اکیسواں اصول:

یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبۃ:119)

’’اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرواور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
یہ اصول اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرنے اور اُس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں بہت مضبوط اصول ہے ‘ زندگی کی کامیا بیوں کا راز ہے اورمعاشرتی زندگی کاایک بڑا حصہ ہےاور جو کوئی اس سچائی کے راستے پر چل نکلے ‘اس کے لیے خیروبرکت کی نشانی ‘ بلندہمتی کی دلیل اور کمالِ عقل کی پہچان ہے۔
جب نبی اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ کرام لمبے عرصے تک جہاد کر چکے اور دین کی خدمت اور اس کے تحفظ کی خاطر بڑی بڑی آزمائشوں سے گزر چکے ‘توآخر میں یہ محکم اصول بیان ہوا۔ یہ اصول سورۃ التوبہ کے آخر میں نازل ہوا ہے جو کہ تقریبا ًآخری زمانے کی وحی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْم بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ اِنَّہٗ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاحَتّٰیٓ اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لاَّ مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلآَّ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْااِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبۃ117۔119)

’’اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین وانصار کے حال پر بھی ‘ جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا‘ پھر اللہ نے ان کے حال پرتوجہ فرمائی بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے۔ اور (اللہ نے توجہ فرمائی) تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اُسی سے رجوع کیا جائے۔ پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی ‘ تاکہ وہ آئندہ بھی توجہ کر سکیں۔بے شک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا‘ بڑا رحم والا ہے۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرواور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
جس پس منظر میں یہ اصول بیان ہوا ہے اور جو پیغام یہ لے کر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ ‘آپ کے صحابہ کرام yاور بالخصوص ان تین حضرات( جن کے فیصلے کو مؤخر کر دیا گیا تھا) پر نظر رحمت فرمائی ہے‘ یہی حضرات سچے لوگوں کے امام ہیں‘ لہٰذا تم ان کی پیروی کرو۔ان آیات کے بعد اس قرآنی اصول: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْن’’اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرواور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ کے آنے کے معاملے پر جب تم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ’’سچائی‘‘ کا معنیٰ ومفہوم صرف زبانی اقوال کی سچائی ہی نہیں ہوا کرتا‘ بلکہ اس کا معنیٰ زیادہ وسیع ہے‘ اور اقوال ‘افعال اور کردار کی سچائی کو شامل ہے ‘ جس کو ہمارے نبی کریمﷺ نے اپنی ساری زندگی میں اپنا کر دکھایا ہے‘ نبی بننے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔
نبی اکرمﷺ کا کردار یہ تھا کہ آپ سچے‘ زبان کی حفاظت کرنے والے‘ معاملات میں امین‘ وعدہ وفا کرنے والے‘ اور معاہدے کی پاسداری کرنے والے تھے۔ اسی لیے نبوت ملنے سے پہلے بھی آپ کا لقب صادق وامین تھا اور آپﷺ کا یہی کردار بہت سارے عقلمند مشرکوں کے ایمان کا سبب بنا گویا وہ زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ :’’ جو آدمی کسی انسان سے جھوٹ نہیں بولتا‘ کیسے ممکن
ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں جھوٹ بولے گا!‘‘
بہت سارے لوگ جب اس قرآنی اصول کو سنتے ہیں:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرواور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ تو ان کا ذہن گفتگو میں سچائی کی طرف جاتا ہے۔ درحقیقت یہ اس اصول کو سمجھنے میں کوتاہی ہے اگر انسان اس اصول کا سیاق وسباق سمجھے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ قاعدہ زندگی کے ہر کردار کو شامل ہے ‘اس (صداقت) میں اقوال ‘افعال اور عام کردارسب شامل ہیں۔
سچ بولنے کے بہت سارے فائدے اور اچھے نتائج ہیں۔یہ عقلمندی کی دلیل ہے ‘نیزحسن ِ سیرت اور دل کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ سچائی کے یہی فوائد بہت کافی ہیں کہ انسان جھوٹ کی ناپاکی‘ خودداری کی کمی اور منافقوں کی مشابہت سے بچا رہتا ہے۔ نیز سچائی کے ذریعے عزت ‘بہادری‘ معاشرے میں مقام‘ عزتِ نفس اوروقار کی زندگی گزارتا ہے۔
جن تین صحابہ کرامyکے فیصلے کو ایک وقت تک مؤخر کردیا گیا تھا‘ جو آدمی ان کے انجام پر غور کرتا ہے اسے سچائی کی مٹھاس اور جھوٹ کی کڑواہٹ کا علم ہو جاتا ہے‘ خواہ یہ نتیجہ ایک وقت کے بعد ہی ظاہر ہو۔ اور جو آدمی ان آیات پر غور کرتا ہے جن میں سچائی کی تعریف کی گئی ہے اور سچوں کی مدح کی گئی ہے ‘اسے انتہائی دل پسند نتائج ملتے ہیں۔چنانچہ سچا آدمی انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کے راستے پر چل رہا ہوتا ہے ‘ جن کی اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں تعریف فرمائی ہے‘ کہ وہ اپنے وعدے اور گفتگو میں سچے تھے۔
سچے آدمی کے ساتھ ہمیشہ تعاون ہواہے اور اُس کی مدد کی گئی ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خاطر ایسی جگہ سے ایسے اسباب پیداکردیے ہیں جن کا اس کوگمان نہ تھا ‘بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا مخالف ہی اس کی طرف سے دفاع کرنے والابن جائے۔ جیسا کہ مصر کے بادشاہ کی بیوی نے سیدنایوسف علیہ السلام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا: { اَلْئٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ اَنَا

رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ} (یوسف) ’

’اب تو سچی بات نتھر آئی ہے‘ میں نے ہی اسے ورغلایا تھا اس کے جی سے اور یقینا وہ سچوں میں سے ہے۔‘‘
اور سچا انسان اس راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو اسے جنت تک پہنچا دیتا ہے۔ کیا یہ بات اللہ کے رسولﷺ نے نہیں فرمائی :

((عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ، فَاِنَّ الصِّدْقَ یَھْدِیْ اِلَی الْبِرِّ، وَاِنَّ الْبِرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ، وَمَا یَزَالَ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ صِدِّیْقًا)) (صحیح البخاری ؍5743 وصحیح مسلم ؍2407 )

’’سچائی کو اپنا شیوہ بنا لو‘ بلاشبہ سچائی انسان کو نیکی کی راہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت تک پہنچا دیتی ہے۔ انسان مستقل سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ‘ بالآخر اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’صدیق‘‘ (بہت زیادہ سچا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی حاضری کے دن صرف سچے لوگ ہی نجات پا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمْ لَـہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَـآ اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (المائدۃ 119)

’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گاکہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا۔ اُن کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی‘ جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اور سچے لوگ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کے حقدار ہوں گے اور اُس اجر وثواب کے حقدار ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے تیار کیا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا (الاحزاب35)

’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ‘ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں‘ فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں ‘راست باز مرد اور راست باز عورتیں‘صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں‘ عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں‘ خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں ‘ روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں ‘اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں‘ بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں‘ ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے وسیع مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا حقائق کے باوجود ‘ انتہائی افسوسناک اور دردناک بات یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں اس قرآنی اصول: یٰاَیُّہَا

الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ لوگ اپنی گفتگو میں کس قدر جھوٹ بولتے ہیں‘ کس قدر وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں ‘ اور کتنے ہی لوگ معاہدے کو توڑ دیتے ہیںاور مسلمانوں میں ہی وہ لوگ ہیں جو رشوت کا لین دین کرتے ہیں ‘ اور اس طرح جو منصب دے کر انہیں امین بنایا گیا تھا اس میں خیانت کرتے ہیں ‘اور وہ بھی مسلمان ہی ہیں جومعاہدوں اور سرکاری دستاویزات کے اندر ردّ وبدل کردیتے ہیں۔ اور بھی ہیر پھیر کی بہت سی شکلیں موجود ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے کردار نے اسلام کے چمکدار چہرے کو دھندلا دیا ہے ‘جبکہ اسلام کا تو سارا نظام ہی سچائی کی بنیاد پر قائم ہے۔
اے کاش !یہ لوگ اس واقعے پر ہی غور کر لیتے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے ابو سفیان کے ساتھ پیش آیا جبکہ وہ شام کی سرزمین میں تھے۔ ہوا یوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہرقل کے نام خط آیا تو ہرقل نے پوچھا: ’’کیا یہاں اُس شخص کی قوم کا کوئی آدمی موجود ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہے؟‘‘ حاضرین نے کہا کہ ہاں موجود ہے۔ ابوسفیان کہتے ہیں:مجھے دوسرے قریشیوں کے ہمراہ دربار میں طلب کیا گیا‘ چنانچہ ہم ہرقل کے پاس آگئے‘ اور ہمیں اس کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ ہرقل نے پوچھا: ’’تم میں سے کون آدمی نسب کے لحاظ سے اُس شخص کا قریبی رشتہ دار ہے جونبوت کا دعویدار ہے؟‘‘ ابو سفیان نے کہا: ’’میں‘‘ تو انہوں نے مجھے ہرقل کے بالکل سامنے لا بٹھایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ پھر اُس نے مترجم کو بلا لیا۔ ہرقل نے مترجم سے کہا: ’’ان لوگوں سے کہو کہ میں ابو سفیان سے اُس شخص کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو نبوت کا دعویدار ہے‘ اگر یہ (ابوسفیان) میرے سامنے جھوٹ بولے تو تم لوگ اس کی تردید کرنا ابو سفیان نے کہا: ’’قسم بخدا! اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ جھوٹ بولنا میرے شخصی وقار کے خلاف ہے تو میں جھوٹ بول دیتا۔‘‘
اے میرے مسلمان بھائی! ذرا غور تو کرو ‘وہ آدمی جو اُس وقت تک مشرک تھا‘ کس طرح جھوٹ سے دور بھاگ رہا ہے‘اس لیے کہ وہ جھوٹ بولنے کو برائی اورگالی سمجھتا ہے جوکسی ایسے شخص کے لیے مناسب نہیں جسے سچائی کی عظمت اور جھوٹ کی برائی کا علم ہو۔ یہ عربی جوان کی شرافت تھی جو جھوٹ کو انتہائی برے اخلاق میں شمار کر رہا تھا۔
کہاں یہ اخلاقی عظمت اور کہاں وہ لوگ جو مسلسل جھوٹ بولتے رہتے ہیں؟ بلکہ جھوٹ بولنے کو عام سی بات سمجھتے ہیں۔پھر اسی پر بس نہیں‘ بلکہ جھوٹ بولنے میں کفار کی عادات کورواج دیا ہے۔ جیسا کہ یکم اپریل کا جھوٹ ہے ‘ اور اسے سفید جھوٹ کا نام دیا گیا ہے۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ ہر قسم کا جھوٹ سیاہ ہی ہوتا ہے۔ ہاں جس جھوٹ کی شریعت نے اجازت دی ہے اس کا حکم دوسرا ہے۔
اے والدین اورمربی حضرات!کیا ہی اچھی بات ہو کہ ہم آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت سچ جیسے عظیم اخلاق پر کریں اورجھوٹ سے انہیں نفرت ہو اور ہم خود بھی اس کی بہترین زندہ مثال بنیں جسے ہماری آنے والی نسلیں کھلی آنکھ سے دیکھیں۔
۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے