پہلا حصہ سابقہ شمارہ میں طبع ھوچکا ھے۔ )

عالم ِ عرب میں حالیہ الحادی شبہات اور معاصر لا دینی فکر کا پھیلاؤ
مواصلات اور خصوصا سوشل میڈیا کے انقلابات سے قبل عرب ملحدوں اور لادینوں نے کسی ایسے دن کا خواب ہی نہ دیکھا تھا ۔ جس میں وہ اپنے خیالات و افکار کو جرأت کے ساتھ بیان کرنے کی طاقت رکھیں گے ۔ ان ملحدین کے پاس متروکہ ٹوٹے پھوٹے تجزیات کو ’حریت ‘سے تعبیر کرنے کے لیے مکالماتی ویب سائٹس(جینے کے لیے) سانس لینے کا واحد راستہ تھیں ۔ اس کے بعد اب ان کی کوشش کے ذریعے فیس بک اور دیگر مواصلاتی ویب سائٹس کی وساطت سے ’حریت ‘ کی تعبیر و بیان آسان ہوگیا ہے اور ملحدین کا باہمی نظم و نسق قائم ہو گیا ہے ۔ فیس بک پرعرب لادین صفحات(Pages) اور مجموعوں (Groups)کا شمار یا ان کے پیروکاروں (Followers)کا شمار بے حد مشکل ہوگیا ہے ۔ شاید کم از کم بھی ان کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے ۔ یہ صفحات اپنی افکار کو پیش کرنے اور ان کی ترویج میں مختلف نوعیت کے ہیں ۔ کچھ ناقدانہ طنز آمیز ہیں ۔جبکہ کچھ دیگر صفحات علمی فکری منصوبہ بندی کے حامل ہیں ۔ جو اپنے عمومی پیروکاروں کے لیے ثقافت اور کلچر کی ترویج اور روشن خیالی( Enlightenment ) کو ہدف بناتے ہیں ۔ (۱)
عالم ِ عرب میں میڈیا پر ملحدین کے فورمز
فیس بک ، ٹویٹر ، یوٹیوب اور بلاگزمیڈیا کے ایسے وسائل ہیںجو عرب ملحدین کے مابین کئی وجوہات کی بنا پر بے حد متداول ہیں ۔ ان وجوہات میں سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ یہ ویب سائٹس صارف کو اپنے پتہ کی تفصیلات کھولے بغیر استعمال کی سہولت دیتی ہیں ۔
بی بی سی کے ’’میڈیا پیروی ‘‘(Media follow-up)کے شعبہ نے عرب دنیا میں سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس پر عربی و انگلش زبان میں ’’ بے دین ‘‘ لفظ کے بارے میں ایک تحقیق جاری کی ہے ۔ جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹس کے سینکڑوں صفحات ہیں جو عالم ِ عرب کے بے دینوں کے پیروکار ہیں اور جنہوںنے اپنی جانب ہزاروں پیروکاروں کو مائل کر لیا ہے ۔
فیس بک
فیس بک پر کئی ایسے صفحات ہیں جو عرب بے دینوں کو اپنے ساتھ شمولیت کی دعوت دیتے ہیں ۔
انہیں صفحات میں تیونسی ملحدین ہیں جو دس ہزار (10000) سے زائد پیروکاروں پر مشتمل ہیں ۔ سوڈانی بے دینوں تین ہزار (3000)سے زائد پیروکاروں پر مشتمل ہیں ۔ اسی طرح شامی ملحدین کا نیٹ ورک چار ہزار(4000) سے زائد پیرکاروں پر مشتمل ہے ۔

ٹویٹر

ٹویٹر پر اکائونٹس کے پیروکاروں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں کے درمیان مختلف ہے ۔ جن کے مالکان اپنی بے دینی کا اعلان کرتے رہتے ہیں ۔ مثلاً ’’اراب اثیست‘‘ کے اکاؤنٹ کے پیروکاروں کے گنتی آٹھ ہزار (8000)سے متجاوز ہے ۔
ان اکاؤنٹس کے مالکان جو کچھ بحث و مباحثہ کرتے ہیں ‘ اس کا مواد (Contents) متنوع انداز کا ہوتاہے ۔ کچھ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ’عقل کو بروئے کار لاکردین کی خرافات کا انہدام ‘ چاہتے ہیں ۔ کچھ دیگر اپنے اکاؤنٹس پر اسلام مخالف تصاویراور تعلیقات و حواشی نشر کرتے ہیں ۔ مثلاً قرآن کریم کے نسخوں کے پرزے پرزے ہونے کی تصاویر
کچھ دیگر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ہدف ‘عقل کو عمل میں لانا اور سائنس کی نشر و اشاعت ہے ۔
بعض یہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹویٹس کو رخ تو فقط بے دینوں کے متبعین کی جانب ہے ۔ کچھ تو سیدھا سیدھا اپنے آپ کو’کافر اور بے دین ‘ کہتے ہیں اور ایسے مراسلات (Posts) لانچ کرتے ہیں جس میں وہ اس چیز کے دعویدار ہوتے ہیں کہ اسلامی گفت و شنید دیگر ادیان کے خلاف تشدد اور سختی پر ابھارتی ہے ۔

یوٹیوب

بعض عرب ملحدین نے کئی ایسے چینلز بنا لیے ہیں جو ہزاروں صارفین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکے ہیں۔ ان چینلز کے مالکان اکثر و بیشتر جو وڈیوز نشر کرتے ہیں ‘ وہ دین ِاسلام کے مخالف ہوتی ہیں اور ’دین کی خرافات ‘ ایسے عنوانات کی حامل ہوتی ہیں ۔
انٹر نیٹ پر دیگر نیٹ ورکس
بعض عرب نوجوانوں نے انٹر نیٹ پرایک ٹی وی چینل ریلیز کیا ہے ۔ جس کا نام ’آزاد عقل ‘ ہے ۔ اس چینل کی ویب سائٹ اس حوالے سے بہت معروف ہے کہ یہ انٹر نیٹ کے رستے پوری دنیا اور مشرق ِ وسطیٰ کے لوگوں تک خبریں پہنچانے کے لیے سیکولر میڈیا کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہے ۔ جس کا ہدف ایسی خبروں کو مقدم کرنااور آگے لاناہیں ‘ جو دینی اور حکومتی کنٹرول سے آزاد اور باہر کی خبریںہوں ۔ (۲)
الحاد کے سوشل اور سماجی نتائج
ملحدوں کے معاشرہ کو آپ ایسے خیال کیجیے کہ جو نہ کسی حلال کو حلال جانتاہے اور نہ کسی حرام کو حرام ۔ توہلاکت خیز چیزوں میں سے جوآپ چاہیں ‘وہ آپ اس معاشرہ میں بآسانی دیکھ سکتے ہیں ۔ بے دین ان ہلاکت خیز اشیاء سے کسی صورت اجتناب نہیں کرتا۔ جب تک کہ اسے کسی انجام ِ بد میں مبتلا ہوجانے کا خوف نہیں ہو جاتا ۔ (۳)
معاصر الحادی تحریک کے مسلمانوں پر اثرات
شروع سے پوری دنیا کے اکثرو بیشتر مسلمان اپنے دین ، ایمان بالغیب اور جنت وجہنم پر ایمان سے جڑے ہوئے ہیں اور شرعی عبادات پر قائم و دائم ہیں ۔وللّٰہ الحمد۔ مگر الحاد و بے دینی کی لہر مسلمانوں کی زندگی کے بیشتر جوانب خصوصا معاملات ، اخلاق اور تعلقات ِ عامہ پرحاوی ہورہی ہے ۔ اور دشمنوں کی جانب سے بھی مسلمانوں کے دین ، عقیدہ اور قوتوں کے بارے میں شک پیدا کرنے کے لیے بڑی بڑی کوششیں کی جارہی ہیں ۔(۴)
آج مسلمان معاشرے اپنے مسلّمات و ثوابت پر طعن و تشنیع کے مسلسل حملوں کا سامنا کرر ہے ہیں۔ وہ اس چیز کا بھی مقابلہ کررہے ہیں کہ انہیں اپنے مستقبل کی تعمیر سے غافل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔بلکہ ان مسلم معاشروں کو اس چیز کا بھی سامنا ہے کہ انہیں شناخت ، فکر اور فلسفیانہ تصادم کی مشکلا ت میں ہی الجھاکررکھاجائے ۔ یہ سب کچھ اسلام کے ’ فرزندان ‘ کے ہاتھوں داخلی سطح پر اسلام کو گرادینے کے نظریہ کی خاطر مسلسل کیا جارہا ہے ۔
آج مسلمانوں کے نوجوانوں میں جس قدر فکری شبہات اور بوہیمی(مطلق آزادانہ) خواہشات پھیلائی جارہی ہیں ‘ یہ اعدائے اسلام کی جانب سے کوئی نئی بات ہے نہ اجنبی ۔ بلکہ حق و باطل کے معرکہ میں یہ الٰہی سنت ہے اور ربانی طریقہ ۔ لیکن ایک چیز نئی ہے جسے اِس الحادی حملہ نے اوڑھ رکھا ہے ۔یعنی بے دینی کا یہ حملہ جدیدیت (Modrenism)کے لبادہ میں ہے اور ٹیکنالوجی ، مال ودولت اور میڈیا کے وسائل سے لیس اور مسلح ہے۔
لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ کثیر رجال ِ کاراور علمائے صدق نے مسلمانوں کے’ فرزندان ‘کی جانب سے جھگڑوںسے لبریز اِن پے در پے حملوں کا خوب مقابلہ کیا ۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی نصرت کے لیے خرچ کر دیں ۔اور جنہوں نے دعوت ، مکالمہ ، تنقیداور ملحدوں کے شبہات کا لبادہ چاک کرنے کے ذریعے اِن ’فرزندان ِ مسلمین ‘ کی جانب سے اِس الحادی گھٹا کے خاتمہ کے لیے اپنے اوقات ِ کارنذر کر دیے ۔ (۵)
دورِ حاضر میں الحادی فنامنا اورفتنہ کے مقابل غور وفکر سلب کرنے اور آنکھیں موند لینے کی بجائے تین قسم کے قواعد پر مبنی مجوزہ حکمت ِ عملی
احتیاطی قواعد

پہلا قاعدہ :

اسلام کے اصولوں پر یقین کو تقویت دینے کے چند وسائل
۱۔ اللہ عز وجل کی کائناتی آیات اورنشانیوں پر تفکر کی عبادت کااحیاء اور فروغ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب میںاس بات کی خوب وضاحت ہے کہ تفکر اور بڑے بڑے حقائق کے ادراک کے مابین بڑاگہرا تعلق اور ربط ہے۔ فرمان باری تعالی ہے :

الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(آل عمران3: 191)

’’جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی پہلوؤں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پرودگار تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ۔تو پاک ہے ۔پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ۔‘‘
عبادت ِ تفکر کے احیاء کے چند وسائل
وڈیو اور قابل ِ مطالعہ ایسے مواد کی نشر و اشاعت جو تفکر و تأمل کے میدان کی ضروریات پوری کر سکے۔
اس میدان میں لکھی گئی مباحث یا وڈیو مواد میں سب سے اچھی تصدیر پر مقابلہ جات کی داغ بیل۔
۲۔ مخصوص کتب پر بالاہتمام توجہ
ایسی کتب کو خصوصی توجہ دی جائے جن میں اصولِ اسلام کی صحت کے دلائل کو بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اس میدان میں قدیم و جدیددور کے علماء نے کتب تحریر فرمائی ہیں ۔ ہمیں متقدمین میں بہتیرے علماء کرام ملتے ہیں جنہوں نے ’’اعجاز القرآن ‘‘ کی بابت لکھا۔ مثلاً خطابی ؒ، رمانی ؒ،باقلانیؒ ،جرجانیؒ وغیرہ ۔ البتہ اس حوالے سے دور ِ حاضر کی کچھ کتب یہ ہیں:
کتاب النبأ العظیم اور کتاب مدخل الیٰ القرآن الکریم از محمد عبد اللہ دراز
کتاب براھین وأدلّۃ ایمانیۃ از عبد الرحمن حسن حبنکۃ المیدانی
کتاب نبوّۃ محمد ﷺ (من الشک الیٰ الیقین) از فاضل السامرانی
کتاب الأ دلّۃ العقلیۃ النقلیۃ علیٰ أصول الاعتقاداز سعود العریفی
کتاب کامل الصورۃ از أحمد یوسف السید
۳۔ دعوت ، تعلیم اور عمل میں قلوب کی عبادت کا اہتمام
بلا شبہسیدناابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام اللہ عز وجل کی جانب انابت کرنے ،اسی پر توکل کرنے اور اسی کے سامنے خشوع کرنے والے تھے۔ لہذا جب قوم اللہ تبارک و تعالیٰ کی بابت آپ علیہ السلام سے جھگڑی ‘ آپ ؑ نے قوم سے کہا:

قَالَ اَتُحَآجُّوْ نِّیْ فِیْ اللّٰہِ وَقَدْ ھَدٰنِ(الانعام ۶:۸۰ )

’’ آپ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایاہے ‘‘
۴۔ نومسلموں کے قصوں کی نشر و اشاعت
اس میں کچھ شک نہیں کہ ایمانی راحت کے حصول میں اِن قصوں کی بے حد تاثیر ہے ۔ خصوصا اس وقت جب آپ ان نومسلموںکی خصوصیات کے تنوع اور علاقوں کے فرق کو بغور دیکھتے ہیں ۔

دوسرا قاعدہ :

ناقدانہ عقل کی افزائش

تیسرا قاعدہ :

شرعی اصولوں کا استحکام
عقیدہ ، فقہ ، اصول فقہ ، اصطلاحات ِ حدیث ، زبان اور علوم ِ قرآن وغیرہ وغیرہ ایسے سب شرعی علوم کی تعلیم سے یہ چیز حاصل ہوسکتی ہے ۔

چوتھا قاعدہ :

استدلال ، معرفت اور موقفات کے لیے مصادر (Sources)کی حد بندی اور تعین

پانچواں قاعدہ :

شبہات پربات چیت کے لیے ماہرانہ صلاحیت سے عاری (Non-specialist)لوگوں سے احتیاط

چھٹا قاعدہ :

ردّ ِ شبہات کی محتاط تعلیم
شبہات اور اشکالات کی تردید میں لکھی گئی کتب کی چند شروط کے تحت محتاط تعلیم دینی چاہیے ۔ یہ شروط ہیں:
یہ کہ شبہات تازہ اور عام پھیلے ہوئے ہوں اوریہ کتب سر عام پیش آمدہ خطرات کی متعلق ہوں ۔
یہ کہ کتب کا اسلوب ِ نگارش کچھ اس طرح ہوکہ شبہہ کو بیان کرنے میں وہ مجمل ہو۔ لیکن شبہہ کی تردید میں وہ تفصیلی گفتگو کرے۔ کیونکہ بعض لکھاری شبہہ کو پیش کرنے میں تفصیل برتتے ہیں اور اس شبہہ کے حوالہ جات اور اصولوں تک کا ذکر کرتے ہیں ۔ اگرچہ یہ اسلوب خصوصی لوگوں کے لیے مناسب ہے ۔ لیکن ہم سرِ دست عمومی طبقہ کی حفاظت اور بچاؤ کی بابت گفتگو کر رہے ہیں ۔ ان عمومی لوگوں کو تفصیل در تفصیل کے ساتھ شبہات پڑھوانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
یہ کہ شبہہ کی تردید محکم اور مضبوط ہو۔ جو ماہرانہ صلاحیتوں کے حامل لوگوں سے ہی ملنا ‘ متوقع ہوتی ہے ۔ حالیہ شبہات کی تردید کے میدان میں کچھ مناسب کتب درج ذیل ہیں جن کو شبہات سے تحفظ کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے :
کتاب السنّۃ و مکانتھا فی التشریع الاسلامی از مصطفی السباعی
کتاب کامل الصورۃ (دونوں جزء)

ساتواں قاعدہ :

فکری اور پراثرہونے کے اعتبار سے مفید اجتماعی پروگرامز کی حوصلہ افزائی اورتقویت

آٹھواں قاعدہ :

دعا اور آہ و زاری (۶)

نواں قاعدہ :

د عوتی منصوبہ جا ت کے لیے مالی معاونت
باطل شبہات و اشکالات کی تردید میں لکھی گئی کتب اور عقیدہ کی کتب کی طباعت اور سٹیلائٹ چینلز پر علمی پروگرامز کی تقویت کے ضمن میں دعوتی منصوبہ جا ت کے لیے مالی معاونت خصوصی توجہ کا مرکز رہے ۔ یہ کتب اور پروگرامز عظمت ِ الٰہی کے حامل ہوں اور محاسن ِ اسلام اور توحید ِ ربوبیت پر خصوصی روشنی ڈالیں ۔

دسواں قاعدہ :

شبہات کی تردیدکی باقاعدہ تعلیم اور ٹریننگ
شبہات کی تردید اور اللہ کے دین کے دفاع پر اپنے نوجوانوں کی خصوصی ٹریننگ اور مشق کرائی جائے ۔
یہ چیز نوجوانوں کو عقیدہ کی صحیح کتب کی تعلیم دے کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔ جولوگ لازمی کتب کی خریدی نہیں کر سکتے ‘ کتب کی فراہمی کی خاطر ان کے لیے لائبریریوں کے قیام کو عمل میں لایاجائے ۔

گیارھواں قاعدہ:

علمائے امت کی خصوصی ذمہ داری
اہل علم اور علمائے امت نوجوان بچوں اور بچیوں کو ہولناک خطرات سے متنبہ کریں ۔ دنیا کے زوال اور دنیا پر عدم ِ انحصار کی یاد دہانی اصحاب ِ تربیت کا شغل ہونا چاہیے ۔ یہاں تک وہ اپنا کردار ادا کردیں اور توحید و ایمان کا پیغام پہنچادیں۔ (۷)

شبہات میں گھر جانے کے بعد بچاؤکے قواعد

1پہلا قاعدہ :

ناقدانہ سوچ و فکر کا استعمال اور معلومات و افکار کو بروئے کار لانے میں علمی ثقاہت و پختگی
یہ ضروری ہے کہ کسی قابل ِ نظر اور لائق ِ مناقشہ قیمتی معلومات کو استعمال میں نہ لایا جائے ۔ جب تک کہ اس میں علمی توثیق کا ادنیٰ ترین درجہ میسر نہ آجائے ۔

چندواقعی مثالیں :

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کو رد کرنا اور ان پر طعن ۔ اس دعوی کے سبب کہ نبی کریم ﷺ نے ان پر لعنت بھیجی تھی ۔ یہ خبر ثابت نہیں ہے ۔ لہذا دعویٰ اور نتیجہ دونوں باطل ہوگئے ۔دعوی: نبی کریم ﷺ کاسیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ لعنت بھیجنا ۔ نتیجہ :احادیث ِ معاویہ کی تردید اور عدم ِ قبول۔
سیدناابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع ۔ کیونکہ سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان پر چوری کی تہمت لگائی ۔ یہ خبر بھی ثابت نہیں ۔
سنت کے بارے میں شکوک و شبہات اٹھانا ۔ اس سبب سے کہسیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کئی ایسے صحیفے جلادیے تھے ۔ جن میں احادیث ِ رسول ﷺ تھیں۔ اس خبر سے بے حد استدلال کیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ خبر صحیح نہیں ہے۔
(زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا) حدیث کی وجہ سے سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ میں تنقیص کی کوشش۔ حالانکہ یہ مزعومہ قصہ صحیح نہیں ہے ۔

2دوسرا قاعدہ :

ماہرانہ صلاحیتوں کے حاملین سے سوال اور استفادہ

3تیسرا قاعدہ :

مشکل مسئلہ کی تردید کے بارے میں سابقہ کاموں اور جہود کی جانب مراجعت

4چوتھا قاعدہ :

متشابہ کو محکم پر پیش کرنا
بلاشبہ محکم و متشابہ کا مسئلہ قرآن فہمی کے اہم منہجی امور میں سے ہے ۔ یہی مسئلہ راسخین فی العلم اور بھٹکنے والوں کے مابین فرق کرنے والا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرما چکے ہیں :

ھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ

’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ‘‘ (آل عمران ۳: ۷)
امام ابن کثیر ؒ اس آیت کے معنی کا خلاصہ قیمتی اورواضح کلام میں یوں پیش کرتے ہیں :
’’ اللہ عز وجل نے قرآن کریم کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ {اٰ یٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ}ہے ۔ یعنی اپنی دلالت میں ایسے واضح دلائل کہ کسی ایک شخص کو ان کی بابت التباس نہیں ۔ اسی قرآن کی کچھ دیگر آیات ہیں جن کی دلالت کی بابت کثیر یا چند لوگوںکو کچھ اشتباہ ہوجاتا ہے ۔ جس شخص نے قرآن کے متشابہ حصہ کو واضح حصہ کی جانب پیش کردیا اوراپنے ہاں قرآن کے محکم کو متشابہ پر حاکم بنا دیا ‘ وہ ہدایت پا گیا ۔ جس نے برعکس کیا تو وہ برعکس نتیجہ پائے گا ۔ اسی لیے اللہ عز وجل نے { ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ} کے لفظ ارشاد فرمائے ہیں ۔ یعنی یہ قرآن کا اصل ہیں جن کی جانب اشتباہ کے وقت رجوع کیا جائے۔ {وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ}یعنی ایسی آیات جن کی دلالت اور مفہوم محکم کی موافقت کا احتمال رکھتی ہیں ۔ البتہ کبھی کبھی یہ آیات اپنے الفاظ اور ترکیب کی حیثیت سے کسی دوسری شے کا احتمال رکھتی ہیں لیکن مراد کے حیثیت سے یہ قطعا کسی دوسری شے کا احتمال نہیں رکھتی ہیں ۔ ‘‘
مثلاً : ایک عیسائی آکر کہتاہے : تمہارا قرآن کریم متعدد معبودوں کی خبر دیتا ہے ۔ جس کی دلیل اللہ عز وجل کا یہ فرمان ہے :

اِ نَّا نَحْنُ نَزَّ لْنَا الذِّ کْرَ وَ اِ نَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ

’’ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘( النحل:۹)
اس آیت میں وجۂ دلالت یہ الفاظ و کلمات ہیں : اِنَّا (ہم) ،نَحْنُ (ہم )، نَا (ہم ) اور حَافِظُوْنَ میں جمع کی واؤ۔ یہ سب کلمات جمع پر دلالت کرتے ہیں ۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ سب ضمائر (Pronouns)جیسے جمع کا مفہوم دیتی ہیں ‘ ویسے ہی یہ تعظیم کامفہوم دیتی ہیں ۔ جیساکہ بادشاہ اپنے بارے میں تعظیم کے طور پر جمع کے کلمات بولتے ہیں ۔ لیکن جب ہم قرآن کریم میں محکم اور بیّن حکم کو دیکھتے ہیں تو وہ توحید ہے ۔ فرمان ِ خداوندی ہے :

وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَۃٌاِ نْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِ ن مَا اللّہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗ (النساء:171)

’’ اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں اس سے باز آجائو کہ تمہارے لئے بہتری ہے،اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے ‘‘

قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ(الاخلاص : ۱)

’’آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک(ہی) ہے‘‘
لہذا جھگڑا اور فساد باطل ہو گیا ۔

5پانچواں قاعدہ :

ایسے شبہہ سے توقف جس کا جواب جانا پہچانااور معروف نہ ہو۔

6چھٹا قاعدہ :

لادینی فکر یا جسے جھوٹ کے طور پر قرآنی فکر وغیرہ کا نام دیاجاتا ہے ‘ اس کی جانب منتقلی کے منفی نتائج سے آگہی اور واقفیت

7ساتواں قاعدہ :

شبہات اور وسوسات سے نمٹنے میں فرق
بلاشبہ وسوسات ‘ شبہات سے قدرے مختلف ہوتے ہیں ۔ شبہات کا جواب حاصل کرلینے سے شبہات کا علاج ہوجاتاہے ۔جب جواب محکم اور مضبوط ہو‘ تو شبہات زائل اور نابود ہو جاتے ہیں ۔ البتہ وسوسات کا حل جواب میں نہیں ہوتا ہے ۔ یہ جواب سے ختم نہیں ہوتے ۔اگرچہ سو مرتبہ جواب کا تکرار کر لیا جائے ۔ ان کا حل فقط یہ ہے کہ ان سے اعراض کرکے رہا جائے ۔
شبہہ کے علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ شبہہ کامنبع و مصدر اکثر و بیشتر محدود ہوتا ہے ۔ یاتو کوئی وڈیوکلپ ہوتا ہے یا کتاب یا کوئی دوست وغیرہ ۔ جبکہ وسوسات میں اصول یہ ہے کہ یہ انسانی خیالات کے ذریعے آتے ہیں ۔ جن کو انسان اپنے اندر محسوس کرتاہے ۔ اکثر و بیشتر اوقات ِ عباد ت میں آتے ہیں ۔
شبہات میں مبتلا لوگوں سے مکالمہ کے قواعد

— پہلاقاعدہ —

مکالمہ سے قبل مقابل مکالمہ کرنے والے کے مذہب کا استیعاب اور اس کے میسر آڈیوزووڈیوزمواد کا جائزہ

— دوسرا قاعدہ —

مکالمہ میں مشترکہ نکتہ پر اتفاق

–تیسرا قاعدہ —

محل ِ نزاع نکتہ کی لکھت
بعض مباحثوں میں مکالمہ کرنے والوںکو کچھ وقت کے بعد جا کر ادراک ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے نکتہ پر بات کرتے رہے جس پر وہ متفق تھے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو غلط سمجھتے رہے ۔ انٹرنیٹ کے بیشتر نیٹ ورکس پریہ بہتیرا ہوتا ہے کہ دلی کینہ کے باعث فضا بے حد پراگندا رہتی ہے ۔ لہذا دونوں مکالمہ کرنے والوں کے لیے یہ نہایت اچھا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی بات بحسن وخوبی سمجھیں، محل ِ نزاع نکتہ کو متعین کریں اور واضح ہدف کی جانب گامزن رہیں ۔

— چوتھا قاعدہ —

فریق مخالف کے کلام میں خوب دقت ِ نظری اور ناقدانہ جائزہ نیز کلام میں درج اشکالات کی گہری خبرگیری

–پانچواں قاعدہ —

صرف دفاع پر ہی اکتفاء نہ کیاجائے ۔

–چھٹاقاعدہ–

باطل مقدمات کو تسلیم نہ کیا جائے۔
باطل مقدمات یا مبادیات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ فریق ِ مخالف بہت جلد آپ پر باطل نتائج لازم ٹھہرا لے گا ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم باطل مقدمات کو ابتداء سے ہی قبول نہ کریں ۔ اس طرح سے دراصل آپ نے صاحب ِ شبہہ کا راستہ ہی اُدھیڑاور اُکھیڑ دیا ہے ۔
مثلاً
بعض ملحدین بحث و مباحثے میں ( آ پ کو پھانسنے کے لیے )سیڑھی چڑھاتے ہوئے یہ کہتے ہیں : ہر موجود شے کا کوئی نہ کوئی مُوجِد (بنانے والا ) ہوتا ہے ۔ کیا ایسانہیں ہے؟ اگر آپ کہہ دیتے ہیں : ہاں ، کیوں نہیں ، ایسے ہی ہے ۔ تو وہ آپ سے کہے گا : اللہ موجود ہے لہذا اس کا موجد کون ہے ؟ حالانکہ اس بابت درست طریقہ یہ ہے کہ آپ بنیادی طور پر قاعدہ اور مقدمہ کو تسلیم نہ کریں ۔ کیونکہ یہ مقدمہ درست ہی نہیں ہے ۔ صحیح مقدمہ اس بابت یوں ہے : ہر حادث (فنا ہونے والی شے ) کا کوئی نہ کوئی محدث(بانی)ہے ۔ البتہ اللہ عز وجل حادث نہیں ہے ۔ لہذا اللہ عز وجل کے احداث ، خلق اور ایجاد کا سوال ہی ختم ہوگیا ۔

— ساتواں قاعدہ —

اگر آپ دعویدار ہیں تو دلیل آپ کے ذمہ ہے ۔ اور اگر کہیں سے نقل کرکے پیش کررہے ہیں ‘ تو اس نقل کی صحت کی ذمہ داری آپ پر ہے ۔

— آٹھواں قاعدہ —

نصوص شرعی سے اخذ شدہ استدلال کی خبر داری اور متعلقہ باب کی جمیع نصوص کے احاطہ کی ضرورت پر ہوشمندی

حواشی و حوالہ جات:

(1)دیکھیے : ملاذ الملحدین و اللادینیین العرب از عادل قلقیلی
(ایڈریس:http://rsif.me/of375)
(2)دیکھیے الالحاد فی العالم العربی : لما ذا تخلی البعض عن الدین ؟ (قسم المتابعۃ الاعلامیۃ ۔ بی بی سی )از أحمد نور
(3)دیکھیے الالحاد (اسبابہ، طبائعہ ، مفاسدہ ، اسباب ظھورہ ، علاجہ ) از محمد الخضر حسین
(4)دیکھیے الالحاد (اسبابہ و علاجہ)از ابو سعید الجزائری
(5)دیکھیے الالحاد (اسبابہ، طبائعہ ، مفاسدہ ، اسباب ظھورہ ، علاجہ ) از محمد الخضر حسین
(6)دیکھیے : باسغات از أحمدالسید
(7)دیکھیے : منظمات عالمیۃ تنشر الالحاد بیننا از قاری عبد الباسط
—–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے