پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، اسی نے فرمایا:

الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْآ إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُوْنَ

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم [یعنی شرک] کی آمیزش نہیں کی تو انہی کے لئے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ( الأنعام: 82)
میں اللہ سبحانہ و تعالی کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں وہی ان کا مستحق ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی نے اپنے بندوں پر سورۂ عصر نازل فرمائی۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں، آپ ایمان، تقوی اور صبر میں سب کے لئے عملی نمونہ ہیں۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے جب تک راتیں آتی رہیں اور نورِ صبح پھیلتا رہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُون(آل عمران: 102)

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
اسلام نے انسانیت کو اعلی مقام دینے کے لئے پر اطمینان اور امن و سلامتی والی زندگی کا فہم عطا کیا، پھر شریعت اسلامیہ کے احکامات میں ہر قسم کی رہنمائی بھی دی، نیز پوری امت کو اعلی اخلاقی اقدار کی باڑ عطا کی جس کے باعث امت کے تمام گوشوںکو تحفظ ملا، ساتھ میں بلند اخلاقی اقدار اور اعلی کردار کی دعوت دی جو کہ امت کو گھٹیا اور گرے ہوئے کردار سے کہیں بلند کر دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ(آل عمران: 102)

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔ اور ایسے ہی فرمایا:

اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

میں نے آج تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ،اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ،نیز میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔(المائدة: 3)
اسلامی تعلیمات نے جرائم کو پھیلنے سے روکنے کے لئے جرائم کے اسباب ہی دفن کر دئیے ہیں، جرائم کی وجہ بننے والی چیزوں کا خاتمہ کیا اور ان کے سر اٹھنے سے پہلے ہی ان کی سر کوبی کر دی؛ صرف اس لیے کہ معاشرے کا امن برقرار رہے اور ہر فرد کے حقوق کو تحفظ ملے۔
اسی طرح اسلام نے منبعِ جرائم خشک کرنے کے لئے معاشرے کی اعلی اخلاقی اقدار پر تربیت کی، ان کے اندر اتنی اخلاقی غیرت پیدا کی جو انہیں برائی سے روک دے، پھر اس کے بعد شریعت نے شرعی حدود، قصاص اور تعزیری سزائیں پورے معاشرے کے امن کے لئے قائم کیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(البقرة: 179)

اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے، اے عقل والو تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
ایسے جرائم جن کی تباہ کاریوں سے لوگ چیخ اٹھے ہیں اور اہل دانش ان جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر متفق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جائیں، یہ جرم گمراہی، ایذا ءرسانی اور دھوکا دہی جیسے گناہوں میں ملوث ہونے کا موجب بنتا ہے، کسی کی پگڑی اچھالنا گھٹیا حرکت ہے اور تباہ کن خرابی ہے، اس سے جذبات بھڑکتے ہیں اور حساسیت بڑھتی ہے۔
کسی کی عزت اچھالنے کے نقصانات شدید نوعیت کے ہوتے ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی جانب سے حرام کردہ گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے، معاشرے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، بلکہ متاثر شخص میں ایسے نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جو اسے اندر سے توڑ دیتے ہیں اور وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے والے اجڈ اور گھٹیا لوگوں کی روک تھام شرعی واجب ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضرورت بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِيْنًا

اور جو لوگ مومن مرد و خواتین کو بلا وجہ اذیت دیتے ہیں تو وہ بہتان اور واضح گناہ اٹھا رہے ہیں۔(الأحزاب: 58)
اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالی کے ہاں روزِ قیامت بد ترین شخص وہ ہے جس کی بدی سے بچنے کے لئے اسے لوگ چھوڑ دیں یا مسترد کر دیں‘‘۔
پگڑی اچھالنے کے عمل کو جرم قرار دینا اور اس کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنا بہت بڑا عمل ہے، اس میں حکم الہی کا نفاذ بھی ہے کہ اس سے ان لوگوں کی سرزنش ہے جو دھرتی پر فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، فتنوں کو چنگاری دکھا کر امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور باطل امور میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی کے احکامات لوگوں کی عزت، شہرت اور مقام مرتبے کا تحفظ کرتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دھرتی پر قائم کی جانے والی ایک حد اہلیان دھرتی کے لئے چالیس دن کی موسلا دھار بارش سے بھی بہتر ہے‘‘(ابن ماجہ)
یہ بھی دیکھیں کہ قرآن مجید مومنوں کو مخاطب کر کے صلائے عام لگاتا ہے کہ شیطانی راستوں اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

’’ظاہری یا باطنی بے حیائی کے قریب بھی مت جاؤ ‘‘ (الأنعام: 151)
ایسے ہی فرمایا:

يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ(النور: 21)

’’ اے ایمان والو! شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، جو بھی شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو شیطان اسے فحاشی اور برائی کا حکم دیتا ہے‘‘۔
یہ سب احکام اس لیے ہیں کہ برائی کے راستے ہی بند ہو جائیں اور اہل ایمان میں بے حیائی پھیلانے والے باز آجائیں۔
کسی کی عزت اچھالنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے، ایسی حرکت وہی کرتے ہیں جو کمزور دل اور بے عقل ہوں، جن کے دلوں میں بیماری ہو، جن کے ہاں اخلاقی گراوٹ پائی جائے، مروّت کا پاس نہ رکھتے ہوںاور یہی عزتیں اچھالنے والے قبیح اعمال میں ملوث ہوتے ہیں۔
کسی کی پگڑی اچھالنے کی کئی ایک صورتیں ہیں، اس کے لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں، پگڑی اچھالنے کی ابتداءبد زبانی اور بد کلامی سے شروع ہوتی ہے جو کہ پگڑی اچھالنے والے منہ پھاڑ کر کرتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’ اپنے آپ کو فحش گوئی سے بچاؤ؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی بھی فحش گو اور بد کردار شخص کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ایسے ہی ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’مومن لعن اور طعن کرنے والا نہیں ہوتا، نہ ہی وہ فحاشی پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی فحش باتیں کرتا ہے‘‘
نیز آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’ہر ابن آدم زنا میں ملوث ہے، چنانچہ آنکھیں زنا کرتی ہیں اور آنکھوں کا زنا نظر ہے، ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں ہاتھوں کا زنا پکڑنے میں ہے، پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنے میں ہے، منہ بھی زنا کرتا ہے منہ کا زنا بوسے دینا ہے‘‘۔ اس روایت کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند امام مسلم کے معیار کے مطابق ہے۔
اور جب انسان کی زبان لغو باتوں میں مگن ہو تو انسان اپنے آپ کو دنیا میں تباہی کے در پے کر دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے آخرت میں اسے افلاس کا سامنا کرنا پڑے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ

کوئی بھی بات منہ سے نکالتا ہے تو چوکنّا نگران اسے لکھنے کے لئے] اس کے پاس ہی ہوتا ہے۔(ق: 18)
کسی کی پگڑی اچھالنے کا عمل ہر میدان میں بڑھتا جا رہا ہے، زندگی کے تمام گوشوں پر اس کا راج ہے، بلکہ [سوشل میڈیا کی]تصوراتی دنیا جو کہ وقت اور جگہ کی حدود سے بھی آزاد ہے اس میں یہ مزید پھل پھول رہا ہے کہ ایسے ایسے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں کہ پہلے ان کا تصور تک بھی نہیں تھا؛ ان کی وجہ سے دلوں میں کدورتیں بھر گئیں ہیں، دماغ خراب ہو گئے ہیں اور طبعی فطرت کو بھی اس نے تباہ کر دیا ہے۔
پگڑی اچھالنے کے طریقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ سوشل میڈیا پر گھٹیا قسم کے ویڈیو کلپ نشر کیے جائیں کہ جن کی وجہ سے برائی پروان چڑھتی ہے، بے حیائی پھیلتی ہے، اشتعال انگیزی پیدا ہوتی ہے اور ناقابل بیان نقصانات ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النور: 19)

’’بیشک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحاشی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے، اور اللہ تعالی سب جانتا ہے اور تمہیں علم نہیں ہے‘‘۔
ایسے ویڈیو کلپ نشر کرنے اور ان کی ترویج میں اپنا کردار ادا کرنے والوں کا انجام انتہائی برا اور بھیانک ہوتا ہے، ان کا خاتمہ دردناک اور المناک ہوتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کو برے خاتمے سے محفوظ رکھے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

لِيَحْمِلُوْٓا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ

روزِ قیامت وہ اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور ان لوگوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کو اِنہوں نے علم نہ ہونے کے باوجود گمراہ کیا تھا۔(النحل: 25)
اور ایسے ہی فرمایا:

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

اور لازمی طور پر وہ اُن کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور یقیناً ان کی افتراء بازیوں کے متعلق قیامت کےروزان سے پوچھا جائے گا (العنكبوت: 13)
کسی کی عزت کو نشانہ بنانے کی بیماری اس لیے پھیلی ہے کہ بہت سے لوگ اعلانیہ گناہ کرنے لگے ہیں، احتیاط سے کام نہیں لیتے، برائی پر فخر محسوس کرتے ہیں اور برائی کو اچھائی سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف گھروں میں حد سے زیادہ خشک مزاجی نے نوجوان لڑکیوں ، بچوں اور خواتین کو ایسے لوگوں کے لئے بہت ہی آسان ہدف بنا دیا ہے۔
اہل علم، دانش مند، با اثر شخصیات اور صحیح فکر رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ اس موذی مرض سے بچاؤ کا سب سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دینی غیرت دلوں میں پیدا کی جائے، دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے اور قرآنی تعلیمات پر مضبوطی سے کار بند رہنے کی تلقین کی جائے، قول و فعل پر تقوی کے آثار نظر آئیں، نظریں جھکی ہوئی ہوں، لباس ڈھانپنے والا ہو، دل و دماغ عفت اور خوفِ الہی سے سرشار ہو۔
یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں ہے کہ نوجوان تابناک قوت ہیں، ان میں ابھرنے والاجوش پایاجاتاہے، اگر نوجوانوں کو اِن امتیازی خوبیوں کے ساتھ ایسی رہنمائی بھی ملے جس میں ان کی صلاحیتیں نکھریں اور انہیں کچھ کر دکھانے کا موقع دیا جائے تو نوجوان سیدھے راستے پر قائم رہتے ہیں وہ اپنی فکر اور مشغلے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں، اس طرح نوجوان کارکردگی اور تعمیر و ترقی میں عملی شریک ہو جاتے ہیں ، آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ مثبت سرگرمیوں میں مصروف ہو کر عزتیں اچھالنے جیسی فضولیات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح والدین اور اولاد کے درمیان اعتماد بھرا تعلق بھی ایک مضبوط شخصیت کو پروان چڑھاتا ہے، اس سے مثبت طریقے اور سلیقے کو مہمیز ملتی ہے، یہ اعتماد لڑکوں میں بہادری کو پروان چڑھاتا ہے اور بزدلی کو اتار پھینکتا ہے، نیز دوسری طرف اس اعتماد سے بچیوں کو عفت، پاکدامنی اور باپردگی پر تربیت ملتی ہے۔ جبکہ ایسے خاندان جو ہمیشہ مسائل، لڑائی جھگڑوں اور انتشار میں پنپتے ہیں تو ایسے گھرانے بد کردار لوگوں کے لئے زر خیز زمین ثابت ہوتے ہیں۔
اسی طرح جلدی شادی کرنے سے جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور اس سے دل کی خالی جگہ پر ہو جاتی ہے شادی انسان کو اخلاقی برائیوں سے بھی تحفظ دیتی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’نوجوانو! تم میں سے جو شادی کی ضروریات کا مالک ہے تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی نظروں کو جھکانے اور شرمگاہ کو محفوظ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے‘‘۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام اور آپ سے نسبت رکھنے والوں پر رحمتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔اور اس موضوع میں یہ بھی ہے کہ بچوں کے چال چلن پر کڑی نظر رکھنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اسے معمولی مت سمجھیں؛ خصوصاً ایسے حالات میں جب بچوں کی جانب سے مشکوک حرکتیں سامنے آئیں۔
کسی کی عزت سے کھیلنے اور دیگر جرائم کا خاتمہ کرنا معاشرے کے تمام افراد کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ویسے بھی جس شخص کو قرآنی تعلیمات اور ایمانی رہنمائی جرائم سے نہ روکے تو اس وقت حکومت کی جانب سے آہنی ہاتھوں نمٹنا لازمی ہو جاتا ہے، چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : “بیشک اللہ تعالی سلطان کے ذریعے ایسی حرکتوں کا بھی سد باب فرما دیتا ہے جن کا خاتمہ قرآن کے ذریعے نہیں فرماتا‘‘۔
اللہ کے بندو!
رسولِ ہُدیٰﷺ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔(الأحزاب: 56)

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے