مکہ مکرمہ اللہ اور اس کے رسول جناب محمد ﷺ کا محبوب شہر ہے اس مقدس شہر میں اہل ایمان کا قبلہ و کعبہ بیت اللہ شریف ہے جو تمام مسلمانوں کے دل کی دھڑکن اور آنکھوں کا سرور ہے جہاں ہمہ وقت جن و انس اور ملائکہ حمد و طواف میں مصروف رہتے ہیں وہ عظیم گھر کہ جس کی طرف منہ کر کے دنیائے اسلام کے لاکھوں مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ اور حج کے موقع پر لاکھوں مسلمان بلا تفریق رنگ و نسل ہر سال اس جگہ ہو کر مناسک حج کی ادائیگی کرتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کا مسکن بناء مکہ مکرمہ ہی وہ مبارک شہر ہے کہ جہاں نبی آخر الزماں سیدنا محمد ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی۔ اسی مقدس شہر میں نبی کریم ﷺ کے سر پر تاج نبوت رکھا گیا، اور اسی مبارک شہر میں ہمارے پیارے نبی مکرم محمد ﷺ پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا تھا اور آسمان سے رشد و ہدایت کے فرمان آتے تھے۔ اسی مقدس شہر میں نبی آخر الزمان محمد ﷺ نے توحید کی شمع جلائی، ظلم و شر، شرک و بت پرستی کی تاریکیوں میں ڈوبی دنیا کو توحید و سنت کے نور سے روشن کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کا جھنڈہ بلند کرتے ہوئے یہاں سے اسلام کی عالم گیر تحریک شروع کی جس نے ساری دنیا کو اسلام سے آشنا کیا۔ آج سے چودہ سو سال پہلے نبی کریم ﷺ نے اس شہر میں توحید و سنت کی جو شمع روشن کی تھی اور لالہ الا اللہ کا جو بت شکن نعرہ رستہ خیز لگایا تھا اس کی بازگشت آج بھی پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ بلاشبہ اسلامی تحریک کا یہ شہر اولین مرکز ہے۔ بقول شاعر
دنیا کے بت کدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسبان ہیں اس کے وہ پاسبان ہمارا
مکہ مکرمہ اسلامی سطوت و عظمت کا عظیم مظہر ہے۔
مکہ مکرمہ کے بہت سے نام ہیں جو اس کی عظمت و شان اور اس کے بلند مقام کو ظاہر کرتے ہیں بعض اہل علم نے مکہ مکرمہ کے پچاس سے اوپر نام شمار کئے ہیں۔
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے اس شہر کے جو نام بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں۔
مکہ، بکہ، البلد، البدالامین، البلدہ، ام القریٰ، معاد اور المسجدالحرام وغیرہ، مولانا رابع ندوی صاحب اس شہر کے بارے لکھتے ہیں۔
مکہ مکرمہ وادی ابراہیم میں واقع ہے،سطح سمندر سے اس کی بلندی تقریباً ساڑھے تین سو فٹ بتائی جاتی ہے۔ اس کا عرض البلد21درجہ اور طول البلد 39/1/2د رجہ مشرقی ہے۔ ساحل سمندر سے تقریباً پانچ کلو میٹر مشرق میں واقع ہے بکہ، مکہ، ام القریٰ اور البلد الامین اس کے نام ہیں۔ یہ جس وادی میں آباد ہے وہ پتھریلی اور تنگ وادی ہے۔ اس میں شہر مکہ مکرمہ مشرق سے مغرب تک تقریباً کئی میل میں پھیلا ہوا ہے۔ شہر کا عرض بھی دو میل ہے۔ اس کی وادی ابطح اور بطحاء بھی کہلاتی ہے۔ (بطحاء سیلاب کی ہر اس گزرگاہ کو کہتے ہیں جو پہاڑی ہواور جس میں سیلاب کے بعد ریت اور سنگ ریزے چھوٹ جائیں)
مکہ مکرمہ کی یہ وادی دو پہاڑی سلسلوں سے گھری ہوئی ہے جو مغرب سے شروع ہو کر مشرق تک چلے گئے ہی۔ ان میں ایک سلسلہ شمالی ہے اور ایک جنوبی ۔ ان دونوں سلسلوں کو اخشبان کہتے ہیں۔ شمالی سلسلہ جبل الفلق، جبل القعیقعان اور جبل لعلع، پھر کداء پر مشتمل ہے۔ کدا مکہ کے مشرقی حصہ میں واقع ہے جو کہ شہر کا بلند حصہ ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف سے داخل ہوئے تھے۔ شہر کے جنوب مغربی سرےپر جبل عمر ہے پھر وادی ہے ۔ پھر جبل ابو قبیس، پھر جبل جندمہ ہیں، ان سب پہاڑوں کے دامن اور بعض بعض کی بلندیاں اب عمارتوں سے پُر ہیں۔ شہر کو چاروں طرف سے پتھروں کے ٹیلے یا چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں گھیرے ہوئے ہیں۔ جو ایک طرح سے ان فصیلوں کا بھی کام دیتی ہیں، حرم شریف کے وسط میں ہے۔ شہر میں پانی کا ایک ہی چشمہ ہے جس کو زم زم کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پانی کا کوئی خاص کنواں نہیں ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں کی زمین میں کچھ کاشت نہیں ہو سکتی۔ اب دو ایک نہریں شہر میں دوسری جگہ سے لائی گئی ہیں۔ ان کی وجہ سے پانی کی سہولت ہو گئی ہے۔ اس کی مدد سے کچھ گھاس اور پودے بھی لگادیئے گئے ہی۔ عہد عباسی ہی میں طائف کے قریب سے یہاں ایک نہر لے آئی گئی ہے، یہ نہر، نہر زبیدہ کہلاتی ہے، یہ عباسی خلیفہ امین کی والدہ زبیدہ نے بنوائی تھی، اور بعد میں اس کو ترقی دی جاتی رہی، اب پانی پہنچانے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کئے گئے ہیں، جن کی وجہ سے اب پانی کی بالکل قلت نہیں رہی مکہ چونکہ ایک وادی میں ہے، اس لیے ایام گذشتہ میں بڑے سیلابوں سے اس میں پانی بھر جایا کرتا تھا، اور حرم شریف میں بہت پانی جمع ہو جاتا تھا، اب حکومت نے معلاۃ سے پہلے ایک بندھ بنا دیا ہے، اور اس کے علاوہ حرم اور حرم کے آگے ایک زمین دوز بڑا نالہ بھی بنا دیا ہے جس میں شہر کا گندا اور سیلاب کا پانی بہہ کر مکہ کے نشیبی حصہ ’’مسفلہ‘‘کی طرف سے نکل جاتا ہے۔
پہاڑوں کے درمیان خصوصی طور پر گھرے ہونے کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں گرمی زیادہ اور سردی کم ہوتی ہے۔ شہر کا موسم گرمیوں میں سخت ہوتا ہے اور بارش صرف جاڑوں میں ہوتی ہے، اس کی سالانہ مقدار چار پانچ انچ سے زیادہ نہیں، لہٰذا گرمی کا موسم مارچ سے شروع ہو کر آخر اکتوبر تک رہتا ہے، پہاڑوں سے گھرے ہونے کی وجہ سے موسم سرما میں سردی کم ہوتی ہے۔ ہواؤں میں سب سے بہتر ہوا مغربی ہوا ہوتی ہے، یہ سمندر کی طرف سے آتی ہے، اس کے بعد شمالی ہوا، یہ بھی سمندر کی طرف سے آتی ہے، اور سب سے گرم مشرقی ہوا ہوتی ہے، جو خشک پہاڑوں پر سے گزرتی ہوئی گرم ہو کر آتی ہے، اس سے کم گرم جنوبی ہوا ہوتی ہے،
اس کے پہاڑوں کو تورات میں جبال فاران بتایاگیا ہے، یہ نام غالباً فاران بن عمر و ابن عملیق بادشاہ کی نسبت سے ہوا۔
اس شہرکو آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سیدہ ہاجرہؑ اور اپنے شیر خوار بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو یہاں ٹھہرا کر آباد کیا تھا، اور پھر کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی تھی جب سے یہ شہر قرب و جوار بلکہ ساری دنیا کا مرکز بنا سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی نسلیں یہاں مقیم ہوئیں اور کچھ نسلیں قرب و جوار میں بھی پھیلیں، آخر میں قریش یہاں کے متولی اور باشندے ہوئے، پھر یہیں قریش میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اور آپ نے اپنی عمرکے ترپن سال یہیں گزارے، کعبہ اور کعبہ کی وجہ سے مکہ کی تعظیم اور احترام سارے جزیرۃ العرب میں یکساں طریقہ سے برابر کیا جاتا رہا ہے۔ تمام عرب اسلام سے ڈھائی ہزار سال قبل ہی سے کعبہ کا طواف اور زیارت کرتے رہے ہیں۔
مکہ کی آبادی پہلے صرف خیموں میں رہتی تھی، ہجرت سے صرف دوصدی پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جد قصی بن کلاب جب شام سے آئے تو ان کے مشورہ سے مکانات بننا شروع ہوئے۔ اور مکہ کے معاشرہ کو اور اس کی اجتماعی اور مذہبی ذمہ داریوں کو منظم کیا گیا، اور ان کو اصلاً قصی بن کلاب ہی نے سنبھالا، اس سے قریش کی اہمیت بڑھی اور یہ ذمہ داریاں ان میںمخصوص ہو گئیں، اسلام کے آنے کے بعد شہر کو برابر ترقی ہوئی، اب یہ اپنے قرب و جوار میں دور دور تک سب سے بڑا اور پورے عالم اسلامی کا سب سے اہم اور مرکزی شہر ہے۔
شہر کا شمال مشرقی حصہ بلند ہے۔ اور معلاۃ کے نام سے موسوم ہے۔ اسی میں شہر کا مشہور اور تاریخی قبرستان ہے جس کو معلاۃکہا جاتاہے۔ یہ المجون سے اور کدا، پہاڑیوں سے متصل ہے، یہاں سے مکہ مکرمہ میں داخلہ مسنون بتایاگیا ہے، عہد اول سے اب تک اسی قبرستان میں اہل مکہ کی تدفین ہوتی رہی ہے، معلاۃ کے بالمقابل شہر کے جنوب مغربی جزء میں شہر کا نشیبی محلہ مسفلہ ہے، معلاۃ سے بہہ کر آنیوالا سیلابی پانی اسی طرف سے باہر جاتا ہے، شہر کا مشرقی حصہ جبل جندمہ پر مشتمل ہے، جس کے دامن میں بنی ہاشم کا خاندان آباد تھا، یہ جبل ابوقبیس کے متصلا شمال میں ہے، شہر کے مغربی حصہ میں جبل عمر اور شمال مغربی حصہ میں مقام کدی ہے، یہاں سے مکہ مکرمہ سے باہر جانا مسنون بتایاگیاہے۔
حرم شریف کے شمالی جانب کے علاقے کو الشامیہ کہا جاتا ہے، اسی کے بالمقابل حرم شریف کے جنوبی علاقہ کا مشہور محلہ جیاد ہے۔ مکہ مکرمہ کا ممتاز محلہ ہے، اسی کے پہلو میں مکہ کا مشہور پہاڑ جبل ابوقبیس ہے، شہر کے تقریباً وسط میں حرم شریف (مسجد حرام) ہے۔
سالنامہ دعوۃ الحق لاہور ایڈیٹر مولانامحمود احمد غضنفر مرحوم جنوری 1992ء نجدوحجاز ایڈیشن ص 12-11-10)
مکہ مکرمہ کے فضائل و مناقب میں ایک آیات قرآنی اور احادیث نبویہ وارد ہوئی ہیں لہٰذا موقع کی مناسبت سے چند ایک کاذکر کیاجاتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ(آل عمران96)

’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت اور ہدایت والا ہے‘‘
اس شہر مکہ شریف کا سفر کرنا اہل ایمان پر فرض قراردیا گیا ہے۔ جو صاحب استطاعت ہوں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے۔

وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ (آل عمران 97)

’’جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس طرف کی راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے) بلکہ) تمام دنیا سے بےپرواہ ہے‘‘
مکہ مکرمہ میں واقع مسجد حرام میں نماز کا اجر بھی دیگر مساجد سے بہت زیادہ ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میری اس مسجد میں (یعنی مسجد نبوی میں) ایک نماز کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھنے سے ایک ہزار گنا زیادہ اجر رکھتی ہے۔ سوائے مسجد حرام کے (صحیح بخاری 398/1)
ایک دوسری حدیث کے الفاظ ہیں۔ میری مسجد (مسجد نبوی شریف) میں نماز پڑھنا کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھنے سے ایک ہزار گنا زیادہ اجر ہے سوائے مسجد حرام کے، اور مسجد حرام میں ایک نماز ادا کرنا کسی دوسری مسجد میں ایک لاکھ نماز سے افضل ہے(ابن ماجہ حدیث نمبر1406)
اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو امن کی جگہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ ومن دخلہ کان آمنا۔ اور جواس شہر میں داخل ہو گیا امن میں آ گیا(آل عمران آیت نمبر97)اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
بلا شبہ اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس دن سے ہی حرمت والا قرار دیا ہے جب سے زمین و آسمان کی تخلیق ہوئی۔ یہ شہر قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی حرمت کی وجہ سے حرمت والا رہے گا۔ مجھ سے پہلے اس شہر میں کسی کو قتل و قتال کی اجازت نہیں دی گئی اور میرے لئے بھی بہت تھوڑے وقت کیلئے قتال کی اجازت ہوئی، بس یہ شہر قیامت تک حرمت والاہی رہے گا۔(صحیح بخاری کتاب الحج)
سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا (القصص آیت 57)

 کیا ہم نے ان کو امن و امان والے حرم میں جگہ نہیں دی، جہاں ہر قسم کے پھل کھینچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے رزق ہے۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا۔ اور اہل مکہ کے لئے دعا فرمائی ۔ میں نے مدینہ کو حرم قرار دیا جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو اور میں نے مدینہ کے صاع اور مد میں اس سے دوگنی (برکت) کی دعا مانگی ہے جو ابراہیم(علیہ السلام) نے اہل مکہ کے لئے مانگی تھی۔
(رواہ مسلم باب فضل المدینہ)
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ کوئی شہر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں دجال نہ پہنچے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ اس کے ہر راستے پر فرشتے صف بستہ (حفاظت کے لئے) ہوں گے جو دجال سے حفاظت کریں گے۔ (صحیح بخاری 665/2)
سیدنا عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو حزورہ کے مقام پر کھڑے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مکہ مکرمہ کی طرف مخاطب ہو کر) ارشاد فرمایا۔ ’’اﷲ کی قسم :(اے شہر مکہ کی سرزمین) تو اﷲ کی سب سے اچھی سرزمین ہے اور اﷲ کی سب سے پسندیدہ سرزمین ہے۔ اور اگر مجھے تیرے پاس سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا‘‘(ترمذی)
حزورہ، یہ ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا جہاں پر مکہ کا بازار لگتا تھا۔ یہ جگہ حرم شریف کی پہلی سعودی توسیع میں شامل حرم کر لی گئی تھی۔
مکہ مکرمہ میں ظلم و تشدد کی بھی سخت مذمت اور وعید کی گئی ہے ارشاد باری ہے:

وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ (سورہ الحج آیت 25)

اور جو شخص اس میں (یعنی مکہ میں) کوئی ظلم و الحاد (خلاف دین یعنی کفر و شرک کے) کام کا ارادہ کرے گا ہم اس کو درد ناک عذاب چکھائیں گے‘‘
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ بلا شبہ اسلام غربت کی حالت میں تھا، اور پھر غربت ہی کی حالت میں لوٹ آئے گا جیسا کہ شروع میں تھا۔ اور ایمان دونوںمسجدوں کے درمیان سمٹ جائے گا جیسا کہ سانپ اپنے بل (سوراخ) میں واپس آ جاتا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ دونوں مسجدوں سے مراد مکہ کی مسجد(مسجد حرام) اور مدینہ کی مسجد (مسجد نبوی شریف) ہے‘‘

مکہ مکرمہ کی حرمت:

اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو آسمان و زمین کی پیدائش ہی کے دن سے حرمت والا شہر قرار دے دیا تھا جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول فرمان نبوی ہے۔ جسے ہم گذشتہ سطور میں فضائل مکہ مکرمہ کے ضمن میں درج کر چکے ہیں۔
اس شہر کی حرمت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ یہ شہر قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا۔ اس کے (خودرو) کانٹوں کو نہیں توڑا جائے گا، نہ ہی اس کے شکار کو پریشان کیا جائے گا، اس میں پڑی ہوئی چیز کو کوئی نہ اٹھائے گا سوائے اس کے جو (اس کے مالک تک پہنچانے) اعلان کرنے کی نیت سے اٹھا لے (تو جائز ہے) نہ اس کی تازہ گھاس کو کوئی کاٹے گا۔ (بخاری کتاب الحج 651/2)
اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے اور ان کو حرم کی حدود بتائیں اور ان حدود پر علامتیں نصب کیں۔ (اس کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا تمیم بن اسیر خزاعی رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے بعدان حدود کی تجدید کے لئے بھیجا۔ چنانچہ انہوں نے ان حدود کی تجدید کا کام انجام دیا۔ اس کے بعد سے مسلم خلفاء و امراء ہر دور میں مکہ مکرمہ کی ہر چہار سمت میں پائی جانے والی ان حدود اور علامتوں کی تجدید کا کام حسب ضرورت کراتے رہے۔ یہاں تک کہ حرم کی حد بندی کے لئے پائے جانے والی ان علامات و نشانیوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ حرم مکی کے حدود کا دائرہ 127کلو میٹر پر محیط ہے جس کی پیمائش و مساحت 550/300 کلو میٹر ہے) حدود حرم اور مسجد حرام کی درمیانی مسافت نئے راستوں سے اس طرح ہے۔
1مدینہ منورہ روڈ (تنعیم کی سمت) (6,5کلو میٹر)
2جدہ ہائی وے (22کلو میٹر)
3نئے لیث روڈ کی سمت (17کلو میٹر)
4طائف روڈ (طریق سیل کی سمت) (12/850 کلو میٹر)
5طائف روڈ (ہدی کی سمت) (15/50 کلو میٹر)
اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے متعلق بہت سے احکام وابستہ فرمائے ہیں اور ان میں پائے جانے والے شعائر کی تعظیم کو خیر الاعمال فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے:

ذٰلِكَ ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ (سورہ الحج آیت 30)

 ’’خوب یاد رکھو کہ جو شخص اللہ کے نام کی لگی چیزوں کا ادب کرے گا۔ رب کے حضور اسے اس کا اچھا ثواب ملنا ہے‘‘

ایک مقام پر فرمایا:

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ(سورہ حج آیت 32)

 ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم بجا لائے تو یہ دل کے تقوی کا نشان ہے‘‘

میقات سے احرام کی پابندی:

حرم مبارک کے تقدس اور اس کی حرمت کے پیش نظر کافروں کے لئے اس شہر مقدس میں داخل ہونے پر بڑی سخت پابندی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کھلے لفظوں میں فرما دیا ہے کہ:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا(توبہ آیت 28)

 ’’اے ایمان والو! یہ مشرکین نجس و ناپاک ہیں، اس سال کے بعد آئندہ یہ لوگ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں‘‘
جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ کرے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ جس سمت سے مکہ مکرمہ جا رہا ہے۔ اس سمت میں واقع میقات سے احرام باندھے۔ مشہور میقاتین درج ذیل ہیں۔

1ذوالحلیفہ :

 یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔ ابیار علی کے مقام پر ہے مکہ مکرمہ سے اس کی دوری تقریباً چار سو کلو میٹر ہے اور مسجد نبوی سے اس کا فاصلہ بارہ کلو میٹر ہے۔

2حجفہ :

یہ اہل شام و مصر اور ترکی والوں کی میقات ہے۔ نیز یہی میقاب ان لوگوں کی بھی ہے جو اس سمت سے آنے والے ہوں۔ جحفہ کی آبادی کے آثار ختم ہو چکے ہیں۔ آج کل بالعموم رابغ سے لوگ احرام باندھتے ہیں، رابغ کی دوری مکہ مکرمہ سے 183 کلو میٹر ہے۔

3قرن منازل :

 یہ میقات اہل نجد اور اس سمت سے آنے والوں کی ہے۔ آب سیل کے نام سے معروف ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی مسافت 75 کلو میٹر ہے۔ وادی محرم اس کے محاذات میں واقع ہے۔

4ذات عرق:

 یہ اہل عراق اور اس سمت سے آنے والوں کی میقات ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی مسافت 90کلو میٹر ہے۔ اس کے آثار مٹ چکے ہیں، اب اس کے مقابل ایک مقام فربیہ ہے وہاں سے احرام باندھا جاتا ہے۔

5یلملم:

 یہ اہل یمن اور اس سمت سے آنے والوں کی میقات ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی مسافت 92 کلو میٹر ہے۔ اب یہ جگہ سعدیہ کے نام سے معروف ہے۔ (بحوالہ مکہ مکرمہ ماضی و حال کے آئینہ میں از محمود محمد حمو)
مکہ مکرمہ کی اس قدر عزت و عظمت اور حرمت کے باوجود بعض ایسے بھی بدبخت گزرے ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ کی حرمت کو بالائے طاق رکھ کر اس شہر کے تقدس کو پامال کیا، بیت اللہ شریف میں قتل و غارت گری کی کوشش کی اور اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے اللہ کے گھر کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہ کیا۔ آج کے دور میں جو لوگ مکہ مکرمہ پر چڑھائی اور قبضے کے بارے سوچ رہے ہیں ان کو ابرہہ کا انجام سامنے رکھنا چاہئے ۔ تاریخ وسیر کی کتابوں میںلکھا ہے کہ:’’ ابرہہ صباح حبشی نے (جو نجاشی بادشاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا) جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا تعمیر کیا۔ اور چاہا کہ عرب کا حج اسی کی طرف پھیر دے مگر جب اس کی خبر بنو کنانہ کے ایک قبلے پر گندگی پوت دی۔ ابرہہ کو پتا چلا تو سخت برہم ہوا۔ اور ساٹھ ہزار کا ایک لشکر جرار لے کر کعبے کو ڈھانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لئے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا۔ لشکر میں کل نویا تیرہ ہاتھی تھے۔ ابرہہ یمن سے یلغار کرتا ہوا مغمس پہنچا اور وہاں اپنے لشکر کو ترتیب دے کر اور ہاتھی کو تیار کر کے مکے میں داخلے کے لئے چل پڑا جب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادی محسر میں پہنچا تو ہاتھی بیٹھ گیا اور کعبے کی طرف بڑھنے کے لئے کسی طرح نہ اٹھا۔ اس کا رخ شمالی جنوب یا مشرق کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا، لیکن کعبے کی طرف کیا جاتا تو بیٹھ جاتا۔ اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیج دیا جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بھُس کی طرح بنا دیا۔ یہ چڑیاں ابابیل اور قمری جیسی تھیں، ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں، ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں کنکریاں چنے جیسی تھیں، مگر جس کسی کو لگ جاتی تھیں، اس کے اعضاء کتنا شروع ہو جاتے تھے اور وہ مر جاتا تھا۔ یہ کنکریاں ہر آدمی کو نہیں لگی تھیں، لیکن لشکر میں ایسی بھگدڑ مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا، کچلتا، گرتا پڑتا بھاگ رہا تھا۔ پھر بھاگنے والے ہر راہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے پر مر رہے تھے۔ ادھر ابرہہ پر اللہ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاء پہنچتے پہنچتے چوزے جیسا ہو گیا۔ پھر اس کا سینہ پھٹ گیا، دل باہر نکل آیا اور وہ مر گیا۔ (الرحیق المختوم ص 96-95) اس واقعہ کے بعد دنیا کی نگاہیں خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئیں کیونکہ انہیں بیت اللہ شریف کی عظمت کا واضح نشان مل گیا تھا اور یہ بات ان کے دلوں میں بیٹھ گئی کہ اس مقدس گھر کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقدس کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور ہر دور میں وہ اس کے تقدس کی حفاظت خود فرمائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے