مقدمہ
ان الحمد للہ ، نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ، ونعوذ باللہ من شرور انفسناوسیئات اعمالنا، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ،ومن یضلل فلاھادی لہ ،واشھد ان لا الٰہ الااللہ وحدہ لا شریک لہ ، واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ ۔
امابعد:

جو مسلمان سچے دل سے صراط مستقیم اورراہِ ہدایت پر چلنے کا پختہ اردہ رکھتا ہو اس کے لئے دین پر ثابت قدم رہنا انتہائی بنیادی مقصد ہوا کرتا ہے ۔
اس موضوع کی اہمیت درج ِ ذیل حالات کی وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے :
اس موضوع کی اہمیت مندرجہ ذیل امور کو سمجھنے میں پنہاں ہے :
٭ دورِ حاضرمیں معاشروں کے حالات ،جن میں مسلمان زندگی گذار رہے ہیں۔
اور مختلف قسم کے فتنوں اور بہکانے والے حالات کی آگ میں جل رہے ہیں۔شہوات وشبہات کی مختلف شکلیں ہیں جن کی وجہ سے دین بیگانہ ہو کے رہ گیا ہے،چنانچہ دین کو سینے سے لگا کر جینے والوں کی عجب حالت ہے:

اَلْقَابِضُ عَلیٰ دِیْنِہٖ کَالقَابِضِ عَلیٰ الْجَمَرِ

دین کو پکڑنے والے کی حالت ایسی ہے جیسے دہکتے کوئلے کو ہاتھ سے پکڑنے والے کی ہوتی ہے ۔‘‘
کسی سمجھ دار آدمی کو اس بات میں شک نہیں ہے کہ پہلے زمانے کے لوگوں کے مقابلے میں آج کے مسلمان کو وسائلِ ثبات کی اشد ضرورت ہے ۔اور اس مقصد کو پانے کے لئے محنت کی بھی شدید ضرورت ہے ۔اس لئے کہ حالاتِ زمانہ بہت بگڑ چکے ہیں ، خیر خواہ دوست نادر ہیں ، مددگار کمزور ہیں اور ساتھ دینے والے تھوڑے ہیں ۔
٭دین کو چھوڑ کر جانے والوں اور ا لٹے پاؤں گھوم جانے والوں کے واقعات بہت بڑھ گئے ہیں :
اسلام کی خدمت کرنے والوں نے بیان کیا ہے کہ ایک مسلمان اس قسم کے انجام کے خوف کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے ، اور ثابت قدمی کے وسائل کا متلاشی رہتا ہے ۔ تاکہ خیر و عافیت سے زندگی پوری کر سکے ۔
اس موضوع کا تعلق دل سے ہے ،جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’لَقَلْبُ ابْنِ آدَمَ اَشَدُّ اِنْقِلَابَاً مِنَ الْقِدْرِ اِذَا اِجْتَمَعَتْ غَلْیَاً۔‘‘(مسند احمد 6؍4 والمستدرک للحاکم ۲؍۲۸۹اور االسلسلۃ الصحیحۃ للالبانی۱۷۷۲)

’’جب ہنڈیا پورے جوش سے اُبل رہی ہو تو جس طرح وہ اُلٹ پلٹ ہوتی ہے ، بنی آدم کا دل اس سے زیادہ بھی اُلٹ پلٹ ہوتا رہتاہے ۔اور آپ ﷺ نے دل کے بارے میں ایک اور مثال میں فرمایا:

’’اِنَّمَا سُمِّیَ الْقَلْبُ مِنْ تَقَلُّبِہٖ اِنَّمَا مَثَلُ الْقَلْبِ کَمَثَلِ رِیْشَۃٍ فِیْ اَصْلِ شَجَرَۃٍ یُقَلِّبُھَا الرِیْحُ ظَھْرَاً لِبَطْنٍ۔‘‘( مسند احمد 4؍408و صحیح الجامع 2361للالبانی)

’’الٹ پلٹ ہونے کی وجہ سے ہی قلب(دل) کو قلب کہا جاتا ہے ۔دل تو اس پر کی مانند ہے جو کسی درخت میں اٹکا ہوا ہو اور ہوا اس کو الٹ پلٹ کرتی رہتی ہو۔‘‘
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

وَمَا سُمِّیَ الِانْسَانُ اِلاَّ لِنَسْیِہٖ
وَلَاالْقَلْبُ اِلاَّ اَنَّہُ یَتَقَلَّبُ

انسان کو اسی لئے انسان کا نام دیا گیا ہے کہ وہ بھولتا رہتا ہے اور قلب(دل) کو اسی لئے قلب کہا جاتا ہے کہ وہ مسلسل الٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے۔
شبہات وشہوات کے جھکڑوں میں مسلسل اُلٹ پلٹ ہونے والے اس دل کا معاملہ بہت ہی خطرناک ہے ، اسے
انتہائی مضبوط وسائلِ ثبات کی ضرورت ہے جو ان مشکل
اور سخت حالات کا مقابلہ کرنے میں دل کی مدد کریں ۔
وسائلِ ثُبات
یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا حصہ ہے کہ اس نے اپنی کتا ب قرآن حکیم میں اور نبی اکرم ﷺ کی سنت وسیرت میں بہت سارے وسائلِ ثبات کو محفوظ کردیا ہے میں اپنے قارئین ِکرم کی خدمت میں چند ایک وسائلِ ثبات پیش کررہا ہوں ، ملاحظہ ہوں:
اول:قرآنِ کریم پر ڈیرہ ڈالنا:
سب سے پہلا وسیلہ ثبات خود قرآنِ کریم ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے ۔واضح روشنی ہے ، جس نے اس کو تھام لیا اللہ تعالیٰ نے اس کی (ہر شر سے ) حفاظت فرمادی اور جس نے اس کی پیروی کی اللہ نے اس کو نجات دے دی ،اور جس نے اس کی طرف دعوت دی ، اسے صراط مستقیم کی ہدایت مل گئی ۔اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ قرآن حکیم کو تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کا مقصد ہی یہ تھاکہ یہ ثابت قدمی میں مدد دے اللہ تعالیٰ نے کا فروں کے اعتراض کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادُکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً وَلَا یَأتُوْنَکَ بِمَثَل اِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنُ تَفْسِیْراً (الفرقان۳۲-۳۳)

’’اورکافروں نے کہا اس پرقرآن سار ے کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا ( اسی طرح ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے ) اتارا تا کہ اس سے آپ کا دل قوی رکھیں ہم نے اسے ٹہر ٹہر کر ہی پڑھ سنایا ہے۔یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے ۔‘‘
قرآن ہی تثبیتِ قلب کا ذریعہ کیوں؟؟
٭اس لئے کہ قرآن دل میں ایمان کو پیدا کرتا ہے ، اوراللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ کر نفس کو پاک کرتا ہے ۔
٭اس لئے کہ قرآنی آیات مؤمن بندے کے دل پر سلامتی اور سکون نازل کرتی ہیںچنانچہ فتنوں بھری آندھیاںاس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔اور اللہ کے ذکر سے بندے کا دل مطمئن ہو جاتا ہے ۔
٭اس لئے کہ قرآن مسلمان کو صحیح تصورات اور عقائد سے مسلح کرتا ہے اس طرح مسلمان اپنے ارد گرد پھیلے حالات کو صحیح سمجھ سکتا ہے ۔اسی طرح اس کے پاس ایسے مستحکم اصول ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس کا فیصلہ ڈگمگاتا نہیں ہے۔اورنہ ہی واقعات اور اشخاص کے تبدیل ہونے سے اس کے اقوال میںتناقض آتا ہے۔
٭دشمنانِ اسلام (خواہ کافر ہوں یا منافق )جو شبہات پھیلاتے ہیں قرآن اُن کا صحیح توڑ کرتا ہے ۔جیسا کہ ابتدائے اسلام میں چند واقعات پیش آئے ، لہذا ان مثالوں پر غور کرلیں:
٭جب مشرکوں نے کہا :’’وُدِّعَ مُحَمَّد‘‘(صحیح مسلم بشرح النووی۱۲؍۱۵۶)(کہ محمدکو چھوڑ دیا گیا)تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بنی اکرم ﷺ کی ذات گرامی پرکس قدر اچھا اثر ہوا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلَیٰ (الضحي:3)
’’نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہو گیا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس فرما ن کا بھی کتناخوبصورت اثر ہوا ہو گا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لِسَانُ الذِّیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ أَعْجَمِیٌّ وَھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُبِیْنٌ (النحل103)

اُس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے ۔
کفارِ قریش کا دعویٰ تھا کہ محمد ﷺ کو کوئی انسا ن سکھاتا ہے اور آپ قرآن بڑھئی سے پڑھتے ہیں یہ ایک رومی شخص تھا جو مکہ میں رہتا تھا ۔
٭جب ایک منافق نے کہا :

اِئْذِنْ لِیْ وَلاَتَفْتَنِّیْ

مجھے اجازت بخشواورکسی مصیبت میں نہ ڈالو۔
تواللہ تعالیٰ نے فرمایا:

أَلاَ فِیْ الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا (التوبۃ 49)

(آگاہ رہو وہ تو فتنے میں پڑ چکے ہیں) تو اس جواب سے اہلِ ایمان کے دل میں کتنا اچھا اثر ہوا ہو گا ۔
کیا یہ موجوہ د ثباتِ دل پراضافی تثبیت کا ذریعہ نہیں ہے؟ اور مؤمن دلوں کے لئے بہت بڑا سہارا نہیں ہے ؟ کیا یہ شبہات کی تردید نہیں ہے ؟اور اہلِ باطل کا منہ بند کرنا نہیں ہے؟ قسم بخدا ،ایسا ہی ہے۔
بہت خوبصورت واقعہ ہے کہ جب مسلمان صلح حدیبیہ کے بعد واپس آرہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے بہت زیادہ غنیمتوںکا وعدہ فرمایاجسے مسلمان عنقریب پانے والے ہیں(مرادتھیں خیبر سے ملنے والی غنیمتیں) اور یہ کہ یہ سارامال مسلمانوں کا ہوگا اور کسی دوسرے کا نہیں ہوگا ۔منافقین بھی ساتھ دینے کے خواہش مند ہوں گے لیکن مسلمان صاف کہہ دیں گے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جا سکتے ، منافقوں کا شدیداصرار ہو گا اور اللہ کے فیصلے کو بدلنے کی کوشش کریں گے اور منافق اہلِ ایمان کو طعنہ دیں گے کہ درحقیقت تمہیں ہم سے حسد ہے اوراللہ تعالیٰ ان کو کرارہ ساجواب دیں گے:

لَا یَکَادُوْنَ یَفَقَھُوْنَ حَدِیْثَاً(النسائ: 78)

انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات بھی سمجھنے کے قریب نہیں۔
پھر یہ سارے واقعات اہلِ ایمان کی نظروں کے سامنے مرحلہ درمرحلہ اور لفظ بلفظ سچ ثابت ہوئے ۔
یہاں سے ہم دو جماعتوں کا فرق معلوم کر سکتے ہیں۔ پہلی جماعت نے اپنی زندگی کوقرآن کریم کے ساتھ باندھ رکھا ہے اور اُن کی ساری توجہ قرآن کی تلاوت ،حفظ ، تفسیراور اُس پر غورفکر پر مرکوز ہے۔یہیں سے اُن کا سفر شروع ہوتا ہے اور یہاں پر آکر ختم ہو جاتا ہے ۔
اور ایک دوسری جماعت ہے جن کی ساری محنت ،سارا اہتمام اورساری مصروفیت انسانوں کے کلام پر خرچ ہو جاتی ہے۔اے کاش علم کے سچے طلبگار صرف قرآن اور اس کی تفسیر کو اپنا اوڑھنابچھونا بنالیں اور ساری محنت اسی پر کھپا دیں۔
دوم: اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور نیک کاموں کا اہتمام:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ (ابراہیم:27)

’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتاہے دنیا کی زندگی میں بھی اورآخرت میںہاں نا انصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے ۔‘‘
مفسرِ قرآن جناب ِ قتادہ فرماتے ہیں :’’دنیاوی زندگی میں بھلائی اور عملِ صالح کے ذریعے اورقبر (دارِآخرت) میں اللہ تعالیٰ اُن کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے ۔‘‘یہی بات متعدد سلف صالحین سے بھی مروی ہے ۔(تفسیرابنِ کثیر۴؍۴۲۱)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْامَا یُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرَاً لَھُمْ وَاَشَدُّ تَثْبِیْتَاً (النساء:44)

’’اوراگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقینا یہی ان کے لئے بہتر اوربہت زیادہ مضبوطی والا ہو یعنی حق پر قائم رہنے کے لئے۔‘‘
یہ نتیجہ بالکل واضح ہے ۔کیا عملِ صالح کو چھوڑ کر سست اور زمین پر ڈھیر ہونے والوں سے ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ جب فتنے سر اُٹھائیں اور بڑے بڑے معاملات در پیش ہوں تو ایسے لوگ ثابت قدم رہ سکیں گے ؟۔لیکن جو لوگ ایمان لائیں اور عملِ صالح کریں ، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے ایمان کی بدولت صراط مستقیم کی ہدایت ضرور دے گا ۔ اسی لئے آپ ﷺ اعمالِ صالحہ پر ہمیشگی فرماتے تھے ،بھلے تھوڑا ہی ہو، آپ کو محبوب تھا کہ عمل پر ہمیشگی کی جائےاور آپ ﷺ کے صحابہء کرام بھی جب کوئی کام شروع کرتے تو اس کو ثابت قدمی کے ساتھ نبھاتےاور سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنھا کا بھی طریقہ یہی تھا کہ جب کوئی کام شروع کر لیتیں تو اسے مسلسل کرتی رہتیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ ثَابَرَعَلیٰ اثْنَتَیْ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ

(سنن الترمذی ۲؍۲۷۳وسنن النسائی ۱؍۳۸۸امام البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے )
’’جس شخص نے پابندی کے ساتھ بارہ رکعت نماز ادا کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی ۔‘‘یعنی سنن مؤکدہ کی بارہ رکعات ۔
اور حدیث قدسی میں آیا ہے :

’’وَلَایَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالْنَوَافِلِ حَتّٰی اُ حِبُّہُ۔‘‘

’’بندہ مسلسل نفل عبادات کے ذریعے میرا قرب پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ،بالآخر میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری بواسطہ فتح الباری ۱۱؍۳۴۰)
سوم: سیرت کواپنانے اور عمل کرنے کی خاطر انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کے حالات واقعات کا مطالعہ کرنا اور اُن پر غور کرنا:
اور اس بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

وَکُلاًّ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَائِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُوأدَکَ وَ جَائَ کَ فِی ھٰذِہٖ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَذِکْرَیٰ لِلْمُؤمِنِیْنَ ( ھود:120)

’’رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکین کے لئے بیان فرما رہے ہیں ۔آپ کے پاس اس صورت میں بھی حق پہنچ چکا جو نصیحت ووعظ ہے مؤمنوں کے لئے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں یہ آیات خوش طبعی یا دل لگی کے لئے نہیں نازل ہوئیں ،بلکہ اِن کا بہت بڑا مقصد تھا اور وہ تھاآپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دلوں کو مضبوط کرنا ۔
٭اے میرے بھائی اگر تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمالے :

قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا اٰلِھَتَکُمْ اِنْ کَنْتُمْ فَاعِلِیْنَ قُلْنَا یَا نَارُکُوْنِیْ بَرْدَاً وَسَلَامَاًعَلَیٰ اِبْرَاہِیْمَ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدَاً فَجَعَلْنَاھُمُ الاَخْسَرِیْنَ (الانبیاء 68۔70)

’’کہنے لگے کہ اسے-ابرہیم کو-جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے ۔ہم نے کہہ دیا اے آگ تو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم علیہ السلام کے لئے سلامتی اور آرام کی چیز بن جا گو انہوں نے ابراہیم کا برا چاہالیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا ۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے :’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ نے فرمایا:’’حسبی اللہ ونعم الوکیل ‘‘میرے لئے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کاساز ہے ۔‘‘
اور جب تم اس واقعے پر غور کرو گے تو بہت بڑے ظلم وعذاب کے سامنے استقامت کی بہت بڑی مثال کا احساس تمہارے دل میں اتر جائے گا ؟۔
٭سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعے پر اگر تم غور کرو :

فَلَمَّا تَرٰٓئَ االْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسَیٰ اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ (الشعراء 61)

’’پس جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو یقیناپکڑ لئے گئے ۔‘‘
جب تم اس واقعے پر غور کرو گے تو تمہیں محسوس ہو گا کہ ایسے لحظات میں ثابت قدمی کی عالی شان مثال موجود ہے جب کہ ظالم پیچھے پہنچ چکے ہوں اور ساتھی مایوسی اور ڈر سے چیخ وپکار کررہے ہوں ۔ ایسے حالات کو سامنے رکھ کر واقعے پر غور کرو ۔
٭ اگر تم نے تفصیل کے ساتھ فرعون کی طرف سے لائے ہوئے جادوگروں کے واقعے پر غور کیا ہو وہ ایک حیرتناک واقعہ ہے۔جب اس گروہ کے سامنے حق واضح ہو گیا تو وہ حق پر ڈٹ گئے ۔
ظالم کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے باوجود جب حق دل میں گھر کر گیا تو تم اس کی ایک عظیم شان اور مقام دیکھ سکتے ہو ۔ظالم کہہ رہا تھا :

أَ أَمَنْتُمْ لَہُ قَبْلَ اَنْ آذَنَ لَکُمْ اِنَّہُ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ فَلأُقَطِّعَنَّ اَیْدَیَکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ مِنْ خِلَاف وَلَاُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَابَا وَأَبْقَیٰ (طہ : 71)

’’فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے ؟یقینا یہی تمہارا وہ بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے (سن لو )میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی لٹکوا دوں گا اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے ۔‘‘
اہلِ ایمان کی ایک چھوٹی سی جماعت اس طرح اپنے موقف پرڈٹ گئی کہ واپسی کی ذرا بھی گنجائش نہ چھوڑی اور وہ ببانگ دھل اعلان کر دیا

لَنْ نُؤْثِرَکَ عَلیٰ مَا جَائَ نَا مِنَ البَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (طہ 72)

’’ انہوں نے جواب دیا کہ نا ممکن ہے کہ ہم تجھے تر جیح دیں اُن دلیلوں پر جو ہمارے سامنے آچکیں اور اس اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اب تو توُ جو کچھ کرنے والا ہے کر گذر تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیوی زندگی میں ہی ہے ۔‘‘
٭سورت یٰسین میں ایک مؤمن کا واقعہ ہے اور آلِ فرعون میں سے ایک مؤمن کا تذکرہ بھی ہے کھائیوں والوں کے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں اور قرآن ِ حکیم میں اور بھی بہت سارے واقعات ہیں سب کے سب کا ایک ہی سبق ہے اور وہ ہے حق کی خاطر ڈٹ جانا۔
چہارم ۔دعا :
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے بندوں کی خوبی یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ ثابت قدمی کی خاطر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں ۔
وہ اس طرح دعا مانگتے ہیں :

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا

’’اے ہمارے رب !جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے تو اب ہمارے دلوں کو نہ پھیرنا۔‘‘

رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرَاًوَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا

’’اے ہمارے رب !ہمیں بہت زیادہ صبر کرنے کی توفیق عطا فرمااور ہمارے قدموں کو(حق پر)مضبوط کردے۔‘‘
جیساکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

قُلُوْبُ بَنِیْ آدَمَ کُلُّھَا بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یَصْرِفُہُ حَیْثُ یَشَآءُ (مسند احمد وصحیح مسلم بروایت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھما)

’’تمام بنی آدم کے دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا کہ وہ ایک ہی دل ہو جیسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے‘‘
آپ ﷺ کثرت کے ساتھ یہ دعا کیا کرتے تھے :

یاَ مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَیٰ دِیْنِکَ (صحیح الجامع الصغیر7864)

’’اے دلوں کو پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین پر پکا کردے۔‘‘
پنجم: اللہ کا ذکر کرنا:
ذکر استقامت کے اسباب میں سے عظیم سبب ہے ۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ذرا غور کروکہ کس طرح اُس نے دو باتوں کو ملا کر بیان کیا ہے فر مایا :

یٰااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْااِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرَاً(الانفال65)

’’اے ایمان والو !جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤتو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو ۔‘‘
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کو جہاد میں ثابت قدم رہنے کے لئے سب سے زیادہ مددگار بنایاہے۔ایران اور روم کے کڑیل جسموں پر غور کرو جب اِن لوگوں کو ان جسموں کی ضرورت تھی تو انہوں نے ساتھ نہ دیا حالانکہ مقابلے میں لشکر کی تعداد تھوڑی تھی اوراُن کے پاس سامانِ جنگ بھی کمزور تھا ،اس لئے کہ وہ اللہ کو بہت زیادہ یا د کرنے والے تھے ۔
جب اختیار ات رکھنے والی اورپیکرِجمال عورت نے سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کو دعوت ِ گناہ دی تو اس فتنے سے بچنے کے لئے آپ نے کس چیز کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ کیا ؟کیا یہ بات حق نہیںکہ آپ ’’معاذاللہ‘‘ (اللہ کی پناہ ) کے قلعے میں محفوظ ہو گئے ۔اس طرح شہوت کا بپھرا ہوا طوفان اس قلعے کی دیواروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔
اہلِ ایمان کی ثابت قدمی میں ذکر الٰہی اسی طرح کے نتائج دکھایا کرتاہے۔
ششم۔اس بات کی بھر پور کوشش کرنا کہ ایک مسلمان صحیح راہ پر چلے:
صرف ایک ہی صحیح راستہ ہے جس پر چلنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور وہ ہے اہل السنت والجماعۃ کا راستہ اور یہی طائفہ منصورہ یعنی فرقہ ناجیہ کا راستہ ہے جن کا عقیدہ بہت صاف ستھرا اور منہج بہت صحیح ہے یہ سنت اور دلیل کی پیروی کرتے ہیں ۔اللہ کے دشمنوں سے بالکل الگ ہیں اور اہلِ باطل سے فاصلہ رکھتے ہیں ۔
ثابت قدمی میں جب تم اس بات کی قیمت واہمیت جاننا چاہو تو تو اپنے آپ سے پوچھو :کہ اگلے پچھلے بہت سارے لوگ آخر کیوں گمراہ ہو گئے اور سیدھے راستے پر اُن کے قدم جم نہ پائے اور نہ ہی اِس پر اُن کی موت آئی؟یا یہ لوگ حق تک پہنچے تو صحیح، لیکن عمر کا بڑا حصہ ضائع کرنے کے بعد اور اپنی زندگی کا بہت سارا وقت برباد کرنے کے بعد؟
تم ان کے حال پر غور کرو کہ ایک آدمی فلسفہ کی گمراہیوں اوربدعتوں کو عبور کرتا ہوا علمِ کلام تک جا پہنچتا ہے اعتزال سے چلتا ہے تو تحریف تک چلا جاتا ہے اور تاویل کی وادی سے چلتا ہے تفویض وارجاء تک چلا جاتاہے اور کبھی تصوف کے ایک راستے پر ہوتا اور کبھی دوسرے راستے پر۔
اہلِ بدعت ہمیشہ اسی طرح حیران وپریشان رہتے ہیں ذرا اس نتیجہ پر بھی غور کرو کہ اہلِ کلام موت کے وقت ثابت قدمی سے محروم رہتے ہیں سلف صالحین نے فرمایا ہے ’’موت کے وقت سب سے زیادہ شک کا شکار اہلِ کلام ہی ہوا کرتے ہیں۔‘‘
لیکن غور وفکر کرو کہ اہلِ سنت والجماعہ کے کسی شخص نے جب حق کو جا ن لیا ، سمجھ لیا اور اس پر چل لیا تو اس سے ناراض ہو کر کبھی اسے چھوڑا ہو ؟البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ اپنی کمزور سمجھ کی وجہ سے شہوات وشبھات میں پڑ کر اُسے چھوڑ دیا ہو ۔لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ اُس کو اِس سے زیادہ بہتر راستہ نظر آگیا ہویا اُس نے اس راستے کو باطل سمجھ کر چھوڑ دیا ہو ۔
اس کی ایک سنہری مثال تاریخ میں موجود ہے کہ ہرقل نے ابو سفیان سے محمد ﷺ کے ماننے والوں کے بارے میں دریافت کیا :’’کیا کوئی شخص مسلمان ہونے کے بعد ناراض ہو کر واپس ہوا ہے ؟‘‘
ابوسفیان نے جواب دیا : ’’نہیں ‘‘
اس کے بعد ہرقل نے کہا :’’جب ایمان دل میں گھر کر جاتا ہے تو یہی اس کی پہچان ہو تی ہے ۔‘‘(صحیح البخاری مع الفتح۱؍۳۲)
کئی ایک بڑے لوگوں کے بارے میں ہم نے سنا ہے کہ وہ بدعت کی منازل میں ادھر سے ادھر بھٹکتے رہے ۔اور کچھ لوگوں کو اللہ نے ہدایت بھی دی تو وہ باطل کو چھوڑ کر اہلِ سنت والجماعۃ کے مذہب میں آگئے اور اپنے سابقہ مذاہب سے سخت ناراض تھے ۔کیا کسی نے یہ بھی سنا ہے کہ کوئی اہلِ سنت والجماعۃ کا آدمی مذہب سے ناراض ہو کر دوسرے مذہب میں گیا ہو ؟چنانچہ اگر تم ثابت قدمی کے طلبگار ہو تو اہلِ ایمان کے راستے پر ڈٹ جاؤ۔
ہفتم:علم اور سمجھ سوچ پر مبنی ایمانی تربیت ثابت قدمی کا سب سے اہم ذریعہ ہے ۔
ایمانی تربیت :یہ دل اور ضمیر کو زندہ کرتی ہے ۔ انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور امید اور صرف اسی کی محبت پیدا کرتی ہے ۔ اور یہ خوبی کتاب وسنت کے نصوص سے دوری کی وجہ سے پیدا ہونے والی خشکی وسختی کے برعکس ہے اور انسانوں کے اقوال و آراء پر مغز ماری سے بہتر ہے ۔
علمی تربیت:جو کہ صحیح علمی دلیل پر قائم ہونہ ہی اندھی تقلید ہو اور نہ ہی معاشرے کی بے دلیل پیروی ۔
ذہنی تربیت :جس کا جرم سے کوئی سروکار نہ ہو ۔اسلام کے دشمنوں کے پروگرام کو گہرائی سے سمجھتا ہو اور حالات کا حقیقی علم بھی رکھتا ہو ،ارگرد کے واقعات کو سمجھتا ہو اور نتائج سے بھی باخبر ہو ۔
قدم قدم اٹھانے کی تربیت:جس کی وجہ سے مسلمان دھیرے دھیرے آگے بڑھتا ہے اور ایک مناسب طریق کار کے ساتھ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا ہے ناتو بے تکے طریقے سے چلتا ہے اور نہ ہی کمر توڑ چھلانگیں لگاتا ہے ۔
ضروری ہے کہ ہم ثابت قدمی کی راہ میں اس نکتے کی اہمیت کو سمجھ لیں ۔چاہیے کہ از سرِ نو سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کر یں اور خود اپنے آپ سے درجِ ذیل سوال کریںکہ شدید تکالیف کے زمانے میںنبی اکرم ﷺ کے صحابہ کو کس چیز نے ثابت قدم رکھا ؟
سیدنا بلال وخباب ومصعب وآلِ یاسر جو کے معاشرے کے کمزور لوگ تھے حتیٰ کہ بڑے صحابہ کرام شعبِ ابی طالب اورامتحان کے دوسرے مواقع پر کیونکر اپنے ایمان پر جمے رہے ؟
کیا ساری مشکلات کا مقابلہ اُس تربیت کے بغیر ہو سکتا تھا جو اُنہیں دربارِ نبوت سے ملی تھی، جس نے اُن کی شخصیت کو چودھویں کے چاند کی طرح چمکا دیا تھا؟
ہم صرف ایک صحابی کو بطورِ مثال پیش کرتے ہیں اور وہ ہیں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ،جن کی مالکن لوہے کی سیخوں کو اس قدر آگ پر گرم کرتی تھیں کہ وہ سرخ ہو جاتیں، پھر انہیں سیدنا خباب کی ننگی کمر پر رکھتی بالآخرکمر کی چربی جب پگھلتی تو سیخیں ٹھنڈی ہو جاتیں آخروہ کیا وجہ تھی کہ آپ اتنی بڑی سزا کو برداشت کرلیتے ؟
سیدنا بلال کو شدید گرمی میں گرم پتھروں کے نیچے رکھا جاتا۔سیدہ سمیۃ کو بیڑیاں اور طوق پہنائے جاتے۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے، ایک اہم موقعہ آپ ﷺ کی زندگی میں پیش آیا، جب غزوہ حنین میں اکثر مسلمان شکست سے دو چار ہو گئے تو نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کون کھڑا تھا ؟
کیا یہ نئے نئے اسلام لانے والے تھے ؟
یا فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے جنہیں مدرسہ نبوت میں تربیت کا کافی وقت نہیں ملا تھا اور جو غنیمتیں سمیٹنے کے لئے نکلے تھے ؟نہیں نہیں اصل بات یہ ہے جو لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے یہ وہی تربیت یا فتہ اہلِ ایمان تھے جنہوں نے آپ ﷺ کے ہاتھ پر تربیت پائی تھی ۔
اگر ان کے پاس تربیت نہ ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ یہ لوگ ثابت قدم رہ سکتے ؟
ہشتم :اپنے راستے پر یقین محکم
اے میرے بھائی ! اس بات کا پختہ یقین ہو کہ یہ سیدھا راستہ جس پر میں چل رہا ہوں نہ ہی نیا ہے اور نہ ہی اس زمانے میں ایجاد ہوا ہے ۔ بلکہ یہ بہت پرانا راستہ ہے ۔ جس پر ہم سے پہلے انبیاء کرام ، صدیق زمانہ ، شھداء علماء اور دوسرے نیک لوگ چلتے آئے ہیں ۔اس طرح تیری حیرانی ختم ہو جائے گی اور تیری پریشانی اطمینان میں بدل جائے گی اور تیری جھنجھلاہٹ فرح وسرور کا رنگ اختیار کر لے گی ۔اس لئے کہ تیرے اندر یہ احساس پیدا ہو گا کہ یہ سب لوگ اسی راستے میں میرے ہم سفر اور بھائی ہیں ۔
رب کی طرف سے انتخاب کا احساس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلَیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفَیٰ

’’تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ (منتخب و پسندیدہ)بندوں پر سلام ہے ۔‘‘ (النمل59)

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا (فاطر32)

’’پھر ہم نے ان لوگوں کو اس کتاب کا وارث بنایاجن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند کیا۔‘‘

وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الاَحَادِیْثَ (یوسف 6)

’’اور اسی طرح تجھے تیرا پرور دگار تجھے منتخب کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی بھی سکھائے گا۔‘‘
جس طرح اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو پسند فرمایا۔اسی طرح نیک لوگوں کو بھی انتخاب میں سے حصہ ملا اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیاء کے علم کو سنبھال کر رکھا ہے ۔
اگر اللہ تعالیٰ تجھے بے جان ،جانور ،کافر ،ملحد ، بدعت کی طرف دعوت دینے والا ،فاسق یا ایسا مسلمان جو اسلام کی طرف دعوت دینے والا نہ ہوتا یا مختلف اور غلط راستوں کی طرف دعوت دینے والا بنادیتا پھر تمہارا احساس کیا ہوتا؟
تمہاری کیا رائے ہے کہ صرف تمہارا یہ احساس کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے منتخب کر لیا ہے اور تجھے اہلِ سنت والجماعت کا داعی بنایا ہے ، کیا یہ بات اپنے طریقے اور منہج پر ثابت قدم رہنے میںفائدہ مند نہیں ؟
نہم : مسلسل اللہ کی طرف دعوت دینے میں جٹے رہنا
نفسِ انسانی اگر حرکت میں نہ رہے تواُس میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور اگر اپنی جگہ سے نہ ہلے تو سڑ گل جاتا ہے ۔ نفس کو چالو رکھنے کا سب سے بڑا میدان دعوت الیٰ اللہ کا کام کرنا ہے یہ انبیاء ورسل والا کام ہے اور نفس کو عذاب سے بچانے والا ہے اسی کے ذریعے طاقتوںکے چشمے پھوٹتے ہیںاور بڑے بڑے منصوبے مکمل ہوتے ہیں اسی لئے اللہ نے فرمایا:

فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ(الشوری:15)

’’پس تو اس بات کی طرف دعوت دیتا رہ اور ڈٹ کے کھڑا ہو جا جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔‘‘
اور یہ جملہ قطعا ً صحیح نہیں ہے کہ فلاں نہ آگے بڑھتا اور نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ نفس کو اگر تو اطاعت اور نیکی میں مصروف نہیں کرو گے تو وہ تجھے برائی میں مصروف کر دے گا ۔اور ایمان تو گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔
وقت خرچ کر کے ،سوچ بچار کی محنت کرکے ،جسم کو تھکا کے، زبان کو متحرک رکھ کے اس طرح کہ دعوت ہی مسلمان کا اورھنا بچھونا بن جائے صحیح راستے کی دعوت دینا گمراہی اور فتنے کے تمام شیطانی راستوں کا سد باب ہے۔
اسی بات پر اس چیز کا بھی اضافہ کر لو کہ یہ کام انسانی سوچ میں چیلنج کا مزاج پیدا کرتا ہے کہ اُسے کس طرح مشکلات کا حل نکالنا ہے؟، مخالفین اور اہلِ باطل کا کیسے مقابلہ کرنا ہے؟جب وہ دعوت کے راستے پر چل پڑے گا تو اس کے ایمان میں ترقی ہو گی اور ارکانِ ایمان مضبوط ہو ں گے۔
دعوت کے کام میں اجرِعظیم تو ہے ہی ، یہ کام ثابت قدمی کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔اس طرح داعی اپنے عقیدے میں نہ کمزور پڑھتا ہے اور نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ اس لئے کہ جو آدمی خود حملہ آور ہو اسے اپنے دفاع کی ضرورت نہیں ہو تی ۔اللہ کی مدد ہمیشہ دعوت کا کام کرنے والوں کے ساتھ ہو تی ہے۔ اللہ خود اُن کے قدم مضبوط کرتا ہے اور ان کی کوتاہیوں کی تلافی کرتا ہے۔ داعی کا حال طبیب جیسا ہوتا ہے اپنے علم اور تجربے کے ذریعے لوگوں کا علاج کرتا ہے چونکہ وہ لوگوں کو بیماریوں سے بچاتا ہے، لہذا وہ خود بھی بیماری پیدا کرنے والے اسباب سے دور رہتا ہے۔
۔جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے