پہلی بات

دین اسلام کی روشن تعلیمات سے بہرہ مندی فضل الٰہی کی مرہون منت ہے ہدایت ربانی کے چشموںسے فیض یاب ہونے کے لیے توفیق ایزدی لازمی امر ہے اسی کی وضاحت درج ذیل فرمان نبوی علیہ السلام سے ہوتی ہے ارشاد رسول مکرم ﷺ ہے :

مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ

’’ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ رکھتے ہیں اس کو دین کی سمجھ بوجھ عطا کرتےہیں۔‘‘(صحیح البخاری:71)
دین اسلام کی ہدایت کو قبول کرنے میں انسانوں کے مختلف درجات ہیں کچھ سعید لوگ ہدایت کے سرچشمے سے فوری طور پر سیرابی کی کوشش کرنے لگتے ہیں کچھ لوگ ہدایت کو قبول کرتے وقت سوچ وبچار اور معاشر ےکے رخ کو دیکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ دعوت دین کو صرف اسی وقت قبول کرتے ہیں جب اس دعوت کے مدعی سے معجزات کا ظہور دیکھتے ہیں ۔ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الهُدَى وَالعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَيْثِ الكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ، قَبِلَتِ المَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ وَالعُشْبَ الكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ، أَمْسَكَتِ المَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَ تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ، وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ إِسْحَاقُ: وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ المَاءَ، قَاعٌ يَعْلُوهُ المَاءُ، وَالصَّفْصَفُ المُسْتَوِي مِنَ الأَرْضِ (صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ بَابُ فَضْلِ مَنْ عَلِمَ وَعَلَّمَ)

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت زیادہ سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے حصے ایسے بھی ہیں جہاں پر پانی پڑتا ہے وہ بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا ( یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا‘‘۔

معجزہ کسے کہتے ہیں :

” معجزہ“ کا مطلب عاجز کر دینا ، عقل کو حیران کر دینا، اسباب کے بغیر کسی کام کا ہوجانا، وغیرہ معجزہ کہلاتے ہیں۔
شرح العقیدۃ الطحاویہ میں امام علی بن علی بن محمد بن أبی العز الدمشقی معجزہ کی لغوی تعریف میں رقمطراز ہیں :

المعجزة في اللغة تعم كل خارق للعادة

’’لغت میں ہر خرق عادت کو معجزہ کہتے ہیں۔‘‘
اسی طرح شرح عقائد نسفی میں ہے کہ :
المعجزہ ھی امر یظاھر بخلاف العادۃ علی ید مدعی النبوۃ عند تحدی المنکرین علٰی وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ
مفہوم : معجزہ وہ امر ہے جو خلاف معمول اور عادت جاریہ کے خلاف مدعی نبوت کے ہاتھ پر بطور چیلنج ایسے وقت میں ظاہر ہو کہ جب وہ منکرین کو اس کی مثل لانے کا چیلنج دے اور وہ نہ لاسکیں یعنی اس سے عاجز آجائیں ۔
شارح بخاری امام قسطلانی رحمہ اللہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف “المواھب اللدنیہ ” کے باب معجزات میں پہلی فصل کے تحت

معجزہ کی تعریف اور شرائط کے تحت رقمطراز ہیں :

معجزہ کی تعریف : معجزہ ایک ایسا خلاف عادت کام ہوتا کہ جس کے ساتھ چیلنج متصل ہوتا ہے اور یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی صداقت پر دلالت کرتا ہے ۔
معجزہ کی وجہ تسمیہ : اسے معجزہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ انسان اسکی مثل لانے سے قاصر ہوتا ہے ۔

معجزہ کی شرائط

امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس کے لیے پانچ شرائط ذکر کی ہیں اور فرمایا ہے کہ اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو وہ فعل معجزہ نہیں کہلاتا وہ پانچ شرائط حسب ذیل ہیں :
1۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فعل اس جنس کا ہو جس پر حق تعالیٰ کے سوا اور کسی کو قدرت حاصل نہ ہو مثلاً ایک شخص نبوت کا دعوی کرتا ہے اور اپنا معجزہ یہ پیش کرتا ہے کہ وہ حرکت بھی کرتا ہے اور ٹھہرتا بھی ہے ، اٹھتا اور بیٹھتا بھی ہے لیکن اس کا یہ فعل معجزہ نہیں کہلائے گا کیونکہ اس پر مخلوق کو بھی قدرت حاصل ہے ہاں سمند ر کا رک جانا، چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا اور اس قسم کے دوسرے واقعات معجزہ کہلائیں گے کیونکہ ان پر کسی انسان کی قدرت حاصل نہیں ۔
2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ فعل خارق عادت ہو کیونکہ اگر کوئی شخص کہے کہ میرا معجزہ یہ ہے کہ میں رات کے بعد دن کو لانے والا ہوں اور مشرق سے سورج کو نکالنے والا ہوں تو اسکا یہ فعل معجزہ نہیں کہلائے گا کیونکہ ان باتوں کو اگرچہ حق تعالیٰ کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں کر سکتا لیکن ایک تو اللہ تعالیٰ نے یہ اس کی نبوت کے دعوی کے ثبوت کے لیے نہیں کیا ۔ دوسرے یہ خارق عادت نہیں ہے بلکہ عادت کے عین مطابق ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ عصا کو اژدھا بنا دیتے یا اگر کسی پتھر کو پھاڑ کر اس کے درمیان میں سے کوئی اونٹنی نکال دیتے یا جس طرح کسی چشمہ سے پانی نکلتا ہے اس طرح انگلیوں سے پانی نکال دیتے یا اس طرح کا کوئی اور خرق عادت واقعہ ظہور میں لے آتے تو یہ معجزہ ہوتا۔
3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ مدعی نبوت اس کے ساتھ یہ دعوی بھی کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے کہنے پر یہ معجزہ دکھلائے گا، مثال کے طور پر وہ یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دعوی نبوت کی تصدیق کے لیے اس پانی کو تیل بنا دے گا یا زمین کو اس کے لیے حرکت میں لے آئے گا ۔
4۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ معجزہ مدعی نبوت کے دعوی کی تصدیق بھی کرے کہ میرے دعوئ نبوت کی دلیل کے طور پر میرا ہاتھ یا یہ جانور بولنے لگے گا لیکن وہ بول کر یہ کہے کہ یہ شخص اپنے دعوی نبوت میں جھوٹا ہے تو اگرچہ خرق عادت کے طور پر ہاتھ یا جانور بولا ہے لیکن جو بولا ہے وہ اس کے دعوی کے خلاف ہے جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے کنویں میں اس غرض سے تھوکا کہ اس کا پانی زیادہ ہوجائے لیکن زیادہ ہونے کے بجائے اگلا پانی بھی سوکھ گیا تو یہ فعل بھی معجزہ نہیں ہے۔
5۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ مدعی نبوت کے مقابلہ میں کوئی دوسرا شخص اس کی مثل نہ لاسکے لیکن اگر دوسرا شخص بھی مدعی نبوت کے مقابل میں وہی کام کر دکھائے تو اس مدعی نبوت کے معجزہ کا دعوی باطل ہوجائے گا اسی لیے قرآن حکیم میں معجزہ قرآن کے مقابلہ میں ساری دنیا کے انسانوں کو کہا گیا ۔

فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ

’’تو یہ لوگ اس طرح کا کوئی کلام ( بنا کر) لے آئیں اگر یہ دعوی میں سچے ہیں۔‘‘ (الطور:34)
ایک اور جگہ فرمایا :

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ

’’کیا یوں کہتے ہیں کہ ( نعوذباللہ) آپ ﷺ نے اس کو اپنی طرف سے خود بنالیاہے آپ ﷺ فرمادیجیے کہ تم بھی اس جیسی دس سورتیں بناکر لے آؤ۔‘‘(ھود:13)
یعنی اگر تمہارا دعوی ہے کہ یہ قرآن محمد ﷺ کی ذہنی تخلیق ہے تو تم بھی اپنے ذہنی غور وفکر کے نتیجہ میں پورا قرآن نہیں بلکہ صرف دس سورتیں بنا کر لے آؤ اور اگر تم ایسا کرنے سے اپنے آپ کو عاجز اور درماندہ سمجھتے ہو تو جان لو کہ یہ محمد ﷺ کی ذہنی تخلیق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کتاب ہے۔ (پیغامر اسلام اور معجزات)
یادرہے کہ قرآن پاک میں معجزہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ قرآن پاک میں انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کے لیے آیت، البینہ اور البرہان جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
کیا انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہونا ضروری ہے ؟
در اصل انبیاء کو مبعوث کر نے کی ضرورت بھی اس لئے پیش آئی کہ جن چیزوں کو عقل نہیں سمجھتی انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کو انسانوں کو سمجھائیں اﷲ کے احکام کا فطرت کے مطابق ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان اس مطابقت کو خود سمجھ جائیں گے ۔اگر کو ئی شخص آپ کے پاس آکر یہ کہے کہ (میں آپ کے پاس فلاں شخص کا یہ پیغام لیکر حاضر ہوا ہوں کہ آپ فلاں چیز مجھ کو دیدیجئے )
توآپ اس سے یہی سوا ل کریں گے کہ :آپ کے پاس فلاں شخص کے پاس سے آنے کا کیا ثبوت ہے ؟
اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا کو ئی خط یا کو ئی نشانی ہونی چاہئے یا وہ کوئی ایسی چیز جانتا ہو جسکا اس شخص کے علاوہ او ر کسی کو علم نہ ہو یا اس پیغام رساں کے ہاتھ میں کوئی ایسی چیز ہو جو فلاں شخص سے مخصوص ہو اگر اس طرح کا کو ئی ثبوت پیغمبر کے پاس مل جا ئے تو ظاہر ہے کہ اس کا فلاں شخص سے رابطہ ثابت ہو جا ئیگا ۔ تو نشانی طلب کرنے کا مقصد پیغام کی صداقت کا پتہ چلا نا ہے لیکن اگر پیغمبر کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو پیغام رساں کے پیغام کو قبول کر نا لازم نہیں ہے اللہ تعالیٰ جب پیغمبر کو لو گوں کے در میان مبعوث کر تا ہے تو وہ لو گوں سے جان، مال ،افکار ،عقائد اور ایک لفظ میں پوری ہستی کا طالب ہو تا ہے ۔ اب اگر کوئی شخص آ کر یہ کہے کہ یہ سب کچھ مجھے دیدو اپنی جان فلاں جگہ قر بان کر دو اپنا مال فلا ں جگہ خرچ کر دو تو جب تک ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ شخص اللہ کا نبی ہے ہم اس کو یہ چیزیں دینے کا حق نہیں رکھتے ۔ اسی لئے نبی کے پاس کو ئی الہٰی نشانی ہو نا چاہئے اور یہ ایک فطری امر بھی ہے اور اسی لئے قر آ ن کریم میں بہت سی قو موں سے نقل ہوا ہے کہ جب ان کے در میان انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جا تے تھے تو وہ ان سے نبوّت کی نشانی کا مطالبہ کیا کرتے تھے :

فَأْتِ بِآیَةٍاِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ

’’اگر آ پ سچّے ہیں اور اللہ ا کے نبی ہیں تو آ پ کے پاس کو ئی نشا نی ہو نا چا ہئے ‘‘۔
اس بنا ء پر کچھ اہل علم کے ہاں انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہو نا ضرو ری ہے ‘جب تک ان کے پاس نبوّت کی نشانی نہ ہواسوقت تک لوگوںپرحجت تمام نہیں ہوسکتی۔

نبوی معجزات

محسن انسانیت ﷺنے بھی اپنی حقانیت کے ثبوت میں متعدد معجزے پیش کیے۔رسول اللہ ﷺ کے بہت سے معجزات ہیں، جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے، امام ابن قیم رحمہ اللہ نے”إغاثة اللهفان”(2/691) میں صراحت کیساتھ بیان کی ہے، ان معجزات میں سے کچھ رونما ہو کر ختم ہو چکے ہیں اور کچھ جب تک اللہ چاہے گا باقی رہیں گے، آپ ﷺکا سب سےبڑا معجزہ قرآن مجید ہے ،یہ ایک زندہ کتاب ہی نہیں بلکہ زند ہ معجزہ ہے جو تاقیامت زندہ رہے گا۔کسی کتاب کی زبان کازندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔دنیامیں کسی زبان کی عمر ساٹھ ستر سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی، اس مدت کے بعد وہ زبان تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعدمتروک ہی ہوجاتی ہے جب کہ قرآن مجید کی زبان گزشتہ کئی صدیوں سے اسی طرح محفوظ و مامون چلی آرہی ہے۔قرآن کی پیشین گوئیاں آج تک سچ ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں اوراس کتاب کے سربستہ راز کھلتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ صدیوں کے بعد پیداہونے والے انسانی قبیلے کے اعلی ترین دماغ اس کتاب پر قلم اٹھاتے ہیں لیکن ہر آیت ان کواپنی نئی نئی اطلاعات سے آگاہ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کتاب کامعجزہ ہے کہ اسے من و عن حفظ کرلیا جاتا ہے کوئی کتنی اچھی غزل،ہو،گانا ہو،ناول ہو یا فلم وغیرہ ہو اس سے کتنی دفعہ کوئی التفات کرتا ہے پھر تھک جاتاہے لیکن صدیوں سے انسانیت اس کتاب کو پڑھتی چلی آرہی ہے ،سنتی چلی آرہی ہے اور سناتی چلی آرہی لیکن کبھی کسی نے اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔
قرآن کریم اس اعتبار سے بھی معجزہ ہے کہ اس میں دیئے جانے والے احکامات محکم ہیں پوری بشریت مل کر بھی ایسے قوانین نہیں بنا سکتی۔
قرآن کریم اس اعتبار سے بھی معجزہ ہے کہ اس میں علوم و اخبار کے ساتھ ساتھ اس کائنات کے راز بھی ذکر کیے گئے ہیں، اور جدید علوم ان رازوں کو دن بدن فاش اور سب کیلئے عیاں کر رہی ہےجبکہ نبی مکرم ﷺ ایسے معجزات جو رونما ہونے کے بعد ختم ہو چکے ہیں تو وہ بہت زیادہ ہیں، ان میں سے مشہور ترین یہ ہیں:
اسرا ءاور معراج کا معجزہ، قرآن کریم نے اسرا ءکا ذکر صراحت کیساتھ کیا ہے ۔
نبی ﷺکے سامنے پڑے ہوئے تھوڑے سے کھانے میں اتنا اضافہ ہو جانا کہ پورا لشکر ہی اس سے سیر ہو جائے، اور پھر بھی کھانا بچ جائے، یہ واقعہ صحیح بخاری و مسلم سمیت دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔
آپ ﷺکی انگلیوں سے پانی بہنا، اور تھوڑا سا پانی اتنا زیادہ ہو جائے کہ پورا لشکر اس سے پی کر سیر ہو جائے ، اس بارے میں بھی احادیث مبارکہ بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔
نبی ﷺکی جانب سے مستقبل کی پیشین گوئی اور پھر وہ چیزیں اسی طرح رونما ہوئی ، آج بھی ہم کچھ باتیں اسی طرح ہوتی دیکھ رہے ہیں جیسے کہ نبی ﷺ نے بتلائیں ۔
جب نبی کریمﷺ نے منبر بنوایا اور کھجور کے تنے کو چھوڑ دیا تو وہ آپ کے فراق میں رونے لگا، اس بارے میں حدیث صحیح بخاری میں ہے۔
جب آپ ﷺمکہ مکرمہ میں تھے تو پتھر آپ کو سلام کیا کرتا تھا، اس بارے میں حدیث صحیح مسلم میں ہے۔
معجزہ شق القمر: یہ معجزہ ہجرت سے پانچ سال قبل منیٰ کے میدان میں ظہور پذیر ہوا۔ سورۃ القمر میں اس معجزے کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے۔ ’’قیامت قریب آگئی ہے اور چاند شق ہوگیا ہے اور اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں یہ تو بڑا زبردست جادو ہے‘‘۔zمختلف اشیاء میں برکت کے اثرات، پیش گوئیاں ، فارس وروم،مصر کی فتح کی پیش گوئی وغیرہ کا عین حقیقت ہونا۔
عطائے کوثر: یہ اعزاز بھی صرف آقائے دو جہاں سرور کونین کو حاصل ہے۔ سورہ الکوثر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ’’ہم نے آپ کو کوثر عطا کی‘‘۔
خاتم النبیین: یعنی آپ پر کمالاتِ نبوت ختم ہیں۔ نبوت کا وہ سلسلہ جو سیدناآدم علیہ السلام سے شروع ہوا آپ پر ختم ہوا۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ سورۃ الاحزاب میں ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ: ’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی) اس کو ختم کردینے والے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے‘‘۔
مکمل سوانح حیات: سابقہ انبیاء کے حالاتِ زندگی ہم تک جامع ذرائع سے نہیں پہنچے لیکن نبی کریم سیدنا محمدﷺ وہ مقدس اور برگزیدہ ہستی ہیں، جن کی زندگی کا ہر لمحہ اور فعل احادیث نبوی اور سنت نبوی کی صورت میں احاطۂ تحریر میں لایا گیا ہے جو اب تک محفوظ ہےاور اس سیرت مبارکہ کا تحفظ یقیناً اک نبوی معجزہ ہی ہے۔
الغرض رسول رحمت کے معجزے بہت زیادہ ہیں، اور جو ہم نے ذکر کیے ہیں یہ ان میں سے چند ایک ہیں، علمائے کرام نے نبی ﷺ کے معجزات کے بارے میں متعدد کتب لکھی ہیں مثال کے طور پر امام بیہقی کی کتاب “دلائل النبوۃ” اسی طرح امام ماوردی کی کتاب : “اعلام النبوۃ”نیز عقیدے کی کتابوں میں رسولوں پر ایمان لانے کے ابواب اس کے متعلق بھرے ہوئے ہیں۔

سابقہ انبیاء کرام کے معجزات

اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل علیہم السلام کو جو جو معجزات عطا فرمائے، وہ ان انبیاء و رسل علیہم السلام کے مخاطبین کے موافقِ حال دیے۔ تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ صاحبِ معجزہ کو بلاشبہ نصرتِ حقانی اور تائیدِ ربانی حاصل ہے۔اوروہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کردہ سچا نبی اور رسول ہے، کہ جس کی اطاعت و اتباع اگر دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کی دلیل ہے، تو اس کی نافرمانی و تکذیب دین و دنیا کےخسارہ کی بھی باعث ہے۔
چند ایک اہم قرآنی معجزات درج ذیل ہیں:
1۔سیدناسلیمان uکے معجزات کا تذکرہ سورۃ النمل میں آیا ہے۔ سیدنا سلیمان کو اﷲ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی سمجھنے کی تعلیم دی، وہ باقاعدہ پرندوں کی حاضری لیتے تھے، سامان سلطنت کے متعلق ہر قسم کی اشیاء فراہم کی گئیں۔ بہت بڑا لشکر جس میں نہ صرف انسان بلکہ جن اور پرندے بھی شامل تھے، اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ ہوا کو بھی ان کے لیے مسخر کردیا جو سیدنا سلیمان uکے حکم سے چلتی تھی۔ سیدنا سلیمان uکے ایک درباری نے پلک جھپکنے سے پہلے ہزاروں میل دور سے ملکہ بلقیس کا تخت لاکر حاضر کردیا تھا۔
2۔سیدنا ایوب  کو قرآن میں ’’نعم العبد‘‘ یعنی بہت اچھا بندہ قرار دیا، سورۃ الانبیا اور سورۂ ص میں ان کا تذکرہ مبارکہ ہے کہ جب سیدنا ایوب uنے اپنے رب کو پکارا کہ ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے تو اﷲ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور اﷲ نے حکم دیا کہ ’’اپنا پاؤں زمین پر مارو یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے نہانے کو اور پینے کو‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ نے زمین پر پاؤں مارتے ہی ایک چشمہ جاری کردیا جس میں یہ خاصیت تھی کہ غسل کرنے اور پینے سے بیماری دور ہوگئی۔
2۔سیدنا صالح uکی نافرمان قوم ثمود نے معجزہ طلب کیا تو سیدنا صالح uنے اﷲ کے حکم سے پہاڑ پر اپنی چھڑی مبارک ماری تو اونٹنی برآمد ہوگئی یہ اونٹنی کوئی عام اونٹنی نہیں تھی۔ سورۂ ہود میں اﷲ کا فرمان ہے ’’ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے‘‘۔
3۔سیدنا ابراہیم uبے خطر آتش نمرود میں کود پڑے اور آگ گلزار بن گئی۔ سورۃ البقرہ میں سیدنا ابراہیمu کے ایک معجزے کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے۔ ’’جب ابراہیم  نے کہا تھا کہ میرے مالک! مجھے دکھادے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اﷲ نے فرمایا کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ اس نے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے، ارشاد ہوا کہ اچھا تو تم چار پرندے لے کر اسے اپنے سے مانوس کرلو۔ پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر ان کو پکارو، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ خوب جان لو کہ اﷲ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے‘‘۔
4۔سیدنا یعقوب uنے اپنے بیٹے سیدنایوسف کی قمیض کو اپنی آنکھوں سے لگایا تو ان کی بینائی لوٹ آئی۔ سورۂ یوسف میں ہے’’جاؤ میری یہ قمیض لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، ان کی بینائی پلٹ آئے گی‘‘۔
5۔سیدنا یونس uکے معجزہ کا تذکرہ سورۃ الصٰفٰت میں اس طرح آیا ہے۔ ’’یونس کو مچھلی نے ثابت نگل لیا۔ سو اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں رہتے۔
6۔سیدنا موسیٰ uکے معجزات: یدبیضا سیدناموسیٰ u جب اپنا ہاتھ باہر نکالتے تو نور کی شعاؤں سے چمکنا شروع ہوجاتا۔ سورۃ الاعراف
7۔عصائے موسیٰ: سیدنا موسیٰ uجب بنی اسرائیل کو وادیٔ سینا لے کر پہنچے جہاں دور تک پانی اور سبزہ کا نام و نشان نہ تھا، بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ  سے پانی طلب کیا تو عصائے موسیٰ کی ایک ضرب سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔
8۔من و سلویٰ: سورۃ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے: ’’ اور ہم نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا، ان طیب چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تم کو دیں‘‘۔
9۔بادلوں کا سایہ: قرآن مجید کا تذکرہ ہے۔ ’’اور ہم نے بادلوں کا سایہ کیا‘‘۔
10۔سیدنا عیسیٰ uکی پیدائش اﷲ کے حکم سے بغیر باپ کے معجزانہ طور پر ہوئی۔ ایسی عمر میں کلام کیا جس عمر میں بچے کلام کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور اپنی ماں سیدہ مریم علیہا السلام کی پاک دامنی ثابت کردی۔ سیدنا عیسیٰ u کے دور میں طب یونانی اور جادوگری عروج پر تھی اس لیے طب کے حوالے سے بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ پیدائشی گونگے بولنے لگتے، کوڑھی تن درست ہوجاتے۔ اﷲ کے حکم سے مردوں کو بھی زندہ کردیتے۔ مٹی کے پرندے بناکر اﷲ کا نام لے کر پھونک مارتے تو وہ سچ مچ اڑنے لگتے۔ الغرض قرآن پاک میں سابقہ انبیاء کرام کے معجزات کا خصوصی تذکرہ کیا ہے جس سے قرآن کا مقصد وحید معرفت الٰہی کا داعیہ پیدا کرنا ہے۔

منکرین معجزات کے خود ساختہ اعتراضات:

ملحدانہ افکار ونظریات کے حامل افراد دین اسلام پر اعتراضات کے ساتھ ساتھ معجزات کے ساتھ بھی معاندانہ اور مخالفانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ منکرین معجزات درحقیقت یونانی فلاسفہ سے از حد متاثر ہوتے ہیں جس کی بناء پر وہ مسلّمات دین کو بھی یونانی فلسفہ کے اصول وضوابط پر پرکھتے ہیں ۔ انکارِ معجزات کا بنیادی سبب ہر چیز کواپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کا نظریہ بھی ہے حالانکہ نفس امارہ دل اور عقل دونوں پر حملہ کرتا ہے نفس امارہ عقل کو یرغمال بنا کر اسے ہر وقت مادی مفادات ، مادی فکر وفلسفوں میں غلطاں رکھتاہے اس طرح انسانی نفس فرد کا وحی اور مذہب سے علمی واعتقادی رشتہ توڑ دیتاہے یا پھر وہ اسے مذہبی تعلیمات سے بیگانہ کر دیتاہے یا نفس انسانی انسان کی عقل میں دین سے متعلق شکوک وشبہات کو جنم دینے کا باعث بنتاہے ۔
انبیاء علیہم السلام کے معجزات دیکھ اورسن کر بعض ناسمجھ اور جاہل لوگ اسے نظام فطرت کے منافی سمجھتے ہوئے ان کے انکار پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ یہ ان کی سخت غلطی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عادت کے فرق سے یک قلم ناآشنا ہیں وہ قدرت کو عادت کے پیمانے سے ناپنا شروع کر دیتے ہیں چنانچہ صاحب الیواقیت والجواہر الشیخ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ نے ایک مقام پر بڑی عجیب بات فرمائی جس سے ہماری عقلوں کی نارسائی کا پتہ چلتاہے ۔ فرماتے ہیں :
’’یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ انسان ماورائے عقل وفکر کو اپنی عقل وفکر کی میزان میں تولنا چاہتا ہے حالانکہ اس کو اپنی عقل کا قصور اور اس کی نارسائی کا پورا پورا احساس ہے پھر اپنی قوت حافظہ اور وقت متخیلہ کا قصور بھی اسے معلوم ہے اس پر قوت واہمہ کے تصادم کا بھی اسے پتہ ہے اس کے باوجود جب اس کے سامنے ربانی معاملات کا ذکر آتا ہے تو وہ اپنی ہی عقل وفکر کی تقلید کرنے لگتا ہے کیا اس کا یہ فریضہ نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنی ذات کے بارے میں فرمایا ہے اسے وہ بے چوں وچرامان لیتا اور اپنی اس فکر کی تقلید نہ کرتا جو اسی کے خیال کا مقلد ہے اور جس کا خیال اسی کے حواس کا مقلد۔‘‘ ( بحوالہ : پیغمبر اسلام اور معجزات ص:22)
انکارِ معجزات کی دو اہم صورتیں ہیں :
1۔ معجزات کے وجود کاسرے سے انکار
2۔ نصوصِ معجزات کی من مانی تاویلات
علماء کرام نے منکرین معجزات کے اعتراضات کاتفصیلی جوابات دیئے ہیں ذیل میں چند ایک اہم اعتراضات کا جواب پیش کیا جارہا ہے۔
1۔نبی کریمﷺ کے معجزات کی بابت معاندین (مستشرقین نے یہ پراپیگنڈہ کیا) کہ یہ مسلمانوں کی اپنی ہی روایات سے ملتے ہیں دیگر ’ذرائع‘ سے ان کی تصدیق ہونا ممکن نہیں۔
جواب: اِس کے کئی ایک جوابات ہیں مگر بائبل پر ایمان رکھنے والے یہ لوگ ہمیں یہی بتا دیں کہ وہ کونسا نبی ہے جس کے حسی معجزات کا ذکر نسلیں گزر جانے کے بعد اُس کے اپنے ہی پیروکاروں کے سوا کہیں اور پایا گیا ہو؟سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مصر میں اللہ کے حکم سے معجزات دکھائے اور مسیح علیہ السلام کے آنے تک کوئی ڈیڑھ ہزار سال اِن معجزات کا ذکر چلتا رہا تو وہ بنی اسرائیل کی اپنی ہی روایات تھیں جوکہ ایک قابل وثوق طریقے سے ذکر ہوتی تھیں جسے جھٹلانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
مصر میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جو معجزے برسرعام دکھائے تھے ان کا ذکر کیا بنی اسرائیل کے علاوہ بھی کسی کے پاس رہا؟ ان معجزات کا ثبوت آلِ فرعون کے ’آرکائیوز‘ سے لا کر تو کبھی نہیں دیا گیا!!!
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے جو بطور نبی چھ سو سال تک یعنی پیغمبر آخر الزمانﷺ کی بعثت تک ذکر ہوتے رہے پیروانِ مسیح کے سوا اُن معجزات کا ذکر کس کے پاس پایا گیا؟ یہود یا پھر دیگر اقوام کے ’ریکارڈ‘ سے تو ان کے ثبوت لا کر کبھی پیش نہیں کئے گئے!!!
سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسی علیہما السلام کا معاملہ تو ابھی پھر کچھ مختلف رہا ہو گا، اِس نبی ﷺ کی تو کامیابیاں ہی اتنی تھی کہ یہ سوال اٹھنے کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ پورے کا پورا جزیرۂ عرب ہی تو اِس نبی پر ایمان لے آیا۔
پورے کے پورے جزیرۂ عرب ہی نے تو گواہی دے ڈالی کہ ”محمد اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہے“!!! اِس جزیرۂ عرب سے اِن معجزات کی گواہی نہ لیں تو کہاں سے لیں؟!! جہاں معجزے پیش آئے گواہیاں وہیں سے تو لی جائیں گی!!!
اگر حسی معجزات physical miraclesکے ثبوت evidence کے لیے ایک پوری قوم کی گواہی کافی نہیں تو تاریخ کا کونسا واقعہ دنیا میں معتبر رہ جاتا ہے؟
2۔نبی کریم ﷺ کے شق القمر کے معجزے پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں ہونا چاہیے تھا اور تاریخ کی کتابوں میں بھی اسکا تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔
جواب: (الف) اگر اس معجزے کے وقت کا اندازہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ چاند کا پوری دنیا میں ایک ہی وقت دیکھا جانا نا ممکنات میں سے تھا.کیونکہ اس وقت چاند صرف عرب اور اسکے مشرقی ممالک میں نکلا ہوا تھا. پھر اس معجزے کا وقت بھی طویل نہیں تھا اور اس سے کوئی دھماکہ یا تیز روشنی کا اخراج بھی نہیں ہوا اور نا ہی اس کے زمین پر کسی قسم کے اثرات پڑے کہ لوگ خصوصی طور پر گھروں سے نکل آتے اور اس منظر کو دیکھ پاتے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک متوقع معجزہ نہیں تھا کہ تمام دنیا کی نظریں چاند پر ہوتیں. اسی لئے یہ معجزہ صرف انہی لوگوں نے دیکھا جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا تھا. لیکن پھر بھی بہت سے ایسے آثار موجود ہیں جو اس واقعے کی گواہی دیتے ہیں، ہم چند کا تذکرہ کرتے ہیں۔
(ب) آثار قدیمہ کے ماہرین کو اس قسم کے کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جو معجزہ شق القمر کو بخوبی واضح کرتے ہیں، ، ایک غیر ملکی اخبار نے ایک خبر نشر کی تھی جس کا عربی ترجمہ آستانہ سے نکلنے والا عربی اخبار ’الانسان‘ میں شائع ہوا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چین کی ایک قدیم عمارت سے کچھ پتھر نکلے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ اس مکان کی تعمیر فلاں سال میں ہوئی، جس سال کہ ایک بہت بڑا آسمانی حادثہ اس طور پر رونما ہوا تھا کہ چاند دو حصوں میں بٹ گیا، ماہرین نے اس پتھر پر لکھی ہوئی تاریخ کا جب حساب لگایا تو ٹھیک وہی تاریخ تھی جب سول اللہ ﷺ کے انگلیوں کے اشارہ سے ’معجزہ شق القمر‘ رونما ہوا تھا!!
(باکورة الکلام، بحوالہ محمد ﷺ ص ۳۸۳، مطبعۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت، سنۃ 1975)۔
(ج) ہندوستان کی مشہور تاریخ فرشتہ ( مصنف محمد قاسم فرشتہ ۱۰۱۵ ہجری)میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ ِحضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے سراندیپ(لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار ( ہند ) پر اتری ، ان بزرگوں نے وہاں کے راجہ سامری سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا، راجہ نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، چنانچہ منجموں نے بتلایاکہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا،اس تحقیق کے بعد راجہ نے اسلام قبول کر لیا، ہندوستان کے بض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کر کے اُس کی تاریخ” شبِ انشقاقِ قمر” کے نام سے مقرر کی گئی۔
معجزہ شق القمر پرسائنسی اعتراض
معجزہ شق القمر پر سائنسی حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔انکے جواب میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ”شق القمر” کا واقعہ ایک معجزہ تھا ۔ معجزہ ایک عام طبیعی عامل کے زير اثر رونما نہیں ہوتا بلکہ اعجاز نمائی کا نتیجہ ہوتا ہے، اسکے لیے سائنسی ثبوت کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ جب معجزہ اپنے دعوے کے اعتبار سے ہی عام قانون سے ہٹا ہوا ہے تو آپ اس کا ثبوت کیسے پا سکتے ہیں۔ معجزے کا اصل مقصد کسی نبی کی نبوت کی دلیل دینا ہوتا ہے اور ظاہر بات ہے کہ یہ دلیل انہیں کے لئے با معنی ہوسکتی ہے جن لوگوں نے ان معجزات کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے ان معجزات کا ذاتی مشاہدہ نہیں کیا ہے وہ یہ دعوی کس بنیاد پر کر سکتے ہیں کہ یہ ہوا ہی نہیں؟
دوسری بات یہ ہےکہ چونکہ سائنس ایک ارتقائی علم ہے اور سائنس کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس نے تمام حقیقتوں کو جان لیا ہے۔ ہر وقت اس بات کا امکان رہتا ہے کہ سائنس ایک ایسی نئی تحقیق کے ساتھ آجائے جس کو کل غلط ثابت کیا جائے۔ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو معجزہ ہوا وہ تو سائنس کے مطابق ہی ہوا، لیکن اس وقت کا سائنسی علم اتنی ترقی پر نہیں ہے کہ وہ اس معجزے کی سائنسی تشریح کر سکے۔

آخری بات :

معجزات کا قران وحدیث سےثابت ہونابدیہی امر ہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ خالق کائنات نے اپنی وحدانیت اور اپنے انبیاء کی صداقت کے لیے اس طریق کار کو اختیار کیا ہے معجزات دراصل انبیاء کی حقانیت کو ثابت کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے ان معجزات کا انکار رب العالمین کی آیات، دلائل اور براہین کے انکار کے مترادف ہے اس بات میں کچھ شک نہیں کہ یہ کائنات اپنی وسعت اور موجودات کی کثرت کی بناء پر انسانی طاقت اور صلاحیت سے باہر ہے۔ کائنات میں پھیلی ہوئی رب العالمین کی نشانیاں عقل انسانی اور علم انسانی سے ماوراء برتر وبالا ہیں تو پھر پروردگار کے عرفان اور اس کی صفات وآیات کے علم، زندگی کے معمہ کے حل اور فوزوفلاح کے راستہ کی طرف راہنمائی کا آخر کیا طریقہ ہوگا۔ معرفت الٰہی کے لیے بعض دفعہ انسان کے سامنے معجزات کا ظہور ضروری ہوتاہے۔ انبیاء کرام نے باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے اثبات کے لیے مثبت پہلو کو زیر بحث لایا قرآن نے اسی انبیائی طرز عمل کا تذکرہ کیا ہے۔ ارشاد رب العالمین ہے :

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ

’’آپ کا رب (ہر قسم کے عیب سے) پاک ہے ۔‘‘
رب العزت نے اپنی ذات وصفات کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے جو ذرائع مناسب سمجھے وہ اختیار کیے ہیں ان کا انکار کرنا نقل وعقل کے خلاف ہے۔ دونوں جہانوں کا مالک اپنے پیغام کی حقانیت کو آشکارا کرنے کے لیے ہر قسم کا طریقہ اختیار کر سکتاہے ۔؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
مذکورہ بالا گزارشات کی ترتیب میں جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے ان کی فہرست ذیل میں ہے باری تعالیٰ اس علمی راہنمائی پہ مؤلفین وناشرین کو اپنی مرضیات سے نوازے۔ آمین
1۔ معرکہ ایمان ومادیت مترجم مولانا محمد الحسنی ندوی
2۔ پیغمبر اسلام اور معجزات از حکیم محمود احمد ظفر
3۔ اسلام اور سائنس مترجم : مولانا سید محمد اسحاق علی صاحب
4۔ اسلام اور غیر اسلامی تہذیب ترجمہ اقتضاء الصراط المستقیم از شیخ الاسلام ابن تیمیہ مترجم مولوی شمس تبریز خان
5۔ مذہب وتمدن ازسید ابو الحسن علی ندوی
6۔ نفسی قوتیں جدیدیت کے پس منظر میں ازمحمد موسیٰ بھٹو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے