نام کتاب : مضاربت میزان شریعت میں
مؤلف : ڈاکٹر شاہ فیض الابرار
صفحات : 375
ناشر : مرکز الترجمہ والتحقیق للاقتصاد الاسلامی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی
ملنے کا پتہ : فضلی سپر بک مارٹ کراچی ،مکتبہ قدوسیہ لاہور
جامع مسجد سلمان فارسی گلستان جوہر کراچی
دین اسلام میں انسانی زندگی کے جملہ مسائل سے متعلق مکمل راہنمائی موجود ہے اسی لیے اس کو کامل دین کہا جاتاہے اور اسی وجہ سے اس دین کو دیگر ادیان پر فوقیت حاصل ہے دین اسلام نے عبادات کے متعلق کامل واکمل ہدایات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق وکردار وعادات واطوار اور مالی معاملات کے بارہ میں مفصل احکامات سے آگاہ کیاگیا ہےلیکن جہاں یہ مال زندگی کا سہارا اور ذریعہ ہے وہاں یہ زندگی میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بھی ہے اگر مال کا حصول، استعمال اور اسے خرچ کرنے میں اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ مال پُر امن بقائے باہمی کی ضمانت دیتاہے لیکن اگر مال کمانے یا خرچ کرنے میں اسلامی ہدایات کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہی دولت انسان کے لیے وبال جان بن جاتی ہے ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے اندر حص، طمع اور لالچ نے اس قدر جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں کہ ہم باہمی لین دین کے معاملات میں افراط وتفریط کا شکار ہیں چنانچہ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں غالباً رسول اللہ ﷺ نے ایسے حالات کے متعلق ہی پیشین گوئی فرمائی تھی ۔
’’لوگوں پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ انسان اپنی روزی کے متعلق حلال وحرام کی پروا نہیں کرے گا۔‘‘  (صحیح البخاری ، کتاب البیوع ، الحدیث : 2059)
حصول مال کے کئی ایک ذرائع ہیں جن میں ایک تجارت بھی ہے ۔ دور حاضر میں وہی قومیں ترقی یافتہ خیال کی جاتی ہیں جو میدان تجارت میں آگے ہوں ، اگرچہ عروج وترقی کا یہ معیار سراسر غلط ہے ، تاہم اس میدان میں آگے بڑھنا ہماری شریعت میں قطعاً ناپسندیدہ نہیں بلکہ ہم مسلمان کو اس میدان میں دیگر اقوام کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ کسی مقام پر بھی شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امانت دار تاجر کی بایں الفاظ تعریف کی ہے ۔
’’امانت دار، سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء کرام ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔ (سنن ترمذی ، البیوع : 1209)
تجارت، خرید وفروخت اور باہمی لین دین کے شرعی اصول کیا ہیں ؟ وہ کونسی تعلیمات ہیں جنہیں اختیار کرکے ہمارا کمایا ہوا مال ہمارے لیے حلال اور جائز ہوگا ؟ مال کمانے اور خرچ کرنے کے کون کون سے اصولوں کی پاسداری ضروری ہے تاکہ حرام اور اس کی نحوست سے بچا جاسکے۔ اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو بالخصوص تاجر کو ان کا علم ہونا چاہیے چنانچہ خلیفہ ثانی امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا درج ذیل فرمان ہمارے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
’’ ہمارے بازاروں میں وہی انسان خرید وفروخت کرے جسے دین کی سمجھ حاصل ہو۔‘‘ (سنن ترمذی ، الوتر : 487)
انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔ معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقہ کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہےچنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں، اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کی ضرورت ہے الغرض اشیاء کی خرید وفروخت ، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔
باہمی تجارتی معاملات میں سے ایک اہم طریقہ مضاربت بھی ہے یہ وہ طریقہ ہے جس کو رسول اکرم ﷺنے بھی اپنایاتھا سیدہ خديجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا ایک معزز مالدار اور تاجر خاتون تھیں لوگو ں کو اپنا مال تجارت کے لیے دیتی تھیں اور مضاربت کے اصول پر ایک حصہ طے کرلیتی تھیں ۔ مضاربت سے مراد ایک ایسا عقد ہے جس میں صاحب مال اپنا مال واضح کیفیت اور معلوم مقدارکسی کو بغرض تجارت دیتا ہے تاکہ دونوں کو نفع حاصل ہو ، بہت سے لوگوں کو تویہ فکر ہی نہیں ہوتی کہ کسب مال کے ذرائع کیا ہیں طریقہ تجارت حلال ہے یا حرام بعض لوگو ں کو یہ فکر دام گیر ہوتی ہے لیکن انہیں جائز اور ناجائز تجارت کا علم ہی نہیں ہوتا ، زیر نظر کتاب “مضاربت میزان شریعت میں ” اسلامی نظام معیشت ، مضاربت اور تجارت کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور حصول مال کے آداب اور مضاربت جائز اور ناجائز تمام اشکال پر روشنی ڈالی گئی جس میں مضاربت سے متعلقہ تمام فقہی جوانب کا احاطہ مدلل انداز میں کیا گیا ہے۔
صاحب کتاب نے شرکت اور مضاربت کے شرعی اصولوں کی وضاحت میں اسلامی فقہ کے چارو ں مشہور مکاتب ، حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی کی مستند کتابوں کو بھی ملحوظ رکھا ہے ۔
یہ کتاب چارابواب پر منقسم ہے ،جو کہ درج ذیل ہیں ۔
باب اوّل
کتاب کے پہلے باب میں اسلام کے نظام اقتصاد کے بنیادی خصائص وضوابط، مال کا حقیقی مالک اللہ تعالی ہے اور انسان کے پاس بطور امانت ہے، کسبِ معاش ہر انسان کا حق ہے، حصول مال کے آداب،اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادیں، اسلامی اقتصادی نظام کا نظری تصور ، اسلامی اقتصادی نظام کا عملی تصور ، ملکیت ِمال اسلام کی رو سے، انسان کی بنیادی ضروریات، اسلام میں تصور محنت و اجرت، آداب و احکام خرید وفروخت ، پرمشتمل ہے۔
باب دوم
دوسرے باب میں مضاربت تاریخی و اخلاقی پس منظر ،قبل از اسلام شراکت و مضاربت کا عمومی تصور،قبل از اسلام عربوںمیں شراکت ومضاربت کا تصور،رسول اللہ ﷺ کے تجارتی اسفار،مضاربت کی اہمیت و ضرورت اورفوائد،مضاربت کااخلاقی پہلو جیسےموضوعات پر معلومات کو جمع کیا ہے۔
باب سوم
کتاب کے تیسرےباب میں مضاربت کےفقہی احکامات کو اسلامی فقہ کے چارو ں مشہور مکاتب ، حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی کی مستند کتابوں کی روشنی میں مرتب کیا ہے جن اجمالی فہرست درج ذیل ہے،مضاربت کی لغو ی و اصطلاحی تعریف،مشروعیت مضاربت شرعی دلائل کی روشنی میں،أرکان مضاربت،مضاربت کی شروط،معاہدہ کرنے والوںکے متعلق شروط،غیر مسلم کے ساتھ مضاربت،راس المال( مال مضاربت)کی شروط، منافع کے متعلق شروط، کام کےمتعلق شروط،مضارب کادائرہ کار،اقسام مضاربت، مضارب کے حقوق ،مالک اور عامل کے مابین اختلاف کی صورتیں،مضاربت کافسخ ہونایامضاربت کو فسخ کرنا، تصرفات مضارب، عقد مضاربت میں فریقین کا متعددہونا،عقد مضاربت میں عورت کی شراکت،مضاربت فاسدہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔
باب چہارم
مضاربت سے متعلق علمائے امت کی جہود مبارکہ کے ذکرخیر پرمشتمل ہےجس میں مضاربت سے متعلق مستقل تصنیفات اورچند ایک علمائے کرام کے فتاوی جات کو جمع کیا اور اصطلاحات مضاربت کے عنوان سے کتاب میں مذکور اہم ترین اصطلاحات کی عام فہم وضاحت کی گئی ہے۔
متعدد اہل علم کی قیمتی تقاریظ سے اس تصنیف لطیف کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ اقتصادی مسائل سے متعلق دلچسپی رکھنے والے ارباب ذوق اس کا گرم جوشی سے خیر مقدم کریں گے۔
نوٹ : زیر تبصرہ کتاب میں حروف خوانی کا خاص اہتمام نہیں کیا گیا لہٰذا امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس پر مکمل توجہ دی جائے گی۔ ان شاء اللہ العزیز
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے