حکیم و علیم کی پیدا کردہ یہ کائنات بلاشبہ اسرار و رموز اورآیات و حقائق کا عظیم الشان بھنڈار ہے،اسکا چپہ چپہ رب تعالیٰ کی معرفت کا نشان ہے ،ضرورت صرف ان میں غور و فکر کرکے عرفان پالینے کی ہے،گویا معارف کا بحر بے کراں ہے جو ہر نگاہ رکھنے والے کو دعوت غوص و خوض دے رہا ہے،لیکن جذب و کش کے باوصف اس صدائے بے آواز پر کان دھرنے والے کم ہیں ،جیساکہ ذوالجلال والاکرام کا فرمان ہے:

وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ (یوسف:105)

آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی آیات ہیں جن پر سے لوگ توجہ دیئے بغیر گزر جاتے ہیں۔
بلکہ بات صرف اعراض اور عدم توجہی تک نہیں رہتی انسان کی بےحسی اس قدر بڑھی ہوئی ہے،کہ جب کوئی داعی اسے توجہ دلاتا ہے تو وہ توجہ کئے اور نظر ڈالےبغیر ہی آیات کو جھٹلادیتا ہے،اسی بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

بَلْ کَذَّبُوْا بِمَالَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہِ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہُ (یونس:39)

انہوںنے ایسی بات کو جھٹلایا جس کو انہوں نے جانا نہیں، اورابھی تو اسکی حقیقت ان تک پہنچی ہی نہیں۔
لیکن جو توجہ کرتے ہیںپھرمانتے ہیں ،تسلیم کرتے ہیں،انکے شب و روز خالق کائنات کی محبت و جستجومیں بسر ہوتے ہیں،انکی زندگی اطمینان و سکون کے ساتھ گزر جاتی ہے،نہ انہیں کسی کی ملامت کی پرواہ ہوتی ہے نہ کسی کا خوف ان پر طاری ہوتا ہے،بس ایک ہی دھن ان پر سوار ہوتی ہے کہ :

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران:192)

ہمارے مالک،یہ سب تونے بیکار میں پیدا نہیں کیا،ہم تجھے (ہر عیب سے )پاک مانتے ہیںپس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لینا۔
انسانیت کا آغاز،مقصد حیات، انجام اور علم

اسلامی نقطہ نگاہ:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں ان میں سب سے باکمال انسان ہے،اور اسکے عروج کی بنیاد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے پہلے اسے عطا کیا،جسکا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا،ارشاد فرمایا:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ قَالَ يَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (البقرۃ:30-33)

یاد کرو جب آپکے رب نے فرشتوں سے کہا:میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں،تو انہوں نے کہا:کیا تو اِس پر اُسے پیدا کرے گا جو اِس میں فساد مچائے گااور خون بہائے گا،اللہ نے فرمایا:جو میں جانتا ہوں تم نہیں جان سکتےاور ُاس نے آدم کو سبھی ناموں کا علم سکھادیا پھر اسے فرشتوں پر پیش کیا اور کہا کہ:اگر تم سچے ہو تو مجھے ان اشیاء کے نام بتاؤ؟انہوں نے کہا:تو پاک ہے،ہمیں اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا،توہرشے کو جاننے والا اور حکمت والا ہے،اللہ تعالی نے فرمایا:اے آدم تم اِنہیں اُنکے نام بتاؤ سو جب انہوں نے انہیں انکے نام بتادیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔
پھر سند علم ملنے کے بعد اسے مسجود ملائکہ بنادیا،یعنی روحانی (علمی)وجسمانی(سجدہ)دونوں طرح انسان کودیگر خلائق پر

فضیلت بخشی۔

اس دلیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسانیت کا آغاز جہالت کے اندھیروں کے ساتھ نہیں بلکہ علم کی روشنی سے ہوا،چنانچہ انسان کبھی بھی وحشی یا جنگلی نہیں رہا بلکہ وہ اپنے آغاز سے ہی متمدن و مہذب ہے۔
اس آیت میں بیان کردہ علم ”اسماء کا علم“ہے،یعنی تمام اشیاء و موجودات کی معلومات پر مشتمل علم،اب تک صرف علم ہی حاصل تھا،بابا آدم علیہ السلام کو جنت میں بسائے جانے کے بعد عمل(پریکٹیکل)کا آغاز ہوا (جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے)پھر مشیئت باری تعالیٰ کے تحت انہیں انکی پوری نسل سمیت زمین پر ایک اور امتحان کی تیاری کے لئے بھیج دیا گیا۔
گویا انسان کا آغاز ،اسکا مقصد حیات اور اسکا انجام سب کچھ بیان کیا گیا ہے۔
زمین پر بھیج دیئے جانے کے بعد علم کی قدر میں اور اضافہ ہوا،اور انسان کے مقصد حیات (امتحان کی تیاری)کو سامنے رکھتے ہوئےیہاں علم سے مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم اور اسکے مطابق عمل ہےیعنی عقائد و شرائع کا علم اور ان پر عمل کرنا،جو انسان اس علم کے نور سے منورہوئے انہیں دیگر انسانوں پر برتر قراردیا،جن میں سرفہرست انبیاء و رسل علیہم السلام ہیں،انکے بعد دیگر علماء کرام،چنانچہ ارشاد فرمایا:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ

اے نبی ﷺ کہہ دیں کہ کیا جولوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟دراصل عقل والے نصیحت پکڑ لیتے ہیں۔(الزمر:9)
دوسرے مقام پراس سوال کا جواب مزید وضاحت سے بیان ہوا ارشاد فرمایا:

يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

تم میں سے اللہ ان لوگوں کو بلند درجات عطا کرے گا جو ایمان لائے اور ان لوگوں کو جنہیں علم دیا گیا،اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ خبر رکھ رہا ہے۔(المجادلہ:11)
اسکے بعد یہ ضابطہ بھی بیان کردیا کہ :

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا

لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں ،آپ کہیں کہ روح میرے رب کا حکم ہے اور تمہیں جو بھی علم دیا گیا وہ نہایت کم ہے۔(الاسراء:85)
یہ اس انسان کے متعلق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دیگر خلائق پر برتری عطا کی جبکہ دیگر خلائق کا علم اور بھی کم ہے،اور اس آیت میں تقابل اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم سے ہے، جیسا کہ موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ میں خضر علیہ السلام (جو راجح قول کے مطابق فرشتے تھے اورجنکے پاس اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو حصول علم کے لئے بھیجا )نے فرمایا:

مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا العُصْفُورُ مِنْ هَذَا البَحْرِ

میرا علم اور آپکا علم اللہ کے علم کےسامنے اتنا ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر سے لیا۔(صحیح بخاری:4725)
جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم” ازلی“ ہے ،اور ہر نقص و عیب سے پاک ہے،اور ذرے ذرے کو محیط ہے۔

سائنسی نقطہ نگاہ:

عام طور پر سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ انسان آغاز میں چیمپیزین (لنگور)تھا،پھر ارتقاء کے مراحل سے گزرتا ہوا انسان بنا،جس نے جنگلوں اور غاروں میں رہائش اختیار کی پھر طویل عرصہ گزرنے کے بعد متمدن ہوا، متمدن ہونے کے بعد یہ صرف جیتا ہے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی تگ و دو میں لگا ہے اور اسکا انجام(اب تک کی ریسرچ کے مطابق) عدم/فنا (موت)ہے۔
”سائنس“لاطینی زبان کا لفظ ہے جسکا معنی ”علم“ہے، سائنٹسٹ یا سائنسدان سے مراد” عالم“ ہے،اور علم سے مراد فطری و طبیعی حقائق کا وہ علم ہے جو غور و فکر،تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہو،یہ علم تاریخ رکھتا ہے،اپنی ابتدائی تاریخ کے اعتبار سے یہ صرف فلسفے تک محدود تھا،پھر (مسلم سائنسدانوں کی آمد کے )بعد اس میں عقل کی وسعت کے ساتھ تجربے و مشاہدے کے دروازے بھی کھل گئے،دور حاضر سائنسی علوم کی معراج کا زمانہ ہے،اسکے باوجود آسمان کی وسعتیں تو کجا یہ زمین پر موجود سمندر کو بھی پانچ فیصد سے زیادہ نہ جان سکے۔
گویا سائنس کے مطابق انسانیت کا آغاز جہالت کے اندھیروں کے ساتھ ہوا،اسکا مقصد حیات صرف زندگی گزارنا اور اسے خوشگوار بنانےکی کوشش کرنا ہے اور اسکا انجام”کچھ نہیں“ہے،اور علمی اعتبارسےیہ”حقائق کائنات“ کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔
عقائد و رسوم،سلوک و طریق

اسلامی نقطہ نگاہ:

٭عقائد یاایمانیات:
دین اسلام فطرت انسانی کے عین مطابق ہے،دنیا کے تمام مذاہب میں یہ اعزاز صرف دین اسلام کی تعلیمات کو حاصل ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

پس آپ یکسو ہوکراپنا چہرہ دین کی جانب متوجہ رکھیں، یعنی اللہ کی اس فطرت کی جانب جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا،اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی درست دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔(الروم:30)
یعنی اللہ تعالیٰ نے جس شے کو جس طرح پیدا کیا اسلامی تعلیمات ان کی حیثیت و ماہیت میں کوئی تبدیلی نہیں کرتیں،جبکہ دیگر مذاہب کبھی کسی انسان کو اسکے مرتبے سے اٹھاکر معبود کے رتبے تک پہنچادیتے ہیں ،کبھی کسی مظہر قدرت کو،کبھی

کسی اور شے کو،جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق :

توحید:”الوہیت“و ”ربوبیت“کے مناصب صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے ہیں،جو اَزَل سے ہے، جسکو فنا نہیں،اور وہ ہرشےکا خالق و مالک و مدبّر و مربّی ہے۔
تقدیروتخلیق:ہر شے کی تخلیق سے پہلے اس نے اسکی ہر ہر حرکت و سَکنَت ،ماہیت و کیفیت،آغاز و انجام کو پہلے سے ہی جان لیا، پھر اس نے انسان کو مٹی و پانی سے پیدا کیا۔
روح و حیات:اس میں روح ڈالی،اسے عارضی زندگی دے کر امتحان کے لئے زمین پربسایا۔
ارسال و ارشاد:اسکی رشد و ہدایت کے لئے انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ چلایا،جسکی آخری کڑی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔
ملائک و کتب:ان انبیاء و رسل علیہم السلام پر اس نے اپنی نورانی مخلوق فرشتوں کی وساطت سے وحی (کتب و صحف)نازل کی۔
موت و آخرت و انجام:عارضی مدت کے اختتام (موت)کے بعد روز قیامت جزا و سزا کے لئےجن و انس کو دوبارہ زندہ کرنے کا وعدہ کیا،نیکو کاروں کے لئے جنت بنائی اور بدکاروں کے لئے جہنم کی سزا تجویز کی۔

٭رسوم یا اسلامیات:

یعنی دین اسلام کے خاص شعائر عبادات جو اسے دیگر مذاہب سے ممتاز بناتے ہیں، بہت سے ہیں ،جن میں سرفہرست یہ ہیں:
الشھادتین:اس بات کی زبانی و عملی شہادت دیناکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
الصلوات الخمس:دن و رات میں پانچ وقت صلاۃ (نماز) ادا کرنا۔
صیام رمضان:ہر سال ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔
حج بیت اللہ:زندگی میں ایک بار بیت اللہ کا حج کرنا۔
زکاۃ المال:نقدی پر ہر سال اور فصلوں پر ہر بار زکاۃ ادا کرنا،ان میں سے ہر ایک کی جنس اور اسکا نصاب مقرر ہے،جسکی تکمیل پر زکاۃ ادا کی جائیگی۔
نوافل:ان پانچ فرائض کے علاوہ بقیہ تمام عبادات نفل (یعنی جنکی ادائیگی فرض نہ ہو)ہیں۔
نوٹ:دین اسلام میں ہر عمل استطاعت کے ساتھ مشروط ہے،اور استطاعت کی صورتیں ہر عمل کے لئے مختلف ہیں،البتہ عاقل و بالغ ہونا سب کے لئے ضروری ہے۔

٭سلوک وطریق یا اخلاقیات و معاملات:

عائلیت و زوجیت،معاشرت و معیشت،تجارت و اقتصاد، سیاست و حکومت،اور امن و جنگ،محاسبہ ومجازاۃ و معاقبہ وغیرہ ان تمام پہلوؤں میں اسلامی نظام و سلوک سب سے عمدہ اور مبنی بر اعتدال ہے،دین اسلام میں صدق، امانت،عدل،اصلاح،نصیحت وغیرہ اوصاف حسنہ کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں،اور انہیں اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے جبکہ کذب،خیانت، ظلم، فساد،فضیحت وغیرہ اوصاف سیّئہ کی مذمتیں بیان کی گئی ہیںاور ان سے روکا گیا ہے،دین اسلام کےمعتدل و فطری ہونے کی ایک چھوٹی سی دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں جانوروں تک کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔

سائنسی نقطہ نگاہ:

آج تک جتنے سائنسی نظریات مقبول ہوئے ہیں،وہ سب خالق کے تصور سے خالی ہیں ،ان کے مطابق یہ کائنات اور اسکی ہر شے حادثاتی طور پر ازخود وجود میں آگئے،اور موجودہ صورت تک پہنچنے میں وقت کو لامحدود سفر کرنا پڑاجو اَب بھی ختم نہیں ہوا ،وہ دھماکہ جو بگ بینگ کے نام سے موسوم ہےاسکے اثرات اب تک جاری ہیںاور نامعلوم کب تک جاری رہیں،جب اس کائنات کے پھیلاؤ کا عمل رک جائے گا تو اسکے سکڑنے اور سمٹنےکا عمل شروع ہوجائے گا،یہ عمل بھی طویل زمانوں تک جاری رہے گا،حتی کے ساری کائنات دوبارہ ایک ذرے میں سما جائے گی،جیسا کہ اس سے پھوٹی تھی،گویا آغاز و انجام ایک ذرہ(ایٹم)ہے،مگر وہ ذرہ کہاں سے آیا ،کس روحانی طاقت نے اسے پھوڑا، اور کون اسے پھر سے ایک ذرہ بنادے گا،(یہاں آکر سائنس کی علت و معلول کا بنیادی اصول نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے)بہت سے سوالوں کی طرح اس سوال کا بھی سائنس آج تک جواب نہیں دے سکی،شاید مستقبل میں وہ اسکا جواب معلوم کرلیں جو خالق کے وجود کو مستلزم ہو،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ (فصّلت:53)

ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور انکے اپنے نفوس میں دکھاتے رہیں گے حتی کہ ان پر عیاں ہوجائے کہ وہ حق ہے ،کیا یہ کافی نہیں کہ آپکا رب ہر شے پر حاضر ہے،سنو انکا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات میں شک کرتے ہیں،سنو وہ ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
بہر حال سائنس کا سارا زور صرف ایٹم تک محدود ہے اسکے پیچھے کارفرما روحانیت و مشیئتِ رب العالمین سے اسے مطلق انکار ہے،سو جب سائنس نے خالق کے وجود کا ہی انکار کردیاتوایمانیات و اسلامیات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
البتہ سائنسدانوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تواس میں تفصیل ہے،دور حاضر کے سائنسدان عام طور پر جن مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ غیر فطری ہیں اور ان میں مظاہر قدرت کو پوجا جاتا ہے،جبکہ ایک سائنٹسٹ ان مظاہر کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے،لہذا وہ مذہب سے بیزار ہوجاتا ہے،بلکہ مذہبی عناصر بھی ان سے شدید بیزار اور انکی جان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسا کہ چرچ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
لیکن اگر وہ سچا(پریکٹیکل) مسلمان ہوتو صورت حال اسکے بالکل برعکس ہوتی ہے،یعنی وہ دین اسلام کےاور نزدیک آجاتا ہے،کیونکہ دین اسلام دین فطرت ہے،اسلامی اور سائنسی تاریخ گواہ ہے کہ حالیہ سائنس کی بنیادمسلم سائنسدانوں نے رکھی اور نامور مسلم سائنسدان فراہم کئے جبکہ عیسائی دنیا میں سائنسدانوں اور سائنسی علوم پر مکمل پابندی تھی۔
٭سائنسی علوم کا نقص یا عیب کہہ لیں کہ ان میں دینیات کو تو بالکل ہی خارج از بحث کردیا جاتا ہے، اخلاقیات و معاملات سے بھی چنداں بحث نہیں کی جاتی جبکہ دین اسلام کا کمال یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا مادی یا معنوی وجود نہیں جسکے متعلق اس میں رہنمائی نہ دی گئی ہوخواہ وہ کتنا ہی جدید یا ماورائی ہو،یہاں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ سائنس کوئی مذہب یا شریعت نہیں محض ایک فن ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

تحقیقات حقائق وتحلیل مسائل

اسلامی طریقہ کار:
فطری حقائق کے اثبات اورانسانیت کو درپیش مسائل کی تحلیل کے سلسلے میں اسلامی طریقہ کار بالکل واضح اور معتدل ہے۔
تحلیل مسائل سے مراد انسان کو درپیش جسم،نفسیات، روح،خاندان،ازدواج،معیشت،معاشرہ،سیاست،جنگ
و امن وغیرہ سے متعلق مسائل ہیں کہ انکا صحیح حل کیا ہے، اس سلسلے میں دین اسلام تو سبھی پہلوؤں پر رہنمائی بالتفصیل فراہم کرتاہے جبکہ سائنس صرف جسمانی اور بعض نفسیاتی پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کرتی ہے جبکہ بقیہ تمام مسائل سے لاتعلق رہتی ہے۔
فطری حقائق کی تحقیق سے مرادکائنات میں بکھرے ہوئےاسرار و رموز تک رسائی ہے،ہر ایک رازتک رسائی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خاصّہ ہے کیونکہ وہ”لَطِيفٌ خَبِيرٌ“اور”الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ“ہے،چنانچہ کتاب اسلام قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (الحج:63)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو زمین زرخیز ہوگئی،یقینا اللہ باریک بین اور خوب باخبر ہے۔
مشہور مفکر ودانشور حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:

يَابُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُ إِنَّ اللهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (لقمان:16)

اے میرے بچے،اگر رائی کے دانے برابر کوئی شے کسی چٹان پر ہویاآسمانوں یا زمین میں کہیں ہو تو اللہ اسے ڈھونڈ لائے گا،کیونکہ اللہ باریک بین اور خوب باخبر ہے۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ

ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ انکے مابین ہے واقعتاً پیدا کیا ہے،اور قیامت بھی واقع ہوگی،سوآپ خوبصورتی کے ساتھ درگزر کرتے رہیں،آپکا رب بہت بڑا خالق،بہت بڑا عالم ہے۔(الحجر:85-86)

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (یس:81)

کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ (دوبارہ ان انسانوں)جیسا بنانے پر قادر نہیں،کیوں نہیں؟وہ تو بہت بڑا خالق ،بہت بڑا عالم ہے۔
اثبات حقائق بذریعہ صراحت نص
(٭)البتہ بعض حقائق واسرار ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث میں صراحتاًیا اشارتاًبیان کیا ہے،مثلاً:
عظیم دھماکہ(big bang)سے متعلق اسلامی نظریہ
قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنات کے متعلق بتایا گیا ہے:

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا (الانبیاء:30)

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ساتوں آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا۔
نیز فرمایا:

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ

کہہ دیجیئے کہ میں پناہ میں آتا ہوں فلق کے رب کی ،ہر اس شے کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔(الفلق:1-2)
”فلق“کسی شے کے اچانک پھٹ جانے کو کہتے ہیں، اسکے فوراً بعد مخلوق کا تذکرہ اشارہ کرتا ہے کہ اس سے مراد گذشتہ آیت میں بیان کردہ ”فتق“کے نتیجے میں ہونے والا دھماکہ ہے،نیز اس آیت میں ”فلق کے رب“ یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ بگ بینگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔واللہ اعلم
عظیم دھماکہ(big bang)سے متعلق سائنسی نظریہ:
ماہرین فلکیات کی کئی عشروں پر محیط تحقیقات کے مطابق ہماری کائنات ابتداء میں ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی(جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر بگ بینگ یعنی بہت بڑا دھماکہ ہواجس کا نتیجہ کہکشانوں کی شکل میں ظاہر ہوا، پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں، کائنات کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔
پھیلتی ہوئی کائنات

اسلامی نظریہ:

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ

اور آسمان کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں۔(الذاریات:47)

سائنسی نظریہ:

1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیںایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہو اکہ کائنات پھیل رہی ہے، یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے جسکے متعلق سوا چودہ سو سال پہلے قرآن پاک میں اس وقت بیان کیا گیا جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی۔
زمین کا انتہائی مربوط و مستحکم نظام

اسلامی نظریہ:

اللہ تعالیٰ نے زمین پربسنے والی جملہ مخلوقات کی ضرورت کی ہر شے کو ٹھیک ٹھیک اندازے کے مطابق پیدا کیا تاکہ کسی شے کی کمی یا زیادتی سے زمین کا نظام فساد کا شکار نہ ہوچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ

اور ہم نے زمین کو پھیلادیا،اور ہم نے اس میں میخیں (پہاڑ) گاڑھ دیں،اور ہم نے اس پر ہر شے ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار میں پیدا کی۔(الحجر:19)
1۔اس آیت میں زمین کے پھیلاؤ (امداد)کا ذکر ہے،اس میں زمین کی ساخت اور بناوٹ کی جانب اشارہ ہے کہ زمین پیاز کی تہوں کی طرح تہہ بہ تہہ بچھائی گئی ہے۔
2۔اس میں میخوں یعنی پہاڑوں کے گاڑھے جانے کا ذکر ہے،جسطرح خیمے کو روکے رکھنے کے لئے زمین میں میخیں گاڑھی جاتی ہیں اسی طرح زمین کی حرکت کو متوازن بنانے کے لئے اس میں پہاڑ گاڑھ دیئے گئے جیسا کہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (النحل:15)

اور اس نے زمین پر میخیں گاڑھ دیںکہیں تمہیں لئے ڈولتی نہ رہے،اور نہریں چلادیں اور راستے بنادیئے تاکہ تم راہ پالو۔
3۔اس میں ہر شےکی نپی تلی مقدار پیدا کئے جانے کا ذکر ہے،جسکی زمین پر بسنے والی مخلوق کو ضرورت ہوسکتی ہے، خواہ وہ کوئی بھی شے ہو مثال کے طور پر آکسیجن جو کبھی بھی 20 فیصد سے نہیں بڑھتی ۔
نیز فرمایا:

قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (فصّلت:9-11)

آپ پوچھیں:کیا تم اس کا انکار کرتے ہو اور اس کے شرکاء مقرر کرتے ہوجس نے زمین کو دو دنوں میں بنادیا ،وہ رب العالمین ہے،اور اسی نے چار دنوں میں اس میں اسکے اوپر سے میخیں بنادیں،اور اس میں برکت رکھ دی،اور اس میں اسکی قوتیں چھپادیں،پھر وہ آسمان کی جانب متوجہ ہوا تو وہ دھواں تھا،اس نے اس (دھویں) سے اور زمین سے کہاآؤ دل سے یا بادل نخواستہ،انہوں نے کہا :ہم آئے خوشدلی سے۔
4۔اس آیت میں زمین کے دو دن میں پیدا کئے جانے کا ذکر ہے۔
5۔زمین میں پہاڑوں کے گاڑھے جانے،اس میں برکت رکھے جانے،اور اس میں طاقتوں (powers) کے رکھے جانے اور یہ سب کام چار دنوں میں کئے جانے کا ذکر ہے۔
6۔زمین کے بعد آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے،جبکہ سورہ النازعات میں ہے:

وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا (النازعات:30)

اسکے بعد اس نے زمین کو بچھایا(ہموار کیا)۔
تو اس سے مراد زمین کی پیدائش یا پھیلاؤ نہیں بلکہ اسے بیضوی شکل عطا کرنا ہے ،جیساکہ لفظ” دحی“ سے معلوم ہوتا ہے،یعنی پہلے زمین کا مٹیریل پھیلا دیا پھر اسے بیضوی شکل عطا کی۔واللہ اعلم

سائنسی نظریہ:

زمین کا متناسب پھیلاؤ
ماہرین ارضیات کے مطابق زمین اپنے محور پر23.5 ڈگری جھکی ہے،اگر یہ جھکاؤ 25 ڈگری پر ہوتا تو قطبین کے سرے چند سالوں میں پگھل جاتے،اور اگر یہ جھکاؤ 22ڈگری پر ہوتا تو قطب شمالی کی برف سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی،اور زمین پر انسانی آبادی کے لئے بہت کم جگہ بچتی۔
زمین کی متناسب گردش
زمین اپنے محور پر 24 گھنٹوں میں ایک چکر پورا کرتی ہے،اگر یہ گردش 30 گھنٹوں پر محیط ہوتی تویہ زندہ مخلوق کے لئے طوفان زدہ صحرا بن کر رہ جاتی،اور اگر یہ گردش 20 گھنٹوں میں پوری ہوتی تواکثر نباتات اپنی حیاتیاتی سرگرمیاں پوری نہ کر پاتیں اور زمین خشک سالی کا شکار ہوجاتی۔
زمین پر آکسیجن کامحدود مقدار میں قائم رہنا
ہر قسم کا دھواں اور خارج ہونے والی چیزیں پودوں کے ذریعے آکسیجن میں تبدیل ہوجاتی ہیں،اور زمین پر آکسیجن کی مقدار 20 فیصد سے تجاوز نہیں کرتی،اگر آکسیجن کا یہ تناسب کم یا زیادہ ہوجائے تو زمین پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوں،اور انسان بھی ڈائنوسارز کی طرح ختم ہوجائیں۔
درختوں اور جنگلات کی متناسب مقدار
سو سال پہلے تک توانائی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ تھا یعنی آگ جو لکڑی سے سلگائی جاتی،چند عشرے قبل قدرت نےزمین میں کڑوڑوں سال سے ذخیرہ کردہ کوئلے اور تیل کو ظاہر کردیا اور توانائی کے متبادل ذرائع عین وقت پر فراہم کردیئے،اگر ایسا نہ ہوتا توحالیہ انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرتے کرتے زمین سے جنگلات اور درختوں کے وجود کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔
الغرض زمین میںہر شے دھاتیں،یورنیم،کاربن ، پانی، ہوا،روشنی،سردی،گرمی،جانور،پرندے،حشرات وغیرہ مناسب مقدارمیں پائی جاتی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا اور اس پر زندگی ناپید یا دشوار ہوجاتی۔
پہاڑوں کا زمین میں میخوں کا کام دینا
ماہرین ارضیات نے تسلیم کیا ہے کہ زمین کی سطح جس پر انسان آباد ہے تقریباً 70 کلو میٹر موٹی ہے اور ٹھنڈی ہے لیکن زمین کی اندرونی تہیں نہایت گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں ہیں سو اگر پہاڑ اوپری سطح پر گڑھے ہوئے نہ ہوتے تو زمین کی سطح اندرونی تہوں پر پھسلتی رہتی اور زمین کی سطح پر کچھ باقی نہ رہتا۔
قرآن پاک میں یہ حقائق کئی صدیاں قبل بیان کئے گئے،جو اسکے کلام اللہ ہونے کا ثبوت ہیں۔
سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا

اسلامی نقطہ نگاہ:

اللہ تعالیٰ نےکفار کے اعمال اور انکے انجام کی مثال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ

یا گہرے سمندر کے اندھیروں کی مانند ،جسے موج نے ڈھانپا ہو،اسکے اوپر ایک موج اور ہو،اسکے اوپر بادل ہو، اندھیرے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے،جب وہ اپنا ہاتھ اٹھائے تو اسے دیکھ نہ پائے،اللہ جسکے لئے روشن نہ کرے اسکے لئے روشنی ہو ہی نہیں سکتی۔(النور:40)
یہ آیت اس حقیقت کو بیان کررہی ہے کہ سمندر میں کئی طرح کے اندھیرے ہوتے ہیں،بادلوں کا گھٹاٹوپ اندھیرا،پھر لہروں کا ایک دوسرے پر سوار ہونے کا اندھیرا،پھر سمندر کے اندر گہرائیوں کا اندھیرا،سمندر کے اندر موجوں کا اندھیرا،الغرض گہرے سمندر میں اسقدر اندھیرا ہوتا ہے کہ انسان کواسکا اپنا وجود تک دکھائی نہ دے۔

سائنسی نقطہ نگاہ:

جدید سائنسی نظریات اس آیت کے ایک حرف سے بھی انکار نہیں کرتے جسکا تعلق سمندر کے اندھیروں سے ہے،سائنس کے مطابق روشنی کے ساتوں رنگ سمندر کی مخصوص گہرائیوں میں ایک ایک کرکے ختم ہو جاتے ہیں تقریباً 1000 میٹر کے بعد اندھیروں کا راج ہوتا ہے۔
نکتہ:اللہ تعالیٰ نے سمندر میں اندھیروں کے متعلق جو کچھ بیان کیا وہ کفار کے اعمال کی مثال وتشبیہ کے ضمن میں بیان کیا،حالانکہ مثال صرف تفہیم کے لئے دی جاتی ہے نہ کہ تحقیق کے لئے،اسکے باوجود یہ مثال اپنی ذات میں خود بہت بڑی ایسی حقیقت ہے جسکا اس زمانے کے لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے،قرآن پاک میں بیان کردہ دیگر امثال کا بھی یہی حال ہے جو اسکے کلام اللہ ہونے کی بین دلیل ہیں۔
زمین پر پانی کا وجود،زمین کے اندر پانی کے راستے،بادلوں میں پانی کا وجود
اسلامی نقطہ نگاہ:
قرآن مقدس میں آبیات کے متعلق متعدد آیات ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ زمین پر پانی آسمان سے آیااور اللہ تعالیٰ نے اس پانی کو زمین کے اندر دریاؤں اور چشموں کی صورت میں جاری کیا،

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ

اور ہم نے آسمان سے طے شدہ مقدار میں پانی اتارا،پھر اسے ہم نے زمین میں چلادیا،اور ہم اسے واپس لے جانے پر بھی قادر ہیں۔(المومنون:18)
نیز فرمایا:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ (الزمر:21)

کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھراسے زمین کے اندرونی راستوں، خزانوں میں بہادیا۔
اور بادلوں میں پانی زمین سے آبی بخارات کے ذریعے پہنچتا ہے،جیسا کہ درج ذیل آیت اس جانب بلیغ اشارہ کرتی ہے:

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ

قسم ہے آسمان کی لوٹانے والا،اور قسم ہے زمین کی شگاف والی۔(الطارق:11-12)
یعنی بادل جو زمین سے حاصل کردہ پانی واپس زمین کو لوٹادیتے ہیں ،اور دراڑ والی زمین سے مراد ہے کہ ان دراڑوں کے ذریعے بارش کا پانی زمین کے اندر تک داخل کیا جاتا ہے۔

سائنسی نقطہ نگاہ:

پانی دو عناصر سے مل کر بنا ہے،ہائیڈروجن اور آکسیجن، لیکن انہیں ملانے کے لئے جو درجہ حرارت درکار ہے وہ زمین پر ممکن نہیں ،لہذا پانی کی تخلیق زمین سے باہر کہیں ہوئی ہے ،پانی فضا میں تیرتا رہا پھر زمین پر اچانک اس پانی کی آمد ہوئی۔
سائنس کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ پانی کو ذخیرہ نہیں کیا جاسکتا،یہ پانی ہمیشہ سرکل میں رہتا ہے،سمندر سے بادلوں میں ،بادلوں سے زمین پر موجود جھیلوں ، جوہڑوں تالابوں، ڈیموں،زمین کی درزوں،دراڑوں کے ذریعے زیر زمین جھیلوں ،نہروں،چشموں ،کنوؤں،وغیرہ میں پھر زمینی راستوں پر چلتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے،یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔
بادلوں میں پانی آبی بخارات کے ذریعے آتا ہے جو جھیلوں یا سمندر کی سطح پر دھوپ لگنےکی وجہ سے بنتے ہیں،یہ بخارات جب بادلوں کے بالائی سرد حصوں سے ٹکراتے ہیں تو عمل تکثیف کی وجہ سے بادلوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ،پھر اس طرح کے بہت سے بادل جمع ہوتے رہتے ہیں یہاںتک کہ بادلوں کا ایک پہاڑ سا بن جاتا ہے،اور اگر ان بادلوں کا واسطہ ایسی ہوا سے پڑجائے جسکا درجہ حرارت وہی ہو جو بادلوں کا ہے تو یہ بادل پانی کو روکے رکھتے ہیں،اور اگر یہ گرم ہوا سے ٹکرا جائیں تو ان میں جمع شدہ پانی پھر سے بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اگر یہ سرد ہوا سے مل جائیں تو برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ حقائق جو سائنسدانوں نے کثیر سرمایہ خرچ کرکے اور کڑی محنت کرکے،اور بہت سے تجربات سے گزر کر معلوم کئے 1400 سال قبل قرآن پاک میںاللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بیان کردیئے تھے۔
جانوروں،پرندوں اور حشرات کا منظم ہوکر رہنا

اسلامی نقطہ نگاہ:

قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور بھی انسانوں کی طرح منظم ہو کر،غول بناکر رہتے ہیں،اور ایک دوسرے سے بات بھی کرتے ہیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ

جو بھی جانور زمین پر چلتا ہے یا پرندہ فضا میں اپنے پروں سےاڑتاہے وہ تمہاری طرح جماعتیں ہیں،ہم نے کتاب میں کمی نہیں رکھی،پھر انہیں اپنے رب کی جانب جمع کیا جائے گا۔(الانعام:38)
سیدنا سلیمان علیہ السلام جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ دیگر جنات،جانوروں اور ہواؤں پر بھی بادشاہت عطا کی تھی ان کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَاأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (النمل:17-18)

اور سلیمان کے روبرو اسکے انسان،جن اور پرندوں پر مشتمل لشکر جمع کئے جاتے پھر انہیں بانٹ دیا جاتا،پس ایک بار وہ چیونٹیوں کی وادی سے گذرے تو ایک چیونٹی نے کہا:اے چیونٹیوں اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان اور انکا لاؤ لشکرانجانے میں تمہیں روند نہ دے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ”ہد ہد“نامی پرندے کی پوری گفتگو نقل کی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ پرندے بھی شعور رکھتے ہیں ، پہچانتے ہیں،جائزہ لیتے ہیں،فیصلہ کرتے ہیںاور عمدہ گفتگو کرتے ہیں،ارشاد فرمایا:

فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

پس ہد ہد نے کہا:میں وہ جان آیا جو آپ نہیں جانتے،میں آپکے پاس سبا کی پکی خبر لایا ہوں،میں نے ایک عورت کو انکی سربراہی کرتے دیکھا ہے جو ہر شے سے مالا مال ہے،اور اسکا بڑاتخت ہے ،میں نے اسے اور اسکی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ کے سواسورج کو سجدہ کررہے ہیں،اور شیطان نے انکے اعمال انکے سامنے خوبصورت بنادیئے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روک رکھا ہے،سو وہ راہ راست پر نہیں چل رہے کہ اللہ کو سجدہ نہیں کررہے جو آسمانوں اور زمین میں دانہ اگاتا ہے،اور تم جو چھپاتے یا دکھاتے ہو جانتا ہے،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔(النمل:22-25)
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک اونٹ نے نبی کریم ﷺکے پاس آکر اپنے مالک کی شکایت کی(سنن ابی داؤد:2549،صحیح مسلم:باب ما یستتر بہ لقضاء الحاجۃ)کنکریوں اور کھانے کے لقمے نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح پڑھی،مکہ کا ایک پتھر آپکو سلام کیا کرتا تھا۔
نیزنبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ریوڑ میں تھا کہ اس پر بھیڑیئے نے حملہ کیا اور ایک بکری لے بھاگا،چرواہے نے اسے تلاش کرلیا تو بھیڑیا اسکی جانب منہ کرکے کہنے لگا:درندوں کے دن اسے کون بچائے گا جس دن انکا میرے سوا کوئی چرواہا نہ ہوگا؟اور ایک آدمی گائے لے جارہاتھاوہ اس پر سوار تھا تو گائے نے اسکی طرف رخ کرکے کہا:میں اس لئے پیدا نہیں کی گئی لیکن میں کھیتی باڑی کے لئے پیدا کی گئی ہوں،یہ حدیث سن کر لوگوں نےتعجب سے کہا:سبحان اللہ تو نبی ﷺ نے فرمایا:میں اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہمااس حدیث پر ایمان لائے۔(صحیح بخاری:3663)

سائنسی نقطہ نگاہ:

جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق جانور ریوڑ یا غول بناکر منظم انداز میں رہتے ہیں ،ایک دوسرے سے بات کرتےہیں،ہر ریوڑ یا غول کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو پورے ریوڑ یا غول کی رکھوالی کرتا ہے،سارا ریوڑ مل جل کر کام کرتا ہے،اسی طرح چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں انتہائی منظم انداز میں مل جل کر رہتی ہیں،ہر مکھی اور ہر چیونٹی کی ذمہ داری مقرر ہوتی ہے جو وہ ہر حال میں ادا کرتی ہے،شہد کی مکھیاں آپس میں بات بھی کرتی ہیں ، اسی طرح چیونٹیاں بھی،انکی باقاعدہ کالونیاں ہوتی ہیں جسکی وہ حفاظت کرتی ہیں،موسم سرما کے لئے یہ پلاننگ کرتی ہیں اور خوراک ذخیرہ کرتی ہیں،چیونٹیاں تو بازار تک بناتی ہیں اور ان میں اشیاء کا باہم تبادلہ کرتی ہیں اور اپنے مُردوں کو دفناتی ہیں،ان کے علاوہ بھی ان میں بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جب انہیں قرآن و حدیث میں بیان کیا گیاتو لوگ مذاق اڑاتے لیکن آج یہی حقائق سائنس بیان کرتی ہے تو لوگ ایمان لے آتے ہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں ،وگرنہ اس سلسلے میں بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے،تفصیل کے لئے درج ذیل کتب ملاحظہ ہوں:
قرآنی آیات اور سائنسی حقائق از ڈاکٹر بلورک نور بائی(ترکی)
قرآن اور جدید سائنس از پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم
قرآن اور جدید سائنس ازڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک
اثبات حقائق بذریعہ تدبر و تفکر
٭اور بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں سرسری غور و فکر کرنے سے معلوم کیا جاسکتا ہے،مثلاً:آسمان کی بلندی اور اسکی وسعت،کائنات میں پایا جانے والا حُسن، اجرام فلکیہ کا مربوط و مستحکم نظام،ستاروں کا طلوع و غروب،زمین پر انسانی ضرورت کی ہر شے کا وافر مقدار میں مہیا ہونا، انسانی جسم کی عظیم کاریگری،پہاڑ ،دریا،سمندر، چرند، پرند،شجر،حجر،سمندری حیوانات ومعدنیات،زمین و آسمان کی ہر شے کا انسانوں کے لئے مسخر ہونا،انسان کا مخدوم جبکہ ان سب کا خادم ہونا،وغیرہ،انکے لئے صرف مشاہدہ اور تدبر کافی ہے تجربہ کی ضرورت نہیں۔
اثبات حقائق بذریعہ تجربہ ومشاہدہ
٭اور بعض حقائق ایسے ہیں جن تک رسائی کے لئے تجربات و مشاہدات کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، کتاب و سنت میں اسکی بہت سی مثالیں ہیں ،مثلاً:
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں شہد کو شفا کا باعث قرار دیا ہے(النحل:69) اور بعض پھلوں اور میوؤں کی قسم اٹھائی ہے،جیسے انجیر اور زیتون،(التین:01) خالص دودھ کو انسان کے لئے نفع بخش قراردیا (النحل:66) مردارکو،بہتے خون کو،خنزیر کے گوشت کو انسان کے لئے حرام قرار دیا (البقرۃ:173) جو اسکے مضر صحت ہونے کا ثبوت ہے، لیکن اس سب کا انحصار تجربے و مشاہدے پر ہےکہ انکے نفع یا نقصان کی کیا صورتیں ہیں،اور یہ دونوں اپنی جگہ مسلّم ہیں ،جیسا کہ قرآن پاک میں ابراہیم علیہ السلام کی بابت ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مشاہدے کی درخواست کی اور کہا:

رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي

اے میرے مالک مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے،اللہ نے پوچھا:کیا تیرا ایمان نہیں ؟انہوں نے کہا:کیوں نہیں،لیکن میرا دل مطمئن ہوجائے(عین الیقین کے ساتھ)۔(البقرۃ:260)
ایسے ہی موسی علیہ السلام کی بابت ہے کہ جب وہ کوہ طور پر گئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ:

رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ

اے میرے مالک مجھے دکھا میں تجھے دیکھوں گا،اللہ نے فرمایا:تو مجھے نہیں دیکھ سکے گا،لیکن پہاڑ کو دیکھ اگر وہ ٹکا رہا تو مجھے تو دیکھ سکے گا ،پھر جب اس نے پہاڑ پر تجلی ڈالی اس نے اسے پیس ڈالااور موسی بے ہوش ہوکر گر پڑا، جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا:تو پاک ہے میں تیری جانب لوٹتا ہوںاور میں ایمان لانے والوں میں پہلا ہوں۔(الاعراف:143)
نبی کریم ﷺ نے مشاہدے کے متعلق ارشاد فرمایا:

لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ , إِنَّ اللهَ – عز وجل – أَخْبَرَ مُوسَى بِمَا صَنَعَ قَوْمُهُ فِي الْعِجْلِ , فَلَمْ يُلْقِ الْأَلْوَاحَ فَلَمَّا عَايَنَ مَا صَنَعُوا , أَلْقَى الْأَلْوَاحَ فَانْكَسَرَتْ

زبانی خبر آنکھوں دیکھے کی مانند نہیں ہوتی،اللہ عز و جل نے جب موسی علیہ السلام کو بتایا کہ اسکی قوم نے بچھڑے کے ساتھ کیا کیا انہوں نے تختیاں نہیں پھینکیں لیکن جب اپنی آنکھوں سے انکے کرتوت دیکھے تو تختیاں پھینک دیں پس وہ ٹوٹ گئیں۔(مسند احمد:2447-صحیح الجامع:5374)
ایسے ہی تجربہ بھی دلیل ہے،جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس نے کہا کہ اسکے بھائی کا پیٹ خراب ہے،نبی کریمﷺ نے اسکے لئے شہد تجویز کیا،جب اسکے بھائی نےشہد استعمال کیا تو اسکا پیٹ مزید خراب ہوگیا،وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور اپنے بھائی کا حال بیان کیا تو آپ ﷺ نے اسکے لئے اس بار بھی شہد ہی تجویز کیا،اسکا بھائی شہد استعمال کرنے سے مزید بیمار ہوگیا،آخر کار تیسری یا چوتھی بار میں اسے شفا ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا:

صَدَقَ اللَّهُ، وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ (صحیح بخاری:5684)

اللہ نے سچ فرمایا لیکن تیرے بھائی کا پیٹ خراب ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے ،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ، فَقَالَ: لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ، قَالَ: فَخَرَجَ شِيصًا، فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ: مَا لِنَخْلِكُمْ؟قَالُوا: قُلْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ (صحیح مسلم)

نبی کریم ﷺ کچھ لوگوں پر سے گزرے ،آپ نے دیکھا کہ وہ کھجوروں کی تلقیح کررہے تھے،آپ نے فرمایا اگر ایسا نہ کرو تو بہتر ہو،انس نے کہا کہ:انہوں نے آپ کی بات مانی تو ردی پیداوار ہوئی،آپ نے پوچھا کہ تمہاری کھجور کیسی رہی تو انہوں نے کہا کہ:ایسی اور ایسی تو آپ نے فرمایا:تم اپنی دنیا کو بہتر جانتے ہو۔
یعنی دنیا کے وہ امور جن کا تعلق شریعت سے نہ ہو ان میں تم بااختیار ہو جو تمہارا تجربہ کہے ویسا کرلو بشرطیکہ شریعت کی مخالفت نہ ہو۔
اسی طرح ایک اورحدیث میں آتا ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَاجْتَوَوْهَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ، فَتَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَفَعَلُوا، فَصَحُّوا

عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ آئے تو انہیں وہ راس نہ آیا(یعنی مدینہ میں وہ بیمار پڑگئے)رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا:اگر تم چاہو تو زکاۃ کے اونٹوں کا دودھ و پیشاپ پی لو،انہوں نے ایسا کیا تو تندرست ہوگئے۔(صحیح مسلم)
نیزکچھ لوگ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کی ولدیت میں شک کرتے تھے،تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ:

دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ مَسْرُورٌ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا المُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ فَرَأَى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَزَيْدًا وَعَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ، قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ

ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپ بہت خوش تھے،فرمانے لگے:عائشہ تجھے معلوم نہیں کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا ،تو اس نے اسامہ بن زید کو دیکھا،ان دونوں نے اپنے سر چادر سے ڈھانپ رکھے تھے،اور ان کے قدم باہر کو نکلے ہوئے تھے تو وہ کہنے لگا:یہ قدم ایک دوسرے سے ہیں۔(صحیح بخاری:6771)
یعنی یہ دونوں باپ بیٹے ہیں،یہ شخص قائف تھا یعنی قیافہ شناس جو محض قدم دیکھ کر نسب جان لیا کرتے تھے اور ان کا اندازہ کم ہی غلط ہوتا تھا،اور اسکا یہ فن مہارت اور تجربہ پر قائم تھا،نبی کریم ﷺ نے اسکے تجربے سے فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح قیلولہ،حجامہ،آب زم زم،اثمد سرمہ،عجوہ کھجور کلونجی ،رقیہ ،اسلامی طریقے پر ذبح شدہ گوشت،کتے کے سانے برتن کو سات بار پانی سے ایک بار مٹی سے دھونا، مشروب میں گرجانے والی مکھی کو نکالنے سے پہلے ڈبونا وغیرہ ایسے امور ہیں جنکی افادیت تجربے کی محتاج ہے،اور اسکے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ،غیر مسلم بھی ان سے برابر مستفید ہوسکتے ہیں۔
٭اور بعض حقائق تک سائنس کی رسائی اب تک ممکن نہیں ہوسکی،انکی تفصیل آگے آرہی ہے۔
نکتہ:کتاب و سنت میں بیان کردہ مذکورہ حقائق ایک جانب کتاب و سنت کی حقانیت کے دلائل ہیں تو دوسری جانب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں ان حقائق کو اس طرح نہیں سمجھا جاسکتا تھا جس طرح دور حاضر میں سمجھا جاتا ہے ،تو یہ اس زمانے میں کیوں بیان کئے گئے،اس سوال کا جواب بالکل آسان ہے کہ قرآن و سنت صرف اس زمانے کے لئے ہدایت ، حجت اورمعجزہ نہ تھا بلکہ دور حاضر کے لئے بھی ہے اور قیامت تک اسکا یہ اعجاز وارشاد باقی رہے گا۔

خلاصہ کلام:

اثبات حقائق کے سلسلے میں اسلامی طریقہ کارکتاب و سنت کے نصوص پر ایمان و تدبر اور تجربے و مشاہدے دونوں قسم کے دلائل پر مشتمل ہے ،اصل اعتماد نصوص شرعیہ پر ہے،جبکہ تجربہ و مشاہدہ تبعی دلائل ہیں،کیونکہ کتاب و سنت کے نصوص میں خطا کا امکان صفر ہے اس لئے کہ وہ خالق کائنات کی وحی پر مشتمل ہیں جو وحی ہمارے پاس اپنی اصل حالت میں محفوظ و موجود ہے،اور خالق کائنات خطا تو درکنارامکان خطا سے بھی پاک ہے، جبکہ تجربہ و مشاہدہ کا تعلق انسانی افعال سے ہے جو انسان مجسم خطا ہے،لہذا جب تجربہ یا مشاہدہ کتاب و سنت کے نصوص سے متضاد ہو تو اس صورت میں کتاب و سنت کو ہی ترجیح دی جائے گی،جبکہ تجربہ و مشاہدہ کی تاویل کی جائے گی اگر ممکن ہو یا اسے خطا قرار دیکر یکسر مسترد کردیا جائے گا۔
جبکہ اس سلسلے میںسائنسی علوم کا کلی انحصار مادی دلائل پر ہے،یعنی تدبر،تجربہ،مشاہدہ،ان میں سے تدبر کا تعلق عقل سے ہے،جبکہ مشاہدہ کا تعلق حواس خمسہ سے ہے، حواس سے حاصل شدہ نتائج پر تجربات کئے جاتے ہیں، اگر تجربہ نتیجہ حسیہ کے مطابق ہو تو اسے اصول یا حقیقت قرار دیا جاتا ہے،اور اگر مطابق نہ ہو تو مزید تجربات کئے جاتے ہیں تاآنکہ خاص نتیجے تک پہنچا جائے،پھر بھی غلطی کا امکان بہر حال رہتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ہر دس سال بعد نئی سائنسی تحقیقات پرانی تحقیقات کی جگہ لے لیتی ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ چند موٹے موٹے سائنسی نظریات کو چھوڑ کر اکثر نظریات خود سائنسدانوں کے مابین مختلف فیہ رہتے ہیں،کیونکہ ہر ایک اپنے تجربے، مشاہدے اور تدبر کو ترجیح دیتا ہے،جبکہ اس نوع کا اختلاف تضاد کتاب و سنت کے بیان کردہ حقائق میں نہیں پایا جاتا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء:82)

کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے ،اگر وہ اللہ کے سوا کسی کی جانب سے ہوتا تو وہ اس میں اختلاف پاتے۔

اختلافات

سائنس کے بیشتر نظریات اسلامی نظریات کے مطابق ہیں،کیونکہ دونوں ہی فطرت سے تعلق رکھتے ہیں،دین اسلام تو ہے ہی دین فطرت اسکا کوئی نظریہ فطرت سے متصادم نہیں لیکن سائنس فطرت کی تلاش میں رہتی ہے، سو جن امور میں وہ فطرت کو تلاش نہ کرسکی ان میں سائنسی نظریات اسلامی نظریات سے ٹکرا جاتے ہیں، ایسا اختلاف عام طور پر ان امور میں ہے ،جو اسلامی عقائد یا عبادات سے متعلق ہیں،جبکہ وہ امور جنکا تعلق مادیت سے ہے یا آفاقیت ،یا طبعی حقائق سے تو ان میں اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے ،اور جہاں اختلاف ہے تو یہ تضاد نہیں بلکہ تنوع ہے اور اگر دو چار نظریات میں تضاد بھی ہے تو اس لئے کیونکہ سائنس حتمی نتیجے تک نہیں پہنچی،جب پہنچ جائے گی تو یہ اختلاف بھی ختم ہو جائے گا،مثلاً:
وجود باری تعالیٰ، روح ، معجزات، جنات ،فرشتوں کا وجود،تقدیر،آخرت،عالَم جن،مقام یاجوج ماجوج، جزیرہ دجال، آسمانوں اور زمین کے دروازے،آسمانوں اور زمینوں میں سے ہر ایک کا سات کی تعداد میں اوپر تلےہونا،آسمانی خبریں چرانے والے جنات کی سزا کے لئے شہاب ثاقب کا مقرر کیا جانا،ہر ہر شے کاخواہ وہ جاندار ہو یا بے جان تسبیح بیان کرنا، عبادات کے روحانی و طبی فوائد،وہ امور جنکا تعلق خالصتاًعلم غیب سے ہے، مثلاً:عالم برزخ،عالم ارواح،عالم آخرت،جنت، جہنم، میزان،صراط،لوح و قلم،عرش، انزال وحی ،سورج کا ہرروز عرش کے نیچے سجدہ کرنا،وغیرہ۔
دین سےبیزاربعض سیکولر و لبرل حضرات دین اسلام کے عقائد کو سائنسی نظریات سے متصادم قرار دیتے ہیں ، حالانکہ عقائد کا تعلق ”ایمان“سے ہے،اس میں تجربے یا مشاہدے کا اس طور پر دخل نہیں،جس طور پر سائنس دان تجربہ یا مشاہدہ کو تحقیق کا معیار گردانتے ہیں۔
دین اسلام میں عقائد کا اثبات تجربے یا مشاہدے سے نہیں ہوتا بلکہ دین کے بنیادی مآخذ سے ہوتا ہے،یعنی کتاب و سنت سے،جبکہ کتاب و سنت کی حقانیت کا اثبات تجربہ یا مشاہدہ سے ہوتا ہے،یعنی بارہا کے تجربات جو کتاب و سنت کے صداقت میں اضافہ کرتے آئے ہیں اور معجزات کے مشاہدات جو اس امت کے نبی کے ہاتھوں صادر ہوئے اور اس امت کے پہلے اور صالح ترین گروہ صحابہ کرام نے انکا مشاہدہ کیا اور انہوں نے اپنا مشاہدہ پوری صداقت کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل کیا اسی طرح یہ محدثین تک پہنچا جنہوں نے اسے کتابوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا۔
مثلاً: شق القمر کا واقعہ ایک حقیقت ہے،جسکا بیان قرآن مجید میں ہے(القمر:1) لیکن سائنس اسے ماننے کے لئے تیار نہیں،کیونکہ انہوں نے اسکا مشاہدہ نہیں کیا،جبکہ مسلمانوں تک اس واقعہ کی خبر تواتر کے ساتھ ان لوگوں سے پہنچی ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کا مشاہدہ کیا،لیکن امید واثق ہے کہ آئندہ کسی زمانے میں وہ اسے حقیقت تسلیم کرلیں۔یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح شاید ہی کسی نے اپنے دسویں داداکو دیکھا ہو لیکن اس کے کسی زمانہ میں موجود ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
نیزبہت سے ایسے امور ہیں جن میں پہلے اختلاف تھا لیکن اب نہیں رہا،اور فتح دین اسلام کو حاصل ہوئی، سائنس نے بھی آخر کار وہی بات کہی جو اسلام 1400 سالوں سے کہتا آرہا تھا،مثلاً:سورج کی حرکت،کائنات کا وسیع ہونا،ایٹم کا قابل تقسیم ہونا،وغیرہ۔

ترجیحات و تصدیقات

اب تک کی تحریر سےیہ بھی معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کے پیش کردہ نظریات سائنسی تصدیق و تائید کے محتاج نہیں کیونکہ ان میں حقیقت کو خود حق تعالیٰ بلاواسطہ تجربہ و مشاہدہ بیان کردیتا ہےبلکہ سائنسی نظریات کتاب و سنت کی تائید و تصدیق کے محتاج ہیں کہ یہ مفروضے و خیال سے حقیت بننے کے سفر کے دوران بہت سے مقامات پر بھٹک چکا ہوتا ہے۔
وہ تمام حقائق جنکا جاننا انسان کے لئے مفید ہوسکتا ہے سب کے سب قرآن مقدس اور حدیث مقدس میں بیان کردیئے گئے ہیں البتہ صحیح وقت پر وہ خودبخود آشکار ہوجاتے ہیں،جیسے ہی کوئی ماڈرن نظریہ پروان چڑھتا ہے یا کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہےعلماء اسلام اسکے متعلق کتاب و سنت میں تحقیق شروع کردیتے ہیں،اور اسکے صدق یا کذب کا فیصلہ کرلیتے ہیں،عام طور پر اسکے بارے میں کوئی نہ کوئی واضح آیت پائی جاتی ہے،یا کسی حدیث میں اسے بیان کیا گیا ہوتا ہے،یا اسکی جانب کوئی نہ کوئی اشارہ مل جاتا ہے،آج تک سائنس ایسی کوئی حقیقت پیش نہیں کرسکی جسکے متعلق کتاب و سنت مکمل اندھیرے میں ہوں،اور ہمارا دعویٰ ہے کہ آئندہ بھی ایسا نہ ہوسکے گا،یہ اس بات کا بڑا واضح ثبوت ہے کہ کتاب و سنت ہی تمامتر حقائق کے اصل ماخذ و مصدر ہیں،تمامتر علوم نافعہ کا منبع و سرچشمہ یہی کلام ہے اور یہ انسانی کلام نہیں بلکہ خالق کائنات کا کلام ہے۔
جب ایسا ہے تو لازماً ترجیح و فوقیت کتاب و سنت کو حاصل ہے ،اور مصدّق یعنی تصدیق یا تکذیب کرنے والا بھی کلام اللہ ہے،نہ کہ سائنس،جبکہ کتاب و سنت سائنس کی تصدیق یا تکذیب کی قطعاً محتاج نہیں،نہ ہی سائنسی نظریات کتاب و سنت کی معتبر تشریح کہلائے جانے کے مستحق ہیں،کیونکہ کوئی بھی تشریح اصل متن کی مبادیات و اساسیات کی مخالف نہیں ہوسکتی،جبکہ سائنس کتاب و سنت کے بنیادی عقائد کی منکر ہے،سو جب سائنس کتاب و سنت کے مصروحہ عقائد کو ہی نہیں مانتی تو اسے کتاب و سنت کی پیش کردہ فروعات کے سلسلے میں کس طرح حجت یا مہیمن مانا جاسکتا ہے؟۔
نیز سائنسی نظریات کی عدم ترجیح کی ایک علمی وجہ یہ بھی ہے کہ سائنسی نظریات تجربات و مشاہدات کے بہت سے مراحل در مراحل سے گزر کر حاصل ہوتے ہیں،باالفاظ دیگر بعض امور مظنونہ کو بعض امور معلومہ کے ساتھ ترتیب دے کر نتیجے تک پہنچا جاتا ہے،اور خاص نتیجے تک پہنچ کر بھی غلطی کا احتمال باقی رہتا ہے،اس اعتبار سےاس نوع کے تمامتر سائنسی حقائق فی الحقیقت ”حقیقت“ کہلائے جانے کے مستحق نہیں ، زیادہ سے زیادہ اسے” ظن غالب“ یا ”امر راجح “یا ”نظریہ “کہا جاسکتا ہے۔
جبکہ کتاب و سنت میں بیان کردہ کردہ حقائق کا تعلق روایت سے ہے،اور روایت کے متعین اصولوں اور شروط کے کڑے معیار سے گزر کر جو خبر ہم تک پہنچتی ہے (خواہ وہ عقیدے سے متعلق ہو یا کسی اور شے سے متعلق)علمی طور پر وہ ”علم“یا” حقیقت“کہلائے جانے کی مستحق ہوتی ہے۔
دعوت دین بذریعہ سائنسی نظریات
دین اسلام سچا دین ہے اور اسکی سچائی کتاب و سنت میں منحصر ہے،اور یہ ہمارا سرمایہ افتخار ہے،لیکن جو شخص اسلام کو سچا دین نہیں مانتا اُسے سمجھانے کے لئے اسلامی عقائد و تعلیمات کی خوبیاں اور انکا فطری ہونا،اور عقل کے مطابق ہونا بیان کرنا چاہیئے،اس ضمن میں اگر کوئی سائنسی نظریہ بطور ثبوت یا تائید کے پیش کرنا پڑے تو ایسا کرنا بالکل جائز ہےبشرطیکہ:
٭دعوت” دین اسلام“ کی طرف ہو نہ کہ سائنس کی طرف۔
٭سائنسی نظریہ صرف تائیدی شہادت کے طور پر پیش کیا جائے ،نہ کہ اصلی دلیل کے طور پر۔
٭صرف ضرورت پڑنے پر سائنس کو دلیل بنایا جائے، بلا ضرورت ایسا نہ کیا جائے۔
٭سائنسی نظریے کےساتھ اسلامی نظریہ بھی ترجیحاً پیش کیا جائے۔
٭سائنسی شہادت پیش کرنے کا مقصد دعوت دین یا دفاع دین اسلام ہو،نہ کہ سائنسی معلومات کا اظہار کرنا۔
٭سائنسی نظریات کو کتاب و سنت کی تفسیر کے طور پر نہ پیش کیا جائے۔
٭ کسی سائنسی نظریے کے اثبات کی خاطر یا کسی آیت یا حدیث کو سائنسی نظریے کے مطابق کرنے کی خاطرکسی آیت یا حدیث کی باطل تاویل نہ کی جائے۔
٭کسی طرح کی مرعوبیت کی بنا پر ایسا نہ کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ دین اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔آمین

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے