پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! کما حقُّہ اللہ تعالی سے ڈرو اور خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان و نگران سمجھو۔
مسلمانو!اللہ تعالی کی نشانیوں اور حیرت انگیز مخلوقات میں غور و فکر کرنا سانسوں کا بہترین مصرف ہے، پھر اس مرحلے سے آگے بڑھتے ہوئے ہر چیز کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کریں، اللہ تعالی کی نشانیوں سے مراد اسما و صفات ، الہی کاریگری اور وحدانیت پر مشتمل ایسے دلائل و براہین ہیں جن کے ذریعے بندے اپنے پروردگار کو پہچانتے ہیں۔
اللہ تعالی کی مخلوقات میں فکر و نظر بھی عبادت و ہدایت ہے، بلکہ یہ خیر کی ابتدا اور خیر کیلیے کلید ہے، فکر و نظر کے ذریعے اللہ تعالی کی تعظیم ہوتی ہے نیز انسان کا ایمان اور یقین بھی بڑھتا ہے، اس سے دلی بصیرت پروان چڑھتی ہے ، دل غفلت سے بیدار ہوتا ہے اور دل کو نئی زندگی ، تدبر، محبتِ الہی اور نصیحت حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کی نشانیوں میں غور و فکر قلبی عبادات میں سے افضل اور مفید ترین عبادت ہے، یہ انسان کو عملی عبادات کی دعوت دیتی ہے اور اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کرنے پر مجبور کرتی ہے، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: \”غور و فکر اصل میں حصولِ رحمت کی کنجی ہے؛ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ انسان جیسے ہی غور و فکر شروع کرے تو توبہ پر آمادہ ہو جاتا ہے\”
لوگوں کو نصیحت کرنے کیلیے غور و فکر کی دعوت بہترین دعوت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا[سبأ: 46]

آپ کہہ دیں: میں تمہیں ایک ہی چیز کی نصیحت کرتا ہوں کہ: اللہ کیلیے تنہا یا دو، دو کھڑے ہو کر غور و فکر تو کرو۔
انسان اگر غور و فکر کا عادی ہو تو ہر چیز سے عبرت حاصل کرتا ہے، قرآن کریم لوگوں کو آیات اور مخلوقات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دینے سے بھرا ہوا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَيْءٍ [الأعراف: 185]
کیا وہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی سمیت اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں غور و فکر نہیں کرتے؟!
اللہ تعالی کی مخلوقات میں عبرتیں اور نصیحتیں ہیں، غور و فکر کرنے والوں کیلیے نشانیاں ہیں ، اللہ تعالی نے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں غور و فکر کرو کہ ان میں کیا کچھ ہے![يونس: 101]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: \” عبرت حاصل کرنے کیلیے عُلوی اور سُفلی مخلوقات میں غور و فکر کا حکم دیا گیا اور اس کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے\”
کامل عقل و دانش رکھنے والے ہی ہر چیز کی حقیقتوں کا ادراک رکھتے ہیں، اللہ نے مخلوقات میں غور و فکر کرنے والوں کی تعریف فرمائی نیز انہیں عقل مند قرار دیا، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، دن اور رات کے آنے جانے میں اہل دانش کیلیے نشانیاں ہیںجو لوگ اٹھتے بیٹھتے اور اپنے پہلوؤں کے بل اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، نیز آسمانوں اور زمین کی مخلوقات میں غور و فکر کرتے ہوئے [پکار اٹھتے ہیں] ہمارے پروردگار! یہ تو نے فضول پیدا نہیں کیا، تو ہر عیب سے پاک ہے ، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔[آل عمران: 190-191]
نیز اللہ تعالی نے غور و فکر نہ کرنے والوں کی مذمت فرمائی:

وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ [يوسف: 105]

آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں کہ وہ ان پر سے اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
متکبرین سے اپنی آیات دور کر دینا اللہ تعالی کی طرف سے سزا ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا

میں ان لوگوں کو اپنے احکام سے دور ہی رکھوں گا جو دنیا میں بلا وجہ تکبر کرتے ہیں اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ بھی لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ [الأعراف: 146]
امام حسن بصری رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں: \”اللہ تعالی انہیں غور و فکر کرنے سے روک دیتا ہے\”
سورج اللہ تعالی کی عظیم نشانیوں میں سے ایک ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ

شب و روز، سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں۔[فصلت: 37]
اللہ تعالی نے سورج کو کائنات کیلیے روشنی کا ماخذ اور آسمان میں دہکتا ہوا چراغ بنایا، جو کہ بغیر کسی آواز کے اتنے بڑے حجم کے با وجود نہایت دقیق حساب کے ساتھ وسیع خلا میں مقرر وقت تک چلتا رہے گا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ مہتاب کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب فلک میں تیرتے پھرتے ہیں ۔[يس: 40]
اللہ تعالی نے سورج کو لوگوں کیلیے بلا معاوضہ مسخر فرمایا، سورج کے طلوع و غروب ہونے سے دن اور رات بنتے ہیں، اگر سورج نہ ہوتا تو اس کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا؛ کیونکہ سورج کے وجود میں اتنی حکمتیں اور فوائد ہیں جن کو شمار کرنے سے مخلوقات عاجز ہیں۔
اللہ تعالی نے سورج کو اپنی وحدانیت اور الوہیت کی دلیل بناتے ہوئے فرمایا:

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللهُ

اور اگر آپ ان سے پوچھیں: کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔[العنكبوت: 61]
سورج اہل عقلمند لوگوں کیلیے نشانی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

اسی نے تمہارے لیے شب و روز، سورج اور چاند مسخر کیے، تارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں، بیشک اس میں عقل مند قوم کیلیے نشانیاں ہیں۔[النحل: 12]
لوگوں کو سورج کی حیرت انگیز تسخیر پر غور کرنے کی دعوت دی اور فرمایا:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ

کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، اسی نے سورج اور چاند مسخر کیے ہیں۔[لقمان: 29]
سورج کے ذریعے ہی لوگ اپنے اوقات جانتے ہیں اور علامات پہچانتے ہیں:

وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا

رات سکون کیلیے بنائی اور آفتاب و مہتاب کو حساب کا ذریعہ بنایا۔[الأنعام: 96]
اللہ تعالی نے سایہ پیدا فرمایا اور سورج کو اس کی دلیل بنایا،بغوی رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہتے ہیں: \”دلیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سورج نہ ہوتا تو سایے کا پتا ہی نہ چلتا، اگر روشنی نہ ہوتی تو اندھیرے کا علم ہی نہ ہوتا؛ کیونکہ متضاد چیزوں سے اشیا معلوم ہوتی ہے\”
اللہ تعالی نے سورج کے ساتھ بہت سی عبادات اور احکامات منسلک فرمائے ہیں، جیسے کہ نماز کے بارے میں فرمایا:

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ

آپ زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کیجئے ۔[الإسراء: 78]
اسی طرح ذکر الہی کے افضل ترین اوقات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ

اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ طلوع آفتاب اور غروب سے پہلے تسبیح کیجئے ۔[ق: 39]
غروب آفتاب پر لوگ روزہ کھولتے ہیں اور لیلۃ القدر کی علامت یہ ہے کہ : (صبح سورج بغیر شعاعوں کے طلوع ہوتا ہے) ایام تشریق میں زوالِ شمس پر حجاج کنکریاں مارتے ہیں۔
قبولیتِ توبہ کا وقت سورج کے مغرب سے طلوع ہونے پر ختم ہو جائے گا، آپ ﷺ کا فرمان ہے:(یقیناً اللہ تعالی اپنے ہاتھ رات کے وقت پھیلاتا ہے کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے اور دن کے وقت اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کر لے، [یہ عمل اس وقت تک روزانہ ہوتا رہے گا] یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے)۔( مسلم)
طلوع و غروبِ آفتاب سے قبل نماز پڑھنے پر اللہ تعالی نے بہت بڑا اجر رکھا ہے: (یقیناً تم اپنے رب کو دیکھو گے جیسے تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تم اللہ تعالی کو دیکھنے کیلیے ازدحام کا سامنا نہیں کر و گے، چنانچہ [اسے پانے کیلیے]اگر تم سورج طلوع ہونے سے پہلے کی نماز [یعنی: فجر]اور غروب ہونے سے پہلے کی نماز [یعنی: عصر]پر پابندی کر سکو تو لازمی کرو) ۔(بخاری)
سورج گرہن اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو ڈرانے کیلیے ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک سورج اور چاند کو کسی کی زندگی یا موت پر گرہن نہیں لگتا ، یہ دونوں اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، اللہ تعالی ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اس لیے گرہن ختم ہونے تک اللہ کا ذکر کرو) ۔(مسلم)
سورج کی عظمت اور کثیر فوائد کے باعث اللہ تعالی نے اس کی قسم بھی اٹھائی اور فرمایا:

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا [الشمس: 1]

سورج اور اس کی دھوپ کی قسم۔
لیکن اتنی بلند شان ہونے کے با وصف اللہ تعالی ہی اسے چلاتا ہے اور سورج اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتا ہے،فرمانِ باری تعالی ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ [الحج: 18]

کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور سورج،چاند،ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور لوگوں کی کثیر تعداد اللہ کیلیے سر بسجود ہے۔
سورج غروب ہونے کے بعد اللہ تعالی کیلیے سجدہ کرتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (ابو ذر! تمہیں معلوم ہے کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟) میں نے کہا: \”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں\” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (سورج جا کر عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو جاتا ہے:

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا مقرر کیا ہوا حساب ہے [يس: 38]کا یہی مطلب ہے) بخاری
سورج بھی مخلوق ہے اس کی بندگی نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے سجدہ کرنا شرک ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ

سورج اور چاند کو سجدہ مت کرو۔ [فصلت: 37]
غروبِ شمس کو انبیائے کرام نے اللہ کی طرف دعوت دینے کا ذریعہ بنایا چنانچہ اس سےسیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کی الوہیت اور سورج کی بندگی باطل ہونے کو کشید کیا، اللہ تعالی کا اس بارے میں فرمان ہے:

فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَاقَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ [الأنعام: 78-79]

پھر جب سورج کو جگمگاتا ہوا دیکھا تو بولے: یہ میرا رب ہے؟ یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے: اے میری قوم! جن (سیاروں کو) تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں میں نے تو اپنا چہرہ یکسو ہو کر اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔
سورج کے فتنے میں پڑ کر کچھ لوگوں نے اسے پوجنا شروع کر دیا جیسے کہ ہدہد نے سیدناسلیمان علیہ السلام سے ملکہِ سبا اور قومِ سبا کے بارے میں بتلاتے ہوئے کہا:

وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ

میں نے ملکہ اور اس کی قوم کو اللہ کو چھوڑ کر سورج کیلیے سجدہ ریز پایا ہے، شیطان نے ان کے اعمال مزین کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیا ہے ، اب وہ ہدایت کیلیے تیار ہی نہیں ہیں۔[النمل: 24]
کچھ لوگوں کی جانب سے سورج کو سجدہ کرنے پر طلوع و غروب آفتاب کے وقت شیطان اس کے سامنے آ جاتا ہے، اور یہ تصور کرتا ہے کہ لوگ مجھے سجدہ کر رہے ہیں؛ چنانچہ سورج کی عبادت کی روک تھام کیلیے مسلمان کو سورج طلوع ہونے یا غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے سے منع کر دیا گیا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (سورج طلوع یا غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے کی کوشش میں مت رہو؛ کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے) ۔(مسلم)
زوالِ شمس کا وقت مومن کیلیے روزانہ کی بنیاد پر نصیحت آموز ہوتا ہے؛ کیونکہ اس وقت جہنم بھڑکائی اور سلگائی جاتی ہے، اس لیے اس وقت میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک اس وقت میں جہنم بھڑکائی جاتی ہے) ۔(مسلم)
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قربِ قیامت کی علامت اور اللہ تعالی کی طرف سے کائنات تباہ ہونے کا حکم ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (مغرب سے طلوعِ آفتاب ہونے سے پہلے قیامت قائم نہیں ہو گی، چنانچہ جیسے ہی مغرب سے سورج طلوع ہوگا تو سب کے سب لوگ ایمان لے آئیں گےلیکن اس وقت کسی کا ایمان قبول کرنا فائدہ نہیں دے گا) ۔(متفق علیہ)
ابتدائی نشانیوں میں مغرب کی جانب سے طلوعِ آفتاب اور چاشت کے وقت ظہورِ دابّہ شامل ہیں ان میں سے کوئی بھی پہلے ہوئی تو دوسری علامت اس کے بعد قریب ہی وقت میں رونما ہو جائے گی۔
(اللہ تعالی اگلے پچھلے سب لوگوں کو ایسے میدانِ محشر میں یکجا جمع فرمائے گا جہاں ایک شخص اپنی آواز سب کو سنا سکے گا اور سب کو دیکھ سکے گا، سورج مخلوقات کے ایک میل قریب آ جائے گا)، سیدناسلیم بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میل سے کیا مراد ہے، مسافت والا میل یا آنکھ میں سرمہ ڈالنے کیلیے استعمال ہونے والی سلائی مراد ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (پھر لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبے ہوں گے ، چنانچہ کچھ ٹخنوں تک اور کچھ گھٹنوں تک اور کچھ کوکھ تک اور بعض پسینے میں غوطہ زن ہوں گے)۔ (مسلم)
سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی سایہ نصیب فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کسی چیز کا سایہ نہیں ہو گا، ان سب میں اللہ تعالی کی محبت اور عظمت مشترکہ صفت ہو گی، پھر اللہ تعالی اعلان فرمائے گا: (جو جس چیز کی عبادت کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو لے، تو سورج کے پجاری سورج کے ساتھ ہو جائیں گے اور انہیں جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا، عین اسی وقت سورج کو بھی لپیٹ دیا جائے گا جس سے سورج بے نور ہو جائے گا، پھر سورج کو بھی جہنم میں پھینک دیا جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ [التكوير: 1]

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:\”فرمانِ باری تعالی : \”كُوِّرَتْ\” کا معنی یہ ہے کہ سورج کو سمیٹ کر پھینک دیا جائے گا اور پھینکتے ہی سورج بے نور ہو جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ دیے جائیں گے)۔ (بخاری)
جنت میں گرمی یا سردی کا احساس نہیں ہو گا، جنت اللہ تعالی کے نور سے منور ہو گی، اہل جنت کیلیے سب سے بڑی نعمت دیدارِ الہی ہے، جنتی لوگ اللہ تعالی کو ایسے دیکھے گیں جیسے اہل زمین صاف شفاف آسمان میں سورج دیکھتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: \”یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (کیا صاف آسمان میں تمہیں سورج دیکھتے ہوئے کوئی دقت ہوتی ہے؟)صحابہ کرام نے کہا: \”نہیں، اللہ کے رسولﷺ!\” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم اسی طرح اپنے پروردگار کو دیکھو گے) ۔ (متفق علیہ )
اس تفصیل کے بعد مسلمانو!فرش سے عرش تک ہر چیز سمیت پوری کائنات اللہ تعالی کی وحدانیت کی دلیلیں ہیں،مفید فکر و نظر وہی ہوتی ہے جو بصارت کی بجائے بصیرت پر مبنی ہو، مسلمان اپنی عقل و فکر محاسبۂ نفس اور اصلاحِ قلب کیلیے استعمال کرتا ہے۔
ذکرِ الہی کرو، اسی کی تعظیم کرو، اسی کی بندگی اور اطاعت کرو، غفلت و رو گردانی میں مت پڑو نیز ہمیشہ اسی کی تسبیح بیان کرو۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: هَذَا خَلْقُ اللهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

یہ ہے اللہ کی تخلیق، مجھے دکھاؤ کہ دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ واضح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ [لقمان: 11]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
حکمتِ الہی کے تقاضے کے مطابق سورج تہ و بالا اور زیر و زبر ہوتا رہتا ہے، تیز گرمی مومن کیلیے نصیحت کا باعث ہوتی ہے؛ کیونکہ تڑاکے کی گرمی جہنم کی لُو کی وجہ سے ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جہنم نے اپنے پروردگار کو شکایت کی اور کہا: \”پروردگار! میرا وجود ایک دوسرے کو کھا رہا ہے\” تو اللہ تعالی نے جہنم کو دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس سردی میں اور دوسرا سانس گرمی میں، تو جو شدت کی گرمی یا سخت ترین سردی محسوس کرتے ہوئے اسی وجہ سے ہوتی ہے) ۔(متفق علیہ)
دنیا کی زندگی رحمتوں اور زحمتوں کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے،لیکن زحمتیں مومن کو عذابِ جہنم یاد کرواتی ہیں اور رحمتیں جنت کی نعمتیں یاد کرواتی ہے، گرمی سردی اور دن رات کے آنے جانے سے دنیا کے فانی ہونے کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
کوئی چیز مومن کا اللہ تعالی سے تعلق نہیں توڑ سکتی، چنانچہ گرمی کی تمازت بھی اسے نماز، روزے اور نیکی کے دیگر کاموں سے نہیں روک پاتی، اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جنہوں نے کہا:
لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ
گرمی میں [جہاد کیلیے] مت نکلو۔[التوبہ: 81]
پھر انہیں یہ کہتے ہوئے ڈانٹ پلائی کہ:

قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا [التوبہ: 81]

آپ کہہ دیں: جہنم کی آگ اس سے بھی کہیں شدید ہے۔
اس شخص پر تعجب ہے کہ دنیا کی گرمی سے تو بچتا ہے لیکن جہنم کی گرمی سے بچنے کیلیےکچھ نہیں کرتا!؟
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم عظیم و جلیل اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی اسے جانتا ہے ۔
۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے