقۃ الفطرمیں جنس کی بجائےنقدی دینے والی حدیث کے بارے میں علماء کااس پرکلام ہے کہ وہ حدیث پایہ صحت کو نہیں پہنچتی اس لیے جنس ہی کو ترجیح دیتے ہوئے اسی میں سے صدقۃ الفطر کو نکالاجائے تو زیادہ بہتر اور افضل ہے ۔ و اللہ اعلم
اس کے اداکرنےکا وقت عیدکی رات غروبِ آفتاب سے لےکرعید کی نمازکی ادائیگی سے پہلے پہلےہے،ایک دو دن پہلے بھی اداکیاجاسکتاہے جیساکہ بعض صحابہ کا اس بارے میں عمل ملتاہے۔ (صحیح بخاری:1511)
اگرعیدکی نمازسے پہلے اداکرناممکن نہ رہاتو نمازکے بعدقضاکے طورپرادا کرناواجب ہوگاجیساکہ حدیث میں ہے:

’’من أداھا قبل الصلاۃ فھي زکوۃ مقبولۃ ومن أداھا بعدالصلاۃ فھي صدقۃ من الصدقات‘‘
(سنن ابی داؤد:1609)

جونمازسے پہلےاداکرےگا وہ مقبول صدقہ ہے اورنماز کے بعداداکرےگاوہ عام صدقہ ہوگا،خاندان کا سربراہ اپنے زیرکفالت لوگوں کاصدقۃ الفطرادا کرے گا جیساکہ حدیث میں ہے:

’’أدوا الفطرۃ عمن تمونون۔‘‘(سنن دارمی:2059)

جوتمہارے زیرکفالت ہیں ان کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرو۔
نمازعید کے مسائل

عید کے دِن روزہ:

’’نبیﷺ نے عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا‘‘ (صحیح بخاری:1990،صحیح مسلم:1137)

عید کے دِن کھانا:

عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز کے لیے جانا اور عیدالاضحی سے پہلے کچھ نہ کھانا مسنون ہے۔
نمازِ عیدعیدگاہ میں ادکرناسنت ہے:
آپﷺ عیدین کے موقع پرعیدگاہ میں تشریف لےجاتے اورنمازِعیدادا فرماتے۔ (صحیح بخاری:973)
اگرعیدکےدن بارش ہوجائےتومسجدمیں نمازِعیداداکی جاسکتی ہے، جیساکہ سیدناعمراورعثمان رضی اللہ عنہمانے اپنے دورخلافت میں بارش کی وجہ سے مسجدمیں عیدکی نمازپڑھائی۔ (محلیٰ ابن حزم5/128)

مستورات کا عید گاہ میں جانا:

اُمِ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ہمیں دربارِ نبویﷺ سے حکم ہوا کہ ہم حائضہ اور پردہ نشین مستورات کو بھی عیدین میں (اپنے ہمراہ) لےکر جائیںتاکہ وہ مسلمانوں کی دُعا اور خیرمیں شامل ہو جائیں، لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔ایک خاتون نے عرض کیااے اللہ کے رسولﷺ! بعض دفعہ کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی فرمایا اس کی سہیلی اپنی چادر  اسے اوڑھا چھپا کر لے آئے‘‘۔ (صحیح بخاری:324،صحیح مسلم:2091)
عیدگاہ کو پیدل آنا جانا اور آتے جاتے راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ (صحیح بخاری:986)
نمازِ عید کا طریقہ:
نمازِ عید خطبہ سے پہلے صرف دو رکعت ہے،اس میں نہ اذان ہے اورنہ اقامت (تکبیر)ہے۔(صحیح مسلم:887)
تکبیراتِ عیدین:
نمازِ عید دو رکعت ہے، پہلی رکعت میں قرات سے پہلےسات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں قرأت سے پہلے کہے اور ہر تکبیر کے ساتھ دونوں ہاتھ اُٹھائے۔ (مسنداحمد:6688)
نماز پڑھی جائےگی ۔ اس کے بعد خطبہ سنا جائے گا۔
قرأت نمازِ عیدین:
آپﷺ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد
[سبح اسم ربك الأعلٰی ]اور دوسری میں [ھل أتاك حدیث الغاشیة]
پڑھتے(صحیح مسلم:878)اور کبھی سورۂ ق اور سورۂ قمر بھی پڑھتے۔(صحیح مسلم:891)
مبارک بادی: نمازِ عید کے بعد مسلمان آپس میں ملاقات کریں تو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد ان الفاظ میں دیں:

تَقَبَّل اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْکَ (مجمع الزوائد206/2)

’’اللہ پاک ہم سے اور آپ سے (عبادت کو) قبول فرمائے۔ ‘‘
شوال کےچھے روزے
رمضان کےبعد شوال کے چھے روزوں کی فضیلت احادیث میں آئی ہےجیساکہ حدیث میں ہے:
’’من صام رمضان ثم أتبعہ ستا من شوال فذاک صیام الدھر ‘‘ (صحیح مسلم :1164،سنن ابی داؤد:2433،سنن ترمذی:759)
’’جس نے رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھے روزے رکھے یہ زمانے بھرکے روزوں کی مانندہیں۔‘‘
یہ روزے عید کےبعدمسلسل یاوقفوں سے جس طرح سہولت ہو رکھ سکتاہے، ماہ شوال میں ان کو پورا کرنا ضروری ہے اگر کسی کے ذمے قضاکے روزے ہیں توپہلے انہیں رکھے پھر شوال کے رکھ لے یہ بہترہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
۔۔۔۔۔۔

 اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود  و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی ،انہوں نے حق کے ذریعے عدل و انصاف کیا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا،  یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، فضل، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل فرما دے، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا رب العالمین !
یا اللہ! ہمارے ملک کو امن و امان اور پرسکون بنا، یا ذا الجلال والاکرام!
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ  وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ  [النحل: 90، 91]

 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی جانتا ہے ۔
۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے