دلوں کے بھید تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے وہ ماضی،حال اور مستقبل کے حالات وواقعات کو اسی طرح جانتا ہے جس طرح کسی نے سعی کی ہے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دل ودماغ میں پلنے والے شکوک وشبہات دور کرے اور اللہ کی رضا کی خاطر دینی تعلیمات حاصل کرنے کی کوشش جاری وساری رکھے حدیث میں ایک مومن کی مثال نکیل والے اونٹ سے دی گئی ہے مطلب واضح ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ اور اس کے دین کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہے لہٰذا کسی غیر مسلم کے عمل کو فقط عادت اور رسم ورواج کے نام پر اختیار کر لینا ایک مسلمان کو ہرگز زیب نہیں دیتا غیر مسلم کی نقالی میں آج مسلمان معاشرہ بہت سے اعمال اختیار کر چکا ہے ۔
دنیا میں آنے کا نام زندگی ہےاور جانے کا نام موت ہے آنے اور جانے کے بیچ کا وقت ہر چیز سے قیمتی ہے اس وقت کا صحیح حق وہی ایمان والا مسلمان ادا کرسکتا جو اپنے آغاز اور انجام سے باخبر ہو۔
دینِ اسلام میں قدیم وجدید کا کوئی اعتبار نہیں ہے نہ اچھائی میں اور نہ ہی برائی میں دین اسلام میں صرف وہی اچھائی ہے جسے اسلام خود اچھائی قرار دے اور صرف وہی برائی ہے جسے اسلام خود برائی قرار دے کسی بھی کام کا کثرت سے ہونا یا کسی کام کا پرانے زمانے سے ہوتے چلے آنا اس کے اچھے یا برے ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس طرح کے مسائل ومعاملات ہیں جن کو آدمی نہیں جانتا ان میں سے ایک تالی بجانا اور سیٹی بجانا ہے اس موضوع میں سیٹی اور تالی کی حرمت کے بارے میں بیان کیاگیا ہے ۔
سورت انفال کی آیت نمبر 35 کے جزء کا ترجمہ ہے

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَةً (انفال :35)

’’اور ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں اور تالیاں بجانا۔‘‘
افسوس ہے کہ امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد انہی گناہوں میں مبتلا ہے سیٹی اور تالی لہو ولعب کی طرح ہے جس دین میں لغو اور بے مقصد کام کرنے کی اجازت نہیں وہ تالی اور سیٹی کا تصور بھلا کس طرح پیش کر سکتاہے؟
مسلمان والدین اپنے چھوٹے بچوں کو تالیاںبجانا سکھاتے ہیں اور ان کی دلجوئی کے لیے خود بھی بجاتے ہیں اس کے علاوہ مختلف تقریبات میں کسی کی حوصلہ افزائی کے لیے یا انعام دیتے وقت تالیں بجوائی جاتی ہیں یہ عمل غیر مسلموں سے لیا گیا ہے اور اسلام میں تالی بجانا ممنوع وناپسندیدہ ہے مسلمان کو جب کوئی بات اچھی لگے تو اسےچاہیے کہ دل میں ماشاء اللہ اور سبحان اللہ پڑھے۔
مشرکین مکہ بیت اللہ کے پاس جمع ہوکر سیٹیاں اور تالیں بجاتے تھے تاکہ مسلمان خشوع وخضوع کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکیں اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’اغاثۃ اللہفان‘‘ میں لکھا ہے کہ تالیاں اور سیٹیاں بجا کر نمازیوں،ذکرکرنے والوں اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں کو تشویش میں مبتلا کرنے والے انہی مشرکین مکہ کے مانند ہیں ۔
جب حالتِ نماز میں مردوں کے لیے تالی بجانے کی اجازت نہیں تو خارج الصلاۃ بغیر کسی حاجت کے یہ عمل کیسا ہوگا اس میں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ تشبیہ پائی جاتی ہے کفار مکہ نے معراج کا سن کر تالیں بجائی تھیں تعجب اور کذب کے طور پر ۔ (احمد 1/309)
تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ قوم لوط اپنے دس بُرے اعمال کی وجہ سے ہلاک کی گئی جس میں سے ایک عمل تالی بجانا بھی تھا ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تالی بجانا تاشے پیٹنا اللہ کے دین کا حصہ نہیں اور دین اسلام سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں۔سیٹیاں اور تالیاں بیہودگی اور بے حیائی کی طرف دعوت دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور نماز سے اس طرح روکتی ہیں جیسے شراب روکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے اس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا جائز نہیں اور جوشخص کسی ایسی چیز کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرتاہے جسے اس نے حرام قرار دیا ہے تو وہ سزا کا حقدار ہے نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں کوئی مرد نہ دف بجاتا تھا نہ تالیں اس عمل کے مرتکب کو سلف صالحین’’مخنث‘‘ کہا کرتے تھے۔ ( مجموع الفتاوی 11/631)
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس ‘‘ صفحہ نمبر 402 میں لکھتے ہیں ’’اہل تصوف راگ سن کر سرور میں آتے ہیں تو تالیاں بجاتے ہیں تالیاں بجانا بُرا اور منکر ہے جو طرب میں لاتا ہے اور اعتدال سے باہر کر دیتاہے اہل عقل ایسی باتوں سے دُور رہے ہیں اور ایسا کرنے والا مشرکین کے مشابہ ہے۔
محفلوں میں سیٹیاں تالیاں بجانا اعمال جاہلیت میں سے ہے اس بارے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ فتاویٰ اسلامیہ جلد چہارم میں فرماتے ہیں ’’محفلوں میں تالی بجانا اعمال جاہلیت میں سے ہے اس کے باے میں کم سے کم یہ کہا جا سکتاہے کہ یہ مکروہ ہے ورنہ دلیل کے ظاہر سے تو یہ حرام معلوم ہوتاہے کیونکہ مسلمانوں کو کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیاگیاہے اور کفار مکہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔ (انفال : 32)
علماءفرماتے ہیں کہ ’’مُکّاء‘‘ کے معنی سیٹی بجانا اور ’’تصدیہ‘‘ کے معنی تالی بجانا ہے۔ مرد مومن کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ جب کوئی پسندیدہ یا ناپسندیدہ بات دیکھے یا سنے تو سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے مروی بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ تالی بجانے کا حکم تو خاص عورتوں کے لیے ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ مردوں کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کر رہی ہوں اور امام سے نماز میں کوئی سہو ہوجائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے وہ تالی بجا سکتی ہیں جیسا کہ مرد ایسی صورت میں سبحان اللہ کہہ کر امام کو متنبہ کرتے ہیں جیسا کہ سنت سے یہ امر ثابت ہے اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مردوں کے تالی بجانے میں کافروں اور عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مشابہت ممنوع ہے ۔ ( فتاوی 4/356)

شیخ عبد الستار حماد حفظہ اللہ فرماتے ہیں ’’ہمارے ہاں خوشی کے موقعہ پر سیٹیاں بجانا اور تالی پیٹنا بھی مغربی تہذیب سے اخذ کردہ عادات ہیں لہٰذا ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں کہ وہ ایسے موقعہ پر کفار کی عادت کو اختیار کرے اگر کوئی چیز پسند آئے تو اللہ یا سبحان اللہ کہا جائے بہر حال تالی پیٹنا اور سیٹی بجانا مسلمانوں کا کام نہیں۔ واللہ اعلم ( فتاوی اصحاب الحدیث 4/405)

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَا اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ (السجدۃ : 22)

’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منہ پھیر لیا (یقین مانو) کہ ہم بھی گناہ گار سے انتقام لینے والے ہیں ۔‘‘
معاشرے میں ایک اچھا انسان اور صحیح مسلمان وہی ہوسکتاہے جس کی زندگی قرآن وحدیث کے مطابق بسر ہو رہی ہو مسلمانوں کے اعمال جس قدر قرآن وحدیث کی روشنی سے منور ہوں گے اتنا اس کا ظاہر اورباطن نورانی اور پاکیزہ ہوگا اور دنیاوی واخروی بھلائی نصیب ہوگی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا وآخرت کی بھلائی نصب فرمائے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے