Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں(قسط 8)

Written by پروفیسر ڈاکٹرعمر بن عبد اللہ المقبل ترجمہ: ابو عبدالرحمن شبیر بن نور 21 Aug,2016
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

اٹھارہواں اصول :
وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ (فاطر:43)
’’اوربُری تدبیروں کا وبال اُن تدبیر والوں پر ہی پڑتا ہے۔‘‘
قرآن کریم کا یہ مضبوط قاعدہ اس لیے بیان ہوا ہے تاکہ مخلوقات کے باہمی معاملات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقے کو واضح کیا جا سکے۔ سورئہ فاطر کی آیات کے پس منظر میں یہ قرآنی قاعدہ بیان ہوا ہے۔ اِن آیات کا ذکر کرنا اس لیے بہتر ہے کہ اس کا معنیٰ واضح ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہٹ دھرموں کے ایک گروہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَآئَ ہُمْ نَذِیْرٌ لَّیَکُوْنُنَّ اَہْدٰی مِنْ اِحْدَی الْاُمَمِ فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَہُمْ اِلَّا نُفُوْرَا اِسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّیِٔ وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا } (فاطر:42-43)
’’اور ان کفار نے بڑی زوردارقسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا آیا تو وہ ہرایک اُمت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے۔ پھر جب اِن کے پاس ایک پیغمبر آپہنچے توبس ان کی نفرت میں ہی اضافہ ہوا۔ دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے اوران کی بری تدبیروں کی وجہ سے۔ اوربری تدبیروں کا وبال تو ان تدبیر والوں پر ہی پڑتا ہے۔ سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے؟ سوآپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے‘ اور اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے۔‘‘
مذکورہ بالااصول کا خلاصہ : اِن ہٹ دھرم کافروں نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر اِن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آجائے ‘ جو انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرائے ‘تو وہ یہود ونصاریٰ اور دوسرے لوگوں سے زیادہ سیدھی راہ پر چلنے والے اور حق کی پیروی کرنے والے بن جائیں گے۔ پھر جب رسول اللہﷺ تشریف لے آئے تووہ حق سے بہت دور ہو گئے اوراس سے نفرت کرنے والے بن گئے۔ ان کی قسمیں کوئی اچھی نیت سے نہیں تھیں اور نہ ہی وہ حق کے طلب گار تھے۔ وہ تو بس لوگوں کے مقابلے میں تکبر کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ وہ تو بری تدبیر کرنا ‘ دھوکہ دینا چاہتے تھے اور باطل پرست تھے۔ اور برے مکر کا نقصان مکر کرنے والے پر ہی آتا ہے۔ کیا یہ متکبر اور مکر کرنے والے اسی عذاب کے منتظر ہیںجو ان سے پہلی قوموں پر آچکاہے؟ تمہیں اللہ کا طریقہ کبھی بدلا ہوا نہیں ملے گا‘ اور نہ ہی منتقل ہو گا۔ کسی کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ کے عذاب کو اپنے اوپر سے یا کسی دوسرے سے ٹال دے۔
قرآنِ کریم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کافروںکا مکر وفریب والا طریقہ اللہ کے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ رہا ہے ‘فرمایا:
وَقَدْ مَکَرُوْا مَکْرَہُمْ وَعِنْدَ اللّٰہِ مَکْرُہُمْ وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ (اِبراھیم46)
’’یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان تمام چالوں کا علم ہے۔ اور ان کی چالیں ایسی تھیں کہ اُن سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں۔‘‘
افراد کے حوالے سے قرآنِ کریم میں اس اصول کو واضح کرنے والی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ‘ لیکن ہم چندایک ہی بیان کریں گے۔ مثلاً:
(۱)اللہ تعالیٰ نے اُس سازش کا ذکر فرمایاہے جو سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اُن کے خلاف کی تھی۔ سوچئیے کہ انجام کار کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُوْنَ (یوسف 102)
’’آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے۔‘‘
یہ بات برحق ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے توبہ کرلی تھی‘ لیکن اپنے والد اور اپنے بھائی کو مختلف قسم کی تکلیفیں دینے کے بعد۔ چنانچہ ان کی ساری سازش کا نتیجہ الٹ نکلا۔ جس نے صبر کیا اور معاف کردیا اس کا انجام بہت اچھا ہوااور بہت سارا متبرک مال ملا۔
(۲)جب مشرکوں نے ہمارے نبی کریم محمد ﷺ کو تکلیفیں دینے کے لیے مختلف قسم کی سازشیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (الأنفال 30)
’’(اور اس واقعے کا بھی ذکر کیجئے!) جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیرسوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا آپ کوقتل کرڈالیں یا آپ کو جلاوطن کردیں۔ اور وہ تواپنی تدبیریں کررہے تھے اوراللہ اپنی تدبیر کررہا تھا۔اورسب سے مستحکم تدبیروالااللہ ہے۔‘‘
چنانچہ انجام کار میں آپ ﷺ کوکامیابی ہوئی۔
(۳)جب بنی اسرائیل کے لوگ سیدناموسیٰ علیہ السلام پرایمان لے آئے تو فرعون نے کس قدر سازشیں کی تھیں اور جن لوگوں کے خلاف سازش ہوئی ان میں سے ایک آدمی وہ تھا جسے ’’فرعون کے قبیلے کا مؤمن‘‘ کہا گیا ہے‘ جس کے واقعے کو اللہ تعالیٰ نے سورئہ غافر (المؤمن) میں ذکر کیا ہے۔ فرمایا:
فَوَقٰـہُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (غافر45۔46)
’’پس اسے اللہ تعالیٰ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیاجو انہوں نے سوچ رکھی تھیں اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا۔ آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح وشام لائے جاتے ہیں‘ اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ)فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس مؤمن کو تو محفوظ رکھا البتہ فرعون اوراس کے لشکر اب تک عذاب میں ہیں ‘بلکہ جس وقت سے مرے ہیں‘ان کو عذاب مل رہا ہے اور قیامت تک ملتا رہے گا۔
لوگوں کے واقعاتی حالات میں بھی اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ جیسے کچھ معاملات میںحیلے کے ذریعے سود کھانے والوں کے واقعات ہیں‘ یا حرام نکاح کا حیلہ ہے‘ اور اس قسم کے بہت سارے واقعات ہیں۔ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جو سازشی بن کر زندہ رہا وہ فقرومحتاجی میں مرا۔
اسی لیے بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے حرام طریقے سے شکار کاحیلہ کیا ‘اللہ تعالیٰ نے ان کو سزادی اورانہیں بندراور خنزیربنادیا اورجن لوگوں نے سود کے ذریعے لوگوں کا مال کھانے کاحیلہ کیا‘ ان کی سزا کے طور پران کے مال کوملیامیٹ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرۃ:۲۷۶)
’’اللہ تعالیٰ سود کی جڑمار دیتا ہے اورصدقات کوترقی دیتا ہے۔‘‘
اوریہاں پراصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جرم کر نے والوں کی سزا یہ رکھی ہے کہ جس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر اس نے جرم کیانتیجہ اس کے مقصود کے الٹ نکل آیا۔ چنانچہ سودکھانے والا اپنا مال بڑھانا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقصود کے برخلاف اس کی سزارکھی ہے۔ (یعنی اس کے مال کو ملیا میٹ کردیا۔) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے اندرنظامِ کائنات کی یہ سنت رائج کردی ہے کہ جو باطل کی خاطرسازش کرے گا اس کے خلاف بھی سازش ہو جائے گی‘ اور جس نے حیلے سے کام لیا اس کے خلاف بھی حیلے ہوجائیں گے ‘اورجس نے دوسروں کو دھوکہ دیا وہ خود بھی دھوکہ کھاجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُھُمْ (النساء: ۱۴۲)
’’بے شک منافق اللہ تعالیٰ سے چالبازیاں کررہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ (فاطر:۴۳)
’’اوربری تدبیروں کا وبال ان تدبیروالوں پر ہی پڑتا ہے۔‘‘
نتیجہ یہ ہے کہ ہرحیلہ ساز کے خلاف بھی حیلہ ہو جائے گا‘ دھوکہ دینے والا بھی دھوکہ کھائے گا اور سازشی کے خلاف بھی سازش ہوگی۔

Read 672 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in اگست 2016

Related items

  • قرآن مجید اک نصیحت عدیم المثال
    in جولائی 2016
More in this category: « نعمت کی قدر کیجیے سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری کیا ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے؟ قسط 6 »
back to top

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2016