معاملات سے متعلق قرآن مجید میں کئی قسم کے احکامات
نازل ہوئے ہیں، اس سلسلہ کی پہلی کڑی تجارت اور حلال و حرام کا موضوع ہے اسی وجہ سے اسی موضوع سے ابتداء کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اللہ تعالی مجھے حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اللہ رب العالمین نے حلال رزق کمانے اور کھانے کا حکم دیا ہے اور حرام و ناجائز طریقوں سے رزق حاصل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی اعتبار سے کچھ اہم اصول درج ذیل ہیں:
حلال و حرام کے اصول وضوابط:
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں حلال و حرام سے متعلق اہم ترین اصول ذکر فرمائے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
1ـ کسی بھی چیز کو حلال یاحرام کرنا صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَہُمْ۰ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۲۱
کیا ان لوگوں کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کا ایسا طریقہ مقرر کیا ہو جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ؟ اور اگر فیصلے کی بات طے شدہ نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ [شوری:21]
2اپنی طرف سے حلال کو حرام کرنا یا حرام کو حلال کرنا شرک ہے:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ۰ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۭ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۳۱
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک ہے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ [التوبۃ: 31]
اس آیت کی تشریح مندرجہ ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے :
سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ نے فرمایاعدی! اس بت کو پرے پھینک دو ۔ اور میں نے آپ کو سورۃ برأت کی یہ آیت پڑھتے سنا
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ۔[ التوبہ:31]
پھر آپﷺ نے فرمایا وہ لوگ ان مولویوں اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب یہ مولوی اور درویش کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ حلال جان لیتے اور جب حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے تھے (ترمذی ابواب التفسیر)
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
إِنِّيْ خَلَقْتُ عِبَادِيْ حُنَفَاءَ وَأَنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِيْنُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِيْنِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُّشْرِکُوْا بِيْ مَا لَمْ أُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانا
ميں نے اپنے بندوں کو دين حنيف پر پيدا فرمايا ہے لیکن شیاطین نے آکر انہیں بہکاکر ان کے دین سے دور کردیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی ہیں وہ انہوں نے حرام کردیں اور ان شیطانوں نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ ایسے لوگوں کو شریک ٹھہرائیں جن کے بارے میں میں نے کوئی بھی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ [مسلم]
اور سیدناابو مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ سے سنا ہے آپ ﷺفرماتے تھے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ریشم، شراب اور باجے گاجے وغیرہ کے دوسرے نام رکھ کر انہیں حلال بنا لیں گے۔
نیز اللہ تعالی نے فرمایا:
قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَــعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا۰ۭ قُلْ اٰۗللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللہِ تَفْتَرُوْنَ۵۹
آپ ان سے کہئے: کیا تم نے سوچا کہ اللہ نے تمہارے لئے جو رزق اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام قرار دے لیااور کسی کو حلال تو کیا اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کرتے ہو؟ [یونس:59]
رزق کا وسیع تر مفہوم:
رزق سے عموماً کھانے پینے کی چیزیں ہی مراد لیا جاتا ہے۔ اور اصل یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کی جسمانی یاروحانی تربیت میں کوئی ضرورت پوری کرتی ہو وہ رزق ہے چنانچہ (وَمِمَّا رَزَقْنٰهمْ يُنْفِقُوْنَ ۙ)(2- البقرة:3) میں بھی رزق سے مراد مال وغیرہ ہے۔
ایسی سب باتیں اللہ کی صفات میں شرک کے مترادف ہیں۔ کیونکہ حلت و حرمت کے جملہ اختیارات اللہ ہی کو ہیں ۔
3اللہ تعالی نے صرف پاکیزہ چیزیں ہی کھانے پینے کا حکم دیا ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۰ؗۖ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۱۶۸ [البقرۃ: 168]
’’لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، وہی کھاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ لگ جاؤ۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
حلال سے مراد ایک تو وہ سب چیزیں ہیں جنہیں شریعت نے حرام قرار نہیں دیا۔ دوسرے وہ جنہیں انسان اپنے عمل سے حرام نہ بنا لے۔ جیسے چوری کی مرغی یا سود اور ناجائز طریقوں سے کمایا ہوا مال اور پاکیزہ سے مراد وہ صاف ستھری چیزیں ہیں جو گندی سٹری، باسی اور متعفن نہ ہو گئی ہوں ۔
4حرام چیزوں سے نہ بچنے کا انجام:
حرام چیزوں سے بچنے کی احادیث میں بہت تاکید آئی ہے۔
آپ ﷺنے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کر کے آیا ہو، اس کے بال پریشان اور خاک آلود ہوں وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار! جبکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور جس غذا سے اس کا جسم بنا ہے وہ بھی حرام ہے تو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟ [ترمذی: أبواب التفسیر،مسلم: کتاب الزکوٰة، باب قبول الصدقة من کسب الطیب]
5حلال کی جستجو ہو تو اللہ حرام سے محفوظ کردیتا ہے:
اگرچہ انسان بہت کمزور ہے لیکن اللہ تعالی کی اپنے فضل و کرم اور نصرت و تائید کے ذریعہ انسان کے تمام معاملات آسان ہوجاتے ہیں۔جیسا کہ رب العالمین نے سورۃ النساء میں فرمایا ہے:
يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ۰ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا۲۸
ترجمہ: اللہ یہ چاہتا ہے کہ تم سے (رسم و رواج کی پابندیوں اور بوجھ کو) ہلکا کردے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ [النساء:۲۸]
وضاحت: شرعی احکام میں انسانی کمزوریوں کا لحاظ: یعنی یہ احکام دینے میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ انسان فطرتاً کمزور ہے لہذا ان احکام میں انسان کی سہولت اور بساط کو مدنظر رکھا گیا ہے۔نیز جو بھی احکام شریعت ہیں ان میں اعتدال کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور پھر معاشرہ کے کمزور افراد کے لیے رخصتیں بھی رکھ دی گئی ہیں ۔
6جو کام حرام کا باعث بنے وہ بھی حرام ہے:
مثال کے طور پر شراب پینا تو حرام ہے اس کے ساتھ ساتھ شراب کو بنابا، بیچنا، لے جانا وغیرہ سب حرام ہے۔
یہودیوں نے حرام (سود) کو حلال کرنے کے لئے بہانے بنائے اور رسوا ہوگئے:
اللہ تعالی نے فرمایا:
وَيَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۷۵
اور یہ لوگ (اہل کتاب) دیدہ دانستہ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر رہے ہیں۔ [ال عمران:75]
وضاحت: سود یہودیوں پر بھی حرام کیا گیا تھا۔ لیکن ان کے فقہاء نے کچھ اس طرح کےبہانے تلاش کئے جن کی رو سے انہوں نے غیر یہود سے سود وصول کرنا جائز قرار دے دیا تھا، پھر ان کی یہ سود خوری کی عادت فقط سود تک محدود نہ رہی بلکہ وہ کہتے تھے غیر یہودی کا مال جس طریقے سے ہڑپ کیا جاسکے، جائز ہے۔
نوٹ: ہر قوم اور ہر امت میں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں ۔ اگرچہ وہ کم ہی ہوتے ہیں ۔ یہودیوں میں ایسے لوگ وہ تھے جو سود خوری اور دوسرے ناجائز طریقوں کو فی الواقعہ حرام سمجھتے تھے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ایسے ہی شخص تھے۔ کسی نے ان کے پاس بارہ اوقیہ سونا بطور امانت رکھا تھا اور جب مالک نے اپنی امانت طلب کی تو فوراً ادا کردی۔ اب ان کے مقابلہ میں ایک یہودی فحاص نامی تھا۔ کسی نے ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی۔ جب اس نے اس سے امانت طلب کی تو وہ مکر ہی گیا۔[تیسیر القرآن]
7حرام چیزیں عموما سب کے لئے ہر وقت اور ہر جگہ حرام ہیں:
ایسا نہیں کہ کوئی چیز صرف مسلمانوں کے لئے حرام ہو یا غیر مسلم کے مال میں خیانت کرنا جائز ہو یا پھر مسلمانوں کے کسی بڑے اور اہم فرد کے لئے کوئی حرام چیز جائز ہو بلکہ شریعت میں حرام کردہ چیزیں سب کے لئے یکساں ہیں سوائے ان احکامات کے جن میں مرد و عورت کے لئے الگ الگ طورپر وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ جیساکہ اکثر یہودی دیگر ملت والوں کے ساتھ خیانت کرنا جائز سمجھتے تھے۔ پیارے رسولﷺ نے اسی فرق کو دور کرنے کے لئے ایک موقعہ پر فرمایا:
لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّد سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا۔
اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو میں ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ [بخاری]
8حرام کو حلال بنانے کے لئے حیلہ بہانہ کرنا سخت گناہ اور شریعت کا انکار ہے:
فرمان نبویﷺ ہے:
لَیَسْتَحِلَّنَّ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي الخَمْرَ يُسَمُّوْنَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا
ترجمہ: میری امت کا ایک گروہ شراب کا نام بدل کر اسے حلال کرلے گا۔ [ابن ماجہ ، نسائی مسند أحمد، صحیح]
اللہ تعالی صرف پاکیزہ چیز کو ہی قبول فرماتا ہے:
حديث ميں ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
لَا یَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّيِّبَ[مسلم: کتاب الزکوٰة باب بیان أن اسم..]
اللہ پاک ہے اور پاکیزہ کو ہی قبول فرماتا ہے۔
حدیث میں ہے: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص حرام مال کمائے اور پھر اس سے صدقہ کرے تو وہ صدقہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی۔ [احمد]
نوٹ: معلوم ہوا کہ صرف پاکیزہ مال سے ہی زکاۃ و صدقات قبول ہوتے ہیں۔ لہٰذا چوری یا خیانت کا مال کمانا بھی حرام ہے اور اس کا صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔
حرام میں واقع ہونے کے ڈر سے شک و شبہ والی چیزوں سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے:
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یوں کہتے سنا ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اب جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو مشتبہ چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو کسی کی رکھ کے گرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ رکھ میں جا گھسیں ۔ سن لو ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے۔ سن لو! اللہ کی رکھ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں ۔ [بخاری: کتاب الایمان، باب فضل من استبراء لدینه ، مسلم:کتاب المساقاة باب اخذ الحلال و ترک الشبهات]
دوسری حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو مال اس کے ہاتھ آیا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ [بخاری، کتاب البیوع، باب مالم یبال من حیث کسب المال]
9ـ معاملات میں ہر چیز جائز و حلال ہے سوائے ان چیزوں کے جن کی حرمت بیان کردی گئی ہے:
عبادات کے علاوہ ہر کام جائز و حلال ہے سوائے اس کے جس بارے میں حرام ہونے کی دلیل موجود ہو۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ۰ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۴۵
آپ ان سے کہئے کہ : جو وحی میری طرف آئی ہے اس میں تو کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ وہ چیز اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے مشہور کر دی گئی ہو ۔ ہاں جو شخص لاچار ہوجائے درآنحالیکہ وہ نہ تو (اللہ کے قانون کا) باغی ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو (تو وہ اسے معاف ہے) کیونکہ آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [الانعام:145]
نيز ارشاد فرمایا:
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَہُمْ۰ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۲۱
کیا ان لوگوں کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کا ایسا طریقہ مقرر کیا ہو جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟ اور اگر فیصلے کی بات طے شدہ نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ [شوری:21]
وضاحت: اللہ کے مقابلہ میں کن کن لوگوں کا حکم چلتا ہے؟:۔ ظاہر ہے کہ یہاں شریک سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں وہ کسی کو کوئی قانون یا ضابطہ کیا دیں گے؟ لامحالہ اس سے مراد، انسان یا انسانوں کی جماعت ہی ہوسکتی ہے۔ جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو ۔ حرام و حلال کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں یا لوگوں کے لیے وہ ضابطہ حیات، فلسفے یا نظام پیش کرتے ہوں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں اور پھر انہیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں
یعنی اللہ ایسے باغیوں کے بارے میں عفو و درگزر سے کام لیتا ہے اور انہیں فوراً تباہ نہیں کرتا۔ جس کی وجہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو دیئے ہوئے اختیار کو اضطرار میں تبدیل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ہر انسان کو اختیار دے کر ہی اس دنیا میں آزمانا چاہتا ہے۔ البتہ جب یہ اختیار کا عرصہ ختم ہوجائے گا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے تو پھر ایسے ظالموں کو ان کی ساری کرتوتوں کی دردناک سزا دی جائے گی۔
اللہ تعالی نے حرام چیزوں کو بیان فرما دیا ہے:
وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْہِ۰ۭ
حالانکہ جو کچھ اس نے تم پر حرام کیا ہے اسے تمہارے لیے تفصیلاً بیان کردیا ہے الا یہ کہ تم (کوئی حرام چیز کھانے پر) مجبور ہوجاؤ۔ [انعام:119]
ضرورتیں بقدر ضرورت حرام کو حلال بنا دیتی ہیں:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ۰ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۷۳
اس نے تو صرف تم پر مردار خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور ہر وہ چیز بھی جو غیر اللہ کے نام سے مشہور کردی جائے ۔ پھر جو شخص ایسی چیز کھانے پر مجبور ہوجائے اس حال میں کہ نہ تو وہ قانون شکنی کرنے والا ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو، تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ یقینا بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم والاہے۔[بقرۃ: 173]
وضاحت: اس آیت میں حرام چیزوں کو استعمال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین شرائط بیان فرمائیں:
1 اسے بھوک یا بیماری کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ لاحق ہو اور اس حرام چیز کا کوئی بدل موجود نہ ہو ۔
2وہ اللہ کا باغی یا قانون شکن نہ ہو ۔ یعنی جو چیز کھا رہا ہے۔ اسے حرام ہی سمجھ کر کھائے، حلال نہ سمجھے۔
3 اتنا ہی کھائے جس سے اس کی جان بچ سکے اور اس کے بعد اس کا بدل میسر آ سکے۔
پھر اگر وہ غلط اندازے سے کچھ زیادہ بھی کھا لے گا تو اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا۔ اور یہ غلطی جان کے تلف ہونے سے متعلق بھی ہو سکتی ہے اور خوراک کی مقدار کے متعلق بھی۔
ناحق کسی کا مال کھانا آگ کے انگارے کھانے کے مترادف ہے:
اللہ تعالي کا فرمان ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا۰ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا۱۰ۧ
جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں ۔ عنقریب وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ [النساء:۱۰]
حدیث میں ہے:
سیدناجابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ گوشت جو مال حرام سے پروان چڑھا ہے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو بھی گوشت حرام سے پروان چڑھا اس کے لیے جہنم ہی لائق تر ہے
[سنن احمد، دارمی]