Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

چلتے پھرتے دو پھول

Written by فیصل ممتاز 17 Jul,2016
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ!   پیارے بچو۔۔!
سردی(جاڑے) کا موسم شروع ہو چکا ہے اور ہمیں گرم کپڑےپہننے اور اسی طرح گرم کھانے اور مشروبات استعمال کرنے کا بہت جی چاہتاہے اور سردی سے بچاؤ کے لیے ایسا کرنا بھی چاہیے کیونکہ کھلے سر اور گرم ملبوسات کے بغیر ٹھنڈ لگنےسے ہم سخت بیمار بھی ہوسکتے ، چلیں آج آپ کو تیزسردی ہونے کی وجہ بتاتے ہیں، جوکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی ایک حدیث مبارکہ میں بیان فرمائی ہے، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ایک مرتبہ جہنم نے اللہ تعلی سے شکایت کرتے ہوئے کہاکہ میرا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے (آگ کی شدت کی وجہ سے) تو اللہ تعالی نے جہنم کے لیے دو سانسیں مقرر کردیں، ایک سانس سردی میں ایک گرمی میں جب جاڑے میں سانس لیتی ہے تو اس سے سخت سردی ہوجاتی ہے اور جب موسم گرما میں سانس لیتی ہے تو اس وجہ سے سخت گرمی ہوجاتی ہے‘‘
بہر حال ہم اپنی بات کی طرف آتے ہیں۔
آج ہم جو واقعہ آپ کو بتلانے چلے ہیں وہ دو بہت پیارے بچوں کا ہے، وہ دونوں بچے اپنے ناناجی سے بہت پیار کرتے اور ان کے نانا بھی انہیں بہت عزیز رکھتے، وہ بچے جب اپنے نانا جی کو دیکھتے تو ان کی طرف دوڑے آتےاور ان کے نانا بھی شفقت سے ان طرف متوجہ ہوتے اور بچے اپنے نانا جی کی زبان کی سرخی کو دیکھ کر ہنستے، شاداں وفرحاں ان کی طرف دوڑتے ۔
ان کے نانا جب نماز پڑھانے مسجد جاتے تو یہ بچے ان کے پیچھے پیچھے مسجد تک آجاتے اور ان کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے تو ناناجی اپنے نواسوں کو حالت نماز میں بھی انہیں اپنی پشت مبارک پر بیٹھا رہنے دیتے اور بسا اوقات ان کی خاظر سجدہ طویل کرلیتے،جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو انہیں بڑے آرام سے اٹھاکر نیچے بٹھاتے اور اگر کوئی شخص ان کے شوق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتاتو ان کے نانا اشارہ سےاسے روک دیتے ۔
اگر کوئی شخص ان کے نانا سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیںیا ایسا کرتے ہوئے ہم نے آپ کو پہلے نہیں دیکھا تو ان کے نانا فرماتے میرے یہ دونوں نواسے میری خوشبو ہیںاور نہیں دیکھ کر مجھے سکون ملتاہے۔
بعض دفعہ دونوں بچے مسجد میں خود آجاتے یا کبھی ان کے نانا انہیں اٹھاکر مسجد تشریف لاتے ، ان کے نانا نماز سے فارغ ہونے کے بعد ازراہ شفقت انہیں اپنی گود میں بٹھا لیتے ، یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دونوں نواسوںکے ساتھ کبھی کھیلا بھی کرتے ، ایک مرتبہ ان کا ایک نواسہ بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کہ ان کے نانا نے ان کو پکڑنا چاہا تو نواسے نے ادھر سے ادھر بھاگنا شروع کردیا، ان کے نانا انہیں ہنساتے رہتے یہاں تک کہ انہیں پکڑ لیا ۔
وہ اپنے نواسوںسے صرف خود ہی محبت نہ کرتے بلکہ لوگوں کو بھی ان سے محبت کی ترغیب دیتے، ایک مرتبہ دنوں بچوں نے جمعہ کے دن سرخ رنک کی لمبی قمیصیں پہن رکھی تھیں اور ان کے نانا جی جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور وہ دونوں بچے مسجد میں داخل ہوئے تو انکے کپڑے پاؤں کےنیچے آتے وہ گرتے پڑتے ناناجی کی طرف آرہے تھے کہ ناناجی کو ان معصوموں کا یہ گرنا بڑا گراں لگا تو آپ نےدوران خطبہ ممبر سے اتر کر انہیں اٹھالیااور پیار سے چومنا شروع کردیاجس طرح ان کے نانا جی ان سے محبت وپیار کرتے تھے اسی طرح اگر دونوں نواسے کبھی ایسا کام کرلیتے جو ان کے نانا جی کو پسندنہ ہوتا تو انہیں کبھی ڈانٹ بھی لیا کرتے تھےایک موقع پر صدقے کی کھجوروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا دونوں بچوں نے ان کھجوروں سے کھیلنا شروع کردیا اور کھیل کے دوران ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال دی تو ان کے نانا کی نظر پڑ گئی تو ڈانٹتے ہوئے کہا بیٹا یہ کھجور پھینک دو لیکن ان کے نواسے نے اپنے منہ سے وہ کھجور نہیں نکالی تو نانا جی نے خود ہی ان کے منہ سے نکال باہر پھینکی۔
پیارے بچو! آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے یہ دونوں بچے کون تھے؟ یہ کوئی عام بچے نہیں تھے بلکہ سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے اور ہمارے پیارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کے نواسےسیدنا حسن وحسینwتھے ، ہمیں ان سب باتوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ آپ ﷺ کتنے رحیم وشفیق تھے ، سیرت طیبہ کے حوالے سے نمایاں بات یہ ہے کہ نبی مکر م ﷺ  مشغول ترین زندگی گزارنے کے باوجود اپنے دونوں نواسوں، حسن وحسین رضی اللہ عنہما کی تربیت کی طرف خوب توجہ فرماتے یہاں تک کہ ان کے ساتھ کھیل بھی لیا کرتے تھے ، اللہ ہم سب کو نبی مکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے۔
پیارے بچو  !  اسے ضرور پڑھیں
ادارہ ماہنامہ اسوہ حسنہ نےیہ صفحہ آپ کی چھوٹی چھوٹی مگر پر اثر تحریروں کے لیے مختص کیا ہے آپ آگے بڑھیں قلم اٹھائیں اور لکھیںاپنے جیسے نونہالوں کے لیے ایک زبردست تحریر کوئی سچا واقعہ، مگر یہ یاد رہے کہ
mتحریر ارسال کرنے سے پہلے اپنے کسی استاد یا گھر کے کسی بڑے سے ضرور پڑھوائیں تاکہ وہ آپکی اصلاح کردیں
mیہ کہ تحریر ایک لائین چھوڑ کر لکھی ہوئی ہو،
mایک ورقہ پر صرف ایک طرف اور صاف ستھری ہو،
m اگر آپ ٹائپنگ جانتے ہیں تو اپنی تحریر ٹائپ کر کے ہماے ای میل ایڈریسThis email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. پر ارسال کردیں۔ شکریہ
--------

Read 908 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in جنوری 2016

Related items

  • موبائل فون بچوں کیلئے زہر قاتل
    in جنوری تا فروری 2020
  • بنی اسرائيل کے دو بندوں کی کہانی رسول اللہ ﷺکی زبانی
    in اپریل 2019
  • اپنی اولاد کی تربیت کیسے کریں؟
    in فروری 2019
  • بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ! (خاندانی منصوبہ بندی)
    in جنوری 2019
  • نیک اولاد کے والدین کو فائدے
    in دسمبر 2018
More in this category: « الله دیکھ رہا ہے !
back to top

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2016