پنجاب کے شہر ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں ابراہیم والہ جسے شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ 1960ء میں اس دنیا میں اپنی پہلی صبح دیکھنے والا وہ شہرہ آفاق جو ابراہیم والہ کے کھیت کھلیانوں میں کھیل کود کر پروان چڑھا اپنے وقت کا بحر العلم تصور کیا جائے گا کوئی نہیں جانتا تھا۔
ابراہیم والہ کی سوندھی سوندھی سی خوشبودار مٹی میں کھیلنے والا اس علاقے کا پیدائشی جہاں نہ کوئی مدرسہ نہ کالج ، نہ یونیورسٹی اور گاؤں بھی ایسا جو شہر کی روشنیوں سے دور اس علاقے سے کوئی قابل فخر بات تھی۔
اس شخصیت بے مثال کا نام نامی علامہ محمد یعقوب طاہر تھا وہ کل نو بھائی تھے اور شیخ صاحب دوسرے نمبر پر تھے اس گاؤں میں صرف ایک چھوٹا سا پرائمری اسکول تھا جہاں پر صرف چند ہی بچے پڑھتے تھے۔
ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے اسکول سے ہی حاصل کی اس کے بعد شجاع آباد میں ملتان کے ایک استاد شیخ محمد صاحب نے مدرسہ بنایا جہاں پر شیخ کو اپنے ساتھ لے گئے جہاں پر شیخ صاحب نےتقریباً ایک سال تک پڑھا اور پھر وہ چھوٹا سا مدرسہ کسی وجہ سے بند ہوگیا اس کے بعد شیخ صاحب کے عزیز مولانا عبد اللطیف ارشد رحمہ اللہ (جامعہ ابی بکر کے سابقہ مدرس) ماموں کانجن میں پڑھاتے تھے اپنے ساتھ ادھر ہی لے گئے اور تقریباً 6 ماہ کے بعد مولانا عبد اللطیف ارشد کراچی آگئے تو شیخ یعقوب طاہر صاحب نے ماموں کانجن چھوڑ کر جامعہ تعلیمات فیصل آباد میں داخلہ لے لیا۔
یہی جامعہ ہے کہ جس سے شیخ صاحب نے باقاعدہ اپنے تعلیمی کیرئیر کا آغاز کیا ہر سال جامعہ تعلیمات میں اول پوزیشن (ممتاز درجہ )سے اپنے شہر اور والدین کا نام روشن کرتے رہے۔ وہ ایک عظیم الشان شخصیت تھی اور مسلسل ہر سال ممتاز اور پورے ادارے کو ٹاپ کرنا ایک ایسا ریکارڈ تھا جو تاریخ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کے بعد شیخ یعقوب طاہر نے ہی قائم کیا تھا۔
جامعہ تعلیمات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کی ان بھرپور کاوشوں کو سراہتے ہوئے جامعہ تعلیمات کے توسط سے ان کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سعودی عرب میں ہوا۔
اور خراج تحسین پیش کیا جائے ایسی ہستی کو جس نے وہاں جاکر اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھا اور ہر سال کسی نہ کسی درجے پر فائز ہوتے رہے۔
4 سال کلیۃ الحدیث الشریف مکمل ہونے کے بعد مدینہ یونیورسٹی کی ہی خواہش کے مطابق انہوں نے وہاں سے ماسٹر (ایم ۔اے) بھی کیااور اس میں بھی اول رہے۔
شیخ یعقوب طاہر صاحب فطرتاً ایک خاموش طبع انسان تھے اپنے مقصد سے زیادہ کوئی بات نہ کرتے اور ہر کسی کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ اُن کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
اپنی زندگی کی 58بہاریں دیکھنے کے بعد بھی ان کی فطرت پہلے ہی کی طرح رہی ایک مستقل مزاج اور سنجیدہ طبیعت اور خوشی کے موقع پر صرف مسکراہٹ پر ہی اکتفا کرتے تہے۔
بندئہ ناچیز نے ان کے ساتھ ایک عرصہ گزارا اور ان کو بہت قریب سے جانا ہر بار سوچنے پر صرف ایک ہی خیال دل میں آتا ہے کہ زندگی میں ، میں نے کبھی کسی خوشی کے موقع پر بھی ان کو کھکھلا کر ہنستے یا قہقہہ لگاتے نہیں
سنےگئے۔
ان کے بچپن سے لیکر موت تک کی سوانح عمری کو لکھا
جائے تو سنہری حروف میںلکھنے کے قابل ہیں اس سے
بڑی عزت داری اور کیا ہوگی کہ ساری زندگی صرف اور صرف دین کی خدمت میں ہی گزار دی ایک اندازے کے مطابق 45 سال کا طویل عرصہ صرف فرمان الٰہی اور احادیث رسول ﷺ کی تدریس میں گزر گیا۔
وہ رشتہ میں بندئہ ناچیز کے ماموں تھے اور ان کی خواہش کے مطابق میراجامعہ ابی بکر آنا ہوا اور انہوں بیش بہا نصیحتیں کیں اور اپنی کامیابی کے کئی راز بھی بتائے۔
یہ دنیا ایک میلہ کی طرح ہے آج کوئی چھوٹا ہے تو کوئی بڑا کوئی کسی مقام پر آیا اور اچھے بول بول گیا تو پیچھے آنے والوں کے لیے نصیحت اور روشنی چھوڑ گیا ان کو بھی خدائے بزرگ وبرتر نے جب تک مہلت دی تو اسی کی رضا کی خاطر ہی جدوجہد کرتے رہے جامعہ اسلامیہ میں ان کی تعلیم مکمل ہوئی تو وہیں پر ہی مشرف اعلیٰ کے درجے پر فائز ہوگئے اور اس فریضے کو بصد احسن دو سال تک نبھاتے رہے اور پھر کسی گھریلو پریشانی کے باعث پاکستان واپس لوٹ آئے ان کے واپس آجانے کے بعد بھی جامعہ اسلامیہ کی کمیٹی نے کئی بار ان کو دوبارہ اپنے سابقہ عہدے پر بلایا۔ لیکن اس وقت صرف ایک ہی خواہش تھی کہ جامعہ تعلیمات سے ابتداء کی تو اب تدریس بھی وہیں سے شروع کی جائے سوآتے ہی جامعہ تعلیمات میں استاد لگ گئے اور وہیں پر ہی 4 سال تک اسی فریضے کو سرانجام دیتے رہے اور اسی عرصے میں کئی تشنگانِ دین ان کی شفقت ومحبت سے بہرہ مند ہوئے۔
ان کے ایک دوست جن کا نام محمد اشرف انجم تھانے اپنے ایک جامعہ جو کہ رحیم یار خان میں تھا پڑھا نے کی پیش کش کی جسے شیخ یعقوب طاہر نے قبول کر لیا اور تقریباً6 ماہ تک وہیں پر استاد رہے اور اسی دوران میں محمد اشرف انجم صاحب کے ہی توسط سے جو کہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے مؤسس پروفیسر ظفر اللہ کے دیرینہ دوست بھی تھے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
پروفیسر الشیخ ظفر اللہ صاحب رحمہ اللہ چونکہ خود ہی ایک اعلیٰ پائے کے عالم دین تھے اور ایک عالم کی قدر جانتے تھے اسی لیے ان کی تعلیمی قابلیت کو سراہتے ہوئے جامعہ میں استاد ہونے کا درجہ دیا۔ یہ معلم کا درجہ ان کے لیے بہت نفع بخش ثابت ہوا اور انتہائی سرعت سے ترقی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے جامعہ ابی بکر کے سفیر مقرر کر دیئے گئے۔
عربی زبان میں مہارت کی وجہ سے یہ عہدہ ان کے لیے انتہائی مناسب تھا اور پروفیسر ظفر اللہ صاحب نے جامعہ کی باگ دوڑ اور نظامت کا کام بھی شیخ یعقوب طاہر کے حوالے کر دیا اسی طرح سے اس دنیاوی مقام ومنزلت کے اعتبار سے دنیا کے سامنے ابھرنے والا یہ شہرہ آفاق جامعہ کی نمائندگی کرنے کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں پر بحیثیت سفیر دوروں پر جانے لگے۔
یہ وہ ترقی کی منزلیں تھیں جن کے خواب دنیا میں ہر کوئی دیکھتا ہے لیکن رب کریم ان فرائض کے لیے کسی کسی کو ہی چنتا ہے جامعہ ابی بکر نے ان سے ایک طویل خدمت لی اور آخر وقت ہی جامعہ سے ملحق رہے وہ ایک بہترین مدرس تھے اعلیٰ پائے کے مشرف الغرض ہر میدان میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔
وہ جامعہ کی تقاریب بخاری کے مستقل اسٹیج سیکریٹری تہے اور ہمیشہ سے ان کی خطابت کو سننے کے لیے لوگ کئی دن تک انتظار کرتے اور دور سے آتے تھے ان کا انداز گفتگو انتہائی درجے تک خوش اخلاقی کا دل آویز آئینہ دار تھا ہر لمحہ بات کا ٹھہراؤ سامعین کو ورطۂ حیرت اور توجہ دہی کی منزلت پر لے جاتا تھا۔
کئی ایک جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے اساتذہ انہی کے شاگردی سے گزرکر معلمین کے درجات پر فائز ہوئے جن میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے نائب مدیر جناب شیخ ضیاء الرحمن مدنی صاحب اور دیگر شامل ہیں وہ تفسیر القرآن کے منجھے ہوئے مدرس تھے اور اپنے فن کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ کئی عربی تفاسیر کا ترجمہ بھی کرتے رہے یہ تمام تر خدمات سرانجام دیتے ہوئے شیخ صاحب نے کبھی بھی دولت وشہرت کا لالچ نہ کیا جس کی سب سے بڑی مثال زمانے کے سامنے ہے کہ ہمیشہ ترقی کی دیدہ زیب منزلوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی 58 سالہ زندگی میں انہوں نے کوئی سرمایہ یا کوئی جائیداد نہیں بنائی۔
اور وہ مراحل جب جامعہ کے سفیر تھے اور پروفیسر ظفر اللہ صاحب کے دیرینہ دوست بھی تھے اپنی تمام تر مصروفیات کو سمیٹ کر طلبہ کی خدمت میں کبھی بھی کوئی کمی کوتاہی نہ کی۔ ہر وقت پڑھنا،پڑھانا ان کا مشغلہ تھا میں جب بھی ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر پر گیا تو انہیں کچھ نہ کچھ لکھتے پڑھتے ہی پایا۔
اور بات بھی کرتے تو بہت خوش اخلاقی سے پیش آتے ماتھے پر کبھی کوئی بل نہ لاتے ، مطالعے میں استغراق کا جو عالم میں نے دیکھا ان کے پاس چائے کا کپ رکھا جائے تو مطالعے میں مکمل توجہ ہونے کی وجہ سے کھانا پینا سب بھول جاتے ایسی مصروف زندگی میں نے پہلے کسی کی نہ دیکھی تھی۔
ایک بار یتیم،نادار اور غریب بچوں کے لیے سعودیہ عربیہ کے تعاون سے ایک اسکول الفرقان کے نام سے بنایا گیا جس کی تمام تر باگ دوڑ ان کے ہی ہاتھ میں دی گئی اور وہ ہر طرف سے یتیم بچوں کو لے رہے تھے شیخ صاحب اپنی برادری اور جان کاری کے تمام بچوں کو وہیں پر لے آئے اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے لگے۔
اللہ رب العزت ان کی نیکیوں اور خیر خواہیوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی ہزاروں رحمتیں ان پر نازل فرمائے۔
اسی دوران میں ان کی دن رات کی مصروفیات اتنی زیادہ ہوگئیں کہ گھر کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہوجاتا تھا ۔
شیخ صاحب اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود بھی اپنے خاندان اور اہل وعیال کے لیے ایک فرشتہ تھے سب کے ساتھ بہت پیار کرتے عاجزی ان کی فطرت میں شروع سے شامل تھی طبیعت میں اتنی زیادہ نرمی تھی کہ آنسو ہر وقت ان کی آنکھوں میں رہتے تھے ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ میں صرف اللہ کا ایک فقیر ہوں اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوں وہ ایک مرد مومن تھے اوراللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مومنین کو آزمائش اور امتحان کی گھڑیوں سے گزارا ہے اور ان کے صبر کا امتحان لیا اپنے بچن سے لے کر اس آخری لمحے تک جو انسان اسی کے دین کی خاطر جدوجہد اور خدمت میں لگا رہا وہی رب تھا جس نے اتنی ہمت عطا کی دین اور دنیاوی مقام ومنزلت کے لحاظ سے اعلیٰ کیا۔ 2012ء کے آخری دنوں میں اس امتحان میں ڈالا جو اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کا سبب بنا۔
یہ ایک طویل علالت کا عرصہ رہا اللہ تعالیٰ نے انہیں سرطان کے عارضے میں امتحان لیا ۔ علت کے ظاہر ہوتے ہی فوراً ان کا علاج آغا خان ہسپتال میں شروع کیاگیا جہاں ان کا ایک طویل وقت میں آپریشن مکمل ہوا لیکن گلے کے زخم اور انتہائی نقاہت کے باعث کئی دن تک بولنے سے قاصر رہے صرف معمولی سی حرکات اور اشد ضرورت کے تحت چلنے کی ہمت اٹھا پاتے۔
لیکن چند ہی دنوں میں اللہ کے فضل وکرم سے تھوڑا بہت چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے اور ساتھ ساتھ آغا خان ہسپتال سے باقاعدہ علاج بھی چلتا رہا ۔
تھوڑے ہی عرصے میں ان کی صحت بہتر ہونے لگی اور ہفتے میں دو دن جامعہ ابی بکر بھی آنا شروع کر دیا تھالیکن ان کی دیرینہ یادیں اور محبت کو بھلاتے بھلاتے صدیاں بیت جاتی ہیں زمانہ اس صاحب علم پر لکھنے کے لیے ہر بار اپنے آنسوؤں کا بند توڑتا رہے عا آج بھی ان کی زندگی پر لکھتے ہوئے آپ آتش رنگ سے قرطاس پُر ہے نہ چاہتے ہوئے بہی چشم نم ہے اس صبر کے پیکر اور صاحب بصیرت وتعمیق کو بھلانے کے لیے ایک بلند حوصلہ چاہیے۔
جو ایک موج علم تھا زمانے سے جہالت کے تعفن کے خاتمے کا سبب تھا اور ہر استاد کایہی درجہ ہوتا ہے صاحب بصیرت ہی نصیحت پرعمل کرتے ہیں اور اسے یادبھی رکھتے
ہیں۔ وہ 2012ء میں ایک موذی مرض مبتلا ہوئے تھے اور مسلسل 4 سال تک ان کا علاج ہوتا رہا درمیان میں ایک بار ٹھیک بھی ہوگئے اور جامعہ میں دوبارہ پڑھانا بھی شروع کر دیا تھا اور تقریباً 2 سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور پھر ایک دن طبیعت بگڑ گئی اور روز بروز بگڑتی ہی چلی گئی مسلسل علاج بھی جاری رہا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا ایک سال پھر وہ بہت شدید علیل رہے اور سخت تکلیف میں کبھی بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور نہ ہی کبھی شکوہ کیا بلکہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔وفات سے پندرہ دن پہلے ان کی حالت بہت غیر ہوگئی تھی کمزوری کی وجہ سے بہت کم ہی چل سکتے تھے صرف لیٹے رہتے اور صرف ہاتھ کے اشارے سے ہی جواب دیتے تھے ۔
آخری دن ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی اور تکلیف بہت بڑھ گئی توفوراً ہسپتال پہنچایا گیا انسان اپنی طرف سے تمام تر کوشش کرتا ہے تگ ودو میں رات دن ایک کر دیتاہے لیکن اس وقت اللہ اپنے بندے سے ملاقات کی تیاری میں ہوتاہے۔
سو اسی طرح سے ہی کچھ معاملہ ہوا اور یکم جون بروز بدھ 2016ء کو شام 45:6 پر آغا خان ہسپتال میں ہی زندگی سے لڑتے ہوئے دم توڑ گئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
ہر آنکھ پر نم تھی اور وہ یکم جون کی شام آہوں اور آنسوؤںکے نام ہو رہی تھی زمانے میں کوئی ایسا نہ تھا جس سے ان کی دشمنی یا کوئی بغض ہو اور وہ ان کی طویل تر خدمتوں کو یاد کرکے آنسو نہ بہا رہا ہو اس ہستی سے ہر ایک پیار کرتا تھا اور انہیں یاد بھی کرتا رہے گا۔
شام کو جلدی جلدی ہی ان کو غسل دیاگیا سب کام اتنے جلدی سے ہوگئے کہ کچھ سمجھ ہی نہ آیا۔اسی رات گیارہ بجے شیخ ضیاء الرحمن صاحب نے ان کی نماز جنازہ مسجد الفاروق ماڈل کالونی میں انتہائی رقت آمیز جذبات سے پڑھائی۔
اور ملیر کینٹ کے قبرستان میں ہزاروں آہوں اور آنسوؤں کے ساتھ اس شہرہ آفاق کو سپرد خاک کیاگیا جہاں پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ اور ان کے خاندان کے مختلف لوگوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔
وہ ایک گوہر یگانہ تھا وقت کبھی تو ہمارے زخموں پر مرہم رکھ دے گا لیکن ان کی باتیں اور نصیحتیں یاد کرکے ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے ہوئے اشک پلکوں پر اٹک کر رہ جائیں گے۔ طالب علم ان کی قابلیت کو یادکرتے رہیں گے اور بالخصوص جامعہ ابی بکر کی فضا ان کو اپنے درمیان نہ پاکر ایک عرصہ تک سوگوار رہے گی۔
یہ وہ قابل دید وتعریف ہستیاں ہوتی ہیں جو زمانہ ہمیں بہت کم ہی بخشتا ہے ہمیں ان کی قدر کرنی ہوگی کیونکہ جب ایک بار وہ ہم سے بچھڑ جائیں تو پھر یہ لوٹ کر نہیں آتے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے آخراس کو اپنے رب کی طرف لوٹ کے جانا ہے کیونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کچھ لوگوں کے چلے جانے کے بعد ایک عرصہ تک سوگواری کا الم زمانے کو جھیلنا پڑتا ہے ۔
اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافیہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ ۔۔۔۔