26 اکتوبر کو پاکستان میں چترال سے لاہو ر تک آنے والے شدید ترین زلزلہ جس کا دورانیہ چار سے پانچ منٹ بتایا جاتا ہے اور جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7.6 نوٹ کی گئی، عبرت کی بات ہے کہ 4،5 منٹ کے زلزلے نےملک کے دوصوبوںکو ہلاکر رکھ دیا جس کی وجہ سے ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمزدہ ہے کیونکہ اس زلزلہ میں جاں بحق ہونے والوں میں کئی معصوم بچے بھی شامل ہیںجو اپنے والدین کی خوشیوں کا واحد ذریعہ تھے وہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، یہ بچے اور بچیاں جو مٹی تلے دب گئے جن کے ماں باپ کو ان کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا، یہ وہ پھول تھے جو بِن کھلے مرجھاگئے اور کچھ جوانی میں ہی شاخوں سے ٹوٹ کر منوں مٹی تلے دب گئےاور بہت سے ایسے ہیں جوہر آنے والے سے پوچھتے ہیں باباکب آئیں گے؟؟ ان معصوموں کو کون بتائے کہ ان کے اور باباکے درمیان مٹی کے پہاڑ حائل ہوگئے ہیں، اس زلزلے نے صرف زمین کا سینہ ہی شق نہیں کیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے، جوسر چھپانے کا آسراتھا وہ اب زمین سے برابر ہوگیا ہے زندگی بھر کی محنت ومزدوری خاک میں مل چکی ہے سیکڑوں لوگ آن واحد میں موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ یہ زلزلہ بھی دیگر زلزلوں کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انسان اپنی عقل ودانش فہم وفراست سے جتنی بھی حیرت انگیز ایجادات اور سائنسی ترقی کے بل بوتے پر جتنی ایڈوانس ٹیکنا لوجی حاصل کرلےان قدرتی آفات اور تنبیھات کے سامنے بے بس اور کمزور ہے، انسان جس کو اپنی عقل وتدبیر پر بڑا ناز ہے جوکہ اقتدار مال ودولت اور طاقت کے نشے میں تکبراور غرور پر اتر آتاہے جو کہ اپنی بلند وبالا عمارتوں اور اونچے محلات پر اتراتاہے جب اللہ تعالی کا حکم آتاہے تویہ مضبوط ترین قلعے مٹی کے گھروندوں کی طرح آن واحد میں زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔
زلزلے اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کے لیے درس عبرت اور اس کی نشانیوں کا اظہار ہیں جیساکہ ارشاد باری ہے :
وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(الاسراء:59)’’ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں ‘‘

سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّهٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(فصلت:53)

عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے کیا آپ کے رب کا ہرچیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں‘‘
زلزلہ اہل ایمان کےلیے درس عبرت کے ساتھ اعمال وعقائد کی درستگی کا ذریعہ بھی ہے اور کفار کے لیے عذاب الٰہی کی ایک جھلک ہے زلزلے اس لیے بھی آتے ہیںجیساکہ قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتب میں واضح کیا گیا ہے کہ جب قومی سطح پر بے حیائی، بے راہ روی اور برائی اپنی انتہاؤں کو پہنچ کر اتنی عام ہوجائے کہ برائی برائی نہ رہے بلکہ اچھائی اور آزاد خیالی تصور کرلی جائے اور ثقافت کے نام پر گندگی فیشن بن جائے، بے پر دگی، فحاشی اور عیاشی کو شعار بنا لیا جائے، نیک سیرت، شریف النفس، حق و صداقت کے پیکرانسان کو معاشرے میں حقیر جانا جائے اور اس کے برعکس، بدمعاش، بدکردار، بے ایمان، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو جانتے ہوئے بھی مناصب، عہدوں اور عزتوں سے نوازاجائے،برائی پر فخر کیا جانے لگے تو پھر آسمانی آفات نازل ہوتی ہیں۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ کہ جب میری امت پندرہ قسم کے کام کرنے لگ جائے گی تو پھر اس وقت ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد یوں نقل کیا گیا ہے کہ طرح طرح کے عذابوں کا سلسلہ اس طرح لگاتار شروع ہو جائے گا جیسے کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ وہ پندرہ چیزیں کیا ہیں؟۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:1 جب مالِ غنیمت کو اپنی ذاتی دولت بنا لیا جائے یعنی اس کی صحیح تقسیم کی بجائے خواہشات نفسانیہ کے مطابق تقسیم ہونے لگے۔2: امانت کو غنیمت سمجھا جائے۔3: زکوٰۃ کی ادائیگی کو تاوان اور چٹی سمجھا جانے لگے۔یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی خوش دلی کی بجائےتنگ دلی سے ادا کی جائے۔ 4:آدمی اپنی بیوی کا فرمانبردار بن جائے۔5: اپنی ماں سے بدسلوکی اور نافرمانی کرنے لگے جائے۔6: اپنے دوست سے حسنِ سلوک اور نیکی کرے۔7: اپنے باپ سے بے وفائی اور نفرت برتے۔8 مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں یعنی کھلم کھلا شور و غوغا ہونے لگے۔9: سب سے کمینہ، رذیل اور فاسق آدمی قوم کا قائد اور نمائندہ کہلائے،یعنی قوم کا سردار وہ مقرر ہو گاجو سب سے زیادہ فاسق اور بدکار ہو۔ نہ کہ متقی اور پرہیز گار شخص۔10: آدمی کی عزت محض اس کے ظلم اور شر سے بچنے کے لئے کی جانے لگے۔11: شراب نوشی عام ہوجائے ۔12: مرد ریشم پہننے لگ جائیں۔13: گانے والی عورتیں رکھی جائیں4۔ مزامیر یعنی گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے۔15 : امت کا پچھلا حصہ پہلے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کرنے لگے یعنی ان کو برا بھلا کہا جانے لگے۔

(سنن الترمذی، شاکر (4/ 494)۔بَابُ مَا جَاءَ فِی عَلَامَةِ حُلُولِ المَسْخِ وَالخَسْفِ،حدیث ضعیف ولکن له أطراف صحیحة )

یہ تمام نشانیاں دور حاضر میں من عن پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، دھوکہ دہی، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری و عوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں بلکہ مساجد ومدارس میں بھی بیماریاںپائی جاتی ہیں مسلمانوں کا مالی نظام بد سے بدتر ہے عصری تعلیم کا شور اتنا طاقتور ہےکہ دینی درسگاہوں کے طلبہ کرام، مدرسے کی چہار دیورای میں رہتےہوئے دینی تعلیم سے بے فکر ہوکرساری توجہ عصری علوم کے حصول پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوچکے ہیں، بیوی کی اندھی محبت میں والدین سے بدسلوکی عام سی بات ہے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول پراگندہ ہوچکا ہے عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اس ماحول سے کچھ کسر باقی رہ گئی تھی جو موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے وہیں اپنے بھی پیچھے نہیں رہے اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیاء اور نیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور یہ ساری باتیں اس معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔
ان دنوں دنیامیں بہت سارے ممالک میں جوزلزلے آرہے ہیں وہ انہیں نشانیوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالی اپنے بندوں کوڈراتا اور یاددہانی کراتا ہے، یہ سب زلزلے اور دوسرے تکلیف دہ مصائب جن کا سبب شرک وبدعت اورمعاصی وگناہ ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے

:وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ’’

تمہیں جوکچھ مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اوروہ ( اللہ تعالی ) توبہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے‘‘ (الشوریٰ30)، اوراللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا

:مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ۭوَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَکَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًا’’

تجھے جوبھلا‏ئ ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جوبرائ پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،، (النساء ( 79 )
اللہ تعالی نے سابقہ امتوں کے متعلق فرمایا :

فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا کَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ

’’پھرتو ہم نے ہرایک کواس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا ان میں سے بعض پرہم نے پتھروں کی بارش برسا‏ئی اوربعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبودیا اوراللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے ہیں،،( العنکبوت ( 40 ) ہرمسلمان پریہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اوراپنے گناہوں اور معاصی سے توبہ کرے، اور دین اسلام پراستقامت اختیار کرے اورہرقسم کےگناہ اورشرک وبدعات سے بچے تاکہ اسے دنیا وآخرت میں ہرقسم کے شرسے نجات وعافیت حاصل ہو اوراللہ تعالی اس سے ہرقسم کے مصائب وبلایا دورکرے اورہرقسم کی خیروبھلائی عطافرما، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے

:وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ’

’ اوراگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی توہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا،،(الاعراف ( 96 )علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :’’بعض اوقات اللہ تعالی زمین کوسانس لینے کی اجازت دیتا ہے توزمین میں بہت بڑے بڑے زلزلے بپا ہوتے ہیں، تواس سے اللہ تعالی کے بندوں میں خوف اورخشیت الہی اور اس کی طرف رجوع، معاصی وگناہ سے دوری اوراللہ تعالی کی جانب گریہ زاری اوراپنے کیے پرندامت پیدا ہوتی ہے،،جیسا کہ جب زلزلہ آیا تو سلف میں سے کسی نے کہا :’’تمہارا رب تمہاری ڈانٹ ڈپٹ کررہا ہے، اور جب مدینہ میں زلزلہ آیا توسیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کوخطبہ دیتے ہوئےانہیں وعظ ونصیحت کی اور فرمانے لگے:’’ اگر یہ زلزلہ دوبارہ آیا میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دونگا ‘‘
وہ بڑی بڑی وجوہات جوکہ ان زلزلوں، طوفانوں، آندھیوں، زمین میں دھنسادیئے جانے اور بندر و خنزیر بنائے جانے کا سبب بنیں گی، ان کو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یوں بیان کیا گیا

:یَکُونُ فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ، إِذَا ظَهَرَتِ الْقِیَانُ وَالْمَعَازِفُ، وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ (صحیح الجامع الصغیر)”ا

س امت میں خسف (زمین میں دھنسنا)، مسخ (بندر وخنزیر بننا) اور قذف (پتھروں کی بارش) ہونا اور یہ اس وقت ہوگا جب گانے والیاں اور آلات موسیقی اور شرابیں کھلے عام پی جائیں گی“

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے