بَاب زِيَادَةِ الْإِيمَانِ وَنُقْصَانِهِ
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ( وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ) ( وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ) وَقَالَ ( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ) فَإِذَا تَرَكَ شَيْئًا مِنَ الْكَمَالِ فَهُوَ نَاقِصٌ

ایمان کی کمی زیادتی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی ثابت ہے اور ہم نے ان کی ہدایت زیادہ کر دی اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے (یہ بھی فرمایا ہے) کیونکہ کامل چیز میں سے کمی کی جائے گی تو اس کا نام نقصان ہے

6-44- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ قَالَ أَبو عَبْد اللَّهِ قَالَ أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِيمَانٍ مَكَانَ مِنْ خَيْرٍ .

معانی الکلمات :
وَزْنُ : مقدار
شَعِيرَةٍ : جَو
خَيْرٍ:نیکی ، بھلائی ، مدار ایمان \\
بُرَّةٍ : گندم
ذَرَّةٍ : ذرہ برابر
مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر نیکی (ایمان) ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهکہے اور اس کے دل میں گندم کے ایک دانے کے برابر خیر (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهکہے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا، ابوعبداللہ نے کہا کہ ابان نے بروایت قتادہ، انس، نبی ﷺسے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ روایت کیا ہے۔
Narrated Anas: The Prophet said, \”Whoever said \”None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a barley grain will be taken out of Hell. And whoever said: \”None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a wheat grain will be taken out of Hell. And whoever said, \”None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of an atom will be taken out of Hell.\”
تراجم الرواۃ:
1نام ونسب: مسلم بن إبراهيم الأزدي الفراهيدي محدث البصرۃ، البصری
کنیت : ابو عمرو
ولادت : 133ہجری ۔
محدثین کے ہاں رتبہ :
ابو اسمعیل ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے مسلم بن ابراہیم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میںنے 800 مشائخ سے حدیث لکھی ہیں۔ امام یحییٰ بن معین کے ہاں ثقہ مامون ہیں، عبد الرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نےاپنے والد سے مسلم بن ابراہیم کے بارے سوال کیا تو جواب میں عرض کیا کہ وہ ثقہ صدوق تھے۔
وفات : 222 هہجری ۔
2 ھشام بن أبی عبد اللہ الدستوائی البصری الربعی ھو الحافظ الحجۃ الإمام
کنیت : ابو بکر
محدثین کے ہاں رتبہ :
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہشام ثبت ہیں ، امام العجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہشام بصری حدیث میں ثقہ ثبت ہیں۔
وفات :ہشام بصری رحمہ اللہ کی وفات 152 ہجری یا 153 ہجری میں ہوئی ۔
3 قتادہ بن دعامہ کا تعارف حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں ۔
4 سیدناأنس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارف بھی حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں۔
تشریح :
اس حدیث میں واضح طور پر بیان ہوا ہےکہ جس کسی کے دل میں ایمان کم سے کم ہوگا۔ کسی نہ کسی دن وہ مشیت الٰہی کے تحت اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر نجات کا دارومدار ہے مگر اللہ کے یہاں درجات اعمال ہی سے ملیں گے۔ جس قدر اعمال عمدہ اور نیک ہوں گے اس قدر اس کی عزت ہوگی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ کچھ لوگ ایمان میں ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کے قلوب میں ایمان محض ایک رائی کے دانہ برابر ہوتا ہے۔ حدیث نبوی میں اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ جملہ ایمان داروں کا ایمان یکساں مانتے ہیں اور کمی بیشی کے قائل نہیں ان کو اس قول کا خود اندازہ کرلینا چاہئیے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ووجہ مطابقۃ ھذا الحدیث للترجمۃ ظاہر واراد بایرادہ الرد علی المرجئۃ لما فیہ من ضرر المعاصی مع الایمان وعلی المعتزلۃ فی ان المعاصی موجبۃ للخلود یعنی اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور حضرت مصنف رحمہ اللہ کا یہاں اس حدیث کے لانے سے مقصد مرجیہ کی تردید کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایمان کے باوجود معاصی کا ضرر ونقصان بتلایا گیا ہے اور معتزلہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ گنہگار لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَاناً (الانفال 2)

قرآن مجید کی آیات سن کر مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جب قرآنی آیات پڑھنے یا سننے میں آپ کو لطف آرہا ہو ، آیات میں دیے گئے پیغام کی سمجھ آرہی ہو ، عمل کرنے کا عزم پیدا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوا ہے ۔
جب اذان ہورہی ہو ، اور ہم سن کر بھی کروٹ بدل کر سو جائیں ، تو اس کا مطلب ہے کہ ایمان کمزور ہو چکا ہے ، جس کی وجہ سے شیطان ہم پر حاوی ہورہا ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایمان کے کم اور زیادہ ہونے سے متعلق پوچھا گیا ، تو آپ نے درج ذیل موقوف حدیث بیان کی :

حدثنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حدثنا حماد بن سلمة، عن أبي جعفر الخطمي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ: الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، فَقِيلَ: وَمَا زِيَادُهُ وَمَا نُقْصَانُهُ؟ فَقَالَ: إِذَا ذَكَرْنَا اللَّهَ فَحَمِدْنَاهُ وَسَبَّحْنَاهُ؛ فَذَلِكَ زِيَادَةٌ، وَإِذَا أَغْفَلْنَا وَضَيَّعْنَا وَنَسِينَا، فَذَلِكَ نُقْصَانُهُ.(حديث السراج 3/ 81)

عمیر بن حبیب نے کہا : ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے ، پوچھا گیا : یہ کمی بیشی کیسے ہوتی ہے ؟ فرمایا : جب ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں ، اللہ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں تو یہ ایمان میں اضافہ ہے ، اور جب ہم اللہ کے ذکر سے غافل ، لا پرواہ رہتے ہیں تو یہ ایمان کی کمی کے باعث ہوتا ہے ۔
یہ اثر مصنف ابن ابی شیبہ ، السنۃ للخلال ، الشریعہ للآجری ، الابانۃ لابن بطہ ، شعب الایمان للبیہقی سمیت کئی ایک کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ایمان کا اتار چڑھاؤ۔
ایک مومن کا ایمان کب بڑھتا ہے اور کب گھٹتاہے ۔
ایک مومن مرد وعورت کیلئے انتہائی ضروری ہےکہ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کو کتاب و سنت کے ترازو میں تولتا رہے اور یہ دیکھتا رہے کہ اسکا ایمان اس دنیا کی خطرناک مارکیٹ میں کس قدر گراوٹ کا شکار ہورہا ہے ، وہ اپنے ایمان کو کتنے وائرس سے بچا پارہا ہے ، یقینا آج ہماری نظریں دنیاوی کاروبار پر لگی ہوتی ہیں کہ جانے کب اور کس لمحہ ہمارے کاروبار کمزور ہوجائے اور ہمیں یہ فکر تو لاحق ہوتی ہے کہ ہم اپنے گرتے کاروبارکیسے کھڑا کریں ، لیکن عجیب سی بات ہے کہ ہمیں اپنے سب سے قیمتی سرمایہ اپنے ایمان کے کمی و زیادتی کی فکر نہیں ہوتی جبکہ سیرت رسول r کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ خبردار ایمان یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ اسے ایک مرتبہ خرید لیا جائے اور اسے اپنے کھاتے میں خاندان در خاندان فکس کردیا جائے ، بلکہ ایمان کیلئے ضروری ہےکہ ایک مسلمان ہمیشہ اپنی توجہ اسکی طرف مائل رکھے ، اور اس بات کا علم رکھے کہ کونسی چیزیں اسے نقصان پہنچاتی ہیں اور کن چیزوں سے اسے قوت ملتی ہے اس علم کے ساتھ وہ ان چیزوں کو اختیار کرے جن سے ایمان کو جلا ملتی ہے اور ان چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے جن سے ایمان پارہ پارہ ہوجاتا ہے ، لہذا اس حدیث مبارک کی روشنی میں اسی بات کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیںکہ وہ کونسے اسباب ہیں جو ایمان میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور کونسے ایسے اسباب جو ایمان کیلئے خطرہ اور اس میں کمی کا باعث بنتے ہیں :
ایمان میں زیادتی کے اسباب :
پہلا سبب :
اللہ تعالی کے اسماء وصفات کی معرفت ، بلا شک انسان کو اللہ تعالی کے اسماء وصفات کی معرفت جتنی زیادہ ہو گی اتنا ہی اس کا ایمان زیادہ ہو گا اسی لئے آپ اہل علم کو جنہیں اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا علم دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے انہیں ایمان میں دوسروں سے قوی الایمان پائیں گے۔
دوسرا سبب :
اللہ تعالی کی کونی اور شرعی نشانیوں میں غور وفکر تو انسان جتنا زیادہ جہان کے اندر مخلوقات میں غور وفکر کرے گا اتنا ہی اس کا ایمان زیادہ ہو گا ۔
فرمان باری تعالی ہے :

وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِ
ينَ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ (الذاریات 20 – 21 )

اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو
تیسرا سبب :
کثرت اطاعت : کیونکہ انسان جتنی اطاعت زیادہ کرے گا اس کا اتنا ہی ایمان بھی زیادہ ہو گا چاہے یہ اطاعت قولی ہو یا فعلی تو اللہ کا ذکر ایمان کی کیفیت اور کمیت کو بھی زیادہ کرتا ہے نماز روزہ اور حج بھی ایمان کی کیفیت اور کمیت کو زیادہ کرتا ہے ۔
ایمان میں کمی کے اسباب :

پہلا سبب :

اللہ تعالی کے اسماء وصفات سے جہالت کی بنا پر ایمان میں نقص پیدا ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالی کے اسماء وصفات میں انسان کی معرفت کم ہوتی ہے تو اس کا ایمان بھی ناقص ہو جاتا ہے ۔
دوسرا سبب :
اللہ تعالی کی کونی اور شرعی نشانیوں میں غور و فکر اور تدبر سے اعراض کیونکہ یہ نقص ایمان کا سبب بنتا ہے یا پھر کم از کم اسے وہیں ٹھرا دیتا اور اسے بڑھنے نہیں دیتا ۔

تیسرا سبب :

معصیت اور گناہ کا ارتکاب کیونکہ گناہ کا دل اور ایمان پر بہت بڑا اثر ہے اسی لئے نبی ﷺکا فرمان ہے: (زانی جب زنا کر رہا ہوتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا)۔
چوتھا سبب :
اتباع واطاعت نہ کرنا ترک اطاعت یقینی طور پر نقص ایمان کا سبب ہے لیکن اگر اطاعت واجب ہو اور اسے بغیر کسی عذر کے ترک کیا جائے تو وہ ایسا نقص ہے جس پر سزا اور ملامت بھی ہو گی اور اگر اطاعت واجب نہیں یا پھر واجب تھی لیکن اسے کسی عذر کی بنا پر ترک کیا گیا تو وہ ایسا نقص ہے جس پر سزا اور ملامت بھی ہو گی اور اگر اطاعت واجب نہیں یا پھر واجب تھی لیکن اسے کسی عذر کی بنا پر ترک کیا گیا تو وہ ایسا نقص ہے جو کہ ملامت والا نہیں تو اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ناقص العقل اور دین قرار دیا او اس کے نقص دین کی علت یہ بیان فرمائی کہ جب اسے حیض آتا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے حالانکہ حالت حیض میں نماز اور روزہ چھوڑنا ملامت کا کام نہیں بلکہ اسی کا حکم ہے لیکن وہ فعل جو کہ مرد کرتا ہے جب اس سے وہ چھوٹ گیا تو اسی وجہ سے وہ ناقص العقل ہوئی ۔( مجموع فتاوی ورسائل الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ)
اوراللہ تعالی کا ذکر ایمان میں زیادتی اور دل کے اطمینان کا سبب ہے –۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

أَلا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (سورة الرعد 28)

” خبردار اللہ تعالی کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں
اور نماز اور روزوں اور باقی ارکان اسلام کی پابندی کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی رحمت کی امید اور اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے ایمان قوی اور مضبوط ہوتاہے۔
فرمان باری تعالی ہے :

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَاناً وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (سورة الأنفال2۔4)

” ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالی کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایمان والے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس بڑے درجے اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے\”
اوراللہ تعالی کی اطاعت سے ایمان زیادہ اور معصیت سے اس میں کمی واقع ہوتی ہے تو آپ پر جو اللہ تعالی نے نماز کی ادائیگی بروقت اور مسجد میں واجب کی اس کی حفاظت کرنےاور اسی طرح دلی لگاؤ سے زکوۃ کی ادائیگی آپ کے گناہوں سے پاکی اور فقراء اور مساکین کے لے رحمت کا باعث ہو گی –
آپ اہل خیر اور اچھے لوگوں کی مجلس اختیار کریں جو کہ آپ کے لئے شریعت کی تطبیق میں معاون ثابت ہو گی اور وہ دنیا وآخرت کی سعادت کی طرف آپ کی رہنمائی کریں گے –اور برے بدعتی اور گناہ گار لوگوں سے دور رہیں تا کہ وہ آپ کو کہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں اور آپ میں خیر و بھلائی کے عزم کو کمزور نہ کر دیں –۔
اور کثرت سے نوافل اور خیر وبھلائی کے کام کرتے رہیں اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے رہو اور اس سے توفیق طلب کرتے رہو۔
اگر آپ نے یہ کام سر انجام دئے تو اللہ تعالی آپ کے ایمان کو زیادہ کر دے گا اور جو آپ سے بھلائی کے کام چھوٹ گئے ہیں آپ انہیں حاصل کر سکیں گے اور اللہ تعالی اسلام کی راہ پر آپ کے احسان اور استقامت میں زیادتی فرمائے –۔
آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے

يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَی دِينِکَ

’’اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے