خطبہ مسنونہ کے بعد:

اَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم{قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ} (الزمر 9) وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ‘(سنن أبي داود: 3641)

انتہائی عزیز طلبہ اور تمام سامعین و حاضرین! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس قسم کی دینی مجالس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے بہت سے ساتھیوں کی زیارت ہوجاتی ہے۔نبیuکا فرمان ہے:اللہ فرماتاہے:

وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَزَاوِرِینَ فِيَّ

’’جو لوگ میری خاطر زیارتیں کرتے ہیں اور میرے لیے ملاقاتیں کرتے ہیں ان کے لیے میری محبت فرض ہو جاتی ہے۔‘‘(صحیح الترغیب والترھیب: 349/2)
میں ضرور ان سے محبت کروں گا۔ اور ضرور انھیں اپنا محبوب بنالوں گا۔ تو یہ ایک عظیم الشان فائدہ ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اس زمین پر اللہ تعالیٰ کی جنت دیکھنی ہو تو وہ علماء کی مجالس دیکھ لے۔ علماء کی مجالس دروس جس میں قَالَ اللّٰہُ اور قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ کی صدائیں گونجتی ہیں، یہ اس زمین پر اللہ کی جنتیں ہیں۔ یہ بات انھوں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ نبی u کی حدیث ہے:

اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوا

’’جب تم جنت کے باغیچوں کے پاس سے گزرو تو ضرور کچھ کھا،پی لیا کرو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: جنت کے باغیچے کیا ہیں؟ تو رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

حِلَقُ الذِّکْرِ (جامع الترمذي:3510)

اس زمین پر قائم جو علماء کی مجالس ہیں، جن میں کتاب و سنت کا بیان ہوتا ہے، ذکر ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا، اَخْبَرَنَا کی صدائیں گونجتی ہیں اورقَالَ اللّٰہُ وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِکی آوازیں بلند ہوتی ہیں، یہ حلق الذکر اس ز مین پر قائم جنت کے باغیچے ہیں۔ تو ان مجالس کی بڑی شان ہوتی ہے۔ جو لوگ بڑے ذوق و شوق سے ان میں شریک ہوتے ہیں وہ ان مجالس میں شریک نہیں ہوتے بلکہ درحقیقت اللہ کی طرف آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی دلیل صحیح بخاری ہی کی حدیث ہے۔ نبیu درس دے رہے تھے۔ تین افراد وہاں آئے۔ ان میں سے ایک شخص نے قریب ایک خالی جگہ دیکھی۔ بڑے وقار سے آگے بڑھتے بڑھتے اس خالی جگہ آکر بیٹھ گیا۔ نبیu کے بالکل سامنے۔ دوسرا شخص شرما گیا۔ آگے نہ بڑھا لیکن وہیں بیٹھ گیا۔ اور تیسرا اپنے گھر کو چلا گیا۔ آپe نے تینوں کا یہ عمل دیکھا اور پھر ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر چلا گیا اور مجلس درس میں نہیں بیٹھا۔

فَأَعْرَضَ فَاَعْرَضَ اللّٰہُ عَنْہُ

اس نے مجلس سے اعراض کیا، اللہ نے اس سے اعراض کرلیا۔ اور دوسرا جو پیچھے بیٹھ گیا۔

فَاسْتَحْيٰ فَاسْتَحْيَ اللّٰہُ مِنْہُ‘

وہ شرما گیا، اللہ تعالیٰ اس سے شرما گیا، معنی اللہ اس کو عذاب نہیں دے گا۔ اس عمل کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں دے گا۔ اور تیسرا شخص جو آگے بڑھا اور آگے بیٹھنے کی کوشش کی۔

فَاٰوٰی اِلَی اللّٰہِ فَاٰوَاہُ اللّٰہُ

’’وہ درحقیقت اللہ کی طرف آگے بڑھا اور اللہ نے اسے اپنے ساتھ ملالیا۔‘‘(صحیح البخاري: 474)
یہ اس مجلس کی عظمت ہے۔ جتنا ذوق اور شوق ہوگا، جتنا آگے بیٹھنے کی حرص ہوگی اتنے وہ قدم اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ رہے ہیںاور اللہ اس بندے کو ساتھ ملا لیتا ہے۔

اِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ اِلَیَّ شِبْراً تَقَرَّبْتُ اِلَیہِ ذِرَاعًا، وَاِذَا تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا وَاِذَا اَتَانِي مَشْیًا اَتَیتُہُ ھَرْوَلَۃً

’’میرا بندہ اگر ایک بالشت میری طرف آئے گا میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور اگر ایک ہاتھ وہ بڑھے گا میں دو ہاتھ بڑھوں گا اور اگر وہ چل کے آئے گا میں اس کی طرف دوڑ کے جائوں گا۔‘‘(صحیح البخاري: 7536)
یہ اللہ رب العزت کی رحمتیں اور اس دین کی وسعتیں اور سماحتیں کہ اللہ تعالیٰ کس قدر اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ یہ مجالس، مجالس حدیث ان میں بڑی ہیبت ہوتی ہے، بڑی ان میں عظمت ہوتی ہے۔

مَا اجْتَمَعَ قَومٌ فِي بَیتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَ رَسُونَہُ بَینَھُمْ اِلَّا غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ (سنن أبي داود: 1455)

’’اگر کچھ لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھے ہوں، مسجد میں اور علمی مذاکرہ چل رہا ہو، 1ان مجالس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے، 2 فرشتے ان مجالس پر سایہ کرتے ہیں۔ 3 اللہ رب العزت اس مجلس کے شریک ہر شخص کا نام لے کر ذکر کرتا ہے کہ فلاں ہے، فلاں ہے، فلاں ہے۔‘‘
رحمت بھی ڈھانپ لیتی ہے، ملائکہ بھی اپنے پروں کا سایہ کرتے ہیں اور سامنے طلاب علم کا جم غفیر ہوتا ہے۔ امام ذہبیa نے سیر اعلام النبلاء میں محمد بن سلام البیکندیa کے ترجمے میں ایک چھوٹا سا واقعہ لکھا ہے۔ محمد بن سلام البیکندی امام بخاری کے استاد تھے۔ کثرت تعداد طلاب کی بنا پر ان کی مجلس مشہور تھی۔ طلبہ کا بے تحاشا ایک جم غفیر ہوتا تھا۔ اور خالص علم سے ربط رکھنے والے تھے۔ ان کا قول سیر ہی میں ہے کہ چالیس سال گزرچکے ہیں میں نے بیکند کا بازار نہیں دیکھا۔ بیکند ان کا علاقہ تھا۔ چالیس سال سے اپنے شہر کے بازار میں نہیں گئے۔ ہمیشہ علم حدیث اوڑھنا بچھوناتھا۔ توگھر تشریف فرما تھے۔ باہر دروازے پے دستک ہوئی۔ اٹھ کے دروازہ کھولا۔ ایک شخص باہر کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ میں انسان نہیں بلکہ جن ہوں اور ایک تو اپنے جنوں کے سردار کا سلام کہنے آیا ہوں اور یہ خبر دینے آیا ہوں کہ آپ کی مجلس درس میں جتنے آپ کے طلبہہوتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ جنات بھی ہوتے ہیں۔(سیر أعلام النبلاء للذھبی: 629/10)
یہ ایک عالم کی شان ہے۔ طلاب کا جم غفیر، فرشتے اوپر سایہ کیے ہوئے، رحمت نے ڈھانپا ہوا ہے اور جن بھی ایک کثیر تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو آکر حدیثوں کو سنتے ہیں اور اس نصیحت کو سنتے ہیں۔ یقینا یہ مجالس بڑی مہتم بالشان ہوتی ہیں۔ اہل علم کا یہ طبقہ انتہائی محترم ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں علم و عمل کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان اداروں کو، مدارس کو قائم ودائم رکھے۔ یقینا یہ مدارس وہ مراکز ہیں جو حفاظت دین کے مضبوط قلعے ہیں اور جہاں سے علماء تیار ہوتے ہیں اور پھر میدان عمل میں اس علم کو نشر کرتے ہیں۔ امت کی خدمت کرتے ہیں۔ اور علم نافع اور عمل صالح کی ترویج کرتے ہیں۔ یہ علماء کا کردار ایک مثالی کردار ہے۔ ایک تاریخی کردار ہے۔

الْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاْءِ وَإِنَّ الْاَنْبِیَآءَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَارًا وَلَا دِرْھَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ

علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کا ترکہ درہم و دینار نہیں ہے، روپیہ پیسہ نہیں ہے بلکہ انبیاء کا ترکہ علم ہے۔

فَمَنْ اَخَذَہُ اَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ(سنن أبي داود: 3641)

جس نے اس علم کو سمیٹ لیا اس نے خیر کا، برکت کا، سعادت کا ایک بڑا وسیع حصہ سمیٹ لیا۔
سیر اعلام النبلاء ہی میں امام بخاریa کے ترجمے میں غالباً ان کے شاگرد اور صحیح بخاری کے راوی امام فربریa فرماتے ہیں کہ میں ایک دن اپنے شیخ کے سامنے بیٹھا تھا۔ امام بخاری کے سامنے اور آپ احادیث املاء کرارہے تھے۔ نشست بڑی لمبی ہوگئی۔ مجھ پر کچھ تھکاوٹ کے آثار امام بخاری نے محسوس کیے۔ میری ڈھارس بندھائی یہ کہہ کر کہ طِبْ نَفْسًا اپنا جی اچھا کرلو اور خوشی محسوس کرو۔ فَاِنَّ التُّجَّارَ فِي تِجَارَاتِھِمْتاجر اپنی تجارتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ فَاِنَّ اَھْلَ الصّنَاعَاتِ فِي صَنَاعَاتِھِمْ اور صنعت کار اپنی صنعتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔وَاَنْتَ مَعَ النَّبِیِّ وَاَصْحَابِہِ اور تم رسول اللہe کے ساتھ ہو اور رسول اللہe کے صحابہ کے ساتھ ہو۔(سیرأعلام النبلاء:445/12)

’عَنْ اَنَسٍ، عَنْ اَبی ھُرَیرَۃَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ

صحابہ کا تذکرہ اور رسول اللہ eکا تذکرہ۔ تمھاری یہ مجلس، ہمیشہ تم اللہ کے پیغمبر کے ساتھ ہو اور صحابہ کے ساتھ ہو۔

اَھْلُ الْحَدِیثِ ھُمُوا اَھْلُ النَّبِيِّ
وَاِنْ لَمْ یَصْحَبُوا نَفْسَہُ اَنْفَاسَہُ صَحِبُوا

اہل الحدیث ہی درحقیقت اہل النبی ہیں۔ اگرچہ نبیu کی ذاتِ مقدسہ کی صحبت کا شرف حاصل نہیں ہوا لیکن نبیu کی پیاری اور بابرکت سانسوں کے دن رات کے ساتھی ہیں۔ (قواعد التحدیث: 10/1)
جو حدیثیں آپ کی صادر ہوتی ہیں، آپ کی مبارک سانسوں کے ساتھ ان سانسوں کے دن رات کے ساتھ۔ ان سے بہتر کوئی جماعت ہوسکتی ہے؟ جماعت اہلحدیث سے بہتر کوئی جماعت ہوسکتی ہے؟ علامہ ابن قیمa اپنے نونیہ میں فرماتے ہیں:
یا مبغضا اھل الحدیث وشاتما

أبشر بعقد ولایۃ الشیطان

اے اہل الحدیث سے بغض رکھنے والے اور اہل الحدیث کو گالیاں دینے والے خوش ہوجا، اپنے اس عمل سے تونے شیطان کی دوستی قائم کرلی۔ (قصیدۃ نونیۃ ص:163)
اہل الحدیث کو برا بھلا کہہ کر درحقیقت تو شیطان کا دوست بن چکا۔ بس دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں صحیح معنی میں اپنے پیارے پیغمبر کی احادیث کی خدمت کی توفیق عطا فرمادے۔
میرے عزیز طلبہ! آپ اس درس گاہ میں جو بڑی محترم اور ذی وقار ہے اور بہت سی انفرادیتوں کے ساتھ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ شرف کی بات ہے کہ آپ یہاں کتاب و سنت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حرص میں اور آپ کے شوق میں اضافہ فرمائے۔ یہ تحصیل اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہر لحظہ اضافے کا موجب بنتی ہے۔نبیu کی حدیث ہے۔

مَنْھُومَانِ لَا یَشْبَعَانِ مَنْھُومٌ فِی الدُّنْیَا وَمَنْھُومٌ فِی الْعِلْمِ‘ (شعب الإیمان: 271/7)

دو حریص ہیں وہ کبھی سیر ہوتے ہی نہیں۔ ایک دنیا کا حریص ہے۔ جتنا مرضی دنیا کما جائے بس نہیں کرے گا کہ اب تو میں اللہ سے کچھ شرم کرلوں اور عبادات کے لیے، اللہ کے ذکر کے لیے اوقات مختص کرلوں۔ نہیں، اگر دو فیکٹریاں ہیں تو تیسری ہونی چاہیے۔ پانچ ہیں تو پھر دس ہونی چاہئیں۔ اسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔

لَوکَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ ذَھَبٍ لَا بْتَغٰی الثَّالِثَ

ابن آدم کو دو سونے کی وادیاں مل جائیں تو بس نہیں کرے گا بلکہ تیسری وادی کی کوشش میں جت جائے گا۔

وَلَا یَمْلأَءُ جَوفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ

’’ابن آدم کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔‘‘(مسند أحمد: 117/5)
اچانک موت آجائے گی، قبر میں دھکیل دیا جائے گا۔ اب قبر کی مٹی اس کا پیٹ بھرے گی۔ اب بس کرے گا۔ جو مال کمایا اسے ورثاء تقسیم کررہے ہیں اور وہ اس مال کے ایک ایک درہم کا اللہ کو حساب دے رہا ہے۔ یہ کہاں سے کمائے تھے؟ اپنی ذرائع آمدنی بتائو۔ یہ بینک بیلنس کہاں سے بنا؟ اللہ تعالیٰ کو حساب دے رہا ہے۔ ورثاء اس مال کو تقسیم کررہے ہیں۔ یہ دنیا کا حریص ہے۔ اور دوسرا علم کا حریص ہے۔ اس کا پیٹ بھی نہیں بھرتا۔ تحصیل کا شوق، اضافہ علم کا شوق، دعائیں کرتا ہے:
رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا’’یااللہ! علم کو اور بڑھا دے۔‘‘ (طٰہٰ 114:)
یہ شوق اس پر ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ سیدناابن مسعودt اس حدیث کے راوی ہیں۔ فرماتے ہیں:

اَمَّا طَالِبُ الْعِلْمِ فَیَزْدَادُ رِضَا الرَّحْمَانِ

جو صاحب علم ہیں، جو علم کا حریص ہے وہ جس قدر علم حاصل کرتا ہے اسی قدر رحمان کی رضا میں بڑھتا جاتا ہے۔(ادب الدنیا والدین للماوردی، ص: 70)
ایک حدیث پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ ایک اور حدیث پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ ایک آیت کی تفسیر پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ دیگر جو مضامین ہیں، فقہ ہے، اصول فقہ ہے، اصول حدیث، یہ سب علوم دینیہ ہیں۔ جوں جوں پڑھے گا رحمان کی رضا بڑھتی جائے گی۔ حتی کہ نحووصرف کا علم، یہ گرائمر، عربی کے قواعد۔ کچھ طلبہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو قرآن و حدیث پڑھنے آئے ہیں۔ وہ نحووصرف پر توجہ نہیں دیتے۔ سبق میں غیر حاضریاں کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو اساس ہے۔ کتاب و سنت کے فہم کی اساس یہ گرائمر ہے، علم نحو اور علم صرف ہے۔ شام کے ایک محدث علامہ جمال الدین قاسمیa ان کی مایہ ناز کتاب ہے قواعد التحدیث، اس میں فرماتے ہیں کہ جو طالب علم نحووصرف پر محنت نہیں کرتا اس کا شمار اس وعید میں ہوسکتا ہے، اس پر یہ حدیث منطبق ہوسکتی ہے:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ

’’مجھ پے جان بوجھ کے جھوٹ باندھنے والا اپنا ٹھکانہ جہنم بنائے۔‘‘(صحیح البخاري: 110)
وہ کہتے ہیں کہ’لِأَنَّہُ بِلَحْنِہِ کَاذِبٌ عَلَیھِنَّ‘ وہ جو غلطی کررہا ہے، حدیث مرفوع ہے وہ منصوب پڑھ رہا ہے۔ حدیث منصوب ہے وہ مرفوع پڑھ رہا ہے۔ (قواعد التحدیث ص:140)
بعض علماء نے لکھا کہ طالب علم نحووصرف پر محنت نہیں کرتا۔ وہ ایک حدیث کے متن میں ایک غلطی کرتا ہے، پھر دوسری کرتا ہے، پھر تیسری کرتا ہے، نتیجہ یہ کہ عربی کی حدیث فارسی کی بن جاتی ہے۔ یہ اللہ کے پیغمبر پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ تو نحو پڑھو، صرف پڑھو، گردانیں یاد کرو، فاعل اور مفعول کے احکام پڑھو، جوں جوں پڑھتے جائو گے رحمان کی رضا بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ ان قواعد کو پڑھنے میں نیت کیا ہے؟ فہم کتاب و سنت۔ کتاب و سنت کی تسہیل یہ آپ کی نیت ہے۔ تو طالب علم، کیا اس کی شان ہے! روزانہ اگر دس اسباق ہیں اور سیکڑوں مسائل پڑھتا ہے تو یہ رحمان کی رضا میں اضافے کے سیکڑوں مواقع ہیں۔ کوئی دنیا کا طبقہ اس کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ نہیں کرسکتا۔

فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ

ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر، عبادت گزار پر، ایک طرف عالم، ایک طرف عبادت گزار، عبادت گزار کون ہوتے ہیں؟ سخی۔ دن رات مال خرچ کرنے والے۔ عبادت گزار کون ہوتے ہیں؟ راتوں کو قیام کرنے والے، دنوں کو روزے رکھنے والے، جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے، یہ سب عبادت گزار ہیں۔ فرمایا کہ ایک عالم اور ایک عابد میں اتنا فرق ہے جتنا چودھویں کے چاند میں اور ستاروں میں فرق ہے۔ جو عبادت گزار ہیں وہ ستارے ہیں اور ان کے بیچ میں عالم چودھویں کا چاند ہے۔ یہ شرف ہے۔ یہ شرف شریعت نے دیا۔
لیکن میرے عزیز طلبہ اور معزز سامعین حضرات! اس شرف کے بقا کے لیے کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ امام ابو عاصم النبیل امام بخاری کے شیخ، اپنے نام کے ساتھ ساتھ بڑے نبیل تھے۔ نام بھی نبیل اور عملاً بھی بڑے نبیل تھے۔ ان کا ایک قول ہے:

مَنْ طَلَبَ ھَذَا الْحَدِیثَ فَقَدْ طَلَبَ اَعْلٰی الْاُمُورِ فَیَجِبُ اَنْ یَّکُونَ خَیرُ النَّاسِ‘(تاریخ دمشق: 365/24)

جو اس حدیث کا طالب ہے وہ یہ بات نوٹ کرلے کہ وہ سب سے بہترین چیز کا طالب ہے۔ ڈاکٹر جو ہے ڈاکٹری پڑھ رہا ہے، انجینئر انجینئرنگ پڑھ رہا ہے۔ تم حدیث پڑھ رہے ہو، تم سب سے ممتاز ہو، متفرق ہو اور سب سے بہترین چیز کے طالب ہو، اس پر اللہ کا شکر ادا کرو اور اپنی ذمہ داری کو پہچانوں اور وہ یہ ہے کہ اب تم سب سے بہترین ہو بھی جائو۔ ایسا بہترین ہوجائو کہ تمھارے ایک ایک عمل میں، بلکہ ایک ایک حرکت میں، اٹھنے بیٹھنے میں، گفتگو میں اللہ کے پیارے پیغمبر کی خوشبو آئے۔ سنت کی خوشبو آئے۔ اس طرح خیرالناس ہوجائو۔ سب سے بہترین ہو جائو۔ تو حدیث کا طالب اپنے اس منصب میں انتہائی شرف کا مستحق ہے لیکن کب؟ جب وہ واقعتا خیرالناس بن جائے۔ اور سب سے بہتر انسان بننے کی کوشش کرے، اعتقادی طور پے، منہجی طور پے، سیاسی طور پے، عملی طور پے، اخلاقی طور پے سب سے بہترین بننے کی کوشش کرے۔ امام شافعیa فرمایا کرتے تھے:

اِذَا رَأَیْتُ اَحَداً اَھْلَ الْحَدِیثِ فَکَاَنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ

جب میں کسی اہل حدیث کو دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے رسول اللہe کو دیکھا۔ کیونکہ اہل الحدیث اللہ کے پیارے پیغمبر کی سنت میں، عمل بالسنہ میں فنا ہوتا ہے۔ اس کی عبادت، اخلاقیات، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ اس دور کے اہل حدیث تھے۔ آج ہم بھی سوچیں، غور کریں، آئینہ دیکھ کر اپنا چہرہ، چہرے سے شروع ہوجائیں کہ سنت رسول کا رنگ موجود ہے؟ ہمیں دیکھ کر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے اللہ کے پیغمبر کو دیکھ لیا، صحابہ کرام کو دیکھ لیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے؟ تو حدیث کا طالب ہونا یا اہل الحدیث ہونا ایک شرف تو ہے مگر ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے کہ اپنے اوپر حدیث کو منطبق کرنا اور حدیث پر عمل کرنا۔ دیکھیں رسول اللہe نے اس علم کے تعلق سے بلا تمہید دو راستے بیان فرمائے۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ فرمایا کہ

وَالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ أَوْعَلَیکَ (صحیح مسلم: 223)

’’یہ قرآن حجت ہے آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف۔‘‘
کتاب و سنت کے ساتھ تعلق قائم کرنے والو! بس یہ دو ہی باتیں ہیں۔ یہ قرآن و حدیث یا تو حجت ہے آپ کے حق میں یا پھر آپ کے خلاف۔ اگر ان سے تعلق قائم کرو گے، پڑھو گے تو پھر یہ سارا سلسلہ کامیابی پر منتج ہوگا۔

اِقْرَؤُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ یَأْتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیعًا لِأَصْحَابِہِ

یہ قرآن قیامت کے دن آئے گا اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرتا ہوا۔ (صحیح مسلم: 804)
حجت بن رہا ہے۔ بلکہ بعض سورتوں کے بارے میں، مثلاً: سورۂ ملک ہے، فرمایا:

تَشْفَعُ لِصَاحِبِھَا حَتَّی یُغْفَرَلَہُ (سنن أبي داود:1400)

سورۂ ملک اس وقت تک شفاعت کرتی رہے گی، جب تک بندے کو جنت میں پہنچا نہ دے۔
سورۂ بقرہ، سورۂ آل عمران، جن کو قرآن کے دو نور کہا گیا ہے تُجَادِلاَنِ عَنْ صَاحِبِھِمَا‘یہ دو سورتیں آئیں گی اپنے پڑھنے والے کے لیے لڑیں گی، جھگڑیں گی، اس وقت تک جھگڑا کرتی رہیں گی جب تک اس کو جنت میں پہنچا نہ دیں۔(صحیح مسلم: 804،وجامع الترمذي: 2883)
حُجَّۃٌ لَکَ اگر پڑھو گے، حق ادا کرو گے، عمل کرو گے، کتاب و سنت کو اپنے اوپر نافذ کرو گے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو’أَوْ عَلَیکَ‘ پھر دوسرا راستہ یہ سارا علم آپ کے خلاف حجت ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ سامنے کھڑا کرلے گا۔ پانچ سوال ہر بندے سے ہونے ہیں۔ پانچواں

سوال یہ ہے: مَاذَا عَمِلَ فِیمَا عَلِمَ (جامع الترمذي: 2416)

کہ جو تونے کتاب و سنت کا علم حاصل کیا، تمھیں یہ نعمت ہم نے دی اور کتاب و سنت کے نور سے تمھارے باطن کو منور کیا، اس کے مطابق اپنا عمل پیش کرو۔ اپنے علم کے مطابق اپنا عمل پیش کرو۔ اب اگر عمل نہیں ہے تو پھر یہ سارا علم آپ کے خلاف حجت ہوگا۔ لہٰذا عمل کا جذبہ، یہ طلب علم کی راہ میں انتہائی ضروری ہے۔ اور پھر یہ طلب علم اور عمل یہ دو چیزیں ایک اہم بنیاد پر قائم ہیں۔ اور وہ اخلاص ہے۔ اللہ کی رضا، یہ سارا عمل اللہ کے لیے خالص ہوگا۔ کوئی اس میں ریاکاری نہیں، کوئی منفی سوچ نہیں۔ طلب علم اس لیے نہیں کہ اس علم کے ذریعے دنیا کا مکتسب ہو، دنیا کا حصول ہو، دنیا کے عہدوں کا حصول ہو، ناموری ہو، شہرت ہو، پیسہ کمانا مقصود ہو۔ یہ طلب علم کی کوئی سوچ نہیں۔ کوئی نیت نہیں۔
عزیز طلبہ! چار نیتیں کرلو: 1 اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ 2 اس علم کے ذریعے اپنے آپ سے جہالت کو دور کریں۔ کیونکہ جہل ایک مرض ہے۔ جہل ایک بیماری ہے اور علم شفا ہے۔ جہالت کے اس مرض کو دور کرنا ہے۔ امام شافعیa کا شعر ہے کہ

ومن لم یذق ذل التعلم ساعۃ

تجرع کأس الجھل طول حیاتہ
جو گھڑی دو گھڑی روزانہ علم حاصل نہیں کرتا اور طلب علم کے لیے وقت نہیں نکالتا وہ ساری زندگی جہالت کے جام انڈیلتاہے۔(العلم للشیخ ناصر، ص: 17) جہالت کے جام انڈیلتا رہتا ہے اور یہ ایک مرض ہے۔ جو اس کی بیماری میں اضافہ کا موجب ہے۔ تو اپنے آپ سے جہل کو دور کریں۔ 3 تیسری نیت یہ ہے کہ اس سارے سلسلے پر عمل کرنا۔ عمل ساتھ ساتھ ہے۔ عمل علم سے متخلف نہیں ہے۔ تَعَلَّمْنَا الْعِلْمَ وَالْعَمَلَ جَمِیعًا ہم نے علم اور عمل اکٹھا سیکھا ہے۔ اکٹھا حاصل کیا ہے۔(الصواعق المرسلہ: 182/1) یہ نہیں کہ علم آج لے لو، عمل کل کرلیں گے۔ عبداللہ بن مبارکa نے اپنے شیخ سے ایک دن کی چھٹی مانگی۔ چھٹی تو مل گئی مگر شیخ حیران تھے۔ یہ ایک ملازم شاگرد، ہمیشہ آنے والا اور تحصیل کا راغب اور انتہائی اعلیٰ ذوق اور شوق کا مالک ایک دن ناغہ کرکے آخر کہاں جانا چاہتا ہے؟ اگلے دن واپس آگئے، درس میں شریک ہے۔ شیخ نے پوچھا: آپ کہاں گئے تھے؟ عرض کیا کہ حدیث پڑھی تھی اس پر عمل کرنے گیا تھا۔ عمل نہیں کرسکا تھا۔ والد فوت ہوگئے اور ایک باغ ان کا ترکہ ہے۔ ان کی میراث تقسیم نہیں کرسکا تھا۔ نبیu کا فرمان ہے:اَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِاَھْلِھَا ’’ترکہ فوراً تقسیم کرو۔‘‘(صحیح البخاري: 6732)
ایک شخص کا انتقال ہوجائے، اس کی میراث فوراً تقسیم کردو۔ علم نہیں تھا تاخیر ہوگئی۔ چھٹی لے کر گیا اور وہ میراث تقسیم کرکے آگیا۔ امام احمد بن حنبلaنے حدیث پڑھی:اِحْتَجَمَ رَسُولُ اللّٰہِ وَاَعْطٰی اَبَا طَیْبَۃَ دِینَاراًکہ اللہ کے پیغمبر نے حجامہ کروایا اور حاجم، حجام ابو طیبہ کو ایک دینار دیا۔ حدیث پہلی بار پڑھی، فرمایا کہ جائو کسی حاجم کو لے کر آئو۔ حاجم آگیا، اس نے حجامہ کیا۔ آپ نے حجامہ کروایا اور اس کو ایک دینار اجرت دی کیونکہ اللہ کے پیغمبر کی سنت ہے۔ علم اور عمل دونوں ایک ساتھ ہیں۔ 4 چوتھی چیز یہ ہے کہ جیسے اپنے آپ سے بڑی شدومد کے ساتھ جہالت کو دور کیا، اسی طرح اپنے اس علم کے ذریعے لوگوں سے بھی جہالت کو دور کریں۔ اس علم کو اپنے تک محدود نہیں رکھیں۔ اور یہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے، مجھ جیسے طالب علم کے لیے اور ان عظیم طلبہ کے لیے جو آج فارغ التحصیل ہورہے ہیں، کہ اس علم کا نشر اس علم کے آداب میں سے ہے۔ جو طالبِ علم علم حاصل کرلیتا ہے مگر نشر علم کی راہ پر نہیں چلتا وہ اس علم کا خائن ہے۔ اس کی تکمیل ہم نہیں مانتے۔ نشر علم اس پورے منصب کی تکمیل ہے۔ علم حاصل کرلیا، علم حاصل کرکے اب ملازمت ڈھونڈرہاہےکوئی سرکاری نوکری مل جائے۔ سفارتخانے میں کوئی ترجمان کی نوکری مل جائے۔ یہ اس علم سے خیانت ہے۔ علم حاصل کرلیا، اسکول ٹیچری مل جائے۔ چلو کم ازکم یہ ایک سطحی تعلیمِ علم ہے، اصل تعلیمِ علم ان مدارس میں ہے مساجد کی امامت کے ساتھ۔ جو طالب علم فارغ ہوکر مسجد کا امام نہیں بنتا اور کسی دینی ادارے میں تدریس کی ذمہ داری ادا نہیں کرتا وہ ان آدابِ علم کی تکمیل نہیں کررہا۔ بعض اوقات حالات کی مجبوری ہوسکتی ہے لیکن اس علم کو آگے نشر کرنا، آگے پھیلانایہ ایک لازمی راستہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے