سولھواں اصول:

قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ (المائدۃ:100)

’’آپ فرمادیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوسکتے۔‘‘
قرآنِ کریم کا یہ عظیم اصول ہے۔ جہاں بھی انسان کو اقوال ‘افعال‘ سیرت وکردار اور مقالات میں تفریق کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔
خبیث:جو چیز بری اور بیکار ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ ہو وہ خبیث کہلاتی ہے ‘چاہے وہ ظاہراً دیکھی جانے والی چیزہو یا معنوی چیز ہو۔ چنانچہ ’’خبیث‘‘ میں ہر غلط گفتگو ‘ برا اعتقاد ‘ جھوٹی بات اور براکام شامل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے برے کام کو ناپسند کرتا ہے اور اُس سے راضی نہیں ہوتا۔ نتیجتاً وہ کام جہنم میں لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَیَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْکُمَہٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہٗ فِیْ جَہَنَّمَ (الانفال:۳۷)

’’اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملا دے‘ پس ان سب کو ڈھیر کر دے ‘پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے۔‘‘
جب خبیث کے معانی واضح ہوگئے تو ’’طیب‘‘ (پاکیزہ) اس کا اُلٹ ہوا۔ پس اقوال‘ افعال‘ صحیح اعتقادات میں سے جو بھی واجب ‘مستحب اورمباح ہیں‘ وہ سب اِس میں داخل ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس قاعدے میں ہر وہ چیز داخل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہو خواہ اس کا درجہ واجب ہو‘ مستحب ہو یا مباح ہو۔
چنانچہ ایمان وکفر‘ اطاعت ونافرمانی‘ اہل جنت و اہل جہنم اور اچھے اعمال و برے اعمال‘ نیز مالِ حلال ومالِ حرام برابر نہیں ہو سکتے۔ درجِ ذیل آیت کے شروع میں یہ قاعدہ بیان ہوا ہے‘ فرمایا:

قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓــاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ (المائدۃ: 100)

’’(اے نبیﷺ!) آپ فرمادیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں ‘گو آپ کو ناپاک کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اے عقل مندو‘ تاکہ تم کامیاب ہوجائو۔‘‘
اور یہ بات اسی سلسلہ کلام میں بیان ہوئی ہے‘ جس میں کھانے پینے کی اقسام ‘شکار کے احکام اور حرام و حلال کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ آیت اس لیے تو بہر حال نہیں آئی کہ محض یہ بتا دے کہ خبیث و طیب برابر نہیں ہوا کرتے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے اور فطری طور پرمعلوم ہے‘ بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ اس بات کی ترغیب دلائی جائے کہ قول وعمل‘ اعتقاد اور کمائی میں طیب کو تلاش کیا جائے۔ دوسری طرف قول وعمل‘ اعتقاد اور کمائی میں خبیث سے اجتناب کیا جائے۔
جب صورتِ حال یہ ہے کہ بعض لوگ اقوال‘ افعال اور کمائی میں خبیث کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور بہت سارے لوگ فوری فائدے کو دیر سے ملنے والے فائدے پر اور ختم ہونے والے فائدے کو ہمیشہ باقی رہنے والے فائدے پر ترجیح دیتے ہیں‘ تو خبیث کے بارے میں عجیب انداز میں متنبہ کیا گیا ہے جس سے ہر اُس آدمی کی بات کا جواب ہو گیا جو یہ سمجھ رہا ہے کہ بہت سارے لوگ خبیث سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ فرمایا:

وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ

’’گو آپ کو ناپاک کی کثرت اچھی لگتی ہو!‘‘
یہ حقیقت ہے کہ بعض خبائث میں کچھ نہ کچھ جسمانی یا معنوی لذت ہوا کرتی ہے‘ جیسے حرام طریقے سے بہت سارا مال کما لینا‘ زنا کرنا‘ شراب نوشی کرنا یا دوسرے لذت والے حرا م کاموں کے ذریعے جسمانی لذت
حاصل کرنا۔ بسا اوقات یہ چیزیں انسان کو برائی کی طرف
مائل کرتی ہیں اور اُسے اچھی بھی لگتی ہیں۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ چیزیں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ‘اِن کے استعمال سے لذت بھی ملتی ہے اور باآسانی مل بھی جاتی ہیں‘ لیکن نتیجہ وہی ہے کہ انسان کو اَبدی اور باقی رہنے والی نعمتوں اور خوشیوں سے محروم کر دیتی ہیں۔
جب معاملہ اسی طرح ہے جیسے کہ بیان ہواتوممکن ہی نہیں کہ ’’خبیث‘‘، ’’طیب‘‘ کے برابر آجائے (اگرچہ اس کی کثرت تمہارے دل کو اچھی لگتی ہو)۔ طیب کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کی پہچان‘ محبت اوراطاعت کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ کی قسم یہی وہ خوشگوار زندگی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ہر اُس انسان سے وعدہ کیا ہے جواِستقامت پر زندگی گزار دے۔ نتیجتاً اُس کی زندگی دنیا میں ‘ برزخ میں ‘اورآخرت میں بہت عمدہ اور خوشگوار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل 97)

’’جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت لیکن باا یمان ہوہم اُسے یقینا ًنہایت بہتر زندگی عطا فرمائیںگے‘ اور اُن کے نیک اعمال کابہتر بدلہ بھی اُنہیں ضروردیں گے۔‘‘
چونکہ ان لوگوں کے اقوال ‘ افعال اورزندگی عمدہ تھی‘ لہٰذا اللہ کی طرف اُن کی واپسی بھی عمدہ ہی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ(النحل:۳۲)

’’وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں۔‘‘
چونکہ اس اصول کامقام بہت عظیم ہے اور جو باتیں اس میں بیان ہوئی ہیں وہ بھی بہت عظیم ہیں‘ تو بہت ساری شکلوں میں قرآن کریم نے اس کی تاکید فرمائی ہے :
(۱)اس بات کی تاکید کی کہ ہمیشہ پاکیزہ کمائی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰٓــاَیـُّـہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّـہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(البقرۃ 168)

’’لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤپیواور شیطانی راہ پر نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔‘‘
بالخصوص اپنے رسولوں اور پیغمبروں(o) سے مخاطب ہو کر فرمایا:

یٰٓــاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (المؤمنون51)

’’اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤاورنیک عمل کرو۔ تم جوکچھ کررہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔‘‘
اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ اس عظیم مقصد یعنی پاکیزہ کمائی پر دھیان دیا جائے ۔ سلف صالحین اس مسئلے پر بڑی توجہ دیا کرتے تھے‘ حتیٰ کہ ان میں سے کچھ لوگ سینکڑوں میل کا سفر کرتے‘ وطن کی جدائی برداشت کرتے ‘ اور یہ سب کچھ اس لیے کرتے تاکہ لقمہ حلال حاصل کرسکیں۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا فرمان ہے: ’’حلال روزی کمانابہادروں کا کام ہے۔‘‘
(۲) قرآنِ کریم کے اس عظیم قاعدے سے ایک راہنمائی یہ بھی ملتی ہے کہ یہ بات قطعاً صحیح نہیں کہ ہم کسی چیز کی کثرت کوبنیاد بنا کر کہیں کہ یہ چیز ’’طیب‘‘ ہے اور صحیح ہے اور اس پر کوئی شرعی پابندی نہیں ہے۔ یہی حکم اقوال ‘ افعال اور عقائد پر لاگو ہوگا۔ بلکہ اصل فرض تویہ ہے کہ ہم چیزوں کے بارے میں فیصلہ اُن کی کیفیت اور صفت کو سامنے رکھ کر کریں کہ کس حد تک یہ چیز یا کام شریعت ِمطہرہ کے مطابق ہے۔
اِس ایک بات پر غور کر لیں کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ماننے والے کتنے کم ہوا کرتے تھے اور اُن کے دشمن کس قدر زیادہ ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (الانعام:۱۱۶)

’’اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیںکہ اگر آپ اُن کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں۔‘‘
یہی بات ایک عالم ومبلغ کو بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ منہج اور طریقہ کس کا صحیح ہے؟ یہ نہ دیکھے کہ کس بات کو ماننے والے زیادہ ہیں۔
اے مؤمن بھائی ! یہ بات بالکل پکی ہے کہ جس قدر لذت ومزہ حرام میں ہے اتنا ہی مزہ حلال میں بھی ہے بلکہ اس سے بہتر ہے‘ اور بڑی بات یہ ہے کہ حلال کی برکت سے دنیا اور آخرت میں برے انجام سے حفاظت ہے۔ عقل مند انسان جب اپنے آپ کو خواہشات کی غلامی سے آزاد کر لیتا ہے اور اپنے دل کو تقویٰ اور اللہ کے ڈر سے بھر لیتا ہے تو وہ صرف طیب (پاکیزہ) ہی کا انتخاب کرتا ہے‘ بلکہ اس کا نفس خبیث سے دور بھاگتا ہے‘ بھلے وہ بہت ساری لذتوں سے محروم ہو جائے اور اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں کامیاب ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل کو اس آیت کے ذریعے تسلی دیتا رہتا ہے:

قُـلْ مَتَاعُ الــدُّنْیَا قَـلِیْلٌ وَالْاٰخِـرَۃُ خَــیْرٌ لِّـمَنِ اتَّقٰی وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً(النساء 77)

’’(اے نبی ﷺ!) آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے‘ اور پرہیز گاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے‘ اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا۔‘‘
سترہواںاصول

اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ
(القصص 26)

’’بہتر آدمی جسے آپ ملازمت پر رکھیں وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔‘‘
معاملات اور لوگوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے یہ قرآنِ حکیم کا انتہائی محکم اورمضبوط اصول ہے ۔
سورۃ القصص میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور مدین کے رہائشی بزرگ کے واقعے کے حوالے سے یہ اصول آیا ہے۔ یہ بزرگ پانی کی تلاش میں نکلنے سے عاجز تھے ‘ ان کی دونوں بیٹیاں جانوروں کو پانی پلانے کی خاطرنکلا کرتی تھیں۔ کنویں سے لوگوں کے(اپنے جانوروں کو) پانی پلاکر جانے کے انتظار میں انہیں دیر ہو رہی تھی ۔ موسیٰ علیہ السلام کی مروّت اورمردانگی سے برداشت نہ ہوا اور ان بچیوں کے سوال کرنے سے پہلے ہی اُن کی ضرورت پوری کر دی اوران کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔ آپ کا یہ کام ان دونوں بچیوں کو بہت پسند آیا ‘ تو انہوں نے گھر بیٹھے بوڑھے باپ سے جاکر اس واقعہ کا تذکرہ کیا۔ بوڑھے باپ نے موسیٰ علیہ السلام کو بلالانے کی خاطر بھیجا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے اپنے حالات سنائے‘ اور بچیوں کو بھی خوب معلوم تھا کہ ان کا والد تندرست مردوں والے کام نہیں کرسکتا‘ تو اِن دونوں بچیوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا:

یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ (القصص26)

’’اباجی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے‘ کیونکہ آپ جنہیں اُجرت پررکھیں ان میں سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اورامانت دار ہو۔‘‘
لڑکی نے کہا: ’’بہتر آدمی جسے آپ ملازمت پر رکھیں وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو‘‘۔ یہ اس لڑکی کے مطالبے کا سبب اور وجہ ہے۔
قوت (طاقت) ‘کام کی ضرورت ہے اور امانت کام کو اچھے طریقے سے نمٹانے کی صلاحیت کانام ہے۔
بالخصوص ان دونوں صفات کا بیان کرنااس بچی کے انتہائی سمجھ دار اورذہین ہونے کی دلیل ہے‘ جس نے یہ دونوں خوبیاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام میں محسوس کر لیں۔ تمام قوموں اور شریعتوں میں اہل علم وفراست ان دونوں خوبیوں کی ضرورت واہمیت پر متفق ہیں۔
علمائے کرام رحمہم اللہ نے اس آیت کو اس اصول کی بنیاد قرار دیا ہے کہ جو انسان جس کام کا ذمہ دار بنایا جائے اس میں یہ دونوں خوبیاں پائی جائیں‘ اور جس آدمی میں یہ دونوں خوبیاں پائی جائیں وہ اس کام کا زیادہ حق دار ہے۔ جس قدر ذمہ داری بڑی ہو گی اسی اعتبار سے ان دونوں خوبیوں کے حوالے سے سختی زیادہ ہوگی۔
جوآدمی بھی قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے اسے ان دونوں خوبیوں میں گہرا ربط نظرآتا ہے۔ قوت وامانت کو متعددجگہ اکٹھا ملاکر بیان کیا گیا ہے۔

(۱)انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام تک وحی اور پیغامات پہچانے والے فرشتے (جبریل علیہ السلام ) کے بارے میں تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ(التکویر19۔21)
’’یقینا یہ ایک بزرگ رسول کا کہا ہوا ہے۔ جو قوت والا ہے ‘عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے ۔جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امین ہے۔‘‘
(۲)سیدنا یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر سے فرمایا:

اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ

’’آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقررکر دیجئے ‘ میں حفاظت کرنے والا‘باخبر ہوں۔‘‘(یوسف55)
یعنی جو ذمہ داری مجھے دی جائے گی ‘ میں اس کی حفاظت کروں گا۔ کوئی چیزبے محل ضائع نہیں ہوگی ‘ہر آنے جانے والی چیز کا ریکارڈ ہوگا۔ میں اس پورے نظام کو خوب جانتا ہوں‘ کس کو دینا ہے کس کو نہیں دینا ‘اور دوسرے معاملات سے بھی واقف ہوں۔
(۳)سیدنا سلیمان علیہ السلام کے واقعے میں بیان ہوا ہے ‘ وہ اپنے اردگرد موجود افراد سے ملکہ سبا ’’بلقیس‘‘ کے عرش کو لانے کے معاملے پرغور کر رہے تھے۔

قَالَ یٰٓـاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ (النمل 38۔39)

’’آپؑ نے فرمایا: اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو اُس کے مسلمان ہو کرپہنچنے سے پہلے ہی اُس کا تخت میرے پاس لے آئے؟ ایک دیو ہیکل جن کہنے لگا: آپ کے اپنی اس مجلس سے اُٹھنے سے پہلے ہی میں اسے آپ کے پاس لے آتا ہوں۔ یقین مانیے کہ میںطاقتور بھی ہوں اور امانت داربھی ۔‘‘
انہی دلائل کی روشنی میں اہل ِ علم نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ ہر منصب اور ہرکام کے لیے بہتر سے بہتر انسان کا انتخاب کیا جائے‘ کیونکہ ذمہ داری کے دو رکن ہوا کرتے ہیں: طاقت اورامانت ‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ

’’آپ جنہیں اُجرت پررکھیں اُن میں سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اورامانت دار ہو۔‘‘(القصص)
ہرذمہ داری کے اعتبار سے طاقت کا معیار مختلف ہوا کرتا ہے۔ جنگ کی ذمہ داری ہو تو معیار: دل کی بہادری‘ جنگوں کاتجربہ ‘دشمن کو دھوکہ دینے کی صلاحیت اورمختلف طریقوں سے جنگ کرنے کی طاقت ہے۔ لوگوں میں فیصلہ کرنے کی ذمہ دا ری ہوتوطاقت کا معیار: کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ ﷺ کے مطابق عدل وانصاف پر مبنی علم ہے۔ نیز فیصلوں کو جرأت کے ساتھ نافذ کرنے کی طاقت موجودہو۔
امانت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کاڈراورخوف ہے کہ وہ اللہ کی آیات کو بیچ کر دنیا نہ کمائے اور لوگوں سے نہ ڈرے۔
آخر میں فرمایا:اس موضوع کی اہم بات یہ ہے کہ بہتر سے بہتر انسان کو لایا جائے۔ اور یہ اسی وقت ہو پائے گا جب ذمہ داری کے مقصد کو سمجھا جائے گااور اس ذمہ داری تک پہنچنے کے طریقوں کو جانا جائے گا۔ جب مقاصد اور وسائل سمجھ آجائیں تو معاملہ حل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے