مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ1895ءمیںحضرت الامام سید عبد الجبار غزنوی کے گھر بمقام امر تسر پیدا ہوئے آپ سید عبداللہ غزنوی کے پوتےہیں ۔

تعلیم:

ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید عبد الجبار غزنوی ،مولانا عبدا لاول سے حاصل کی ۔اردو اورحساب کی تعلیم مولانا گل محمدسے حاصل کی جنہیں سید عبد الجبار غزنوی نے مدرسہ غزنویہ میں رکھا ہوا تھا دہلی ان ایام میں علوم دینیہ کا مرکز تھا اور آپ کا دل وہاں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیتا ب تھا لیکن اپنے والد گرامی سے اس قدر مرعوب اور ہیبت زدہ تھے کہ ان سے اجازت لینے کی جرأت نہ کرسکے بلکہ دہلی پہنچ کر والد گرامی حضرت الامام عبدالجبار غزنوی کو خط لکھااور دہلی میںقیام کی اجازت چاہی ۔آپ اس مادر علمی سے فیضیاب ہونے کے لیے بے قرار تھے جہاںسے سید عبدا للہ غزنوی اور حضرت الامام عبدا لجبار غزنوی فیضیاب ہو چکے تھے اور یہ درسگاہ میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی تھی مولانا سید داؤد غزنوی کو استاذ الاساتذہ حضرت عبداللہ غاز ی پوری رحمہ اللہ سے علم حدیث پڑھنے کا شرف حاصل ہوااور حضرت مولانا عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ حضرت میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ سے فیضیاب ہوئے اورحضرت میاں صاحب رحمہ اللہ نے حضرت شاہ محمداسحاق رحمہ اللہ سے استفادہ کیاحضرت شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے خلف الرشید تھے اور نواسےبھی تھے اور شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ اپنے والد ماجد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے جانشین تھے ۔
حضرت سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے علوم عقلیہ مولانا سیف الرحمٰن سے اکتساب کیا ۔

عملی زندگی کا آغاز:

مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے شہر امرتسر واپس تشریف لے آئے اور بڑی مستعدی اور ذوق وشوق کے ساتھ اپنی آبائی درسگاہ مدرسہ غزنویہ میں تفسیر اور حدیث کا درس دینے لگے اورایک عرصہ تک کتاب وسنت کے چشمہ صافی سے تشنگان علوم اسلامیہ کی پیاس بجھاتے رہے اور اس زمانے میں تدریس کے ساتھ ساتھ تبلیغ واشاعت دین ،تحریک آزادی وطن سے دلچسپی اور کمال خطابت کی وجہ سے امرتسر میں اپنا ایک مقام پیداکرلیا تھا۔آپ کو جو علمی اور روحانی میراث ملی تھی وہ اسکے سزاوار بھی تھے اور امین بھی اگر آپ نےاپنا دامن سیاست میں الجھایا نہ ہوتا یا سیاست نے آپ دھاوانہ بولا ہوتا اورآپ کی سرگرمیاں علمی حد تک محدود رہتیں تو بلاشبہ آپ کے فیوض وبرکات لازوال صورت اختیار کرلیتے ۔آپ کا کتب خانہ بے مثل تھا آپ سفر وحضرمیں ، ریل اور جیل میں بھی مطالعہ کے عادی تھےآ پ تمام علوم پر وسیع نظر رکھتےتھے ،ذہانت و فطانت میں لاثانی شخصیت تھے زہد وورع ،علم وفضل، تحقیق و دانش ،عبادت و ریاضت ،جرأت و مردانگی اور وجاہت آپ کو وراثت میں ملی تھے ۔
آپ بر صغیر کے ایسے دو دھان عالی سے تعلق رکھتے تھے جن کے عملی وروحانی فیوض کے احساس سے پاک وہندکے لوگ سبکدوش نہیں ہوسکتے۔

سیاست میں حصہ:

سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ اصلاً مدرس تھے اور تدریس کرنا چاہتے تھے لیکن حالات کی سنگینی اور وقت کے تقاضوں نے انہیں سیاست میں آنے پر مجبور کردیا،مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پنجاب میں جمعیت علماء کی بنیاد رکھی اور خلافت کمیٹی کی طرح ڈالی نتیجتاً تین سال قید بامشقت ہوئی دوسری مرتبہ1925ء میںپکڑے گئے تیسری مرتبہ 1927ءمیں سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کی تحریک میں گرفتار کیے گئے مجلس احرارکا قیام ہواآپ اسکے بانیوں میں سے تھے ایک عرصہ تک اس کے سیکٹری وجنرل رہے ۔کشمیر ایجی ٹیشن میںچوتھی مرتبہ قید ہوئے ۔تحریک مقل پورہ اور تحریک کپور تلہ میں بھی گرفتار ہوئے ۔ہندوستان چھوڑدو تحریک میں تقریباً تین سال جیل میں رہے۔دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ میں گرفتار ہوئے 1945ء میں صوبہ پنجاب کے کانگریس کے صدر چنے گئے 1946ء کا الیکشن دھاری والاکی لیبر سیٹ سے لڑا اورپنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 1946ءمیں کانگریس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شا مل ہوگئے۔
پاکستان بنا تو سید حسین شہید سہروردی ،نواب افتخار حسین ممدوٹ ،میاں عبدالباری چوہدری محمد افضل چیمہ اور مولانا عبدالستار خان نیازی سے مل کر جناح عوامی مسلم لیگ قائم کی مارچ 1951ءکے صوبائی انتخابات میں پتوکی مہاجر سیٹ سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔آپ چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس رکھتے تھے ۔آپ سر دےسکتے تھے ،ضمیر کا سودا نہیں کرسکتے تھے ،مرسکتے تھے لیکن جھک نہیں سکتے تھے ۔آپ نہ ہی دبنے والے تھے اور نہ ہی ڈرنے والے تھے ،آپ اپنے دور میں سب سے زیادہ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ سے متأثر تھے ،آپ کے صاحبزادےپروفیسرابو بکر غزنوی لکھتے ہیں کہ:
میںنے ایک دفعہ ان سے پوچھا کے آپ نے لیگ میں شامل ہوتے وقت ابوالکلام آزاد سے مشورہ کیا تھا؟تو فرمانے لگےکہ اگر انکے پاس مشورے کے لیے چلاجاتا تو مجھے کبھی مسلم لیگ میں شامل نہ ہونے دیتے قرین مصلحت یہی تھی کہ لیگ میں شمولیت کے اعلان کے بعد ان سے ملاقات کرتا۔

صحافت کے میدان میں:

مولا نا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے یکم اپریل 1927ءکو امر تسر سےہفتہ وار(توحید) کا پہلا شمارہ شائع کیا اوراس کے سرورق پر یہ دعا اور اس کا ترجمہ لکھا :

رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا

اے میرے رب مجھے داخل کر عزت کا داخل کرنا اور مجھے نکال عزت کا نکالنا اور مجھے خاص اپنے پاس سے مددگار قوت عطا فرما(سورۃ الاسراء 80)
اور توحیدکی پیشانی پر ہمیشہ یہ آیت مرقوم ہوتی تھی

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ( سورۃ ال عمران139)

اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھاؤ اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔
مجلہ توحید تبلیغی مضامین کے علاوہ آپ نے بلند پایہ علمی اور تحقیقی مضامین بھی لکھےایک مضمون ’’ایام ھدایت اور امام سیاست‘‘ کے عنوان سے تین اقساط میں لکھا جس میں منصب امامت پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی۔ایک تحقیقی مضمون تدوین حدیث پر لکھا جس کا عنوان ’’تاریخ جمع و تدوین احادیث رسول اللہ ﷺ‘‘تھا اس مضمون میں تحقیق پیش کی کہ عہد نبویﷺ اورعہد صحابہ و تابعین میں حدیث کا کتنا سرمایہ ضبط تحریر میں آچکا تھا اور آیتیعلمہم الکتاب والحکمۃ اور ثم ان علینا بیانہکی تشریح بھی فرمائی آپ اپنے ہم عصر صحافیوں سے کبھی کبھار نوک جھونک بھی کیا کرتے تھے ۔

مجلہ’’ توحید‘‘ میں لکھنے والے:

توحید میں سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے علاوہ بہت سے ممتاز علماء اور مقتدر ہستیوں کے مضامین شائع ہوتے رہے جن میں سے چند کےاسماء گرامی یہ ہیں ۔
1۔مولا ناسید سلیمان ندوی
2۔مولانا ابو الکلام آزاد
3۔مولاناعبد الواحد غزنوی
4۔قاضی محمد سلیمان منصور پوری
5۔مولانااسماعیل غزنوی
6۔مولانامحمد علی قصوری ایم اے
7۔مولانا محی الدین قصوری۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے