لاإلٰہ الااللہ کے انکار سے جیسے آدمی دوزخ کا ایندھن بنتاہے جبکہ اس کے اقرار سے وہ جنت کا وارث بن جائے گا بشرطیکہ زندگی ایمان و یقین اور اعمال صالحہ والی ہو ئی کیونکہلاالٰہ کہہ کر اقرار کیا جاتاہے کہ الٰہ (کرنے والا) کو ئی نہیں ہے یعنی دنیا میں لوگوں نے جو الٰہ ’’کرنی والے ‘‘ بنا رکھے ہیں یہ الٰہ اور کرنی والے نہیں ہیں کیونکہ وہ کر کچھ نہیں سکتے لا الٰہ کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ میں کسی کے سامنےنہ جھکوں گا کسی کی عبادت نہ کروں گا کسی کو کرنی والا نہیں سمجھوں گا اس اقرار کے بعد اب وہ اگر کسی قبر کے سامنے یا کسی زندہ یا مردہ کے سامنے جھک گیا تو اس کا یہ اقرار ختم ہوگیا اس نے عملاً انکا ر کردیا پھر اللہ تعالی کو سجدہ کرکے بتا رہا ہے کہ یہ الٰہ ہے جو میری مدد کر تا ہے ، لوگوں نے الٰہ بھی اس لیے بنا رکھے ہیں کہ جیساکہ ارشاد باری ہے :
وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنْصَرُوْنَ
اور وہ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں تاکہ وہ مدد کئے جائیں(سورہ یاسین :74)
اس کے اس عمل سےلا الٰہ کا اقرار ختم ہوگیا اور وہ مشرک ہوگیا ،الااللہ کا مقصد یہ بتایا اللہ پاک ہی صرف الٰہ ہے میں صرف اس کے سامنے ہی سر کو جھکاؤں گااسی ہی کی عبادت کروں گااب وہ اس اقرار کے بعد اگر اللہ پاک کے سامنے نہیں جھکتا ، نماز نہیں پڑھتا اللہ کی عبادت نہیں کرتا تو اس کا یہ اقرارالااللہ بھی ختم ہوگیا کیونکہ الااللہکہنے کے بعد آذا ن کے آواز اس کے کانوں میں پڑی تو وہ مسجد میں نہیں آیا آذان سنتا ہے مگر مسجد میں نہیں آتاتواس کا ’’الااللہ‘‘ بھی ختم ہوگیا اسی لیے بحکم حدیث ایسے بے نمازی پر شریعت کا فتویٰ لگاتی ہے ، چنانچہ حدیث میں آتاہے جناب جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ(صحيح مسلم (1/ 88)
’’نماز ہی وہ عمل ہے کہ جس سے آدمی اور کفر میں تفریق ہوتی ہے ‘‘
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمِ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ(سنن النسائي (1/ 231)
’’وہ معاہدہ جو ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان ہے وہ نماز ہے جس نے اس کو ترک کیا تو اس نے کفر کیا ‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ(تعظيم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزي (2/ 889)
’’کہ جس نے نماز ترک کی اس نےکھلا کفر کیا ‘‘
یہی وجہ ہے کہ علماء دین وضاحت کرتے ہیںکہ لا الٰہ الا اللہ کا معنی ہے یقین کی تبدیلی یعنی اس اقرار سے یقین بتوں کے ساتھ اٹکا ہوا تھا قبروں کے ساتھ تھا زندوں اور مردوں کو سجدے کرنے کے ساتھ تھا جب لاالٰہ الااللہ کا یقین آگیا تو دنیا کی ہر چیز سے ہٹ کر صرف اللہ پاک سے ہر کام کے ہونے کا یقین دلوں میں آگیا اور محمد رسول اللہ کہنے سے اعمال میں تبدیلی آگئی اس اقرار سے پہلے آدمی اپنی مرضی سے زندگی گزار ہا تھا شادی اپنی مرضی کی ، کاروبار اپنی مرضی کا لین دین اپنی خواہش کے مطابق ہر عمل اپنی چاہت کا جب محمد رسول اللہ ﷺ کا اقرار اور شہادت دی تو اب اپنی مرضی وخواہش ختم ہوگئی اب جو نبی ﷺ حکم ہوگا اس پر عمل ہوگاصحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم نے بھی یہی کیا لاالٰہ کا اقرار کیا تو پھر اپنی زندگی کو مکمل طور پر اس کے مطابق ڈھال لیا اور دنیا میں ہی جنتوں کی بشارتیں مل گئی اللہ کی رضا نصیب ہوئی اور ایسا بلند مقام ومرتبہ حاصل ہواکہ اگلے اور پچھلوں پہ سبقت لے گئے ، لیکن آج ہم بھی کلمہ پڑھتے ہیںاور اقرار کرتے ہیں مگر ہمیں وہ عروج مقام ومنزلت حاصل نہیں الا یہ کہ کو ئی شخص اس طرح زندگی گزارے جس طرح صحابہ کرام نے گزار ی کامیابی اسی کے لیے ہے۔
المیہ : آج ہمیں اس کلمہ کی عظمت و اہمیت کا ہی علم نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ کلمہ توحید کے کلمات کا صحیح تلفظ ہی نہیں کرپاتے جبکہ یہ کلمہ ہماری دنیا وی اور اخروی نجات کی بنیاد ہے اس کمی کو درست کیا جائے کہ کلمہ سناؤ اولاً توی وہ سنائے گا ہی نہیں کہے گا کیوں میں مسلمان نہیں ہوں میرے مسلمان ہونےمیں آپ کو کوئی شک ہے ، ثانیاً اگر سنا دے تو تلفظ ہی بڑا غلط ہوگا میں علماء کرام سے مؤدبانہ گزارش کرتاہوںجہاں وہ دروس کے لیے وقت نکا لتے ہیںدعوت و تبلیغ کے لیے قریہ قریہ چکر لگا تے ہیں وہاں اپنے قریب بیٹھنے والوں سے بار بار کلمہ سنا کریں تاکہ ان کے الفاظ تو درست ہوجائیںاور پھر ان کا اس کا مطب بھی بتائیں کہ کلمہ پڑھنے کے بعد ہم نے اپنی مرضی نہیں کرنی بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے احکامات کی پابندی کرنی ہے جس طرح صحابہ نے عمل کر کے دکھایا ۔
اگر مطلب نہ آئے تواس کا اثر بھی نہیں ہوگا اور تبدیلی بھی نہیں آئے گی یہی وجہ ہے کہ کلمہ بھی پڑھا جاتاہے اور جھوٹ بھی بولا جاتا ہے کلمہ بھی پڑھا جاتا ہےاور کا روبار بھ دو نمبر کیا جاتاہے، کلمہ کا اقرار بھی کیا جاتا ہے لیکن نماز روزہ حج، زکوٰۃ کی کو ئی پرواہ نہیں، کلمہ پڑھنے کے بعد سودی کاروربار، لینا دینا کھاتہ کھلانا سب حرام ہے، یہ کلمہ اگر اس کو نہیں روک رہا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اس کا معنی سمجھ نہیں آیا۔
دنیا کی کوئی کتا ب یا کلام بغیر مفہوم سمجھے نہیں پڑھی جاسکتی مگر اللہ کی کتاب یا کلمہ توحید بڑا مظلوم ہے کہ اس کا معنی ومفہوم سمجھے بغیر ہی لوگ اس کو پڑھتے ہیں۔
میرے عزیزو! مجھے کبھی کبھی اتفاق ہوتاہے کہ میں عام لوگوں سے کلمہ سن لیتا ہوں سو میں سے پچانوے آدمی غلط پڑھتے ہیں مثلاً لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی محمد کی دال پر دو پیش ہیں پچانوے فیصد دال پر زبر پڑھتے ہیں کوئی محمد کی دال کو ساکن پڑھتا ہے کوئی رسول کی لام کے نیچے زیر پڑھتا ہے کو الا کے نیچے زیر پڑھتا ہے کوئی اللہ کو لولہ پڑھتا ہےکوئی لا الٰہ الا اللہ سارے جملے کو لا لہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے اس کے آخر ی تلفظ کا کچہریوں میں مشاہدہ ہوتا ہے العیاذ باللہ ان حالات میں تو علماء کرام اور قراء عظام ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیںپھر یہ کلمہ ہماری بنیاد ہے جب یہ ۔۔۔۔۔عقیدہ کیسے صحیح ہوگا؟
خشیت اول چوں نہد معمار کج
تاثر یامی رو دیوار کج
یاد رکھنا کہ اس کو صحیح پڑھنے اور اس پر عمل کرنے سے جنت ملتی ہے مگر ہماری حالت یہ ہےکہ ہمیں اس کی خبر ہی نہیں ہے پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ اس کا معنی کیا ہے؟ اس کا ہم سے تقاضا کیا ہے؟ اس کا ہم سے مطالبہ کیا ہے؟ یہ بھی علم نہیں کہ اس کا وزن کتنا ہے؟ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ نبی مکر م ﷺ نے فرمایا کہ سیدنا موسی علیہ السلام نے اللہ پاک سے عرض کیا :
قال: يا موسى قل: لا إله إلا الله، قال: يا رب كل عبادك، يقول هذا، قال:قل:لا إله إلا الله، قال:لا إله إلا أنت يا رب،إنما أريد شيئا تخصني به، قال:يا موسى لو كان السماوات السبع،وعامرهن غيري، والأرضين السبع في كفة، ولا إله إلا الله في كفة مالت بهن لا إله إلا الله(المستدرك على الصحيحين للحاكم (1/ 710)
’’اے میرے پر وردگار مجھے کوئی ایساظیفہ بتا جس سے میں تیرا ذکر کروں یا تجھ سے دعاکروں اللہ نے فرمایااے موسیٰ : لاالہ الااللہ پڑھا کر و موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب یہ وظیفہ تو تیری سارے بندے کرتے ہیں میں تو چاہتا ہوں کوئی خاص عمل مجھے بتایا جائے اللہ تعالی نے فرمایا اے موسیٰ ! اگر ساتوں آسمان میرے سوا وہاں رہنے والے سارے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لا الہ الا اللہ ایک پلڑے میں رکھا جائے تو لا الٰہ الا اللہ والا پلڑا بھاری ہوجائے گا‘‘ اللہ اکبر۔
نکتہ: اس حدیث میں ایک بڑا نکتہ اور لطیف اشارہ ہے کہ جب لا الہ الا اللہ وا لا پلڑا بھاری ہوجائے گا تو معلوم ہوا کہ جس آدمی کا اقرار اور اس کے دل میں میں یقین پختہ ہوگا تو بالفاظ دیگر جس کے سینے میں یہ داخل ہوگیا تو وہ بھی بڑا وزنی ہوجائے گا اور وہ بڑا قیمتی ہوجائے گا پھر اللہ تعالی اس کو اپنی بہت قیمتی جنت میں داخل فرمائے گااور اس سے بھی زیادہ عظمت والی شے اس کو عطا کرے گا یعنی اللہ اپنا دیدار کروائے گا، اس کے برعکس جس سینے میں یہ کلمہ داخل نہ ہوگا اس کے بارے میں ارشاد ہے :
فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا(سورہ کہف:105)
’’پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے‘‘
ایسے آدمی کے اعمال کا وزن اس لیے نہ ہوگا کیونکہ وزن والی شے اس ے سینے میں نہیں ہوگی ، آپ یہ سمجھیںلیں سارا دین اور ساری شریعت اس کلمہ کے اندر آگئی ہے ، اسی لیے نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يا أيها الناس قولوا لا إله إلا الله تفلحوا
(سنن الدارقطني (3/ 463)
مقصد یہ ہے کہ یہ کلمہ فلاح کامل کا ضامن ہے کیونکہ یہ کلمہ درس دیتاہے کہ مجھے پڑھنے بعد تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اداکرو اس کی تفہیم یہ ہے کہ جب کہا لا الٰہکہ الٰہ کوئی نہیں دوسرا نہ ماننا امر منکر ہے تو یہ حصہ کہتاہے کہ لوگوں کو سمجھاؤ کہ اتنے حصے کا معنی یہ ہے کہ جو تم نے الٰہبنا رکھے ہیں وہ الٰہ نہیں ہیں اس کو پڑھ کر منکرات سے لوگوں کو روکنا ہے اور الااللہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ الٰہ صرف اورصرف ایک اللہ پاک ہی مقصد یہ امر موقوف ہے لوگوں کو اس کا حکم دو تاکہ لوگ برائی سے رک جائیں اور نیکی ، بھلائی اور معروف کا طرف آجائیں ہمارا سارا دین ہی دعوت ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگر مکہ اور مدینہ میں نمازوں کے ثواب کے حصول کے لیے بیٹھے رہنے ، دعوت وتبلیغ کے قافلے نہ نکلتے تو دین کہاں پھیلنا تھا وہ نماز پڑھتے اور روزے رکھتے ، حج اور عمرے کرتے پھر کاروبار میں لگے رہتے توپوری دنیا دین سے خالی رہتی مگر انہوں نے بڑے عظیم ثواب کے چھوڑ کر اس سےبڑا کا م (دعوت وتبلیغ) کے لیے نکلنا پسند کیا تو اس سارے نمازیوں ، روزہ داروں ، حاجیوں اور دیگر نیک اعمال کرنے والوں کو جو ثواب مل رہا ہے ، صحابہ کرام بھی اس میں برابر کے شریک ہیںاورکتنا فائدہ مند سودا ہے یہ کا م روز کرناہے اور کرتے کرتے مرنا ہے ہر حال میں کرنا ، اسی لیے کہا گیا ۔
یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ
------------
اللہ تعالی کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ رحمت کا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ بندے گناہ درگناہ کرتے رہیں وہ تب بھی انہیں ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی چاہے تو بندوں کے گناہ پر فورا سزا دے دے مگر اسکا ڈھیل دینا بھی اس کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتاہے:
وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ ۭ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۭ بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ يَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىِٕلًا( الکہف 58 )
’’ تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بیشک انھیں جلدی عذاب کردے، بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے‘‘
یعنی اللہ تعالی عذاب دے نے میں جلدی نہیں کرتابلکہ اپنی رحمت کے معاملے کو جاری رکھتے ہوئے ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا :
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا
’’اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب سخت گیری فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن اللہ تعالیٰ ان کو میعاد معین تک مہلت دے رہا ہے سو جب ان کی میعاد آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا‘‘( فاطر45 )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے پاس عرش پر ایک کتاب لکھی اور اس میں یہ بات بھی لکھی:
ان رحمتی سبقت غضبی(صحیح البخاری:7422)
’’بے شک میری رحمت میرے غصے پر سبقت لے گئی۔‘‘ یعنی اللہ کی رحمت اس کے غصے اور عذاب پر غالب ہے۔ اسی بات کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ( الرعد 11 )
’’ بے شک اللہ تعالی نہیں بدلتا اس (نعمت) کو جوکسی قوم کے پاس ہے یہاں تک وہ خود بدل لیں اس کو جو ان کے دلوں میں ہے‘‘۔
یعنی ان کے دلوں میں جو ایمان اور فطرت کی نعمت ہے جب تک وہ اسے نہیں بدلتے ‘ اللہ تعالی انہیں عذاب میں گرفتار نہیں کرتا۔ یہ تمام نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے ساتھ سب سے پہلا جو معاملہ ہے وہ رحمت کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی اپنے بندوں پر اتنا رحمان و رحیم ہے تو پھر اس کا عذاب کیوں آتا ہے؟رحمت کے باجود ہم کچھ لو گوں کو عذاب میں مبتلا دیکھتے ہیں؟ اللہ کی پکڑ کب آتی ہے ؟
ارشادباری تعالی ہے:
فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِيْنَ (الرخرف 55 )
’’ پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو ڈبو دیا‘‘
غور و فکر کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کو غصہ کب آتا ہے؟ رحمت کر نے کے بجائے ‘ وہ غصب سے دو چار کیوں کرتا ہے؟قرآن و حدیث کے مطالعہ کے بعد چند ایسی صورتیں سامنے آتی ہیںجن کی وجہ سے اللہ تعالی کی پکڑ آتی ہے۔ ذیل میں ہم چند صورتیں اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔
1شرک:
اللہ تعالی کے غصہ اور اس کی پکڑ کا ایک بنیادی سبب ’’شرک ‘‘ ہے۔جب بندہ اللہ کے ساتھ مخلوق میں سے کسی کو شریک ٹہراتا ہے تو اللہ کو اس پر بہت غصہ اور غیرت آتی ہے۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اپنی تلوار کو ادھر ادھر موڑے بغیر سیدھی تلوار کے ساتھ اسے کو مار دوںگا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی اس بات کا نبی اکرم ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا : ’’ تم سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم میں اسے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالی مجھ سے زیادہ غیور ہے۔’’اسی لیے اللہ تعالی نے ظاہری اور باطنی تمام منکرات کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم 1499)
یعنی جس طرح ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر شخص کی شراکت پر غصہ آتا ہے اسی طرح اللہ تعالی کو اپنی الوہیت میں کسی غیر کی شراکت پر بہت غصہ آتا ہے۔ شرک کی نجاست کی بنا پر اللہ تعالی اس آدمی کی تمام نیکیاں ختم کر کے اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کریگا۔ اللہ تعالی نے اسی بارے میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے صاف الفاظ میں ارشاد فرمادیا:
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ( الزمر 65)
’’ یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا ‘‘
شرک ایسا جرم ہے جس پر اللہ تعالی کو بہت غصہ آتا ہے۔ جو قوم اجتماعی طور پر اس کا ارتکاب کر تی ہے ، اللہ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔ایسی قوم پر اللہ کی پکڑ آتی ہے اور وہ تباہ و برباد کر دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ، فَلَوْلَا نَــصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ(الاحقاف 28,27)
’’اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کر دیںاور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وہ رجوع کرلیں ،پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوگئے، بلکہ دراصل یہ محض جھوٹ اور بالکل بہتان تھا۔‘‘
درج بالا نصوص سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو لوگ معبودان باطلہ کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں ان پر اللہ کی پکڑ آتی ہے۔ ایسے لوگوں پر دنیا میں بھی مختلف صورتوں مین اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور قیامت کے دن بھی انھیں ہولناک عذاب کا سامنا کر نا پڑے گا۔
2 اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنا:
دین اسلام میں جھوٹ کی بہت زیادہ مزمت بیان کی گئی ہے۔ اور جھوٹ کی جو وعیدیں بیان کی گئی ہیں وہ بھی بہت سخت قسم کی ہیں۔ مسلمان اگر آپس میں جھوٹ بولیں تو اسکی وعید الگ ہے۔ اگر کسی صحابی پر جھوٹ بولیں تو وعید الگ ہے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کریں تو وعید الگ ہے۔ اور اگر اللہ تعالی پر جھوٹ باندھے اور اسکی طرف منسوب کریں تو اسکی سزا الگ ہے۔ اور جو اقوام اللہ تعالی پر جھوٹ باندھے وہ قومیں پھر اللہ کے عذاب کا انتظار کریں۔ کسی وقت بھی اللہ کا عذاب ان کے پاس آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے پر تو کثرت سے جھوٹ بولاہی جاتا ہے ۔ اور رسول اکرم ﷺ کی طرف بھی کثرت سے جھوٹی احادیث منسوب کی جا تی ہیں۔ مگر کچھ بد بخت ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالی پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ ان کو یہ کام کر تے ہوئے ذرا بھی شرم و حیا نہیں آتی۔ جو بات انھیں اچھی لگتی ہے وہ اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کرکے لوگوں کو بیان کر نا شروع کر دے تے ہیں۔ خصوصا سوشل میڈیا پر اس قسم کا جھوٹ بہت زیادہ بولا جاتا ہے۔ اپنی طرف سے ایک پوسٹ تیار کر کے نیچے قرآن کی کسی سورت کا یا کسی حدیث کی کتاب کا حوالہ دے دیا جاتا ہے۔ اولا تو کوئی بھی پڑھنے والا حوالہ چیک ہی نہیں کر تا۔اور اگر حوالہ تلاش کر نے لگے تو وہ حوالہ بھی غلط ہوتا ہے۔ حقیقت میں اس بات کا نہ قرآن سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی حدیث سے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جو دلیل اور حوالے کا کونسیٹ ہے وہ بالکل ختم ہوگیا ہے۔بس مولوی صاحب نے جو بات بول دی ہے اور لکھ نے والے نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہ سب ٹھیک ہے کوئی اسے حوالہ معلوم نہیں کرنا۔ اوراگر کوئی غلطی سے پوچھ بھی لے تو بزرگوں کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ فلاں نے یوں کیا فلاں نے یوں کھا فلاں بزرگ کے تجربے اور مشاہدے میں یہ بات آئی ہے فلاں کی یہ کرامات میں سے ہے اورفلاں کے یہ معجزات میں سے ہے۔ اس جاہل مولوی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ معجزات کا تعلق یہ نبیوںاور رسولوں کے ساتھ ہے۔ بزرگوں پر بات ختم ہو جاتی ہے مولوی صاحب اسے آگے نہیں جاتے۔ جب لوگ دین بزرگوں کے اقوال و ارا کوبنالیں اللہ تعالی پر اس قسم کا جھوٹ باندھنا شروع کر دیں تو ان پر اللہ کو بہت غصہ آتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کے حوالے سے اسی بات کو بیان کیا ہے۔مشرکین مکہ نے جب رسول اللہ ﷺ کو شاعر اور کاہن کہا ۔ اور یہ الزام لگایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تو اللہ تعالی نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ(الحاقة: 44 - 46)
’’اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا تو ہم یقینا پکڑ لیتے ان کو داہنے ہاتھ سے ،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ‘‘
یہ اللہ تعالی کی دھمکی کسی عام شخصیت کو نہیں ہے بلکہ سید الابنیا دونوںجہانوں کے سردار رسول اللہ ﷺ کو مل رہی ہے۔ اگر دنیا کا کوئی عام انسان اللہ پر جھوٹ باندھے اورمنسوب کرے اس کا کیا حال ہوگا؟ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ ایسا جرم ہے کہ اسکا ارتکاب کرنے والوں پر اللہ کا عذاب انکے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے۔کبھی نہ کبھی اللہ کی پکڑآسکتی ہے انھیں کسی نہ کسی صورت اللہ کے عذاب کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔
3 فحاشی و عریانی:
ہر معاشرہ پاکیزہ بنیادوں پر قائم ہو ، یہ اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ جس معاشرے میں فحاشی و عریانی پھیل جائے وہ معاشرہ نیست ونابود کر دیا جاتا ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں کو پاکیزہ ماحول فراہم کرتا ہے مگر بعض اسلام دشمن عناصر اسلامی معاشرے میں فحاشی پھیلا نے کے درپے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی فحاشی انتہا درجے کو پہنچ گئی ہے۔ ہمارے ہاں فحاشی پھیلانے میں الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔اسلامی معاشرے میں فحاشی پھیلانا بھی ایسا فعل ہے جس پر اللہ تعالی کی پکڑ آتی ہے۔فحاشی پھیلانے والے افراد دنیا ہی میں اللہ کے عذاب سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے افراد کو تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ( النور9 1)
’’ جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘
رسول اکرم ﷺ کا فرمان گرامی ہے: ’’ جب کسی بھی قوم میں فحاشی علانیہ طور پر ہونے لگتی ہیں تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔‘‘(سنن ابی دائوود 40 )
جس معاشرے میں فحاشی پھیل جاتی ہے وہاں اللہ کی پکڑ کی ایک صورت طاعون جیسی بیماریاں ہیں۔ان نئی نئی بیماریوں کے بارے میں جو رائے قائم کر لی گئی ہے کہ ملاوٹ زدہ خوراک کے استعمال کی وجہ سے بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ اس اندیشے کو رد نہیں کیا جاسکتا ، تاہم اصل سبب کچھ اور ہے ۔اسی سبب کی نشان دہی رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
4 ناپ تول میں کمی:
اللہ تعالی کی پکڑ اور عذاب کو دعوت دینے والے امور میں سے ایک امر ناپ تول میں کمی کرنا بھی ہے۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اللہ تعالی اس قوم کو مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کسی سے کوئی چیز لیتے وقت پوری پوری لینا اور دیتے وقت کم کرکے دینا ، یہ قبیح فعل شعیب علیہ السلام کی قوم بھی میں پایا جاتا تھا۔شعیب علیہ السلام نے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آئے۔ان کی اس سرکشی کی بنا پر اللہ تعالی نے ان پر دردناک عذاب نازل کیا۔ایک ہفتہ سخت گرمی پڑنے کے بعد ان پر بادلوں کا سایا کایا گیا۔جب لوگ بادلوں کو دیکھ کر ان کے سائے میں جمع ہوئے تو ان پر پانی کے بجائے آگ کے شعلوں کی بارش برسائی گئی۔یہ ان کے اس فعل کی سزا تھی جس سے وہ باز نہیں آتے تھے۔قرآن کریم نے اسے مختلف جگہ پر بیان کیا ہے۔دیکھیے: (الاعراف85،الشعراء 189)
یہ فعل قبیح مدینہ کے لوگوں میں بھی پایا جاتا تھا جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچے توسب نے اس فعل قبیح سے توبہ کرلی۔ اور اس کے متعلق سورۃ المطففین نازل ہوئی۔
وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ، الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ، وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ(سورۃ المطففین: 1،2،3)
’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں،جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں‘‘
یعنی لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اس طرح ناپ تول میںڈنڈی مار کر کمی کرنا، بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے جس کا نتیجہ دنیا و آخرت کی تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اس کو قحط سالی ، روزگار میں تنگی اور باد شاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ 4019)
5زکاۃ کی عدم ادائیگی:
اللہ تعالی کے دیے مال میں سے زکاۃ ادا کر نا اہل ایمان پر فرض ہے۔ جو لوگ سال گزر نے کے باوجود اپنے مال میں زکاۃ ادا نہیں کر تے قیامت کے دن تو انھیں عذاب ہو گا ہی البتہ دنیا میں بھی وہ اللہ کے عذاب سے دوچار ہوں گے۔دنیا میں عذاب کی صورت یہ ہے کہ آسمان سے بارش روک دی جائے گی۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان گرامی ہے۔ ’’جو لوگ اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کر تے ان پر آسمان سے بارش روک دی جاتی ہے۔ اگر زمین پر چرند پرند نہ ہوتے تو ان کو کبھی بارش نہ دی جاتی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ :4019)
یعنی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہ کرنا ایسا جرم ہے جس پر ا للہ کی پکڑ آسکتی ہے۔
خلاصہ کلام: میں نے پانچ اسباب بیان کیے ہیں جو اللہ کے عذاب کو دعوت دے نے والے ہیں۔ ان میں سے پہلا سبب ’’شرک‘‘ ہے ۔ اب آپ غور کریں کیا ہمارا ملک شرک سے پاک ہے؟ میں کسی صوبہ کی بات نہیں کرتا کسی ڈویژن کی بات نہیں کرتا کسی ضلع کی بات نہیں کر تاکسی تحصیل کی بات نہیں کرتا آپ کوئی کالونی کوئی محلہ کوئی سیکٹر اور کوئی گلی دیکھا دیں جہاں پر اللہ کے مقابلہ میں کوئی معبود اور مشکل کشا نہ بنا رکھا ہو۔ دوسرا سبب ’’اللہ پر جھوٹ باندھنا‘‘ ہے۔ یہ جرم بھی ہمارے اندر کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیااس گناہ کبیر سے بھرا پڑا ہے۔ ہر تیسری پوسٹ ایسی ہوتی ہے جو جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ تیسرا سبب ’’ فحاشی و عریانی‘‘ہے ۔ہمارے ملک کا کوئی ایساکونا نہیں، جہاں پرفحاشی و عریانی نہیں پائی جاتی۔ ہر شہر میں تو زنا کے اڈے کھولے ہوئیں ہیں۔ چھوتھا سبب ’’ ناپ تول میں کمی کرنا ‘‘ہے۔ ایک چھوٹے سے چھوٹے ٹھیلے والے سے لیکربڑے سے بڑے جنرل اسٹور تک کوئی ایسا ہے جو اس فعل قبیح سے پاک ہو۔ الاما شاء اللہ۔ پانچواں سبب ’’زکاۃ ادا نہ کرنا ‘‘ ہے۔ ہمارے ملک کا کونسا ایسا تاجر ، سرمایادار، اور مال دار ہے جو صحیح معنوں میں اللہ تعالی کا حق (زکاۃ) ادا کرتا ہے۔ جب اس طرح کے گناہ ہمارے اندر پائے جائیں گے توپھر اللہ تعالی کے عذاب تو آئیں گے۔ کبھی زلزلہ کی صورت میں آئیگا کبھی قحط سالی کی صورت میں آئے گا کبھی بارش نہ آنے کی صورت میں آئے گا کبھی بارش زیادہ آنے کی صورت میں آئیگا کبھی سیلاب کی صورت میںآئے گا ،یہ سب اللہ تعالی کے عذاب کی صورتیں ہیں۔
محترم قارئیں کرام : جن گناہوں پر اللہ کی پکڑ آتی ہے ان میں سے صرف پانچ گنا ہوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اور گناہ بھی ہیں جن پر دنیا ہی میں اللہ کی پکڑ کا ذکر ہے۔بحیثیت مسلمان ہمیں ان تمام گناہوں سے بچ کر زندگی گزارنی چاہیے تاکہ دنیا میں بھی اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ رہیں اور کل قیامت کے دن بھی سرخروہو سکیں۔اللہ تعالی ہمیں ان گناہوں سے بچ نے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔