رسول اللہ ﷺ کا نامۂ مبارک اور خسروپرویز کے رد عمل پر ایک تحقیقی جائزہ

ابتدائیہ :

نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی دعوت وتبلیغ کی عملی تصویر ہے آپ ﷺ کے حسنِ عمل سے دعوت کے قدرتی طریق کی وسعت کا پتہ چلتا ہے آپ ﷺ کو ابتداء میں اپنے گھر اور خاندان کو سمجھانے کا حکم ہوا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (الشعراء:214)

’’اور اپنے اہل خاندان کو آگاہ وہوشیار کرو۔‘‘
آپ ﷺ نے دعوت وتبلیغ کے ذریعے اولین طور پر عرب معاشرے کو برابری اورمساوات کی سطح پر لاکھڑا کیا اس کے بعد آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو یکساں طور پر پوری دنیا کی اقوام وقبائل تک پہنچایا،  آپ ﷺ نے اپنی تبلیغ ودعوت کیلئے قریش، حجاز ویمن، عرب وعجم اور فارس تک پہنچایا آپ ﷺ نے اپنی حد بندی نہیں کی بلکہ دنیا کی ہر قوم، ہر زبان اور ہر علاقے میں پیغام الٰہی کو پہنچانا فرض قرار دیا ۔ آپ کی تبلیغی مشن کیلئے قرآن نے مختلف الفاظ استعمال کیئے ہیں مثلاً تبلیغ، ابلاغ، تبشیر، انذار اور تذکر وغیرہ آپ ﷺ نے دعوت کے تمام مراحل میں پرامن تبلیغ کو اپنا مقصد بنائے رکھا۔ ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں کہ ہجرت کے بعد نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ میں مسلم معاشرے کو مستحکم کیا شہری دفاع کیلئے معاہدہ کیا اور مسلمانوں کی تعمیر سیرت اور ان کے معاشی مفادات کو محفوظ کرنے کا انتظام کیا۔ (علوی ، ڈاکٹر خالد، رسول اکرم ﷺ کا منہاج دعوت، دعوۃ اکیڈمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد صفحہ:57)
6 ہجری کوصلح حدیبیہ کے بعد کسی قدر اطمینان نصیب ہوا تو آپ ﷺ نے اسلام کا عالمی پیغام تمام دنیا کے کانوں تک پہنچانے کیلئے خطوط وخطبات کا سلسلہ شروع کیا اور بیرون ملک تبلیغی ودعوتی وفود بھیجے۔ قیصر روم، شہنشاہ عجم، مصر کے حاکم اور رؤسائے عرب کے نام دعوت اسلام کے خطوط ارسال کیئے۔ اس زمانے میں روم، یونان اور ایران ایسی عالمی طاقتیں تھیں جیسے آج کل امریکہ برطانیہ اور فرانس ہیں۔ آپ ﷺ نے عالمی طاقتوں کے سربراہوں کو دعوت دین کے لیے خطوط لکھے اُن میں سے ایک خط ایران کے بدنصیب بادشاہ ملکہ شیریں کے شوہر خسروپرویز کو بھی لکھا ، فارسی لفظ پرویز کے معنی فاتح اور خوش نصیب کے ہیں اور فارسی لفظ خسرو کے معنی بادشاہ کے ہیں یہ اپنے باپ ہرمز کی وفات کے بعد 590ء تا 628ء تک برسراقتدار رہا، خسرو پرویز کسریٰ ۔(فیروز اللغات ، فیروزسنز لاہور 1977، صفحہ :165)
دوم ہے اس کا اصل نام مظفر تھا یہ اپنے باپ کو قتل کرکے برسراقتدار آیا تھا۔(شبلی نعمانی،سیرت النبی ﷺ ادارہ اسلامیات لاہور جلد 4، صفحہ :216)
یہ ایک ظالم اور متکبر المزاج بادشاہ تھا اس کے دور میں ایران اور روم کا جنگی سلسلہ شروع ہوا ، پرویز نے ہزاروں افراد قتل کرائے اور کافی تباہی وبربادی کے بعد عرب کے وسیع علاقہ پر قابض ہوگیا اس نے سکندریہ ، مصر،شام ، اُردن اور بیت المقدس کو بھی فتح کیا اس نے 37 سال حکومت کی بالآخر مارچ 628 میں ایران کے بادشاہ کی رہاش گاہ پر رومی فوج قابض ہونے میں کامیاب ہوگی۔ (غضنفر،تبسم محمود، سلطنت مدینہ کے سفیر صحابہ ، نعمانی کتب خانہ لاہور ، صفحہ:62)
نبی کریم ﷺ نے سیدناعبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو کسری روم خسرو پرویز کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ماہ محرم 7 ہجری کو نبی کریم ﷺ کی طرف سے شاہ ایران کسریٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کےہمراہ نبی کریم ﷺ کا خط بھی تھا جو آپ ﷺ نے کسریٰ کے نام لکھا اور اسے
اسلام قبول کرنے کی دعوت دی امام بخاری رحمہ اللہ کی
روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خط سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو دیتے ہوئے یہ تاکید کی تھی کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائیں اور اسے کہیں کہ اسے شہنشاہِ ایران تک پہنچا دے۔ صحیح بخاری میں اس طرح مذکور ہے ۔

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَى كِسْرَى، مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ ” فَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ البَحْرَيْنِ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ البَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى (صحيح البخاري، كتاب المغازي باب كتاب النبي صلى الله عليه وسلم إلى كسرى وقيصرجلد 5،صفحه:136)

’’رسول اکرم ﷺ نے سیدنا عبد اللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ کو خط دے کر کسریٰ کے پاس بھیجا آپ ﷺ نے سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ خط بحرین کے رئیس کو دے دینا۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی ہدایت پر عمل کیا اورخط حاکم بحرین کے پاس پہنچادیا۔ حاکم بحرین نےسیدناعبد اللہ کو اپنے ایک معتمد کے ساتھ خسرو پرویز کے پاس روانہ کردیا جب بارگاہِ رسالت کے سفیر سیدنا عبد اللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ فارس پہنچے تو خسرو نینوا میں مقیم تھا۔ فارس کے معمول کے مطابق بڑے جاہ وجلال اور شان وشوکت کے ساتھ تختِ سلطنت پر متمکن تھا کہ نقیب کی آواز پر ایک شخص دربار میں حاضر ہوا اس نے بڑی حیرت اور استعجاب کے ساتھ اسے دیکھا اتنے معمولی لباس اور اس قدر سادگی اور بے باکی سے آج تک خسرو کے دربار میں کوئی نہ آیا تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کا خط شہنشاہ فارس کے سامنے پیش کر دیا۔ جس کی عبارت یہ ہے۔ (تاریخ الامم والملوک ، جلد2 صفحہ 254)

بِسْمِ الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله إلى كسرى عظيم فارس، سلام على من اتَّبَعَ الْهُدَى، وَآمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَشَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَدْعُوكَ بِدُعَاءِ اللَّهِ، فَإِنِّي أَنَا رَسُولُ اللَّهِ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً لأُنْذِرَ مَنْ كانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكافِرِينَ، فَأَسْلَمَ تَسْلَمْ، فَإِنْ أَبَيْتَ، فَإِنَّ إِثْمَ الْمَجُوسِ عَلَيْكَ

’’محمد رسول اللہ کی طرف سے شاہ ایران کی طرف!
سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں میں تجھے اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں تاکہ ہر اس شخص کو ڈراوں جو زندہ ہے اور جو منکر ہیں ان پر حق بات ثابت ہوجائے اسلام قبول کر لو سلامتی حاصل ہوگی اگر انکار کیا تو مجوسیوں کا گناہ بھی تمہارے سر ہوگا۔‘‘ (الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 213 حمید اللہ دکتور، مجووہ الوثائق اساسیۃ، القاھرۃ 1376ھ)
فارس کے بادشاہ خود کو اللہ کے برابر سمجھتے تھے اور ان کی اس حیثیت کو قائم وبلند رکھنے کےلیے ہر شخص ان کے دربار میں آتے وقت سجدہ کرنا پڑتا تھا کسریٰ بھی اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا جب اس نے نبی کریم ﷺ کے خط کو سنا تو آزادانہ طرزِ تخاطب ،بے گانہ انداز دیکھ کر حیران رہ گیا وہ شخص جس کے سامنے کروڑوں انسان سجدہ ریز ہوجاتے تھے حیران تھا کہ اس سرزمین میں کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اس کے نام سے پہلے اوپر اپنا نام لکھے کیونکہ فارس(ایران) کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے ان میں سب سے اوپر بادشاہ کا نام ہوتا لیکن اس خط کو اللہ کے نام سے شروع کیا گیا تھا پھر نبی کریم ﷺ کا نام تھا۔(تاریخ الامم والملوک جلد2 صفحہ:254)
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب شاہِ ایران کو خط پڑھ کر سنایا گیا تو خط سنتے ہی اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ شیطان نے اس کو آگ بگولا کر دیا اس کے تکبر نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیں ، شیطانی قوتوں نے اُکسایا وہ سخت سیخ پا ہوا ،غصے سے تلملایا اور نہایت غرور سے بولا کہ اس کی جرأت (نعوذ باللہ) کہ مجھے اسلام کی دعوت دے غرض شدید غصے اور طیش کے عالم میں اس نے آپ ﷺ کا خط مبارک ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ یہ حالت دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور نہایت تحمل سے متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اہل دربار سے مخاطب ہوکر کہا ’’اے اہل فارس! عرصۂ دراز سے تمہاری زندگی ایسی جہالت سے گزر رہی ہے کہ نہ تمہارے پاس اللہ کی کوئی کتاب ہے اور نہ کوئی اللہ کا پیغمبر تمہارے ہاں مبعوث ہوا ہے جس سلطنت پر تمہیں ناز اورغرور ہے وہ اس کی زمین کا بہت ہی مختصر ٹکڑا ہے دنیا میں اس سے زیادہ کہیں بڑی بڑی حکومتیں ہیں اس کے بعد آپ بادشاہ سے مخاطب ہوئے اور کہا :
’’ آپ سے پہلے بہت سے بادشاہ گزر ےہیں ان میں سے جس نے آخرت کو اپنا منتہائے مقصود سمجھا وہ دنیا سے اپنا حصہ لے کر بامراد گیا اور جس نے دنیا کو مقصود بنایا اس نے آخرت کے اجر کو ضائع کر دیا افسوس کہ میں فلاح ونجات کے جس پیغام کو لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ نے اسے حقارت سے دیکھا حالانکہ آپ کو علم ہے کہ یہ پیغام ایسی جگہ سے آیا ہے جس کا خوف آپ کے دل میں موجود ہے یادرہے کہ حق کی آواز آپ کی تحقیر سے دب نہیں سکتی۔ ‘‘ (السہیلی ، روض الانف جلد 2، صفحہ : 253 ، مطبوعہ مصر 1912)
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اہل فارس کو یہ تنبیہ کرکے دربار سے چلے آئے اور نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوکر تمام واقعہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا
اللهم مزق ملكه (الاصابۃ، جلد2 صفحہ:256)
’’اے اللہ اس کی حکومت کو پارہ پارہ کردے۔‘‘
سفارتی مشن کے نتائج :
بظاہر تو یہ سفارتی مشن اس حوالے سے ناکام نظر آتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی دعوت پر شاہِ ایران اور اس کی عوام نے اس دعوت کو قبول نہ کیا لیکن اس کے اثرات بہت دوررس تھے اور نتائج نہایت حیران کن نکلے اس دور میں یمن کا علاقہ ایران کے ماتحت تھا شاہ ایران نے یمن کے گورنر باذان کی طرف خط لکھا اور حکم دیا کہ اپنے پاس سےدو مضبوط آدمی حجاز بھیجیں اور وہاں نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے میرے پاس لے آئیں ۔ باذان نے بابویہ اورخرخسرہ نامی دو اشخاص کو مدینہ منورہ روانہ کیا ان دونوں نمائندوں نے مدینہ منورہ پہنچ کر یمن کے گورنر باذان کا خط نبی کریم ﷺ کو دیا رسول اللہ ﷺ خط دیکھ کر مسکرائے۔ (اسد الغابہ جلد1،صفحہ:63)
اور آپ ﷺ نے دونوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی آپ ﷺ کے سامنے وہ دونوں کھڑے اتنے مرعوب دکھائی دے رہے تھے کہ وہ تھر تھر کانپ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے اُ ن کی حالتِ زار دیکھ کر فرمایا تم دونوں آج آرام کرو کل آنا تو میں اپنے ارادے سے آگاہ کروں گا جب وہ دوسرے دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ

أَبْلِغَا صَاحِبَكُمَا أَنَّ رَبِّي قَدْ قَتَلَ رَبَّهُ كِسْرَى فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ لِسَبْعِ سَاعَاتٍ مَضَتْ مِنْهَا. وَهِيَ لَيْلَةُ الثُّلاثَاءِ لِعَشْرِ لَيَالٍ مَضَيْنَ مِنْ جُمَادَى الأُولَى سَنَةَ سَبْعٍ. وَأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى. سَلَّطَ عَلَيْهِ ابْنَهُ شِيرَوَيْهِ فَقَتَلَهُ (طبقات ابن سعد جلد1، صفحہ :220)

’’اپنے صاحب کو بتا دو کہ میرے رب نے اس کے رب کسریٰ کو اس رات سات بجے قتل کر دیا ہے اور یہ 7 ہجری 10 جمادی الاول پیر کی رات کا واقعہ ہے ، اللہ رب العزت نے اس پر اس کے بیٹے شیرویہ کو مسلط کر دیا اور اس نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی زبان سے یہ باتیں سن کر دونوں قاصدوں نے کہا کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں اس کی پوری ذمہ داری آپ کے اوپر ہے کیا یہ بات ہم باذان سے جاکر کہہ دیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ہاں والیٔ یمن سے جاکر یہ کہہ دو اور ساتھ یہ بھی بتا دینا کہ میرا دین میری حکومت بہت جلد کسریٰ کے پایۂ تخت تک پہنچ جائے گی۔‘‘ (تاریخ الامم والملوک جلد 2 ، صفحہ:256)
چنانچہ وہ دونوں باشندے یمن کے گورنر باذان کی طرف روانہ ہوئے اور نبی کریم ﷺ کا پیغام دیا۔ باذان نبی کریم ﷺ کا پیغام سن کر بہت حیران ہوا اور کہا اس شخص کی باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی دنیوی بادشاہ نہیں بہر حال ہمیں اس واقعہ کی تصدیق کیلئے انتظار کرنا چاہیے۔ کچھ عرصہ بعد ایران کے دار السلطنت مدائن سے شیرویہ کا حکم باذان کو ملا :
’’ میں نے خسرو کو اس کے بے پناہ مظالم کے سبب سے قتل کر دیا ہے اس کی جگہ میں اب ایران کے تخت کا مالک ہوا ہوں اس لیے میرا یہ فرمان پہنچتے ہی لوگوں سے میری اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار لو۔‘‘ شرویہ کا حکم پاکر باذان کو بڑی حیرانی ہوئی اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ ’’محمد ﷺ کی بات سچی نکلی‘‘ گورنر باذان نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھ ہی یمن کے باشندے بھی مسلمان ہوگئے۔

 فَأَسْلَمَ هُوَ وَالأَبْنَاءُ الَّذِينَ بِالْيَمَنِ

’’وہ اور اہل یمن مسلمان ہوگئے۔‘‘ (طبقات ابن سعد جلد 1، صفحہ نمبر : 260|)
کسریٰ کے قتل ہوجانے سے نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوگئی کیونکہ آپ نے کہا تھا ۔

إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرَى بَعْدَهُ (تاريخ الامم والملوك جلد 2، صفحه:90)

’’ جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا ‘‘۔
چنانچہ اس کی موت کے بعد ملک کا شیرازہ منتشر ہوگیا اس کا بیٹا شیرویہ بھی 6 ماہ سے زیادہ حکومت نہ کر سکا اور اس کے تخت پر 4 سال کے اندر یکے بعد دیگرے دس بادشاہ متمکن ہوئے آخری بادشاہ یزدگرد تھا اس کے بعد اس ملک پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور شاہِ ایران کسریٰ کی وہ سلطنت پارہ پارہ ہوگئی جس پر اسے حد درجہ غرور تھا۔
(غضنفر، تبسم محمود ، سلطنت مدینہ کے سفیر صحابہ ، نعمانی کتب خانہ لاہور صفحہ :133)
شاہ ایران کسریٰ کے نام مکتوبِ نبوی ﷺ کی دریافت :
مؤرخین عام طور پر یہ لکھتے ہیں کہ کسریٰ پرویز نے نبی کریم ﷺ کے مکتوب کو پھاڑ کر پھینک دیا تھا مگر اس کے بعد اس خط کا کیا ہوا؟ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے اس وقت کسی کو علم نہ تھا کہ جس پُر شکوہ دربار میں بیٹھ کر اور اپنی شہنشاہیت پر فخر کرتے ہوئے کسریٰ پرویز نے مکتوب نبوی ﷺ کو درخورِ اعتنانہ سمجھا اور پھاڑ دیا تھا وہ دربار عنقریب ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائے گا۔ اس کی شہنشاہیت اور سلطنت پارہ پارہ ہوجائے گی اور مکتوبِ نبوی امتدادِ زمانہ اور لیل ونہار کی لاکھوں گردشوں کے باوجود پندرہ سو سال بعد بھی اپنے وجود کو باقی رکھ کر تاریخی صفحات میں ایک حیرت انگیز باب کے اضافے کا موجب ہوگا۔
اس خط کی دریافت کی مکمل تفصیل’’ڈاکٹر محمد حمید اللہ‘‘ نے اپنے مقالہ’’آنحضرت ﷺ کا نامہ مبارک کسریٰ کے نام‘‘ میں شائع کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے’’مئی 1963 کی دس تاریخ کو بیروت کے اخبارات نے یہ خبر شائع کرکے دنیا کوورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ لبنان کے سابق وزیر خارجہ ہنری فرعون کے آبائی ذخیرے میں مکتوب نبوی بنام کسری دریافت ہوا ہے۔‘‘ ہنری فرعون نے جو مذہبا عیسائی ہیں تحقیق کیلئے یہ مکتوبِ نبوی ﷺ ڈاکٹر صلاح الدین المنجد کو دیا انہوں نے بیروت کے اخبار’’الحیٰوۃ‘‘ مؤرخہ 22 مئی 1923ء میں مکتوب نبوی ﷺ بنام کسری پرویز ایک مفصل تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے اور اس نامۂ مبارک کا فوٹو بھی چھاپا۔ ڈاکٹر صلاح الدین المنجد لکھتے ہیں : ’’ہنری فرعون کے والدنے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر یہ دستاویز دمشق میں ڈیڑھ سو اشرفی میں خریدی، یا تو اسے خود معلوم نہ تھا یا یہ کہ اس نے اپنے اہل خاندان کو نہ بتایا کہ یہ کیا چیز ہے ؟ بہر حال 1962ء کے آخر تک اسے معلوم نہ تھا کہ یہ مکتوبِ نبوی ہے۔ ‘‘  (غضنفر، تبسم محمود ، سلطنت مدینہ کے سفیر صحابہ ، نعمانی کتب خانہ لاہور صفحہ :133)
ڈاکٹر المنجد روزنامہ’’الحیوۃ‘‘ کے صفحہ اول پر لکھتے ہیں |:
’’ گزشتہ نومبر 1962ء کے اواخر میں ہنری فرعون نے میرے پاس کھال کا ایک ٹکڑا بھیجا اس پر کوفی رسم الخط سے ملتی جلتی تحریر تھی ۔کھال کی حفاظت کے لیے اس کے نیچے کپڑا چسپاں کر دیا گیا تھا اور اس کو ایک فریم میں لگایا تھا لیکن مرورِ زمانہ کی وجہ سے کپڑا بالکل گل چکا تھا۔صرف فریم کے سہارے وہ کھال باقی رہ گئی تھی۔ جب میں نے اس خط کے الفاظ دقتِ نظر سے حل کرنے اور پڑھنے شروع کیے تو یہ عظیم انکشاف ہوا کہ یہ وہی خط ہے جور سول اللہ ﷺ نے بادشاہ فارس کسریٰ کے نام تحریر فرمایا تھا جس میں اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی اور میری زندگی کے وہ لمحات بڑے مبارک تھے جب کہ میں نے نامۂ مبارک پڑھا گزشتہ چند مہینے اس مکتوب کے حروف والفاظ کے حل وتحقیق پر میں نے صرف کیے۔ میںنے اس سلسلے میں تاریخ وصبر کے تمام ماخذ کا مطالعہ کیا اور اب اپنی اس کوشش کا نتیجہ شائع کرتے ہوئے مجھے مسرت محسوس ہوتی ہے۔(المنجد،ڈاکٹر صلاح الدین ،اخبار الحیوۃ بیروت، مورخہ 22 مئی 1963 تحقیقی مقالہ)
ڈاکٹر صلاح الدین المنجد نے اس مکتوب پر یہ تحقیق کی کہ یہ ایک رق(جھلی) ہے اور گہرے خاکی رنگی کی ہے۔ اس کے کنارے کالے پڑگئے ہیں ۔ یہ 28 سینٹی میٹر لمبی اور ساڑھے اکیس سینٹی میٹر چوڑی ہے۔ یہ جھلی مستطیل سی ہے مگر چوڑائی یکساں نہیں اوپر زیادہ چوڑائی ہے اور نیچے سے کم۔ اس پر عبارت 15 سطروں پر مشتمل ہے مگر کوئی سطر ڈھائی سینٹی میٹر تو کوئی ساڑھے اکیس سینٹی میٹر۔ عبارت کے نیچے ایک گول مہر ہے جس کا قطر(3) سم ہے۔ جھلی کے نچلے حصے پر پانی بہا ہے جس کی وجہ سے بعض جگہ( حروف یا ) الفاظ مٹ گئے ہیں اور بعض جگہ مدہم ہوگئے ہیں۔ مہر کی عبارت مٹی گئی ہے بجز حرف’’ر‘‘ کے جو مہر کے وسط میں ہے جو غالباً رسول کی بقایا ہے۔
اس جھلی کو کسی نے پھاڑنے کی کوشش کی ہے چنانچہ وہ تیسری سطر دائیں طرف سے وسط تک چیری گئی ہے پھر طولاً دسویں تک پھٹی ہے اس پھٹن کی شکل 7 ہے اس پھٹن کے بعد میں کسی نے مہین جھلی سے ٹانکے لگا کراسے سی دیا ہے۔ (حمید اللہ ،ڈاکٹر ، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی، مکتبہ اسلامیہ لاہور، صفحہ:234)
نبی اعظم ﷺ نے دیگر حکمرانوں کو بھی دعوتی خطوط لکھے تھے مثلاً حاکم بحرین منذر بن ساوی، قیصر روم ہرقل رئیس شام امیر یمامہ روم ہرقل ،مصر کے شاہ مقوقس اور حبش کے شاہ نجاشی کو خطوط لکھے مگر ان سب نے نہایت حکمت وفراست اور دانشمندی سے ان کے جوابات دیئے لیکن شاہ ایران خسروپرویز وہ واحد بدنصیب حکمران ہے جس نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کا نہ صرف انکار کیا بلکہ نامہ مبارک کو پھاڑ کر اپنے لیے دنیا وآخرت کی رسوائی مول لی۔
نوٹ : ہمارے ہاں نادانی اور جہالت کی وجہ سے پرویز نام رکھنے کا رواج عام ہے یادرہے کہ اولیاء اللہ اور بزرگان دین مسلمانوں کو پرویز نام رکھنے سے منع کرتے ہیں اور یہ ممنوعیت کئی وجہ سے ہے جس میں سب سے بڑی وجہ مشابہت کا پایا جانا ہے یہ نام چونکہ رسول اللہ ﷺ کے گستاخ،بے ادب اور دشمن کے ساتھ منسوب ہے لہٰذا اس نام سے پرہیز کرنا چاہیے اس طرح زندگی گزارنے کے اطوار،رہن سہن کے طریقوں میں بھی غیر مسلموں کی مشابہت سے پرہیز کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہم روشن خیالی کے زعم میں رسول اللہ ﷺ کی وعید کے مصداق بن جائیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :

من تشبه بقوم فهو منه

’’جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی قوم میں شمارہے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے