شراب نوشی :

شراب کی حرمت کے مدارج :
جب آپ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اس وقت تک لوگ شراب پیا کرتے تھے۔
جب انہوں نے ان کے نقصانات اور مفاسد دیکھے تو آپ سے شراب اور جوئےسے متعلق سوالات کیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرۃ : 219)

’’ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
یعنی ان کے استعمال میں بڑا گناہ ہے اور ان میں مادی اور دینی اضرار ومفاسد ہیں اور ان دونوں میں کچھ لوگوں کیلئے فائدے بھی ہیں اور یہ مادی فوائد ہیں جسےشراب کی تجارت میں نفع اور اسی طرح جوے سے بغیر محنت کے مال کمانا ہے۔
اور ان تمام معاملات کے بعد بھی ان کے استعمال میں گناہ نفع سے زیادہ ہے اور یہاں حرمت ترجیحاًہے اور یہ مکمل قطعی تحریم نہ تھی۔ پھر اس کے بعد اس کی حرمت نماز کے اوقات میں لوگوں پر تدریجاً آئی جو اس سے محبت کرتے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ گردانتے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النسائ:43)

’’اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔‘‘
اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک شخص نے نشے کی حالت میں نماز پڑھی تو اس طرح قرأت کی

قل يا أيها الكافرون أعبد ما تعبدون

اے نبی ﷺ آپ کہیے اے کافروں ! میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ آخر سورت تک بغیر نفی کے ذکر کیا ہے اور یہ اس کی حرمت کی آخری تمہید تھی ۔
تو اس کے بعد حرمت کا آخری حکم آگیا ۔ فرمان الٰہی ہوا :

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ

’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔(المائدۃ : 90۔91)
اور اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خمر(شراب) کا عطف جوئے،انصاب اور الزام پر بھی کیا ہے اور ان تمام چیزوں پر درج ذیل حکم جاری کیا۔
۱۔ ناپاک : یعنی اہل علم وبصیرت کے نزدیک جو خبیث وناپاک ہے۔
۲۔ یہ شیطانی عمل اور اس کی زینت ووساوس ہیں۔
۳۔ اگر سابقہ احکام اسی طرح ہیں تو اس سے اجتناب کرنا اور دور رہنا واجب ہے تاکہ انسان کامیابی کیلئے ہمیشہ مستعد وتیار رہے۔
۴۔ شیطان کی چاہت یہ ہے کہ شراب نوشی اور جوئے کو (لوگوں) کے سامنے مزین کرکے پیش کرے جس کے سبب وہ ان کےمابین بغض وعداوت کو واقع کرسکے اور یہ دنیاوی نقصان ہے۔
۵۔ اور اس کی یہ چاہت بھی ہے کہ اللہ کے ذکر سے روکے اور نماز سے غافل کرے یہ دینی نقصان ہے۔
۶۔ اور یہ تمام چیزیں اس کے لین دین کے تمام معاملات کی انتہا پر موجب ہیں اور یہ آخری آیت ہے جو شراب کے احکام کی بابت نازل ہوئی اور یہ اس کی حرمت کا قطعی فیصلہ ہے۔
عبد بن حمید ، عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا شراب کی حرمت پر پہلی آیت

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرۃ : 219)

’’ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
تو بعض لوگوں نے کہا ہم اسے اس کے فوائد کی بناء پئیں گے اور دوسروں نے کہا اس میں کوئی بھلائی نہیں(بلکہ) اس میں گناہ ہے پھر یہ آیت نازل ہوئی۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النسائ:43)

’’اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔‘‘
تو بعض لوگوں نے کہا ہم گھروں میں بیٹھ کر پئیں گے اور دوسروں نے کہا اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے یہ ہمارے اور مسلمانوں کے ساتھ نماز کے مابین حائل ہوتی ہے تو پھر یہ آیت نازل ہوئی :

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ

’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔(المائدۃ : 90۔91)
تو انہیں منع کر دیاگیا تو وہ رک گئے اور یہ حرمت غزوئہ احزاب کے بعد نازل ہوئی ، سیدنا قتادہ سے مروی ہے کہ بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ المائدۃ غزوئہ احزاب کے بعد نازل کی ہے اور غزوئہ احزاب چار یا پانچ ہجری میں واقع ہوا۔
اور ابن اسحاق نے ذکرکیا ہے کہ (شراب) کی حرمت غزوئہ بنی نضیر میں ہوئی اور راجح قول کے مطابق یہ سن چار ہجری میں واقع ہوا۔
اور دمیاطی سیرت نبوی میں لکھتے ہیں ’’شراب کی حرمت سن چھ ہجری حدیبیہ کے سال ہوئی۔‘‘
شراب کی حرمت پر اسلام کی شدت :
شراب کی حرمت ان اسلامی تعلیمات سے اتفاق رکھتی ہیں جو انسان کی شخصیت کو جسمانی، نفسی اور عقلی طور پر قوت بخشتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شک شراب شخصیت کو کمزور اور اس کی قوت کو ختم کر دیتی ہے اور خاص کر عقل کو بقول شاعر ؎

شربت الخمر حتى ضل عقلي كذاك الخمر تفعل بالعقول

میںنے شراب نوشی کی یہاں تک میری عقل زائل ہوگئی اور شراب عقل کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہے۔
اور جب عقل زائل ہوجاتی ہے توشخص انسان سے شریر حیوان بن جاتاہے اور اس سے دنگے وفساد برپا ہوتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں ہوتی جیسے قتل،دشمنی،فحاشی، رازوں کا افشاء اور ملکی معاملات میں خیانت۔
اور یہ برائی انسان کے اپنے نفس تک ساتھ ساتھ اس کے دوستوں اور پڑوسیوں تک بھی پہنچ جاتی ہے بلکہ ہر اس تک جو اس برائی کو دوسروں تک پہنچانے میں حصہ ڈالتے ہیں۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سےر وایت ہے کہ وہ اپنے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے اور ان کی دو اونٹنیاں تھیں اور انہوں نے اس پر اذخر(جو کہ ایک خوشبودار بوٹی ہے) ایک یہودی سونار کے ہاں جمع کروائی تاکہ وہ اُسے دوسرے سوناروں کو بیچ کراس کی قیمت کے بدولت وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ کیلیے مستعد ہوجائیں ، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بعض انصاریوں کے ہمراہ شراب نوشی کر رہے تھے جہاں ایک لونڈی گیت گارہی تھی تو اس نے ایک ایسا شعر گایا جس سے ان دونوں اونٹنیوں کو نحر کرنے کی ترغیب دلائی گئی اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ (اٹھے اور انہیں نحر کردیا) اور ان کا سب سے بہترین حصہ کھانے کیلئے لیا ان کی کوہان کاٹ دی اور ان کے جگر کو نکال دیا۔
جب یہ منظر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو انہیں بہت درد ہوا اور ان کی آنکھیں پرنم ہوگئی اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کے پاس سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شکایت کر دی تو نبی کریم ﷺ سیدنا علی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے ہمراہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان پر غصے ہوئے اور انہیں ملامت کی ، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نشے میں تھے تو ان کی آنکھیں لال ہوگئی اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اور جو ان کے ہمراہ تھے انہیں دیکھا اور کہا ’’کیا تم لوگ میرے باپ کے غلام ہو نہ‘‘ جب نبی کریم ﷺ کو پتہ چلا کہ وہ نشے میں ہیں تو آپ بمعہ اپنے ساتھیوں کے ایڑیوں کے بل وہاں سے چلے گئے شراب کے یہ آثار منعقد ہوتے ہیں جب وہ پینے والے کے دماغ سے کھیلتی ہے اور اس کے سمجھنے کی طاقت کو ختم کر دیتی ہے اسی لیے شریعت نے اس پر ام الخبائث کا اطلاق کیا ہے۔
سیدناعبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الْخَمْرُ أُمُّ الْخَبَائِثِ

’’شراب برائیوں کی جڑ ہے‘‘۔
سيدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ

الْخَمْرُ أُمُّ الْفَوَاحِشِ وَأَكْبَرُ الْكَبَائِرِ وَمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ تَرَكَ الصَّلَاةَ وَوَقَعَ عَلَى أُمِّهِ وَخَالَتِهِ وَعَمَّتِهِ

’’شراب برائیوں کی ماں اور بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے جس نے شراب پی تو اس نے نماز کو چھوڑا اور وہ اپنی ماں،خالہ اور پھوپھی سے بدکاری کا مرتکب ہوگیا ۔
طبرانی اسے عبد اللہ بن عمرو سے(کبیر) میں روایت کیا ہے اور اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ ہیں :

مَنْ شَرِبَهَا وَقَعَ عَلَى أُمِّهِ

’’جس نے شراب پی اس نے اپنی ماں سے بدکاری کی۔‘‘
اور اسےام الخبائث میں سے گردانا اور اس کی حرمت کی تاکید کی اور اس کے پینے والے ،اس سے تعلق رکھنے والے پر لعنت کی اور اُسے ایمان سے خارج سمجھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول

اللہ ﷺ نے شراب سے جڑے دس افراد پر لعنت دی 1 جو اسے نچوڑتا ہے 2جس کیلئے نچوڑا جاتا ہے3 اس کا پینے والا4 اس کو اٹھانے والا 5 اور وہ جس کیلئے اٹھایا جائے6 اور اس کا پلانے والا7اور اس کو بیچنے والا8 اور اس کی قیمت کھانے والا 9 اور اسے خریدنے والا 0اور جس کیلئے خریدی گئی ہو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےر وایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ
’’کوئی شخص جب زنا کرتا ہے تو عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا ۔ اسی طرح جب چور چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا ۔اسی طرح جب وہ شراب پیتا ہے تو عین شراب پیتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘ (رواہ احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی)
اور دنیا میں اس کو پینے والے کی جزا یہ مقرر کی کہ اُسے آخرت میں اس سے محروم کر دیا کیونکہ اس نے اس کی جلدی کی تو اسے محرومیت کی جزا دی گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا وَلَمْ يَتُبْ لَمْ يَشْرَبْهَا فِي الْآخِرَةِ، وَإِنْ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ

’’جس نے دنیا میں شراب پی لی اور توبہ نہ کر سکا تو آخرت میں وہ اسے نہ پی سکے گا اگرچہ وہ جنت میں داخل ہی کیوں نہ ہوجائے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے