سب کچھ الفاظ ہی کا ممنون ہے کائنات بھی ایک حکم کے نتیجہ میں معرض و جود میں آئی انسان کو انسانیت کا درس دینے کی تمام تر رہنمائی الفاظ ہی سے عبارت ہے ایک لفظ کہنے پر انسان اسلام سے کفر میں ،کفر سے اسلام میں داخل ہو سکتا ہے ملکوں او ر حکمرانوں کےفیصلے بھی انہی الفاظ سے کیے جاتے ہیں گویاکہ قوموں کی آزادی اور غلامی کے فیصلے بھی الفاظ سے ہی کئے جاتے ہیں کیونکہ لفظ سے خیال پھوٹتا ہے خیال سےارادہ جنم لیتا ہے ارادے کی گود میں عمل کی پیدائش ہوتی ہے عمل سے عادت بنتی اور عادت کردار کی استاد ہے جس کی تراش خراش سے تمام شخصیت تشکیل پاتی ہے ۔یہ تمہید میں نےاس لیے باندھی ہے کہ آگے چل کر میں بتانا چاہوں گا کہ ہمیں الفاظ کا چناؤ اوراستعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے مذہبی اور سیاسی لیڈرز الفاظ کے استعمال میں احتیاط نہیں برتتے جیسا موجود ہ حکومت نے چند دنوں پہلے انتخابی اصلاحات کےقانون میں ایمان کے لازمی جزو کو رسمی اقرار میں بدل دیا۔ نامزدگی فارم میں تبدیلی کر کے عقیدۂ ختم نبوت پر صدق دل سے قسم کی شرط ختم کر دی۔
نوازشریف کو پارلیمانی سیاست میں واپس لانے والے نئے قانون نے تو عقیدۂ ختم نبوت پر بھی وار کر ڈالا۔ نئے نامزدگی فارم کو منفرد بنا دیا گیا جس میں صدق دل سے قسم اٹھانے کے الفاظ حذف کرکے یعنی ختم نبوت کا اب زبانی، کلامی، سطحی، سرسری اور کھوکھلا اقرار ہی کافی ہے۔قانون ختم نبوت کی دیوار میں رخنہ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کیا پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ جبکہ قادیانی اعلی حکومتی مناصب پر پہلے سے ہی براجمان ہیں ۔مگر ہمیں 7 ستمبر 1974کا دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا یاد گاردن یاد رہنا چاہیے جب 1953اور1974کےشھیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی اوراسلامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئےکی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیا ۔
دستور کی دفعہ 260میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہو ا ہے ’’جو شخص خاتم النبیین محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمد ﷺ کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر یامذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔’’
اسلام کو اس ملک میںکبھی کوئی خطرہ لاحق نہیںرہا اسلام ایک اخلاقی سماجی اور تہذیبی قوت ہے یہ اب اپنے و جود کی بقا کے لئے ریاست کا محتاج نہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو انگریز کے دور میں ختم ہو گیا ہو تا اسے ترکی میں دم توڑدینا چاہیےتھا مسلمان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا جب ان کے پاس کو ئی سیاسی قوت نہ تھی اس کے باو جود نہ صرف باقی و قائم رہا بلکہ بین الاقوامی سیاست میں ایک بڑے اوراہم کردار کے ساتھ پھراس نےاپنا وجود منوایا ۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہےکہ اسلام ایک سیاسی عمل کا نتیجہ ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر سیاسی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں نہ آ ئی تو اسلام باقی نہیں رہے گایعنی ان کا خیال ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لئےاسلام آباد پر قبضہ ضروری ہے 

چا ہے اس کی کوئی بھی قیمت اد اکر نی پڑے ایمان فروخت ہو جائے، کردا ر داغ دارہو جائے قائدین کو سرعام جھو ٹ بولنا پڑےنصوص صریحہ کی من منائی تاویلیں کر نی پڑے ، ٹھنڈے کمروں اور لگژری گاڑیوں کے مزے لیتے ہوئے کہاں جائے ہم حالت جنگ میںہیں اس لئے ہر طرح کا جھوٹ جائز ہےاگر ایسا نہ کیا تو اسلام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کل تک جو چیز حرام تھی سیاست کے لیے حلال ہو گئی ہے۔کل تک جو چیز شیطان کہلاتی تھی آج وہ ذریعہ شہرت ہے جس پر کفر کے فتوےلگائے جاتے تھے آج وہ عین اسلام ٹھہری عوام کہاں جائے کس کی بات مانے ،مذہبی جماعتوں کی یا سیاست دانوں کی، سیاست دانوں کے بارے میں تو معروف ہے کہ وہ بڑے سے بڑا جھوٹ بول کربھی کہتے ہیں یہ فیصلہ ہم قوم کے وسیع تر مفاد میں کر رہیں ہیں چاہے وہ حلال وحرام کے متعلق ہی کیوں نہ ہو مگر اسلام کے نام پر پلنے والی مذہبی جماعتوں اور تنظیموںکا کیا کریں کہ جو اسلام کے مسلمہ اصولوںکو اپنے دنیاوی مفاد ،اپنی سیاست کی خاطر تبدیل کر رہے ہیں عوام کو یہ باور کروایا جارہا ہے کہ ہم مذہبی بن کر تواسلام کی خدمت نہ کرسکےاور اب سیاستدان بن کر ہم اسلام کی خدمت پہلے سے زیادہ کریں گے۔گویا کہ یہ جواب دیا جارہا ہے کہ ابھی ہمیں کھل کر جھوٹ بولنے دیں کل کوسیاسی لیڈر بن کراسلام کی خدمت وسیع پیمانہ پرکرکریں گے ۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والےان موسمی سیاستدانوں سے کوئی پوچھے کہ سادہ لوح عوام جو کہ اسلام ،جہاداور ختم نبوت پر مر مٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی اور جس عوام نے اپنے خون پسینے کی کمائی اسلام اور جہاد کے نام پر نچھاور کی،کیاانہوں نےآپ کو اس جھوٹ کے بازار میںسوداگر بننے کے لیےچندہ دیا تھا ۔کیا جھوٹ کا سہارا لے کر اسلام کی خدمت جائز ہے ؟یقیناًناجائز ہوگی تو پھر ان جماعتوں کوہوش کے ناخن لینے چاہیے کیونکہ برائی کبھی بھی اچھائی کی ترویج کا ذریعہ نہیںبن سکتی عوام سے جمع کیا گیا مال ان کے پاس امانت ہے جو انہیں اسلام کی تعمیر و ترقی اور ترویج کے لیے دیاگیا ہے اس امانت میں خیانت کا ارتکاب نہ ہی کیا جائے تو اسی میںہم سب کی دنیا وآخرت کی بھلائی ہے ۔
پاکستان میں امام کعبہ کی آمد:
مسجدالحرام کے امام وخطیب ڈاکٹرصالح بن عبد اللہ بن محمدبن حمیدحفظہ اللہ ورعاہ تین روزہ دورے پر وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی خصوصی دعوت پر پاکستان آئے تھے۔ڈاکٹر صالح کا شمارعالم اسلام کے چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے۔ وہ سعودی عرب میںسپریم علماء کونسل اور او آئی سی کے ذیلی ادارے مجمع الفقہ الاسلامی کے رکن بھی ہیں۔نیزڈاکٹرصالح نے مختلف موضوعات پرلاتعدادکتابیں تصنیف کی ہیں۔ علمی ودینی خدمات کے علاوہ وہ سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے صدر بھی رہے ہیں۔ فی الوقت وہ شاہی کورٹ کے ایڈوائزر ہیں، جو وفاقی وزیر کے مساوی عہدہ ہے۔1404ھجری سے وہ مسلمانوں کی سب سے مقدس مسجد ،مسجد الحرام میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹرصالح اپنے دورہ ٔ پاکستان کے دوران مختلف تقریبات کے علاوہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے لئے بڑےفخر کی بات ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے انکو مدعو کیا ۔ پاکستان اور سعودی عرب یکجان دو قالب ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ پاکستان میرا دوسرا وطن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے لیے تین ضروری شرائط تقویٰ ،اخلاص اورحسن کارکردگی ہیں۔ دنیا میں وہ ممالک عدم استحکام کا شکار ہوئے جو اپنا اتحادواتقاق برقرار نہ رکھ سکے اور انتشار کا شکار ہوئے۔ذاتی مفاد کے بجائے ملکی و قومی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ اسلام آباد میں ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئےڈاکٹر صالح نے اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےسیدنا موسیٰ اورسیدنا ہارون علیہماالسلام کی مثال دی کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم راہ راست سے ہٹ گئی توسیدنا موسیٰ علیہ السلام نے واپس آکر اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو ڈانٹا کہ انہیں کیوں نہیں روکا۔سیدناہارون علیہ السلام نے کہاکہ میں انہیں روکتا تو ان میں اتحادواتقاق نہ رہتا،یعنی کچھ میری بات مانتے اورکچھ نہ مانتے۔ اس سے اتحاد ویکجہتی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ڈاکٹرصالح نے کہاکہ امت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل اتحاد واتفاق میںمضمرہے۔ اسی سے دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ انہوں نے فرقہ واریت کوزہر قاتل قراردیا۔ حرمین شریفین کی امامت وخطابت بلاشبہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے اہم دینی منصب ہے۔ان ائمہ کرام کی تقر ری بھی انتہائی کڑی شرائط کی بنیاد پر خود سعودی فرمانروا کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی باتوں کی اہمیت بھی مسلّم ہے۔ امام حرم کی فکر انگیزباتوں کو اپنےقومی وذاتی وجود پر عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب قرآن کریم میں بھی اختلاف وانتشارسےبچنے اور اتحادواتفاق کوقائم رکھے پر زوردیا گیا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے