Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں 2

Written by پروفیسر ڈاکٹرعمر بن عبد اللہ المقبل (استاذ کلیۃ الشریعہ والدراسات الاسلامیہ) ترجمہ: ابو عبدالرحمن شبیر بن نور 17 Jul,2016
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

چوتھا اصول:
بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌوَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ (القيامة: 14، 15)
’’بلکہ انسان اپنے نفس کو خوب جانتا ہے ‘ بھلے کتنے ہی عذر تراشتا رہے۔‘‘
اپنے نفس کے ساتھ معاملہ کرنے اور اسے پاک کرنے کے باب میں جواصول کام آتے ہیں ان میں سے ایک اصول یہ ہے اور یہ نفس کی بیماریوں کے علاج کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم مقصد کو بیان کرنے کے لیے ’’سورۃ الشمس‘‘ میں گیارہ قسمیں کھائی ہیں‘ پھر فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (الشمس: 9)
’’ جس نے اس نفس کو پاک کیا وہ کامیاب ہوا ۔‘‘
اس اصول کا خلاصہ :
یہ ہے کہ انسان اگرچہ اپنے کاموں اورباتوں کا دوسروں کے سامنے دفاع کر لے‘ لیکن اس کا دل جانتا ہے کہ وہ غلطی پر ہے ‘ اور اپنے لیے چاہے سو بہانے گھڑ لے‘ لیکن وہ جانتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے۔ وہ اپنے آپ کولوگوں سے چھپا سکتا ہے اور عذر بھی تراش سکتا ہے ‘لیکن اللہ تعالیٰ کے بعد وہ اپنے نفس کے بارے میں سب سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔
ہماری ذاتی اور معاشرتی زندگی میں اس اصول کے بہت زیادہ مواقع آتے ہیں‘ چند ایک کا تذکرہ کر دیتا ہوں‘ تاکہ ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح میں اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور ہمارے کردار میں جو کج روی آچکی ہے اسے ٹھیک کر لیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
1 بعض لوگوں کا شرعی احکام کے ساتھ سلوک:
قرآنِ کریم یا صحیح حدیث کا حکم موجود ہے‘ دلیل واضح ہے‘ اس میں کوئی اشکال بھی نہیں‘ دلیل ا س قدر واضح ہے کہ اس کے واجب یا حرام ہونے میں علماء کا اختلاف بھی نہیں‘ اس سب کے باوجود کسی شخص کا دل تنگ ہو رہا ہوتا ہے‘ اس کی ہزار کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس آیت یا حدیث کے حکم سے جان خلاصی کروا لوں‘ اس لیے کہ یہ حکم اس کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے۔اس قسم کا حیلہ اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات دلا سکتا ہے‘ اس لیے کہ انسان اپنے نفس کو خوب جانتا ہے۔ مؤمن کا مقام تویہ ہے کہ اس آیت کا عملی نمونہ ہو:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: 65)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی‘ یہ مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلاف میں آپ کو حَکم نہ مان لیں‘ پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان کے بارے میں اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور نا خوشی نہ پائیں اور اسے فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔‘‘  
2اپنے نفس کے ساتھ معاملہ کرنے میں:
بعض لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے کہ بس لوگوں کی غلطیاں تلاش کی جائیں اور اپنی غلطیوں سے غافل رہیں۔ یہ ناکامی اور بد قسمتی کی انتہا ہوتی ہے۔ اہل علم کا قول ہے جب تم دیکھو کہ کوئی انسان دوسروںکی غلطیوں کو تلاش کر رہا ہے اور اپنی غلطیوں سے غافل ہے تو جان لوکہ وہ اللہ کی پکڑ میں آنے والا ہے۔
3اپنی غلطیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں:
بسا اوقات آپ کو نظر آئے گا کہ ایک آدمی کی غلطی سامنے آگئی‘ اب وہ اپنے دفاع میں لوگوں سے بحث وتکرار کر رہا ہے ‘ حالانکہ اسے خوب علم ہے کہ وہ غلطی پر ہے۔ بس وہ اپنے عذر پیش کیے جا رہا ہے اور بحث کیے جا رہا ہے اور لوگوں کو حقیقت کے خلاف نقشہ دکھا رہا ہے۔
4 اس مبارک اصول کا فائدہ:
یہ ہے کہ انسان اپنے عیبوں کو تلاش کرے اور حسب استطاعت ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرے۔ یہ کام قابل تعریف جہاد کے زمرے میںآتا ہے۔ اور اپنی غلطیوں یابرے کاموں پر ڈٹا رہنے کی کوشش نہ کرے اور دلیل یہ پیش کرے کہ وہ بچپن سے یہ کام کرتا آرہا ہے یایہ تو اس کی عادت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اپنے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہے۔ اسے اپنے برے کاموں کا بھی علم ہے ‘ اپنی غلطیوں کو بھی جانتا ہے ‘ اپنے گناہوں سے بھی واقف ہے ‘ اور اپنے رازوں کو بھی جانتا ہے۔
5اس اصول کو نافذ کرنے کی سب سے عمدہ شکل:
 اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو گناہ کے اعتراف کی توفیق مل جائے یہ انبیاء ‘ صدیقین اور نیک لوگوں کا مقام ہے۔ اس کی  مثال ہمارے جد ِامجداور اماں یعنی سیدنا آدم وحواءعلیہما السلام کی ہے کہ ان دونوں نے جب ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تو عرض کیا:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين
’’ دونوں نے کہا: اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا‘ اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ (الاعراف: 23)
اور جب سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہوگیا تو آپؑ نے شرمسار ہوکر عرض کیا:
قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم(القصص: 16)
ُ’’اے پروردگار! میں نے خوداپنے اوپر ظلم کیا‘ پس تو مجھے معاف فرمادے‘ تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ یقینا وہ بخشش اور بہت مہربانی کرنے والاہے۔‘‘
میں اللہ کریم سے دعا گوہوں کہ ہمیں اپنے گناہوں پر نظر کرنے کی توفیق دے اور ہمیں ہمارے اپنے گناہوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین!
پانچواں اصول:
 وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى(طه: 61)
’’جس نے جھوٹی بات گھڑی‘وہ کبھی کامیاب نہ ہو گا۔‘‘
سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کا جوواقعہ فرعون اور اس کے بلائے ہوئے جادوگروں کے ساتھ پیش آیا ‘یہ اصول اس کے پس منظر میں بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى قَالَ لَهُمْ مُوسَى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى
’’موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے ‘ اور یہ کہ لوگ دن چڑھے ہی جمع ہو جائیں۔ پس فرعون لوٹ گیااور اس نے اپنے ہتھکنڈے جمع کیے پھر آگیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: تمہاری شامت آچکی ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افتراء نہ باندھوکہ وہ تمہیں عذابوں سے ملیا میٹ کر دے۔ یاد رکھو وہ کبھی کامیاب نہ ہو گا جس نے جھوٹی بات گھڑی۔‘‘(طه: 59 - 61)
لفظ افتراء کے کئی معنی ہوتے ہیں ‘ مثلاً: جھوٹ بولنا‘ شرک کرنا‘ ظلم کرنا۔قرآنِ کریم میں یہ تینوں معنی بیان ہوئے ہیں ‘سب کا مرکزی نکتہ فسادکرنا اورخراب کرنا ہے۔ مذکورہ بالا آیت ِ کریمہ میں بہتان بازوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ اصول بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ ناکام رکھتا ہے اور ان کو کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ جب تم اس اصول پر غور کرو گے توتمہیں معلوم ہو گا کہ قابل ا فسوس بات یہ ہے کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے نصیب میں ناکامی وگمراہی لکھی ہوتی ہے۔ انہی میں سے یہ لوگ ہیں:
 بغیر کسی علم کے زبان سے اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی کرنا‘ خواہ اس کی کوئی بھی شکل ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْئٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ (الانعام:93)
’’اور اُس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گاجو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کی تہمت لگائے یا یو ں کہے کہ مجھ پروحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی وحی نہیں آئی اورجو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں۔‘‘
1اللہ تعالیٰ پر الزام تراشوں کی فہرست میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جوبغیر علم کے فتویٰ جاری کردیتے ہیں۔ یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ پر الزام تراشی کرنے والوں میں شمار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں فرمایا:
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ لَايُفْلِحُونَ
’’کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ‘کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو۔ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں ۔‘‘(النحل: 116)
جو شخص کسی مسئلے میں بات کرنا چاہے اور اس کے پاس علم بھی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ خاموشی اختیار کرے ‘ اور جو شخص لوگوں کو فتوے دیتا ہووہ اس باب میں سلف صالحین کے طریقے پر عمل کرے‘ اس لیے کہ وہ بہتراور اچھا طریقہ ہے۔
2پرانے زمانے میں اور جدید دور میں حدیثیں گھڑنے والے جو کچھ کر رہے ہیں یہ اللہ کے رسول ﷺ کے نام پر جھوٹ بولتے ہیں اورآپﷺ پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ یا تو اپنے خیال کے مطابق اچھی نیت کے ساتھ‘ جیسے ترغیب وترہیب کی حدیثیں ہیں‘ یا سیاسی مقاصد کے تحت یا مذہبی یا تجارتی اغراض کے تحت حدیثیں گھڑتے ہیں۔ اور مقامِ افسوس ہے کہ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ جو لوگ بھی آپ ﷺ کے نام پر حدیثیں گھڑتے ہیں اگر ان کو یہ احساس ہو جائے کہ ان کا شمار افترا پردازوں میں ہوتا ہے اور ان کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی‘ بلکہ خسارہ ان کا مقدر ہے‘ تو عین ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں۔ دین کو تو اللہ تعالیٰ نے مکمل کررکھا ہے‘ اس کو کسی من گھڑت یا مصنوعی حدیث کی قطعاً ضرورت نہیں۔
3اس اصول کی عملی شکلوں میں سے یہ بھی ہے جو ظلم اور بہتان انتہائی افسوس کے ساتھ بعض لوگوں کی طرف سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہورہاہے۔ اس کے بہت سارے اسباب ہوتے ہیں‘ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ حسد ہوتی ہے (اللہ تعالیٰ معاف فرمائے) یا دنیوی فائدے کا لالچ یاکوئی اور سبب۔ اور اس وقت مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے جب لوگ اپنی غلط حرکتوں کو دینی رنگ میںپیش کرتے ہیں اور وہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ میں نے تو یہ بات فلاں آدمی کی غلط کاری بیان کرنے کے لیے کی تھی اور لوگوں کو اس کے شر سے بچانے کے لیے ایسا کہا تھا‘ حالانکہ وہ اپنی ذاتی دشمنی کی خاطر ایسا کہہ رہا ہوتا ہے ۔
اس حوالے سے میرے سامنے بہت سارے واقعات آئے ہیں ‘کچھ پُرانے ‘کچھ نئے۔ متعلقہ اشخاص نے اپنے کرتوتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ یہ ایسے خوفناک انجام ہیں جن پر دل خون کے آنسو روتا ہے‘ جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے‘ جوانجام الزام تراشنے والوں کا ہوا اور جوجو نتائج ان کو بھگتنے پڑے۔ اس موقع پر صرف ایک واقعہ بیان کرنا ہی کافی ہوگا‘ شاید کہ اسی میں عبرت ونصیحت ہو۔
 ایک عورت نے بیان کیا کہ وہ خود یونیورسٹی کی پروفیسر ہے اور اسے دودفعہ طلاق ہو چکی ہے۔ وہ بیان کرتی ہے کہ سات سال پہلے میں نے ظلم کمایاکہ جب مجھے دوسری دفعہ طلاق ہوئی تو میں نے اپنے ایک رشتہ دار سے شادی کا فیصلہ کیا ‘جو اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ بڑی خوشگوار زندگی گزار رہا تھا۔ میں نے اپنے خالہ زاد کے ساتھ مل کر سازش تیار کی ‘ اورمیرا خالہ زاد اِس آدمی کی بیوی کو پسند کرتا تھا۔ ہم نے مل کر طے یہ کیا کہ ہم اس کی بیوی پر زنا کا الزام لگاتے ہیں‘ چنانچہ ہم نے خاندان میں افواہیں پھیلانا شروع کردیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں کامیابی ملنی شروع ہو گئی ‘ ہمارے شکار میاں بیوی کی ازدواجی زندگی میں دراڑیں پڑ گئیں اور بالآخر ان دونوں کے درمیان میں طلاق ہو گئی۔
 جس عورت کو افواہوں کی وجہ سے طلاق ہوئی تھی ‘ ایک سال بعد اس کی ایک بڑے افسر سے شادی ہوگئی‘ اور طلاق دینے والے مردنے مجھے چھوڑکر کسی دوسری عورت سے شادی کرلی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میرے ہاتھ کچھ نہ لگا اور نہ میرے خالہ زادکو مرادملی۔ البتہ ہمیں اپنے ظلم کی سزا ضرور مل گئی کہ مجھے خون کا کینسر ہو گیا اور میرا خالہ زاد جس فلیٹ میں رہتا تھا‘شارٹ سرکٹ کی وجہ سے اس میں آگ لگی اور وہ ایک دوسرے ساتھی کے ہمراہ جل کرراکھ ہو گیا۔
چھٹا اصول:
وَا لصُّلْحُ خَیْرٌ
’’صلح بہت اچھی بات ہے!‘‘
معاشرے کی تعمیرواصلاح کرنے والے اصولوں میں سے ایک اصول ’’صلح‘‘ ہے‘ اور یہی اصول معاشرے کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاتا ہے۔ بعض دفعہ میاں بیوی کے درمیان ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ان میں اختلاف اور دوری جنم لے لیتی ہے۔ ان حالات میں ایسی صلح جو ان دونوں کو قابل قبول ہو‘ بہرحال جدائی سے بہتر ہے۔ اسی اُصول کو پختہ کرنے کے لیے یہ قاعدہ بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (النساء: 128)
’’اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بد دماغی اور بے پر واہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں صلح کر لیں تو اس میں کسی پر کوئی گنا ہ نہیں۔ اور صلح بہت بہتر چیز ہے۔ طمع ہرہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے۔ اگر تم اچھاسلوک کرواور پرہیزگاری کرو‘ توتم جوکر رہے ہواس پر اللہ تعالیٰ پوری طرح خبردار ہے۔ ‘‘
 ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں اصلاح کے حوالے سے جتنی بھی آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ اسی قرآنی قاعدے کی عملی تفسیر ہیں۔
آیت ِ مبارکہ کا خلاصہ :
جب عورت محسوس کرے کہ اس کا خاوند اس سے بے نیاز ہوتا جا رہا ہے اور اسے اس عورت میں کوئی دلچسپی نہیں رہی‘بلکہ اس سے منہ موڑ رہا ہے‘ تو ایسے حالات میں بہتر یہی ہے کہ وہ آپس میں کوئی صلح کی شکل پیدا کر لیں۔ عورت اپنے کچھ ضروری حقوق چھوڑ دے تاکہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ زندگی گزار سکے یا ضروریاتِ زندگی کے اخراجات مثلاً لباس ‘ رہائش وغیرہ میں سے کچھ کم پر سمجھوتا کر لے‘ یا اپنے جسمانی حق سے دست بردار ہو جائے اور رات کا حق اپنے خاوند کی مرضی پر چھوڑ دے‘ یا دوسری بیوی کے حق میں دست بردار ہو جائے۔ اگر وہ دونوں کسی بات پر بھی اتفاق کر لیتے ہیں تو ا ن دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے‘ نہ بیوی پر گناہ ہے اور ہی خاوند گنہگار ہے۔ ایسی صورت میں خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ رہنا جائز ہے۔ یہ صورتِ حال جدائی سے بہرحال بہتر ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَالصُّلْحُ خَیْرٌ ’’اور صلح بہتر چیز ہے۔‘‘
جو آدمی قرآنِ حکیم پر غور کرے اُ سے معلوم ہوگا کہ عملاًاس اصول پرعمل کرنے کی بہت گنجائش موجود ہے‘ جیساکہ میاں بیوی کے درمیان صلح کا معاملہ ہے۔ اسی طرح لڑائی کرنے والے دو گروہوں کے درمیان بھی صلح کا حکم ہے اور جو لوگ اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی کھل کرتعریف فرمائی ہے۔ فرمایا:
لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا(النساء: 114)
’’ان کے اکثرخفیہ مشوروں میں کو ئی خیر نہیں ‘ ہاں بھلائی اس کے مشورے میںہے جو خیرات کا یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے‘ اورجوشخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑا ثواب دیں گے۔ ‘‘
لوگوں کے درمیان صلح کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اگرصلح کی کوشش کرنے والااس وجہ سے مقروض بھی ہوجائے توشریعت نے اس کو زکوٰۃ لینے کی اجازت دی ہے۔
لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ ہمیں قرآن کے اس اصول سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ہمیں اپنی عملی زندگی میں اس کو وسعت دینی چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہمارے لیے سچا نمونہ موجود ہے کہ آپ ؐنے زندگی بھر اس اصول کو اپنایا۔ آپ ﷺ کی ساری زندگی کا وظیفہ ہی یہی تھا کہ صلح کرائی جائے اور اصلاح کی جائے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
A جب آپ ﷺ کی اہلیہ اُمّ المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا جب زیادہ عمر کی ہو گئیں تو (بعض وجوہات کی بنا پر)آپ ﷺ نے خیال کیا کہ انہیں طلاق دے دیں۔سیدہ سودہ بہت دانا عورت تھیں ‘ انہوں نے آپ ﷺ سے اس شرط پر صلح کر لی کہ آپ انہیں بیوی بنا کر رکھیں گے اور وہ اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا دے دیں گی۔ آپ ﷺ نے یہ صلح قبول فرما لی اور اسے اسی حال پر باقی رکھا۔
B آپ ﷺ کو خبر ہوئی کہ اہل قباء کے درمیان لڑائی ہو گئی ہے اور انہوں نے باہم پتھراؤ کیا ہے توآپ ﷺ نے فرمایا:
اِذْھَبُوْا بِنَا نَصْلُحُ  بَیْنَھُمْ (صحیح البخاری‘ ح:2567)
’’ہم مل کر چلتے ہیں اور ان کے درمیان صلح کرواتے ہیں۔ ‘‘
جو شخص سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ کئی درخشاں مثالیں موجود ہیں کہ آپ ﷺ نے مختلف مواقع پر لوگوں کے درمیان صلح کروانے کا کردار ادا کیا۔
ہمارے لیے بڑی خوشی کا مقام ہے کہ باہمی اصلاح کمیٹیاں بن گئی ہیں‘او ر یہ اس قرآنی اصول کی عملی تفسیر ہے‘ جس میں فرمایا گیا ہے: وَالصُّلْحُ خَیْرکہ صلح بہتر چیز ہے۔ مبارک ہو ان بابرکت لوگوں کو جن کو اللہ تعالیٰ نے بہترین لوگ قرار دیا ہے ‘ جو لوگوں کے درمیان اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے ‘ اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔
 ساتواں اصول:
مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ(التوبة: 91)
’’محسنین پر کوئی الزام نہیں۔‘‘
انسانوں کے ساتھ معاملات کرنے کے بارے میں یہ اصول بیان ہوا ہے۔ غزوۂ تبوک رجب نوہجری میں پیش آیا۔ اس واقعے کے پس منظر میں قرآن حکیم نے یہ اصول بیان کیا ہے۔غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے والے کئی قسم کے لوگ تھے ‘اب سوال یہ تھا کہ کن لوگوں کا عذر قابل قبول ہے اور کن کا عذر قبول نہیں ہوسکتا؟
اس اصول کا مختصرتعارف:
جو شخص جہاد سے کسی حقیقی عذرکی وجہ سے غیر حاضر رہا اس پر کوئی گناہ نہیں اورنہ ہی کوئی حرج ہے۔ مثلاًوہ جسمانی طورپر کمزور تھا یا مالی کمزوری تھی۔
 اس اصول کی حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کی کوئی ذمہ داری اس وقت تک نہیں بنتی جب تک شریعت اس پر ذمہ داری نہ ڈالے‘ لہٰذا مذکورہ بالاآیت کے عمومی معنیٰ یہ ہیں کہ اصولی طور پر ہر انسان دوسرے انسان کی ذمہ داری سے بری ہے اِلاَّ یہ کہ کوئی ذمہ د اری قانونی طریقے سے ثابت ہوجائے۔
اس اصول کی عملی شکل یوں ہوتی ہے :
ہماری زندگی میں بہت سارے مواقع آتے ہیں جس میں احسان کا دراتھ نیکی کر سکیں اور کسی قسم کی خدمت کرسکیں۔ سب سے زیادہ یہ موقع گھر کے افراد مثلاً بیوی یا خاوند یا اولادکو ملتا ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ اس قرآنی اصول کے اُلٹ چلتے ہیں۔ اہل خانہ تو نیکی اور احسان کر رہے ہوتے ہیں اور یہ لوگ اُلٹا انہی کو ڈانٹ ڈپٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں خبر ہو یا نہ ہو‘ اس طرح یہ لوگ نیکی کا دروازہ بند کر دیتے ہیں یا انسانوں کے درمیان اس کا دائرہ تنگ کر دیتے ہیں۔
ہماری زندگی میں اس قسم کے واقعات باربار نظرآتے ہیں‘ ان پرغور کریں:
ایک آدمی دعوتی‘ معاشرتی یا خاندانی میدان میں اصلاح کا پروگرام لے کر اُٹھتا ہے اور اپنی ساری کوشش خرچ کرڈالتا ہے اور مال بھی خرچ کرتا ہے۔ وہ اس مقصد کوحاصل کرنے کے لیے دوسروں سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کام میں اس کی مدد کریں۔ لیکن کوئی اس کا مدد گار نہیں بنتا اور وہ اکیلا ہی کام شروع کر دیتا ہے۔ وہ اکیلا ہی محنت کرتا ہے اور مسلسل کرتا چلا جاتا ہے‘ تاکہ اس کا پروگرام کامیاب ہو جائے اور ایک اچھا خوبصورت نتیجہ نکل آئے۔ لیکن جب اس پروگرام سے فائدہ اُٹھانے کا وقت آتا ہے اور اس کے کام میں کچھ کمیاں کمزوریاںنظر آنے لگتی ہیں اور ایسی کمز وریاں ہر انسان کے کام میں ہوا کرتی ہیں تو بجائے اس کے کہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کی محنت کو سراہا جائے اور ساتھ ساتھ اس کی کمزوریوں کوحکمت کے ساتھ واضح کردیا جائے‘ ہوتا یہ ہے کہ اس پر لعن طعن کی بارش کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ اس شخص نے تعاون کے لیے دوسروں سے کہا تھا‘ لیکن کسی نے تعاون نہیں کیا‘ چنانچہ اس نے اکیلے ہی کام کو جاری رکھا‘ پھر جب پھل اُٹھانے کا وقت آیا تو اسے طعن و ملامت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اس لیے کہ اس شخص کے پاس وسائل تھوڑے تھے اور اپنی طاقت بھی کم تھی۔ کیا یہ شخص اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا حق دار نہیں بنتا:
 مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ(التوبۃ:91)
’’احسان کی روش اختیار کرنے والوں پر کوئی الزام نہیں۔‘‘
اس طرح کی مثالیں دوسری جگہ بھی پیش آتی رہتی ہیں‘ مثلاًگھر میں‘ اسکول میں ‘ تجارتی ادارے میں ‘بڑی کمپنی میں‘ سرکاری دفتر میں ‘ یاکسی نشرواشاعت کے ادارے میں۔ یہ صورتِ حال علماء‘ واعظوں ‘اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کام کرنے والوں اوردوسر ے لوگوں کے ساتھ بھی پیش آسکتی ہے۔ ہمیں اس اصول کو سمجھنے کی شدید ضرورت ہے اور نیکی کا کام کرنے والوں کی غلطیو ں کے ساتھ کس طرح نمٹنا چاہیے اس کو سیکھنے کی بھی ضرورت ہے‘ تاکہ نیکی کا دروازہ بند نہ ہو جائے۔ اس لیے کہ اگر نیکی کرنے والوں اور مفت خدمت کرنے والوں پر مسلسل طعن وملامت ہوتی رہی اور جن سے کچھ کر گزرنے کی اُمید تھی وہ دل تو ڑ کر بیٹھ گئے تو اُمت کے اجتماعی وفلاحی کام کو ن کرے گا؟
اس حقیقت کے باوجود جہاں توجہ دلانے کی ضرورت ہووہاں غلطی پرتوجہ دلانے یا صحیح بات پر توجہ دلانے سے غافل نہیں رہا جاسکتا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ توجہ دلانے کا اسلوب ایسا ہو کہ نیکی کرنے والے کی محنت محفوظ رہے اور غلطی پر توجہ بھی ہو جائے‘ تاکہ کام میں ترقی ہوتی رہے اور کام کے معیار اورخوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا رہے۔
ہم اس اُصولِ قرآن کی بات کررہے ہیں تو اس میں یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ جو اصول بیان ہو چکا ہے (کہ نیکی کرنے والے کی ناقدری نہ ہو) اور اس بات کو گڈمڈ نہ کر دیا جائے کہ جب کوئی آدمی ذمہ داری قبول کر لے تو پھر وہ اس حجت کے ساتھ اس کام کو درمیان میں چھوڑ دے کہ وہ تو محض نیکی کے جذبے کے ساتھ یہ کام کر رہا تھا۔ یہ بات اس قرآنی قاعدے کی غلط تعبیر ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ دوسرے کے ساتھ وعدہ کرنے سے پہلے پہلے وہ آدمی نیکی اور احسان کے دائرہ کار میں تھا‘ لیکن جب اس نے کسی کام کو کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی تو اب وہ فرض وواجب کے حدود میں چلا گیا ہے۔ اب کوتاہی کی صورت میں اس کا حساب بھی ہو سکتا ہے اور سزا بھی مل سکتی ہے۔ میں نے اس بات کی طرف اس لیے توجہ دلائی ہے کہ بہت سارے لوگ اس اصول کو غلط سمجھے ہیں اور اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ نتیجتاً اس نے باہمی نفرت کو جنم دیا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک فریق سمجھ لیتا ہے کہ دوسرے آدمی نے ذمہ داری قبول کر لی ہے اور پہلا فریق اللہ تعالیٰ کے بعد دوسرے فریق پر اعتماد کر بیٹھتا ہے‘ جب کہ دوسرا فریق راستے میں ذمہ داری کو اس حجت کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے کہ وہ تو بس نیکی کمانے والا تھا۔ نیکی اور احسان تو دور کی بات ہے‘ سارا معاملہ اُلٹ ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)

Read 1050 times Last modified on 17 Jul,2016
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in جنوری 2016

Related items

  • قرآن کریم میں یہود کی بری خصلتوں کا تذکرہ  
    in جون ، جولائی 2021
  • رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہودیوں کے معاندانہ رویوں کے اسباب
    in جون ، جولائی 2021
  • مقامِ صحابہ بزبانِ کلام اللہ تعالیٰ
    in اکتوبر نومبر 2020
  • معاشرتی مسائل اور قر آن و سنت کی تعلیمات
    in دسمبر 2019
  • اسلام میں اصولِ قیادت
    in دسمبر 2019
More in this category: « جهانِ تازه (چمنستانِ حدیث) ازدواجی زندگی مقاصد | تعلیمات | حقوق »
back to top

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2016