عقیدت و محبت یا کسی کی وجہ سے یہ سمجھنا اور عقیدہ بناناکہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت، ریاضت سے خوش ہو کرانہیں اپنی خدائی میں کچھ اختیارات عنایت کر رکھے ہیں۔ یہ شرک ہے کیونکہ اہلِ مکہ حج اور عمرہ کے موقعہ پر یہی شرک کرتے تھے جس سے ان کو روکا گیا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ  قَالَ كَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ قَالَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللهِ eوَيْلَكُمْ قَدْ فَيَقُولُونَ إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ يَقُولُونَ هَذَا وَهُمْ يَطُوفُونَ بِالْبَيْتِ (رواہ مسلم: باب التلبیۃ و صفتھا و وقتھا)

سیدنا ابن عباس w بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کا تلبیہ یہ تھا۔ ’’اے اللہ! میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ‘‘ یہ سن کر رسولِ اکرمe فرماتے‘ ہلاک ہو جاؤاسے چھوڑ دو ! مشرکین تلبیہ میں یہ اضافہ کرتے تھے۔ ’’ماسوائے اس شریک کے جس کو تو نے خود اختیارات دے رکھے ہیں۔‘‘ حقیقتاً خودوہ بادشاہ اور مالک نہیں ہیں۔ یہ تھا ان کا تلبیہ جو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اہلِ مکہ کہتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کوحقیقی مالک و مختار مانتے اور پکار تے تھے تاہم انکا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیار ات فوت شدہ بزرگوں کو دے رکھے ہیں۔ جس بناء پر وہ یہ تلبیہ کہتے اور دعا کرتے ہوئے اپنے بزرگوں کو وسیلہ اور طفیل کے طور پر اللہ تعالیٰ کے شریک بناتے تھے۔ آپ e فرماتے کہ ہلاک ہو جاؤ اب یہ شرک تمہیں چھوڑ دینا چاہیے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی شرکیہ عقیدہ کی پہلی اور بڑی بنیاد ہے باقی عقائد اس کے لوازمات اور متعلّقات ہیں۔ اگر اس بات پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی یہ عقیدہ رکھنا کہ مدفون لوگ سنتے اور دیکھتے ہیں، غیب جانتے اور مدد کرتے ہیں اور قیامت کے دن سفارش کریں گے۔ یہ تملیک کے عقیدے کے ہی تقاضے ہیں۔ قرآن مجید نے اس تملیک اور اختیارات کی مذمت اور تردید کرتے ہو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے:

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ وَ مَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّ مَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ(سبا: ۲۲)

’’اے نبی! مشرکین سے فرما ئیںکہ شرک کرنے والو! اپنے اُن کو بلائو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھتے ہو ، وہ زمین و آسمانوں میں ذرّہ برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں نہ وہ آسمانوں وزمین کی ملکیت میں شریک ہیں اور نہ ہی اُن میں کوئی اللہ کا مددگار ہے۔‘‘

قُلْ لَّا اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَ مَا مَسَّنِيَ السُّوْٓءُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ (الاعراف:188)

’’فرما دیں کہ میںتو اپنے لیے بھی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ ہاں !جو اللہ چاہے اوراگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی خیر حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ، میں صرف انتباہ کرنے والا اور خوشخبری دینے والاہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
قرآن مجید نے متعدد مقامات پر عقیدۂ توحید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی ، نبی اور فرشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ اسے اپنے یا دوسرے کے نفع و نقصان کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ لیکن افسوس فرقہ واریت کی لہر میں بہہ کر بڑے بڑے علماء کھلم کھلا ایسے اقوال اور واقعات نقل کرتے ہیں جو واضح طور پر قرآن و سنت کے منافی ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ایک عالم نے کچھ اقوال کے ذریعے اپنا کمزور عقیدہ ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:
اس آیت کریمہ میں حضوراکرم  اپنی ذات مقدسہ سے الوہیت کی نفی فرما رہے ہیں کہ میں خدا نہیں کیونکہ خدا وہ ہے جس کی قدرت کامل اور اختیار مستقل ہے جو چاہے کر سکتا ہے نہ کسی کام سے اُسے کوئی روک سکتا ہے اور نہ اُسے کسی کام پر مجبور کر سکتا ہے اور مجھ میں یہ اختیار کامل اور قدرت مستقلہ نہیں پائی جاتی ۔ میرے پاس جو کچھ ہے میرے رب کا عطیہ ہے اور میرا سارا اختیار اسی کا عنایت فرمودہ ہے ۔ ’ لَا اَمْلِکُ ‘ کے کلمات سے اپنے اختیار کامل کی نفی فرمائی اور ’’اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہُ ‘‘ سے اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا کہ کوئی نادان یہ نہ سمجھے کہ حضور کو نفع و ضرر کا کچھ اختیار ہی نہیں ۔ فرمایا مجھے اختیار ہے اور یہ اختیار اتنا ہی ہے جتنا میرے رب کریم نے مجھے عطا فرمایا ہے اب رہی یہ بات کہ کتنا عطا فرمایا ہے تو انسانی عقل کا کوئی پیمانہ اور کوئی اندازہ اس کا احاطہ نہیں کر سکتا کوئی بناوٹی حد قائم نہیں کی جا سکتی ۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کو ’’قُلْ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کیا اورحکم فرمایا کہ اے نبی!کہتے جائیں کہ میں اپنے رب کی دعوت اورعبادت میں کسی کوشریک نہیں کرتا اورنہ ہی میں اس کی خدائی میں اختیارات رکھنے کا دعویٰ کرتاہوں۔ میری دعوت اور اعلان یہ ہے کہ میں نہ تمہارے نفع اور نقصان کامالک ہوں اور نہ اپنے بارے میں کوئی اختیارات رکھتاہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑنے پر آئے تو مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اورنہ اس کی پکڑ سے مجھے کوئی چھڑاسکتا ہے۔

قُلْ اِنَّمَا اَدْعُوْا رَبِّيْ وَ لَا اُشْرِكُ بِهٖ اَحَدًاقُلْ اِنِّيْ لَااَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا رَشَدًا (الجن:21 20)

’’اے نبی فرما دیں کہ میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ فرما دیں کہ میں تمہارے لیے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا۔‘‘
حضرات! شیطان کا سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ انسان سے شرک کروائے، مشرک یہ گمان کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بزرگوں کو اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے جس کی تردید کرتے ہوئے ارشاد ہوا: ’’اے پیغمبرe! جو اللہ کے سوا دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے اور پکارتے ہیں انہیں فرمائیں کہ وہ ان کو اپنی مدد کے لیے بلائیں، انہیں معلوم ہو جائے گاکہ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرہ کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں، نہ ہی ان میں کسی چیز میں حصہ دار ہیں اور نہ ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی معاون اور مدد گار تھا نہ ہے اور نہ ہو گا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں رائی کے دانے کے برابر بھی حصہ دار نہیں تو اس کے حضور سفارش کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے ۔اللہ تعالیٰ کے حضور وہی سفارش کرپائے گا جسے وہ اجازت عنایت کرے گا۔ اس کے باوجود ہر دور کے مشرکوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت اور ریاضت سے خوش ہوکر انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اس لیے اگر بزرگ کسی کے حق میں سفارش کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو مسترد نہیں کرپاتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ایسا اختیار نہیں دیا البتہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ سفارش کا حق دے گا وہ بھی کسی کے حق میں اتنی ہی سفارش کریں گے جتنی اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔

يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَايَسْمَعُوْا دُعَآءَكُم وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ وَ لَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ (فاطر:14، 13)

وہ دن میں رات اور رات میں دن کو داخل کرتا ہے ،چاند اور سورج کو اُسی نے مسخر کر رکھا ہے ہر کوئی وقت مقرر تک چلا جا رہا ہے، وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اُسی کی ہے اس کے سِوا جن کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے پردے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکارسن نہیں سکتے اور اگر سُن لیں تو اس کا تمہیں جواب نہیں دے سکتے، قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر یں گے ایسی خبر تمہیں ’’ اللہ ‘‘ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔‘‘
’’قِطْمِیْرُ‘‘کھجورکے اس پردے کو کہاجاتا ہے جو اس کی گٹھلی کے درمیان پایا جاتا ہے یہ پردہ اس قدر باریک اور نازک ہوتاہے کہ اکثر اوقات کھجور کے گودے کے ساتھ ہی چمٹا رہتا ہے اوردیکھنے والے کو دکھائی نہیں دیتاگویا کہ بہت ہی حقیر اور کمزور ہوتا ہے مگر مشرک ان لوگوں کو خدا کی خدائی میں شریک کرتے ہیں جن کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں ۔
قرآن مجید باربار ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو نہ پکارا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ سے بھی مدد مانگتاہے اور اس کے ساتھ بتوں ، فوت شدگان ،جِنّات ،ملائکہ یا کسی غیر مرئی طاقت سے بھی امداد طلب کرتاہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے قیام، رکوع، سجدہ اورنذرونیاز پیش کرتاہے اسی طرح ہی دوسروں کے سامنے جھکتا اور نذرانے پیش کرتا ہے گو یا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی عبادت کرتا اور ان کو پکارتا ہے ۔ یاد رہے کہ قرآن مجید اس بات سے بھی روکتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارا جائے پہلے طریقہ کے لیے’’ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور دوسرے کے لیے ’’مِنْ دُوْنِ اللّٰہ ‘‘یا ’’مِنْ دُوْنِہٖ‘‘کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس کا صاف معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد طلب نہیں کرنی چاہیے ۔بے شک وہ سیدنا عیسیٰu ہوں یا سیدنا عزیر uیا کوئی فوت شدہ ہستی، تمام فوت شدگان کے بارے میں یہی ارشاد ہے کہ وہ نہیں سُنتے بفرضِ محال اگر وہ سن بھی لیںتو وہ تمہاری فریاد کا جواب نہیں دے سکتے ۔قیامت کے دن جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ اپنے پکارنے والوں کا انکار کردیں گے اگر
سُن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے یہ الفاظ لا کر ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی نہ سُن سکتے ہیں اور نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔
لوگو! سنو اور سوچو! تمہارا رب تمہیں شرک کے بارے میں کس طرح باربار روکتاہے اور اسے کھول کھول کربیان کرتا ہے اس علیم و خبیر کے سوا کوئی تمہیں اس طرح نہ سمجھاسکتا ہے نہ بتلا سکتا ہے اور نہ ہی تمہاری خیرخواہی کر سکتا ہے۔

يٰاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ وَ اِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـًٔا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ

’’اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو!اللہ کو چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے کمزور ہیں ان سے مددمانگنے والے اور جن سے مدد مانگی جاتی ہے وہ بھی کمزور ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جس طر ح پہچاننے کا حق ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا طاقتور اور بڑی عزت والا ہے ۔‘‘(الحج:73، 74)
حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں جانی جس طرح اُس کی قدر جاننے کا حق تھا ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے ۔ان الفاظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مشرک کو شرک سے بالفعل روکنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں وہ ہر قسم کی قدرت اور غلبہ رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی بے ثباتی ثابت کرنے اور اس سے نفرت دلانے کے لیے ایسے جانور کی مثال دی ہے جس سے ہر آدمی نفرت کرتا ہے ۔ عام مکھی کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ یہ مکھی اس بات کا امتیاز نہیں کرتی کہ جس چیز پر بیٹھ رہی ہے وہ کس قدر غلیظ اور بدبو دار ہے یہی وجہ ہے کہ ایک وقت وہ گندگی کے ڈھیر پر بھنبھنا رہی ہوتی ہے اور دوسرے لمحہ کھانے والی چیز پر جا بیٹھتی ہے۔ مکھی اور کتاکسی چیز سے سیر نہیں ہوتے اس لیے مشرک کی مثال کتے کے ساتھ بھی دی گئی ہے ۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ اِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ (الاعراف:173 تا 176)

’’اور انہیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنائیں جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں لیکن وہ ان سے نکل گیا، بس شیطان نے اسے اپنے پیچھے لگالیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا، اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کر دیتے مگر وہ زمین کے ساتھ چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ اس کی مثال کتے کی طرح ہے کہ اگر آپ اس پر حملہ کریںتوزبان نکال کر ہانپتا ہے یا اسے چھوڑ دیں توبھی زبان نکالے ہانپتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا آپ ان کو یہ سنائیں تاکہ وہ ان پر غوروفکر کریں ۔‘‘
یہ بے شمار کلمہ گو حضرات کا حال ہے ۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے وہ تو شرک کرنے کی وجہ سے اس حد تک انسانیت سے گر چکے ہیں کہ ان میں کچھ لوگ جانوروں، سانپ اور بچھو کی پوجا کرتے ہیں۔ درحقیقت مشرک نے اپنے رب کی قدر کو نہیں پہچاناجس وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ذلیل کر دیتاہے۔

وَ رَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ يَخْتَارُمَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

’’آپ کا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور منتخب کرتا ہے جسے چاہتا ہے ۔اس انتخاب کا لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے ۔اللہ پاک ہے اور بہت بلند و بالا ہے اس شرک سے جو لوگ کرتے ہیں۔‘‘(القصص:68)
یہاں شرک کی نفی ایک خاص انداز میں کی گئی ہے مقصود یہ بتلانا ہے کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھول کر دوسروں کو اپنا معبود اور مشکل کشا بنا لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے اختیار سے باہر ہیں ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمتِ کا ملہ کا نتیجہ ہے کہ اس نے لوگوں کو ہدایت اور گمراہی کے بارے میں اختیار دے رکھا ہے کہ دونوں میں سے وہ جس راہ کا چاہیں انتخاب کرلیں کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس فطرت پر چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس کو کس قسم کی صلاحیتیں دینی چاہئیں وہ جسے چاہتا ہے اپنے کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے اس کی تخلیق اور اس کے اختیارات میں کوئی بھی مداخلت نہیںکر سکتا اور نہ ہی اس نے کسی مردہ یا زندہ بزرگ کو اپنی خدائی میں شریک بنایا ہے وہ ہر قسم کی شراکت داری سے مبرّا اور مشرکوں کے کردار اور تصورات سے بلند و بالا ہے ،وہ لوگوں کے دلوں کے حال جانتا ہے کہ لوگ کس نیت اور مفاد کی خاطر اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک ٹہراتے ہیں ۔ اس کی قدرت اور اختیارات کا عالم یہ ہے :

قُل اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ

’’اے نبی! ﷺ انہیں بتلائیںکہ کبھی تم نے غور کیا ہے کہ اگر اللہ قیامت تک رات طاری کر دے۔‘‘

مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَآءٍاَفَلَا تَسْمَعُوْنَ

’’تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو تمہارے لئے روشنی لے آئے کیاتم سنتے نہیں ہو؟۔‘‘

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ

’’ان سے پوچھیں کیا تم نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر دن چڑھائے رکھے۔‘‘

مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

’’تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہارے لیے رات لائے گا تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو کیا تم دیکھتے نہیں؟ ‘‘(الْقَصَصِ: 71، 72)
اللہ تعالیٰ صرف مخلوق کو پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا نظام بھی چلا رہا ہے ۔ جس میں مشرکوں کے بنائے ہوئے شریکوں کا ذرا برابر بھی عمل دخل نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ لیل و نہار کا آنا جانا، اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایسی دلیل ہے کہ مشرکوں ، باغیوں اور کفار کے پاس اس کے مقابلے میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس لیے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر رات مسلّط کر دے تو بتائو اس کے سوا کوئی ہے؟ جو تمہارے لیے دن کی روشنی لے آئے لیکن پھر بھی تم اس کی قدرت پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر اللہ تعالیٰ دن کو قیامت تک کے لیے طویل کر دے تو بتائو کوئی ہے جس رات میں تم سکون پاتے ہو اسے کوئی دن میں تبدیل کر دے لیکن پھر بھی تم نگاہِ عبرت کے ساتھ اپنے رب کو پہچاننے اور اس کی قدرتوں پر غور کرنے کے لیے تیارنہیں ہو؟ پھر دیکھو اور غور کرو کہ تمھارے رب کا تم پرکتنا کرم ہے کہ اس نے رات کو تمھارے سکون کے لیے اور دن کو تمھارے کام کاج کے لیے بنایا تاکہ تم اس کی ذات پر ایمان لائو اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شکر گزار بن جائو۔ شکرگزار ہی اپنے رب کے تابعدار ہوا کرتے ہیں۔
دنیا میں انسان کو اس کی ذات کے حوالے سے کچھ اختیارات دیئے گئے ہیں۔ جن سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اپنے رب کی نافرمانی اور دوسروں کو اس کا شریک بناتا ہے لیکن قیامت کے دن کسی کو کچھ اختیار نہیں ہو گا۔ اس وقت رب ذوالجلال تمام انسانوں سے مخاطب ہو کر سوال فرمائے گا اور شرک کرنے والوں سے پوچھے گا:

يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ لَا يَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

’’جس دن اللہ سے اُن کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہو گی، پوچھا جائے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے اس دن اللہ واحد قہار کی بادشاہی ہوگی۔‘‘ (غافر: 16)
اس پورے نظام میںدنیا کے کسی حکمران، ستارے ،دیوتا اور فوت شدگان کاکوئی عمل دخل نہ ہے اورنہ ہوگا ۔مگر اس کے باوجود کافر اور مشرک نہ اس کو ایک الٰہ مانتے ہیں اور نہ اس اکیلے کی عبادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عَن عبد الله بن عَمْرو لَ قا ل رَسُولُ اللهِ  يَطْوِي اللهُ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟ ثُمَّ يَطْوِي الْأَرَضِينَ بِشِمَالِهِ وَفِي رِوَايَة يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْأُخْرَى – ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أينَ الجبَّارونَ أينَ المتكبِّرونَ؟ (رواہ مسلم:کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار )

سیدناعبداللہ بن عمرو  بیان کرتے ہیں کہ رسولِ محترم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ زمینوں اورآسمانوں کو یکجا کرکے اپنے داہنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں ۔ آج ظالم وسفّاک اور نخوت و غرور رکھنے والے کہاں ہیں ؟ ‘‘

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ tعَنِ النَّبِیِّ  قَالَ یَقُوْلُ اللہُ تَعَالَی لأَھْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ )) (مسلم: باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَھَبًا)

’’ سیدنا انس بن مالک tنبی کریم کسے بیان کرتے ہیں، آپ eفرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والے سے فرمائے گاکہ اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو۔تو کیا اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بہت ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پُشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی بیان کرتاہے کہ آپ eنے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا مگرتو شرک سے باز نہ آیا ۔‘‘
آخر میں رب العزت سے دعاگو ہوں کہ باری تعالی ہمیں توحید اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے اور شرکیہ امور سے بچنے کی توفیق اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔
(امین یارب العالمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے