اشکال نمبر1: ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیئے؟
اسلام میں ایک آدمی کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یا اسلام میں مرد کو متعدد شادیوں کی کیوں اجازت ہے؟ ”
کثیر ازواجی یا تعددِ ازواج سے مراد شادی کا ایسا نظام ہے جس میں ایک شخص ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکتا ہے۔ کثیر ازواجی دو قسم کی ہے۔
(1) کثیر ازواجی زنانہ: جس میں ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرسکتا ہے۔
(2) کثیر ازواجی مردانہ: جس میں ایک عورت ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی ہیں ۔
اسلام میں ایک محدود حد تک زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے جبکہ عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
کثیر ازواجی مختلف مذاہب میں :اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ اسلام ایک آدمی کو ایک سےز یادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قرآن دنیا میں وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس میں تحریر ہے : صرف ایک سے شادی کرو۔ “

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے نا انصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ ۔ (النساء : 3/4)
کسی دوسری مذہبی کتاب میں یہ ہدایت نہیں کی گئی کہ صرف ایک بیوی رکھ رکھو ۔ چاہے ہندوؤں کے وید، رامائن، مہا بھارت کا گیتا ہوں، یا یہودیوں کی تالمود یا عیسائیوں کی بائبل ہو، ان کتابوں کےمطابق ایک آدمی جتنی شادیاں چاہے کرسکتا ہے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ہندو پنڈتوں اور عیسائی کلیسا نے بیویوں کی تعداد ایک تک محدود کردی۔
بہت سی ہندو مذہبی شخصیات جن کا ان کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے، ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے، رام کے باپ راجہ دسرتھ کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں، اسی طرح کرشن کی بہت سی بیویاں تھیں۔
شروع میں عیسائی مردوں کو بھی اجازت تھی کہ وہ جتنی چاہیں بیویاں رکھ سکتے ہیں کیونکہ بائبل میں بیویوں کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں ، یہ تو محض چند صدیوں پہلے ہوا کہ چرچ نے بیویوں کی تعداد محدود کرکے ایک کردی۔
یہودیت میں بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے : یہودیوں کے تالمودی قانون کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) کی تین بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام ) کی سینکڑوں ۔ ( حاشیہ: بائبل کی اس تصدیق درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔)

حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ عن هشام بن حجير،‏‏‏‏ عن طاوس،‏‏‏‏ سمع أبا هريرة،‏‏‏‏ قال قال سليمان لأطوفن الليلة على تسعين امرأة،‏‏‏‏ كل تلد غلاما يقاتل في سبيل الله‏.‏ فقال له صاحبه ـ قال سفيان يعني الملك ـ قل إن شاء الله‏.‏ فنسي،‏‏‏‏ فطاف بهن،‏‏‏‏ فلم تأت امرأة منهن بولد،‏‏‏‏ إلا واحدة بشق غلام‏.‏ فقال أبو هريرة يرويه قال ‏”‏ لو قال إن شاء الله،‏‏‏‏ لم يحنث وكان دركا في حاجته ‏”‏‏.‏ وقال مرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لو استثنى ‏”‏‏.‏ وحدثنا أبو الزناد عن الأعرج مثل حديث أبي هريرة‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حجیر نے، ان سے طاؤس نے، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کہا تھا کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک بچہ جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی سفیان یعنی فرشتے نے ان سے کہا۔ جی ان شاءاللہ تو کہو لیکن آپ بھول گئے اور پھر تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک بیوی کے سوا جس کے یہاں ناتمام بچہ ہوا تھا کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ نہیں ہوا۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر انہوں نے ان شاءاللہ کہہ دیا ہوتا تو ان کی قسم بے کار نہ جاتی اور اپنی ضرورت کو پالیتے اور ایک مرتبہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے کہا کہ اگر انہوں نے استثناء کر دیا ہوتااور ہم سے ابوالزنادنے اور انہوں نے اعرج سے سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اسی طرح بیان کی۔ (صحیح البخاری، الأیمان و النذور، باب کیف کانت یمین النبی حدیث 6639)
کثیر ازواجی اس وقت تک جاری رہی جب ربی گرشوم بن یہودا ( 960ء تا 1030ء) نے ایک فرمان کے ذریعے سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگا دی مگر مسلم ممالک میں رہنے والے سیفارڈی یہودیوں نے 1950ء تک اس پر عمل درآمد جاری رکھا حتی کہ۔
اسرائیل کے دفتر پیشوائے اعلیٰ (Chief Rabbinate) نے ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی کا دائرہ بڑھا دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1975ء کی بھارتی مردم شماری میں یہ بات سامنے آئی کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کی نسبت زیادہ شادیاں کی ہیں۔ “کمیٹی برائے اسلام میں عورت کا مقام ” کی رپورٹ جو 1975ء میں شائع ہوئی اس کے صفحات 66-67 میں بتایا گیا کہ 1961ء سے1991ء تک کے دوران میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے ہندوؤں کا تناسب 5.06%جبکہ مسلمانوں کا 4.31%تھا۔ بھارت کے قانون کے مطابق صرف مسلمانوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ وہاں کسی غیر مسلم کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا غیر قانونی ہے ۔ اس کے باوجود کہ یہ غیر قانونی ہے، مسلمانوں کی نسبت ہندو زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ پہلے بھارت میں بیویوں کی زیادہ تعداد کے بارے میں پابندی نہ تھی، 1954ء میں جب بھارت میں شادی کا قانون ( میرج ایکٹ ) پاس کیا گیا تو ہندوؤں کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا غیر قانونی قرار پایا ( یہ بات قانون میں ہے لیکن ہندو مذہب کی کسی کتاب میں نہیں )۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قرآن محدود تعداد میں عورتوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلےعرض کی کہ قرآن کرۂ ارض پر واحد کتاب ہے جو یہ کہتی ہے کہ ” صرف ایک سے شادی کرو۔” قرآن عظیم کی سورۃ النساء میں اس بات کو اس پیرائے میں بیان کیا گیا ہے:

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً

چنانچہ تم ان عورتوں سے شادی کرو جو تمہیں اچھی لگیں دو دو ، تین تین یا چار چار (عورتوں ) سے ، لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم ( ان کے ساتھ ) انصاف نہ کرسکو گے تو صرف ایک سے ( نکاح کرو )۔(سورۃ النساء: 3)
نزول قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئی مرد بیسیوں بیویاں رکھتے تھے، اور بعض کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں، لیکن اسلام نے بیویوں کی تعداد 4 تک محدود رکھی ہے، اسلام مرد کو دو، تین یا چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کرسکے۔
اسی سورت ، یعنی سورۃ النساء کی آیت 129 کہتی ہے۔

وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ

تم عورتوں کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے۔(النساء: 129)
اس لیئے زیادہ شادیاں کرنا کوئی قانون نہیں بلکہ استثناء ہے۔ بہت سے لوگ یہ غلط نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔
حلت و حرمت کے اعتبار سے اسلامی احکام کی پانچ اقسام ہیں:
فرض: یہ لازمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔
مستحب: اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔
مباح: یہ جائز ہے ، یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہ۔
مکروہ: یہ اچھا کام نہیں، اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
حرام: اس سے منع کیا گیا ہے، یعنی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑان باعثِ ثواب ہے۔
ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مذکورہ احکام کے درمیانے درجے میں ہے۔ اس کی اجازت ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک مسلمان جس کی دو، تین یا چار بیویاں ہیں، اس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔

عورتوں کی اوسط عمر :

قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریباً برابر پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بچی میں ایک بچے کی نسبت قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی بیماریوں کا ایک بچے کی نسبت بہتر مقابلہ کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکوں کی شرح اموات لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہے۔
اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ حادثات اور امراض کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہوتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں کی نسبت زیادہ ہے اور دنیا میں رنڈوے مردوں کی نسبت بیوہ عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔

بھارت میں نسوانی جنین اور لڑکیوں کا قتل :

بھارت اور اس کے ہمسایہ ممالک ان چند ممالک میں شامل ہیں جہاں عورتوں کی آبادی مردوں سے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں بچپن میں ہی لڑکیوں کو ہلاک کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں لاکھوں عورتیں حمل کے طبی معاینے میں لڑکی کا علم ہونے پر اسقاط کروا دیتی ہیں۔ اس طرح ہر سال 10 لاکھ سے زیادہ بچیاں قبل از ولادت ہی موت کے گھاٹ اُتار دی جاتی ہیں۔ اگر اس سفاکی کو روک دیا جائےتو بھارت میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہوگی۔
عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے :
امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً 78 لاکھ زیادہ ہے۔ صرف نیویارک میں عورتیں مردوں سے 10 لاکھ زیادہ ہیں۔ نیز مردوں کی ایک تہائی تعداد ہم جنس پرست ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عورتوں سے شادی کی خواہش نہیں ، اسی طرح برطانیہ میں عورتوں کی تعداد مردوں سے 40 لاکھ زیادہ ہے۔ جرمنی میں مردوں کی نسبت عورتیں 50 لاکھ زیادہ ہیں۔ اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں 90 لاکھ زیادہ ہیں۔ فی الجملہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔

ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابل عمل ہے :

اگر ایک مرد ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین کروڑ عورتیں بے شوہر رہیں گی۔ ( یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اڑھائی کروڑ امریکی مرد ہم جنس پرست ہیں) اسی طرح 40 لاکھ برطانیہ میں ، 50 لاکھ جرمنی میں اور 90 لاکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنہیں خاوند نہیں مل سکے گا۔
فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیرشادی شدہ خواتین میں سے ہے۔ یا فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے صرف دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا پھر ” پبلک پراپرٹی” ( اجتماعی ملکیت ) بنے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ جو پاکدامن عورتیں ہیں وہ یقیناً پہلی صورت کو ترجیح دیں گی۔ بہت سی خواتین دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسلامی معاشرے میں جب گھمبیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحبِ ایمان عورت اپنا معمولی ذاتی نقصان برداشت کرسکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کی دوسری مسلمان بہنیں ” پبلک پراپرٹی ” بن کر رہیں۔
شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے سے بہتر ہے۔ مغربی معاشرے میں عام طور پر ایک شادی شدہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے بھی جنسی تعلقات رکھتاہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زندگی بسر کرتی اور عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد کو جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا۔ حالانکہ اس تعددِ ازواج کی صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقار زندگی بسر کرسکتی ہے۔
اس طرح عورت کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو وہ شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا ” اجتماعی ملکیت ” بن جائے، اسلام پہلی صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام دلاتا ہے اور دوسری صورت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اسباب ہیں جن کے پیش نظر اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ ان اسباب میں اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت اسلام کے نزدیک فرض اور لازم ہے۔
اشکال نمبر 2:ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟
اگر اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دیتا ہے تو وہ ایک عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟
بہت سے لوگ جن میں بعض مسلمان بھی شامل ہیں اس امر کی دلیل مانگتے ہیں کہ جب ایک مسلمان مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے تو یہی “حق” عورت کو کیوں نہیں دیا گیا ؟
سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ اسلامی معاشرے کی بنیاد عدل اور مساوات ہے۔ اللہ نے مرد اور عورت کو برابر پیدا کیا لیکن مختلف صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ ، مرد اور عورت جسمانی اور نفسیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس لیے کہ ان کے کردار اور ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں۔ مرد اور عورت اسلام میں برابر ہیں لیکن ہو بہو ایک جیسے نہیں۔
سورۃ النساء کی آیات 22 تا 24 میں ان عورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن سے مسلمان مرد شادیاں نہیں کرسکتے۔ مزید برآں آخری آیت 24 کے مطابق ان عورتوں سے بھی شادی ممنوع ہے جو شادی شدہ ہوں ۔
مندرجہ ذیل نکات یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو ایک سے زیادہ مرد رکھنے سے کیوں روکتا ہے:
1) اگر ایک آدمی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے ماں باپ کی آسانی سے شناخت ممکن ہے۔ اس صورت میں بچے کی ماں اور باپ کی پہچان ہوسکتی ہے۔ ایک سے زیادہ شوہر ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں کی ماں تو معلوم ہوتی ہے مگر باپ کا پتہ نہیں چل سکتا۔ اسلام ماں اور باپ دونوں کی پہچان کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک جو بچے اپنے والدین کو نہیں جانتے، خاص طور پر اپنے باپ کو، وہ بہت زیادہ ذہنی تکلیف، بے چینی اور کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔ اور اکثر ایسے بچوں کا بچپن ناخوشگوار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ طوائفوں کے بچوں کا بچپن صحت مند اور خوشگوار نہیں ہوتا۔ ایسے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو جب اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے اور اس وقت ماں سے اس کے باپ کا نام پوچھا جاتا ہے تو اُسے دو یا اس سے زیادہ ناموں کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بدولت جین ٹیسٹ کے ذریعے سے ماں اور باپ کی شناخت ہوسکتی ہے۔ اس لیئے یہ نکتہ جو ماضی میں مؤثر تھا ممکن ہے کہ اب نہ ہو لیکن بچوں کے ناخوشگوار بچپن اور ان کی ذہنی تکلیف کا مسئلہ بدستور برقرار رہتا ہے اور یہ وراثت، یعنی باپ کی جائیداد وجاگیر کی تقسیم کے مسئلے میں بھی پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔
2) مرد فطری طورپر عورتوں کی نسبت متعدد شادیوں کا زیادہ خواہشمند ہوتا ہے۔
3) جسمانی یا حیاتیاتی طور پر ایک مرد کے لیئے کئی بیویاں رکھنے کے باوجود اپنے فرائض انجام دینا آسان ہوتا ہے۔ جبکہ ایک عورت کے لیئے جو ایک سے زیادہ شوہر رکھتی ہو بحیثیت بیوی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہرگز ممکن نہیں۔ ایک عورت ہر ماہواری کے دوران میں بہت سی نفسیاتی اور مزاج کی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔
4) ایک عورت جس کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں۔ اسے بیک وقت ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے پڑیں گے تو اس کو بہت سی جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں۔ جو وہ اپنے کسی شوہر کو منتقل کرسکتی ہے، چاہے اس کے تمام شوہروں کے دوسری خواتین سے غیر ازدواجی تعلقات نہ بھی ہوں لیکن یہ صورت حال مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں پیش نہیں آتی۔
یہ تمام وہ ظاہری وجوہ جن کا آسانی سے علم ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے اور بھی بہت سی وجوہ ہوں جن کا علم دانائے راز، اللہ تعالی علیم و خبیر کو ہی بہتر طور پر ہو کہ اس نے عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے سے کیوں منع کیا ہے۔
حاشیہ: اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور نگران بنایا ہے، وہ خاندان کی اولاد اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھروں کی دیکھ بھال کرسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد کے اندر ایک فطری غیرت ہے، جو ہر سلیم الفطرت شخص کے اندر پائی جاتی ہے، کہ بیوی کے معاملے میں وہ کسی کی شراکت کو برداشت نہیں کرتا۔ یہ غیرت نہ صرف انسانوں میں ہے بلکہ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں شراکت برداشت نہیں کرتے۔
جیسا کہ امام بخاری ( رحمۃ اللہ علیہ) نے عمر بن میمون کے حوالے سے بندروں کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے، حافظ ابن حجر ( رحمۃ اللہ علیہ ) نے فتح الباری میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے :
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں ایک ٹیلے پر اپنے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا ایک بندر اور بندریا وہاں آئے، بندر نے بندریا کا بازو اپنے سر کے نیچے رکھا اور سوگیا۔ اس دوران ایک اور بندر آیا اور اس نے بندریا کو بہکایا اور وہ اس کے ساتھ چلی گئی اور تھوڑا دور جاکر انہوں نے بدکاری کی ، پھر بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے داخل کرناچاہا تو وہ جاگ اُٹھا، اس نے اسے سونگھا اور چلانے لگا۔ کئی بندر اکھٹے ہوگئے وہ مسلسل چلائے جارہا تھا اور اس بندریا کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ بندر ادھر اُدھر گئے اور اس بندر کو لے آئے جس نے بدکاری کی تھی، انہوں نے ان دونوں کے لیئے ایک گڑھا کھودا اور انہیں رجم کردیا۔ ( فتح الباری 7/202، حدیث : 3859) ​
اشکال نمبر 3:کیا حجاب عورت کا استیصال نہیں؟
اسلام عورت کو پردے میں رکھ کر اس کی حیثیت کیوں گھٹاتا ہے؟
سیکولر میڈیا میں اسلام میں عورت کی حیثیت کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حجاب یا اسلامی لباس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عورت اسلامی شریعت کی محکوم اور باندی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسلام کے حجاب کے حکم کا تجزیہ کریں، ہمیں اسلام سے پہلے کے معاشروں میں عورت کی حیثیت کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
زمانہ قدیم میں عورت کی حیثیت :تاریخ سے لی گئی درج ذیل مثالیں واضح کرتی ہیں کہ قدیم تہذیبوں میں عورت کی حیثیت نہایت بے وقعت تھی اور اسے محض شہوانی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا حتی کہ اسے بنیادی انسانی شرف و عزت سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔
بابل کی تہذیب: اس تہذہب میں عورتوں کو گھٹیا سمجھا جاتا اور بابلی قوانین کے تحت وہ تمام حقوق سے محروم تھیں۔ اگر ایک آدمی قتل کا مرتکب ہوتا تو بجائے اس کے کہ اُسی کو سزا ملے، اس کی بیوی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔
یونانی تہذیب: یونانی کو قدیم تہذیبوں میں بہترین اور شاندار تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ اس “شاندار” تہذہب میں عورت تمام حقوق سے محروم تھی اور اسے حقیر سمجھا جاتا تھا۔ یونانی دیومالائی کہانیوں میں ایک خیالی عورت جسے ” پنڈورا” کہا جاتا تھا، اُسے انسانوں کی بدقسمتی کی بنیادی وجہ خیال کیا جاتا تھا۔ یونانی لوگ عورت کو مرد سے بہت کمتر سمجھتے تھے۔ اگرچہ عورت کی دوشیزگی کو قیمتی سمجھا جاتا اور عورتوں کو اس حوالے سے خاصی اہمیت دی جاتی تھی لیکن بعد میں یونانی تہذیب پر بھی انانیت اور جنسی بے راہ روی چھا گئی اور اس تہذیب میں ذوقِ طوائفیت عام ہوگیا۔
رومی تہذیب: جب رومی تہذیب اپنی “عظمت” کی بلندیوں پر تھی، ایک مرد کو یہ اختیار بھی حاصل تھا کہ وہ اپنی بیوی کی جان لے سکتا تھا، طوائف بازی اور عریانیت اس معاشرے میں عام تھی۔
مصری تہذیب: یہ تہذیب عورت کو مجسم برائی سمجھتی اور اُسے شیطنت کو علامت گردانتی تھی۔
اسلام سے پہلے عرب کی تہذیب: عرب میں اسلام آنے سے پہلے عورت کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا اور جب لڑکی پیدا ہوتی تو اُسے بالعموم زندہ دفن کردیا جاتا۔
اسلام نے عورت کو مساوی درجہ دیا :اسلام نے عورت کو برابری کا درجہ د یا۔ اس کے حقوق کا تعین 1400 سال پہلے کردیا اوروہ توقع کرتا ہے کہ عورت اپنا یہ درجہ برقرار رکھے۔
مردوں کا حجاب: لوگ عام طور پر “حجاب ” کو عورتوں کو تناظر میں زیر بحث لاتے ہیں لیکن قرآن عظیم میں اللہ تعالی مردوں کے حجاب کو عورتوں کے حجاب سے پہلے بیان کرتا ہے۔ سورۃ نور میں بیان کیا گیا ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
اور ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیںنیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کیلئے پاکیزگی کی بات ہے، اور اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔ جو کام تم کرتے ہو۔ ( النور 30)​
لہذا جب ایک مرد کی نگاہ کسی غیر محرم خاتون پر پڑے تو اسے اپنی نظر جھکا لینی چاہیے۔
سورۃ النور کی اگلی آیت میں ہے:

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الإرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اور ایمان والی عورتوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ کریں۔ سوائے اس کے جو ( از خود ) ظاہرہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ کریں۔ مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ دادا پر یا اپنے شوہروں کے باپ دادا پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے ( سوتیلے ) بیٹوںپر، اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی ( مسلمان ) عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت ( کنیزوں ) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکر چاکر مردوں پر یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی چھپی باتوں سے واقف نہ ہوں۔( سورۃ النور 31)​
حجاب کا معیار :قرآن و سنت کے مطابق پردے کے لیے چھ بنیادی معیار ہیں :
پہلا معیار یہ ہے کہ جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیے۔ یہ عورتوں اور مردوں کے لیئے مختلف ہے۔ مرد کے لیئے یہ معیار ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے جبکہ عورتوں کے لیئے تما جسم کا ڈھانپنا لازم ہے سوائے چہرے اور کلائی تک ہاتھوں کے، اور اگر ان کی خواہش ہو تو جسم کے ان حصوں کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں۔بعض علمائے کرام کے نززیک ہاتھ اور چہرہ بھی لازمی پردے میں شامل ہیں۔ ( اوریہی بات راجح )۔
علاوہ ازیں مردوں اور عورتوں کے لیئے حجاب کے پانچ یکساں معیار ہیں :
1) کپڑے جو پہنے جائیں وہ ڈھیلے ڈھالے ہوں جو جسمانی اعضاء کے خدوخال کو واضح نہ کریں۔
2) کپڑے اتنے باریک نہ ہوں کہ ان میں سے سب کچھ نظر آئے یا آسانی سے دیکھا جا سکے۔
3) لباس اتنا شوخ نہ ہو جو جنسِ مخالف کے مشابہ ہو (یعنی عورتیں مردوں جیسے کپڑے نہ پہنیں اور مردوں کو چاہیے کہ عورتوں جیسا لباس نہ پہنیں )۔
4) لباس غیر مسلموں کے لباس سے مشابہ نہ ہو، یعنی ایسا لباس نہ پہنیں جو غیر مسلموں کی مذہبی شناخت اور مخصوص علامت ہو۔
5) حجاب میں اخلاق اور شخصی طرز عمل بھی شامل ہیں۔
مکمل حجاب میں ان چھ بینادی معیاروں کے علاوہ اخلاقی کردار، سماجی رویے، وضع قطع اور شخصی ارادے کا بھی دخل ہے۔ حجاب کو صرف لباس کے معیار کی حد تک سمجھنا محدود سوچ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں، دِل، سوچ اور ارادے اور نیت کا حجاب بھی ضروری ہے۔ اس میں انسان کے چلنے کا طریقہ، گفتگو کا سلیقہ اور رویے کا اظہار بھی شامل ہے۔
حفاظتی حصار : حجاب چھیڑ چھاڑ سے بچاتا ہے، آخر عورت کے لیئے پردے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ سورۃ الاحزاب میں بیان کی گئی ہے۔ اِرشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (الاحزاب :59)​

اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہ دیجیے کہ وہ ( گھر سے باہر ) اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو گرا لیا کریں۔ یہ ( بات ) ان کے لیے قریب تر ہے کہ وہ ( حیا دار مومنات کے طور پر ) پہچانی جاسکیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے ( کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرسکے ) اور اللہ بہت معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے” ۔
قرآن سے واضح ہے کہ عورتوں کو پردے کا حکم اس لیئے دیا گیا ہے کہ وہ باحیا عورتوں کی حیثیت سے پہچانی جائیں اور مردوں کی شرارتوں اور چھیڑ خانیوں سے محفوظ رہیں۔
مغرب میں عورت کا استحصال :
مغربی تہذیب عورت کی جس آزادی اور آزاد خیالی کی بلند آہنگ وکالت کرتی ہے وہ اس کے جسمانی استحصال، اس کی روحانی تحقیر اور اس کی عزت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں، مغربی تہذیب عورت کا درجہ بلند کرنے کا بڑا چرچا کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، واقعہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے عورت کی عزت کو پامال کردیا ہے۔ اُسے عورت کے شرف و منزلت سے گرا دیا ہے ، اُسے داشتہ اور محبوبہ بنا دیا ہے۔ مغربی تہذیب میں عورت، عورت نہیں ہے۔ رنگین تتلی ہے، حصول لذت کا کھلونا ہے، مغرب نے عورت کو نیلام کا مال بنا دیا ہے، نام نہاد ” فن” اور ” ثقافت ” کی آر میں عورت کا شرمناک استحصال کیا جارہا ہے۔
امریکہ میں ریپ :امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے لیکن دنیا بھر میں عورتوں کی سب سے زیادہ عزت آبروریزی بھی وہیں ہوتی ہے۔ امریکی تحقیقی ادارہ ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں صرف 1990ء میں روزانہ عصمت دری کے اوسطاً 1756 مقدمات درج ہوئے۔ بعد کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں روزانہ تقریباً 1900 کی اوسط سے عصمت دری کے واقعات پیش آئے۔ سال نہیں بتایا گیا۔ ہوسکتا ہے 1992ء یا 1993ء ہو، مزید برآں ہوسکتا ہے اس کے بعد امریکی جبری بدکاریوں میں اور زیادہ نڈر ہوگئے ہوں۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیے:
میں آپ کے سامنے امریکہ کا ایک منظر پیش کرتا ہوں جہاں مسلم خاندانوں میں پردہ کیا جاتا ہے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی عورت کو پردے میں یا اسلامی حجاب میں بُری نگاہ سے دیکھتا ہے یا کوئی شرمناک خیال اُس کے ذہن میں آتا ہے تو وہ اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے۔ ہر عورت اسلامی حجاب پہنتی ہے جس میں اس کا تمام جسم ڈھکا ہوا ہے سوائے چہرے اور کلائی تک ہاتھوں کے ، اس کے بعد اگر کوئی زنا بالجبر کرتا ہے تو اُسے سزائے موت دی جاتی ہے۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس پس منظر میں امریکہ میں عصمت دری کے واقعات بڑھیں گے ، اسی طرح رہیں گے، یا کم ہوجائیں گے۔

اسلامی شریعت کا نفاذ :

فطری طور پر اسلامی شریعت کا نفاذ ہوتے ہی مثبت نتائج ناگزیر ہوں گے۔ اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں چاہے وہ امریکہ ہو یابرطانیہ، اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے تو معاشرہ سکون کا سانس لے گا۔ اسلامی حجاب عورت کا مرتبہ کم نہیں کرتا بلکہ بلند کرتا ہے اور اس کی حیاداری اور پاکدامنی کی حفاظت کا ضامن ہے۔
اشکال نمبر 4:مرد اور عورت کی گواہی میں مساوات کیوں نہیں؟
دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟
دو عورتوں کی گواہ ہمیشہ ایک مرد کی گواہی کے برابر نہیں۔ قرآن مجید میں تین آیات ہیں جن میں مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر گواہی کے احکام آئے ہیں:
وراثت کے متعلق وصیت کرتے وقت دو عادل اشخاص کی گواہی کی ضرورت ہوتی ہے :
سورۃ مائدہ میں قرآن عظیم کہتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ

اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے تو تمہارے درمیان گواہی ہونی چاہیے۔ ترکے کی وصیت کے وقت دو انصاف والے اپنے ( مسلمانوں ) میں سے گواہ بنا لو اگر تم زمین میں سفر پر نکلو اور ( راستے میں ) موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر قوم کے دو ( گواہ بھی کافی ہوں گے )۔ ( المائدۃ106)
طلاق کے معاملے میں دو عادل اشخاص کو گواہ بنانے کا حکم ہے :

وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلهِ

اور تم اپنے میں سے دو اشخاص کو گواہ بنالو جو عادل ہوں اور اللہ کے لیئے گواہی دو۔ (الطلاق2)
پاکباز عورت کے خلاف گواہی کیلئے چار شہادتیں درکار ہیں:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

اور جو لوگ پاکباز عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر وہ چار گواہ پیش نہ کرسکیں ( اپنے الزام کی تصدیق میں ) تو ان کو 80 کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔ اور یہی لوگ نافرمان ہیں۔” (النور4)

مالی لین دین میں عورت کی گواہی :

یہ صحیح نہیں کہ ہمیشہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوگی۔ یہ صرف چند معاملات کے لیے ہے۔ قرآن میں 5 آیات ہیں جن میں گواہی کے بارے میں مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ صرف ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ یہ سورۃ بقرہ کی آیت 282 ہے۔ مالی معاملات کے متعلق یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللهَ رَبَّهُ وَلا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخْرَى (البقرۃ 282)

اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے لیے ایک دوسرے سے ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارے درمیان انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے، جیسے اللہ نے اسے سکھایا ہے اسے لکھنا چاہیے، اور وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے قرض ہو اور اسے اپنے رب، اللہ سے ڈرنا چاہیے اور (لکھواتے وقت ) وہ ( مقروض ) اس میں سے کوئی چیز کم نہ کرے ۔ لیکن اگر وہ فرد جس کے ذمے قرض ہو، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوائے، اور تم اپنے مسلمان مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، پھر اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں کے طور پر پسند کرو ( یہ اس لیے) کہ ایک عورت بھول جائے تو ان میں سے دوسرے اُسے یاد دِلا دے۔ ”
قرآن کی یہ آیت صرف مالی معاملات اور لین دین کیلئے ہے۔ اس قسم کے معاملات میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ معاہدے کو دونوں فریقوں کے مابین لکھا جائے اور دو گواہ بنائے جائیں اور یہ کوشش کی جائے کہ وہ صرف مرد ہوں۔ اگر دو مرد نہ مل سکیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں کافی ہیں۔
اسلامی شریعت میں مالی معاملات میں دو مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسلام مرد سے خاندان کی کفالت کی توقع کرتا ہے۔ چونکہ اقتصادی ذمہ داری مردوں پر ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ لین دین میں عورتوں کی نسبت زیادہ علم و آگہی رکھتے ہیں۔ دوسری صورت میں ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوں گی کہ اگر ایک غلطی پر ہو تو دوسری اُسے یاد دِلا دے ۔ قرآن میں عربی لفظ “تَضِل” یا ” بھول جاتا “، یوں صرف مالی معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر رکھی گئی ہے۔

قتل کے مقدمات میں نسوانی گواہی :

اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں کہ عورتوں کی شہادت قتل کے معاملے میں بھی دوہری ہے، یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔ اس قسم کے معاملات میں عورت ، مرد کی نسبت زیادہ خوفزدہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی جذباتی حالت کی وجہ سے پریشان ہوسکتی ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں کے نزدیک قتل کے مقدمات میں بھی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔
کچھ علماء کے نزدیک دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی کی برابری تمام معاملات کے لیے ہے۔ اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سورۃ نور میں ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ (النور 6 تا 9)

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہ ہو سوائے ان کی اپنی ذات کے ، تو ان میں سے ہر ایک کی شھادت اس طرح ہوگی کہ چار بار اللہ قسم کھا کر کہے کہ بے شک وہ سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں بار یہ کہے۔ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہوتو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور اس عورت سے سزا تب ٹلتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ بلا شبہ وہ ( اس کا شوہر ) جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر وہ ( شوہر ) سچوں میں سے ہوتو اس ( عورت ) پر اللہ کا غضب ہو۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا ) کی گواہی :

سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا ) سے ، جو ہمارے نبی (ﷺ) کی بیوی تھیں، کم و بیش 2220 کے قریب احادیث مروی ہیں۔ جو صرف ان کی واحد شہادت کی بدولت مستند ہیں، یہ امر اس کا واضح ثبوت ہے کہ صرف ایک عورت کی گواہی بھی قبول کی جاسکتی ہے۔
بہت سے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایک عورت کی گواہی نیاچاند دیکھنے کے لیے بھی کافی ہے۔ اندازہ کریں کہ روزہ رکھنے کے لیے جو اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ ایک عورت کی گواہی کافی ہے اور اسکی گواہی پر تمام مسلمان مرد و عورتیں روزہ رکھتے ہیں۔ کچھ فقہاء کے نزدیک آغازِ رمضان کے سلسلے میں ایک گواہی درکار ہے جبکہ اس کے ختم ہونے کے لیے دو گواہیاں ضروری ہوں گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گواہی دینے والے مرد ہوں یا عورتیں۔
بعض معاملات میں عورتوں ہی کی گواہی کو ترجیح حاصل ہے : بعض معاملات میں صرف خاتون گواہ درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عورتوں کے مسائل عورت کی تدفین کے وقت غسل کے معاملات میں صرف عورت ہی کی گواہی مستند ہوگی۔ ایسے معاملات میں مرد کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔
مالی معاملات میں مرد اور عورت کی گواہیوں میں نظر آنے والی عدم مساوات اسلام کے نزدیک کسی صنفی عدم مساوات کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ صرف معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی مختلف نوعیت اور مختلف کرداروں کی بناء پر ہے جو اسلام نے اُن کے لیئے متعین کیئے ہیں۔
اشکال نمبر 5:اسلام کا نظامِ وراثت غیر منصفانہ کیوں؟
اسلامی قوانینِ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کی نسبت آدھا کیوں ہے؟
قرآن عظیم میں بہت سی آیات ہیں جن میں ورثے کی جائز تقسیم سے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً:
1) سورۃ بقرہ آیات: 180 اور 240
2) سورۃ النساء آیات: 7-9 اور آیات 19 اور 33
3) سورۃ مائدہ آیات: 106 تا 108
رشتہ داروں کا وراثت میں مخصوص حصہ :
قرآن مجید میں 3 آیات ہیں جو واضح طور پر قریبی رشتہ داروں کے وراثت میں مقررہ حصے بیان کرتی ہیں، جن میں سے دو درج زیل ہیں:

يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے: مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ پھر اگر ( دو یا ) دو سے زیادہ عورتیں ہی ہوں تو ان کے لیئے ترکے میں دو تہائی حصہ ہے۔ اور اگر ایک ہی بیٹی ہو تو اس کے لیئے آدھا حصہ، اور اس ( مرنے والے) کے والدین میں سے ایک کے لیئے ترکے میں چھٹا حصہ ہے اگر اس کی اولاد ہو ، لیکن اگر اس کی اولاد نہیں اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کے لیئے تیسرا حصہ ہے اور اس کے ( ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیئے چھٹا حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے والدین یا اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ (اللہ) کی طرف سے مقرر ہے۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ اور جو کچھ تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اس میں تمہارا نصف حصہ ہے اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو، لیکن اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں تمہارا چوتھا حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) ان کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ اور اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو تمہارے ترکے میں تمہاری بیویوں کا چوتھا حصہ ہے، لیکن اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکے میں ان کا آٹھواں حصہ ہے ( یہ تقسیم) تمہاری وصیت پر عمل یا ادائیگی قرض کے بعد ہوگی۔ اور اگر وہ آدمی جس کا ورثہ تقسیم کیا جارہا ہے۔ اُس کا بیٹا نہ ہو باپ، یا ایسی ہی عورت ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے۔ لیکن اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو وہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔ ( یہ تقسیم) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی جبکہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے تاکید ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑے حوصلے والا ہے۔ (النساء 11 و 12 )​
مزید فرمایا:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

اے نبی (ﷺ) ! لوگ آپ سے فتوٰی مانگتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا اور کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔ ( النساء : 176)​
عورت کا حصہ برابر بلکہ ” دوگنا ” بھی ہوسکتا ہے :
وراثت اکثر صورتوں میں عورتوں کو مردوں کا نصف ملتا ہے ، تاہم یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اگر مرنے والے کے ماں باپ یا کوئی بیٹا بیٹی نہ ہوں لیکن اخیافی ( ماں کی طرف سے سگے ) بھائی اور بہن ہوں تو دونوں میں سےہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گااور اگر مرنے والے نے بچے چھوڑے ہوں تو ماں اور باپ دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
بعض صورتوں میں ایک عورت کو مرد کی نسبت دوگنا حصہ بھی مل سکتا ہے۔ اگر مرنے والی عورت ہو اور اس کے بچے اور بھائی بہن نہ ہوں۔ اور اس کا شوہر اور ماں باپ وارث ہوں تو شوہر کو آدھی جائیداد جبکہ ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو باقی چھٹا حصہ ملے گا۔
اس معاملے میں بھی ماں کا حصہ باپ سے دوگنا ہے –
مردوں کی نسبت خواتین کا حصہ نصف کب ہے ؟
یہ ٹھیک ہے کہ عام قاعدے کے مطابق عورتیں مرد کی نسبت وراثت میں آدھا حصہ لیتی ہیں ، مثلاً درج ذیل صورتوں میں:
بیٹی کو وراثت میں بیٹے سے نصف ملے گا۔
عورت کو آٹھواں حصہ ملے گا اور شوہر کو چوتھا، اگر مرنے والے / والی اولاد ہو۔
عورت کو چوتھا حصہ اور شوہر کو آدھا ملے گا اگر مرحوم / مرحومہ کی اولاد نہ ہو۔
اگر مرنے والے کے ماں باپ یا اولاد نہ ہو تو بہن کو بھائی کے کل ترکے کا نصف ملے گا۔
مرد کا حصہ دوگنا کیوں؟
اسلام میں خاندان کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ شادی سے پہلے باپ یا بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کی رہائش، لباس اور دوسری مالی ضروریات پوری کرے اور شادی کے بعد یہ ذمہ داری شوہر یا بیٹے کی ہے۔ اسلام مرد کو پابند کرتا ہے کہ وہ خاندان کی مالی ضروریات کا ذمہ دار ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے اس وراثت میں دوگنا حصہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص ڈیڑھ لاکھ روپیہ چھوڑ کر مرجائے جس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہو تو بیٹے کو ایک لاکھ اور بیٹی کو 50 ہزار ملیں گے۔ ایک لاکھ روپے جو بیٹے کو ورثے میں ملیں گے وہ ان میں خاندان کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ اور ہوسکتا ہے وہ خاندان پر تمام رقم یا یوں کہیے 80 ہزار روپے خرچ کردے۔ یوں درحقیقت اسے ورثے میں سے بہت کم حصہ ملے گا، یعنی 20 ہزار روپے، دوسری طرف بیٹی جس کو 50 ہزار ملیں گے وہ کسی پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی پابند نہیں۔ وہ تمام رقم خود رکھ سکتی ہے، کیا آپ وہ ایک لاکھ روپے لینے کو ترجیح دیں گے جن میں سے آپ کو 80 ہزار روپے یا زائد رقم اوروں پر خرچ کرنی پڑے یا وہ 50 ہزار روپے لیں گے جو مکمل طور پر آپ ہی کے ہوں؟
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے