پہلا خطبہ:
حمد و صلاۃ کے بعد:
حکمِ الہی کے مطابق تقوی اختیار کرو، اور جن امور سے اس نے روکا ہے، ان سے رک جاؤ۔
اللہ کے بندو!
تمہارے رب نے اس کائنات کو ایک مقررہ وقت تک کیلئے آباد کرنے کا شرعی اور کونی ارادہ فرمایا، اور یہ آباد کاری باہمی تعاون، اتحاد و اتفاق ، اور زندگی کی بنیاد عدل و انصاف پر مبنی مفید اصولوں پر رکھنے کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔
انسان کو اس زمین پر نائب بنایا گیا کہ زمین پر آباد کاری کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے، اور یہاں رہتے ہوئے اللہ کی عبادت کرے، کیونکہ انسان کی خوشحالی کا راز اللہ کی بندگی اور بد بختی اللہ کی نافرمانی میں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ(النور : 52)
’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اللہ سے ڈرے، اور اس کی نا فرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ با مراد ہیں ‘‘
اسی طرح فرمایا:
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدودسے آگے نکل جائے اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا(النساء : 14)
ایک مقام پر فرمایا:
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ
اور اگر حق ان کی خواہشات کے مطابق ہوتا تو یہ زمین و آسمان اور ان میں جو کچھ ہے ان سب کا نظام درہم برہم ہو جاتا (المؤمنون : 71)
اس دنیا میں انسان کی تخلیق کا سب سے پہلا مرحلہ اللہ اور اسکے رسول کے طریقے کے مطابق بیوی کا حصول ہے، خاوند و بیوی میں باہمی تعاون، پیار، انس اور محبت کامل ترین صورت میں ہوتی ہے، انکے مقاصد و اہداف یکساں ہوتے ہیں، میاں بیوی باہمی تعلقات کے دوران عظیم تعمیری اور فطرتی تسکین حاصل کرتے ہیں، اور نیک اولاد کی صورت میں بلند اہداف و مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بیوی نسلوں کی پرورش گاہ، نو مولود بچوں کیلئے پہلی درس گاہ، اور بچوں کی تعمیری رہنمائی و اصلاح کیلئے تربیت گاہ ہے۔
ماں اور باپ کا اپنی اولاد پر ہمیشہ اثر رہتا ہے، اگر والدین نیک ہوں تو حقیقت میں وہی کسی بھی اچھے معاشرے کی بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
والدین چھوٹوں کیلئے پیار، رحمت، شفقت، محبت، اور الفت کا گہوارہ ہیں۔
اصل میں رشتہ داری اور قرابت داری یہ ہے کہ جس کی وجہ سے باہمی تعاون، شفقت، کفالت، ربط، محبت پیدا ہو اور حوادثات زمانہ میں ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے۔
نکاح ازلی رسم و رواج ہے، اس کے ان گنت فوائد اور لامتناہی برکتیں ہیں، نکاح ایسے ابدی طریقوں میں سے ہے جس کے فوائد کبھی ختم نہیں ہونگے۔
نکاح انبیائے کرام، اور رسولوں کی سنت بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً(الرعد : 38)
اور یقیناً ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے، اور ہم نے ان کیلئے بیویاں اور اولاد بھی بنائی
اسی طرح مؤمنوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں، اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔(الفرقان : 74)
بلکہ نکاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ (النور : 32)
اور تم میں سے جو لوگ غیر شادی شدہ ہیں ان کے نکاح کر دو ، اور اپنی نیک صالح لونڈی، غلاموں کے بھی ،اگر وہ محتاج ہیں تو اللہ اپنی مہربانی سے انھیں غنی کر دے گا۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود tسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (نوجوانو! جو تم میں سے نکاح کے اخراجات کی استطاعت رکھتا ہے، تو وہ نکاح کرلے کیونکہ اس سے نظریں نیچی اور شرمگاہ کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اور جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھے، اس طرح اسکی شہوت کم ہو جائے گی ۔(بخاری و مسلم )
حدیث میں مذکور’’الباءۃ‘‘ سے مراد حق مہر، نان و نفقہ، اور رہائش کے اخراجات ہیں، جو ان کی استطاعت نہیں رکھتا اور اسے نکاح کی ضرورت بھی ہے تو وہ روزے رکھے، روزوں کا اسے ثواب بھی ملے گا، اور شہوت بھی کم ہوگی اور اللہ کی طرف سے شادی میسر ہونے تک روزے ہی رکھتا رہے۔
سیدناانس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: کچھ لوگوں نے امہات المؤمنین سے آپکی تنہائی کی عبادات سے متعلق استفسار کیا، تو ان میں سے کچھ نے کہا: ’’میں شادی نہیں کرونگا‘‘اور کچھ نے کہا: ’’میں گوشت نہیں کھاؤں گا‘‘، اور کچھ نے کہا کہ : ’’میں بستر پر آرام نہیں کرونگا‘‘ انکی یہ باتیں نبی ﷺ تک پہنچیں تو آپ ﷺ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہو گیا ہے!؟ انہوں نے کچھ ایسی ویسی باتیں کیں ہیں! لیکن میں (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں، اور آرام بھی کرتا ہوں، (نفلی)روزے رکھتا بھی ہوںاور افطار بھی کرتاہوں اور شادیاں بھی کی ہوئیں ہیں، جو شخص بھی میری سنت سے اعراض کرے، تو وہ مجھ سے نہیں ‘‘(بخاری مسلم)
اسلام نے نکاح کی استطاعت اور ضرورت رکھنے والے پر اسے واجب قرار دیا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ : ’’محبت کرنے والی اور بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو، یقیناً میں تمہاری کثرت کی وجہ سے قیامت کے دن دیگر انبیاء پر فخر کرونگا‘‘(اسے احمد نے روایت کیا ہے، اور ابن حبان نے سیدناانس رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے)
نکاح زوجین کیلئے پاکیزگی اور عفت کا باعث ہے، اسی کی بدولت معاشرے کی اصلاح ہوگی اور انحراف سے تحفظ ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
نیز جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے پر راضی ہوں ، جو کوئی تم میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے، یہی تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ ہے؛(اپنے احکام کی حکمت) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔(البقرہ : 232)
نکاح معاشرے کو زنا، اور لواطت سے تحفظ فراہم کرتا ہے، اور کسی بھی علاقے میں زنا عام ہو جائے تو اللہ تعالی ان پر غربت اور ذلت مسلط فرما دیتا ہے، اور وہاں ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو پہلے لوگوں میں نہیں تھیں، مزید بر آں کہ زنا کاروں کیلئے آخرت میں عذاب و رسوائی بھی ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (الفرقان : 68 - 69)
اور وہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پاکے رہے گاقیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔
لواطت کا ارتکاب کرنے والے کا دل تباہ، فطرت الٹ، نفس خبیث ، اور اخلاق بگڑ جاتا ہے، اسے دنیا و آخرت میں شدید ترین سزا دی جائی گی، اور ہم قوم لوط پر نازل ہونے والی سزائیں جانتے ہیں، جو ان سے پہلے کسی اور قوم کو نہیں دی گئیں تھیں، ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی، جبریل علیہ السلام نے ان کے علاقوں کو آسمان تک اٹھا کر الٹا گرایا، اور سب کو تہ و بالا کر دیا، اور اللہ تعالی نے ان پر پتھر بھی برسائے، نیز انہیں دائمی جہنمی قرار دیا۔
اس جرم کی سنگینی کے باعث نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’لواطت کرنے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہو، لواطت کرنے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہو، لواطت کرنے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہو‘‘
نکاح : زنا و لواطت سے تحفظ، دلی پاکیزگی اور تزکیہ نفس کا باعث ہے، اور عبادتِ الٰہی اور زمینی آباد کاری کیلئے مسلسل نسلیں پیدا ہونے کا ذریعہ ہے۔
شرعی طور پر خاوند کو با اخلاق، دیندار، اور خوبصورت بیوی اختیار کرنے کا حق ہے، اس بارے میں آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’عورت سے شادی چار چیزوں کی بنا پر کی جاتی ہے، مال، حسب نسب، خوبصورتی، اور دین کی وجہ سے، تم دیندار خاتون تلاش کرو، (اگر تم نہ مانو تو) تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں‘‘
( اسے بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)
اسی طرح عورت کو دیندار اور با اخلاق خاوند اختیار کرنا چاہیے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی کس سے کروں؟ تو آپ نے فرمایا:’’کسی متقی سے اس کی شادی کرو، کیونکہ اگر وہ اس سے محبت کریگا تو اس کی عزت کریگا، اور اگر ناپسند ہوگی تو ظلم نہیں کریگا‘‘
اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’جب تمہارے پاس شادی کیلئے لڑکی کا رشتہ آئے اور تمہیں دینی اور اخلاقی اعتبار سے اچھا بھی لگے تو تم اسے بیاہ دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین پر وسیع و عریض فتنہ فساد بپا ہو جائے گا ‘‘(ترمذی نے اسےسیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)
کسی بھی لڑکی کو اسے ناپسند لڑکے کیساتھ شادی پر مجبور نہ کیا جائے، بلکہ لڑکی کی رضا مندی بھی ضروری ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’بیوہ کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کی جائے‘‘صحابہ کرام نے کہا: "اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے پتہ چلے گی؟" تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی خاموشی اسکی اجازت ہے‘‘( بخاری و مسلم )
اگر اچھا رشتہ آئے اور لڑکی بھی نکاح کے قابل ہو تو لڑکی کا ولی نکاح میں تاخیر مت کرے، کیونکہ یہ اس کے پاس امانت ہے،اور قیامت کے دن اس کے بارے میں استفسار بھی ہوگا۔
ولی لڑکی کی پڑھائی کی وجہ سے رشتے میں تاخیر مت کرے، کیونکہ دونوں پڑھائی جاری رکھنا چاہیں تو ایک دوسرے کا تعاون کر سکتے ہیں، اسی طرح اُسے اپنی بقیہ زندگی میں شادی کی تاخیر کے باعث نقصان بھی اٹھانا پڑسکتا ہے۔
اسی طرح ولی رشتہ مانگنے والوں کو لڑکی کی ملازمت سے ملنے والی تنخواہ کھانے کیلئے مسترد نہ کرے، کیونکہ اس لالچ کی وجہ سے لڑکی ضائع ہو جائے گی، اور نعمتِ اولاد سے محروم رہے گی، یہ حقیقت میں عورت پر زیادتی ہے، بسا اوقات اپنے ولی کے خلاف وہ بد دعا بھی کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے ولی کو ناکامی کا سامنا کرناپڑ سکتا ہے، اور یہ مال اسے قبر میں کوئی فائدہ بھی نہیں دے گا۔
لڑکی اور لڑکے کیلئے نکاح سے قبل استخارہ کرنا بھی شرعی عمل ہے، اس میں استخارے کی مخصوص دعا مانگی جائے گی۔
اسی طرح حق مہر کے تعین کیلئے میانہ روی اختیار کرنا شریعت کا تقاضا ہے، تا کہ بیوی کو فائدہ بھی ہو ، اور خاوند پر زیادتی بھی نہ ہو، کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’بہترین حق مہر وہ ہے جو آسان ترین ہو‘‘( ابو داود، حاکم )
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: جب سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی شادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’فاطمہ کو کچھ دو‘‘ توسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: "میرے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں ہے"، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری حطمی ذرہ کہاں ہے؟‘‘( ابو داود اور نسائی)
اور ذرہ کی قیمت بہت تھوڑی ہوتی ہے، جو کہ چند درہموں سے زیادہ نہیں ہوتی، حالانکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں جہانوں کی خواتین کی سردار ہیں۔
شادی میں آسانی کیلئے سلف صالحین کے واقعات بہت زیادہ ہیں ۔
شادی کے بعد اللہ تعالی میاں بیوی کو بہت سی نعمتوں سے نوازتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ: ’’جو شخص شادی کر لے تو اسکا آدھا دین مکمل ہو گیا، اور باقی نصف میں اللہ سے ڈرے‘‘ (طبرانی اوسط)
میاں بیوی کو ازدواجی بندھن قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے، کہ کہیں یہ ٹوٹنے نہ پائے، کیونکہ یہ ایک عظیم رشتہ ہے۔
خاوند کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرے، چنانچہ بیوی کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے رہائش، اور نان و نفقہ کا انتظام کرے، اور اسے اپنی جمع پونجی خرچ نہ کرنے دے، چاہے وہ مالدار یا ملازمت پیشہ ہی کیوں نہ ہو، ہاں اگر اپنی خوشی سے کرے تو یہ اس کی مرضی ہے، لہذا اگر کوئی خاتون خرچے کے معاملے میں اپنے خاوند کا ہاتھ بٹاتی ہے ، تو اس پر اسے اجر ضرور ملے گا۔
خاوند بیوی کیساتھ کامل حسن معاشرت سے پیش آئے، اچھا سلوک کرے، اور قولی ہو یا فعلی کوئی بھی بد سلوکی مت کرے نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہے، اور میں اپنے اہل خانہ کیلئے تم سے بہتر ہوں‘‘(ابن ماجہ اور حاکم)
ب خاوند کے حقوق ادا کرے، اس کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آئے، نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت کرے، اسے تنگ نہ کرے، اس کے بچوں، والدین، اور رشتہ داروں کا خیال کرے، خاوند کے مال اور عدم موجودگی (میں گھر )کی حفاظت کرے۔
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالی ایسی خاتون کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنے خاوند کا شکریہ ادا نہیں کرتی، حالانکہ اسے خاوند کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں‘‘(حاکم ۔ صحیح الاسناد )
میاں بیوی کو اختلافات شروع ہوتے ہی ختم کر دینے چاہیئیں، تا کہ یہ لڑائی اور شر کا باعث نہ بنیں، اور طلاق کی نوبت ہی نہ آئے، کیونکہ شیطان طلاق سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اور نتیجۃً خاندان اجڑ جاتا ہے، اولاد منحرف اور بکھر جاتی ہے۔
میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسری کی کمی کوتاہی پر صبر کریں، کیونکہ معاملات سدھارنے کیلئے صبر جیسا کوئی اکسیر نہیں، اس لئے کہ صبر کے نتائج قابل ستائش ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا(النساء : 19)
اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہن سہن رکھو، اگر تم انہیں ناپسند کرو؛ تو بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی پیدا کر دے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی مؤمن مرد کسی مؤمن عورت سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی ایک بات ناگوار گزرے تو دیگر خوبیوں سے راضی ہو جائے‘‘( مسلم)
ایک حدیث میں ہے کہ:’’شیطان اپنے لشکروں کو کہتا ہے کہ: "آج تم میں سے کس نے مسلمان کو گمراہ کیا ہے؟ میں اسے قریب کر کے تاج پہناؤں گا! تو ایک آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے اپنے والدین کی نافرمانی کر لی" تو شیطان کہتا ہے: "ہو سکتا وہ صلح کر لے" دوسرا آ کر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے چوری کر لی" تو شیطان کہتا ہے: "ممکن ہے وہ بھی توبہ کر لے" تیسرا آ کر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ وہ زنا کر بیٹھا" تو شیطان کہتا ہے: "ہو سکتا ہے یہ بھی توبہ کر لے" ایک اور آ کر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق ہی دے دی" تو اب کی بار ابلیس کہتا ہے کہ : "تو ہے تا ج کا مستحق!!" تو اسے اپنے قریب کر کے تاج پہناتا ہے‘‘(مسلم)
یہ صرف اس لیے ہے کہ طلاق کے نتائج بہت ہی بھیانک اوراس پر مرتب ہونے والے اثرات انتہائی سنگین ہوتے ہیں، طلاق کی وجہ سے میاں ، بیوی سمیت بچے بھی بہت نقصان اٹھاتے ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو شیطانی چالوں اور اس کی مکاریوں سے محفوظ فرمائے۔
اور جس کیلئے ابتدائی طور پر شادی کرنا مشکل ہو تو عفت و صبر کا دامن مت چھوڑے، اور اپنے آپ کو خود لذتی ، زنا، منشیات اور غیر فطری عمل سے بچائے، حتی کہ اللہ تعالی شادی کیلئے آسانی فرما دے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ (النور : 33)
اور جو نکاح کرنے کے وسائل نہ پائیں انہیں چاہیے کہ پاک دامنی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے
لوگوں کو دعوتِ ولیمہ میں فضول خرچی سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (الإسراء : 27-26)
فضول خرچی بالکل مت کروکیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اگر ولیمہ یا کسی بھی تقریب کے کھانے میں سے کچھ کھانا بچ جائے تو اسے پھینکنا جائز نہیں ہے، بلکہ ایسے لوگوں تک پہنچایا جائے جو اس سے مستفید ہوں اور اسے کھا لیں، ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ(النحل : 72)
اللہ نے تمہارے لئے تمہی میں سے بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے بنائے اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا کیا، کیا پھر وہ باطل (معبودوں) پر یقین رکھتے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں؟
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو غالب اور بخشنے والا ہے، وہی بردبار، اور قدر دان ہے، میں اپنے رب کی حمد اور شکر بجالاتا ہوں، اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور بخشش طلب کرتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اسی کی بادشاہی اسی کی حمد ہے، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ خوش خبری دینے والے، اور ڈرانے والے ہیں، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمدﷺ ، انکی آل اور نیکیوں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اطاعتِ الٰہی بجا لاتے ہوئے تقوی الٰہی اختیار کرو، غضب و معصیتِ الٰہی سے بچو، کیونکہ کامیاب لوگ تقوی الٰہی کے ذریعے ہی کامیاب ہوتے ہیں، اور نقصان اٹھانے والے لوگ شریعتِ الٰہی سے رو گردانی کے باعث ہی ناکام ہوتے ہیں۔
اللہ کے بندو!
نیکیوں کے راستے بہت زیادہ، اور جنت کے راستے بہت کشادہ ہیں، کامیاب وہی ہے جو نیکی کے ہر دروازے پر دستک دے، اور محروم وہی ہے جو نیکیوں سے بے رغبت رہے اور گناہوں کا دلدادہ ہو۔
جو شخص اپنے لئے اور مسلمانوں کیلئے مالی طور پر احسان کرے تو اللہ تعالی اس کے مال میں برکت عطا فرماتا ہے اور خرچ شدہ سے بھی بہتر عطا فرماتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ(سبأ : 39)
’’اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو تو اللہ تمہیں واپس لوٹا دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے‘‘
اسی طرح فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ (البقرة: 254)
اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل از کہ ایسا دن آئے جس میں لین دین، دوستی، سفارش کچھ نہیں ہوگا، اور کافر ہی حقیقت میں ظالم ہیں۔
اور حدیث میں ہے کہ : ’’صدقہ مال میں کمی کا باعث نہیں بنتا، اور معاف کرنے سے اللہ تعالی انسان کی عزت ہی بڑھاتا ہے‘‘
اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ : ’’جس دن بھی سورج طلوع ہوتا ہے روزانہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ: یا اللہ! (تیری راہ میں) خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما، اور دوسرا کہتا ہے کہ: یا اللہ! کنجوس کا مال تلف فرما دے‘‘
نیکی کا دروازہ یہ بھی ہے کہ مالدار لوگ شادی کے خواہشمند افراد کا تعاون کریں، اس سلسلے میں قرض، عطیات فراہم کریں، اس کیلئے خصوصی فنڈ قائم کیا جائے، اس خیراتی کام کیلئے سرمایہ لگائیں، اور اس پر مکمل توجہ دیں، اور اس سے حاصل ہونے والے منافع کو مستحقین تک پہنچائیں، کیونکہ بہت سے نوجوانوں کی شادیاں مالی زبوں حالی کی وجہ سے ہی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ[المائدة : 93]
احسان کرو، اللہ تعالی احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
صاحب استطاعت والد کیلئے اپنے بچوں کی شادی کرنا ضروری ہے، تا کہ بچوں کا حق ادا ہو سکے، اور بچوں کیلئے فتنوں سے تحفظ حاصل ہو۔
مسلمانو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو، اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: ’’جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا‘‘(الاحزاب: 56)
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر کثرت کیساتھ درود پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ،كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد ۔
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،یا اللہ! حق و انصاف کیساتھ فیصلے کرنے والے اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہوجا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا،
یا اللہ! تمام فتنوں کی سرکوبی فرما، یا اللہ امت محمدیہ سے تمام فتنوں کو ختم فرما دے، یا اللہ! یمن کے مسائل کو جلد از جلد حل فرما دے، یا رب العالمین! یا اللہ! یمن کا مسئلہ اسلام اور مسلمانوں کی سر بلندی اور ہماری فوج کی سلامتی کیساتھ حل فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! یمن کا مسئلہ حل فرما، اور اس مسئلے کو مسلمانوں کیلئے سلامتی اور امن والا بنا، یا اللہ! دائمی رسوائی ، تباہی اور ذلت منافقوں کا مقدر بنا دے، یا رب العالمین! یا اللہ! دائمی رسوائی ، تباہی اور ذلت بدعتیوں کا مقدر بنا دے، جنہوں نے اسلام میں بدعات ایجاد کی، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمارے ملک کی ہر قسم کے شر و مکر سے حفاظت فرما، یا رب العالمین!
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (النحل: 90- 91)
’’اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے‘‘
اللہ کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔