الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين وعلى آله وأصحابه ومن اتبعهم الى يوم الدين، أما بعد :

جیساکہ عنوان سے واضح ہو رہا ہے کہ زمانہ قدیم میں الحاد کا تصور پایا جاتاتھا؟یہاں ایک ضروری بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اگرہم الحاد کا معنی اردو زبان میں لیتے ہیں تو اس کا تصور زمانہ قدیم میں کہیں بھی موجود نہیں تھا کیونکہ اردو زبان میں الحاد کا معنی ہر خالق اور وجود باری تعالیٰ کا انکار ہے اور اگر عربی زبان میں الحاد مراد لیں گے تونام کے لحاظ سے نہیں بلکہ عملا ملحدین موجود تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [فصلت:40]

بیشک جو لوگ ہماری آیتوں سےاعراض و انحراف کرتے ہیں وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔
یہاں ہم ملحدین کی تاریخ جاننے کے لئے کوئی تاریخی کتاب یا کسی فلاسفر کی کتاب اٹھا کر مطالعہ نہیں کریں گے بلکہ قرآن کریم سے ملحدین کا ٹولہ جاننے کی کوشش کریں گے اس پہلے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں الحاد ہے کیا؟؟ الحاد کا کیا معنی ہے؟
الحاد کا لغوی معنی: ”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔ (المنجد) اور تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:

”الالحاد: المیل والعدول، ومنه اللحد فی القبر، لأنه میل الی ناحیة منه “(تفسیرسورۃ حم سجدۃ:40)

’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔
اصطلاحی معنی: اصطلاح میں ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا زیادہ مشہوراورصحیح ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد،

جیساکہ تفسیر کبیر میں مذکور ہے:

فالملحد هو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل (تفسیر سورۃ حم سجدۃ:40)
”ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “۔
اور تفسیر روح البیان میں مذکور ہے:

ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة (تفسیر سورۃ حم سجدۃ:40)

”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں
پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں۔
ہم الحاد کے معنی جاننے کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں زمانہ قدیم میں الحاد کا تصور تھایا نہیں ؟؟ جب سے انسان نے اللہ تعالی کے احکامات میں اپنی من مانی شروع کی وہاں سے الحاد کی تاریخ رقمطراز ہوتی ہے ، اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا اس وقت ان کی قوم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا میں غرق تھی اور الحاد کی تاریخ یہاں سے شروع ہوتی ہے، آپ نے کم وبیش ساڑے نو سو سال قوم کو اللہ کی طرف بلایا اور قوم جواب کیا دیتی تھی آئیے قرآن کریم سے پوچھتے ہیں اللہ تعالی نے سورہ ھود میں قوم نوح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ أَنْ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ [هود: 25 – 27]

یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیںاور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کےاور کوئی نہیں جو بےسوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں ۔
یہی الحادی سوچ ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت کا اجتماع ممکن نہیں اور اسی طرح اہل اسلام اور اسلام پر پختہ لوگوں کو دنیا کے حقائق سے دور سمجھنا اور ان کو نیچا گرداننا اس وقت کے ملحدین کا شیوہ تھااور جوکہ آج بھی ہے اسی طرح قوم نوح کی حالت سورہ نوح میں مفصل بیان کی گئی ہےکہ قوم نوح کتنے بتوں کی عبادت کرتے تھے؟ اور ان کے کیا نام تھے۔؟ وغیرہ۔
قوم نوح کی اللہ کے دین سے انحراف واعراض کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی طرف آئے ہوئے نبی سے عذاب الہی کی طالب تھی۔ جس کا نقشہ رب کائنات نے یوں کھینچا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

قَالُوا يَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ [هود: 32]

اے نوح علیہ السلام تم نے ہم بحث کرلی بہت زیادہ بحث کی ہے اب اگر تو سچا ہے تو جس چیز سے ہمیں ڈرا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آاگر تو سچوں سے ہے۔
اس طلب عذاب الہی کے بعد اللہ تعالی نےاس قوم پر درد ناک عذاب نازل کردیا اور مؤمنین کے علاوہ باقی سب تباہ و برباد ہوگئے یہی حال ہر اس انسان کا ہوگا جو اللہ تعالی کے احکامات سے منہ پھیرنے والا ہوگا۔
ہم مضمون کے اختصار کے لئے پہلے دنیا میں آنے والے نبی کے بعدآخری دنیا میں آنے والے نبی محمد عربی ﷺ اور اس کے زمانے میں پائے جانے والے ملحدین کی طرف آتے ہیں، جس طرح سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانہ میں ملحدین کے نام سے کوئی نہیں ویسا ہی آپ ﷺ کےزمانہ میں ملحدین کے نام سے کوئی نہیں تھا لیکن عملا اللہ کے انکار کرنے والے پائے جاتے تھے جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ[الجاثية: 24]

ان لوگوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے ،ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارڈالتا ہے در اصل انہیں اس کا کوئی علم ہی نہیں ہے یہ تو صرف گمان کررہے ہیں۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف صاحب اپنی تفسیر احسن البیان میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: یہ دہریہ اور ان کے ہمنوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے ،وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی پہلی اور آخری زندگی ہے ،اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت وحیات کا سلسلہ محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے ، جیسے فلاسفہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت پر لوٹ آتی ہے ۔ اور یہ سلسلہ کسی صانع اور مدبر کے از خود یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔
جب اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں یہی دہریہ اور ان کے ہمنوا مشرکین مکہ اللہ تعالی کی ربوبیت کا اقرار بھی کرتے تھے اس عقیدہ سے متعلق قرآن کریم سے پوچھتے ہیں کہ میرایہ دعویٰ کہاں تک سچ ہے اللہ تعالی سورۃ یونس میں حکم صادر فرمارہے ہیں ، آپ ان مشرکین سے پوچھ لیں تمہیں رزق دینے والا ، زندہ کو مردے سے نکالنے والا کون ہیں تو وہ جواب دیں گے اللہ ہی ہے جیسا کہ فرمایا:

قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ [يونس: 31]

آپ کہہ دیجئے کہ وہ کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے ،اور وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندے کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں میں تدبیر کرتا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ، تو ان سے کہیے پھر کیوں نہیں ڈرتے۔
اسلام میں الحاد کی ابتدا خوارج کی شکل میں ہوئی جیسا کہ یہ صحیحین میں ہے کہ بنو تمیم سے ایک آدمی اللہ کے نبی ﷺکی تقسیم پر اعتراض کررہاتھا ۔

عن أبي سعيد قال بينا النبي صلى الله عليه وسلم يقسم جاء عبد الله بن ذي الخويصرة التميمي فقال اعدل يا رسول الله فقال ويلك ومن يعدل إذا لم أعدل قال عمر بن الخطاب دعني أضرب عنقه قال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاته وصيامه مع صيامه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية (صحيح البخاري:6933)

سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ ہم میں مال تقسیم فرمارہے تھے اتنے میں عبد اللہ بن ذو خویصرہ تمیمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ انصاف کر آپ ﷺ نے فرمایا : تم برباد ہو اگر میں انصاف نہ کروں تو کون کرےگا ۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑا دوں ،آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو کیونکہ اس کے اور ساتھی بھی ہیں جن کو تمہاری نماز اور روزہ اپنی نماز اور روزے کے بدلے حقیر دکھائی دیںگے اور یہ لوگ دین سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر قوس سے نکل جاتا ہے۔
خلاصہ: قرآن اور حدیث کے مطالعے سے یہی معلوم ہوتا ہےکہ جو آج کے ملحدین ہیں ان کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن اللہ اور اس کے رسول کے انکار کرنے والے اور دین سے منحرف ملحد بہت تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے