کتبہ:عبد الرحمن شاکربلوچ(متعلم جامعہ ہذا)
صححہ: محمد شریف بن علی (نائب مفتی جامعہ ہٰذا)
سوال :لےپالک بیٹے کی ولدیت تبدیل کرنے کے بارے میں شرعی حکم ؟
جواب:کسی بھی یتیم یا لاوارث کو پالناثواب ہے لیکن اس کی شناخت ختم کرنااور اسے اپنی طرف منسوب کرنا ناجائز اور حرام ہے اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک شناخت عطا کی ہے اس کی شناخت ختم کرنا اس کے ساتھ ظلم ہے اسی طرح جس کو بھی اللہ تعالی نے اولادعطا فرمائی ہے یہ اس کیلئے نعمت ہے اور کسی بھی بیٹے کا (اپنے باپ کی طرف نسبت )اپنے با پ کے علاو ہ کسی اور کی طرف ا پنی نسبت کرنا یہ اللہ تعالی کی نعمت کی نا شکری ہے ۔زمانہ جاہلیت سے یہ رسم چلی آرہی ہےکہ لوگ لے پالک بیٹے کو اپنی طرف منسوب کرتے تھے اسی طرح آغازاسلام میں بھی یہ حکم تھا کہ جس طرح سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد کہا جاتا تھا لیکن اللہ تعالی نے اس نسبت کو ختم کردیا اور یہ حکم نازل فرمایا:
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ(الاحزاب 5)
لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا عدل وانصاف یہی ہے۔
یعنی سب سےبڑاعدل یہ کہ کسی کی شناخت کوختم نہ کیاجائے اور کسی اور کی نسبت سےنہ پکارا جائے،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکے حقیقی باپ اگر معلوم نہ ہو توپھر انکو کس کی نسبت سے پکارا جائے اس آیت کے فورابعد اللہ تعالی نے اس مشکل کو بھی حل کردیا اور فرمایا

 فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا   (الأحزاب:5)

پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد نہیں بلکہ زید بن حارثہ کے نام سے پکارا جاتاتھا اسکے بعد نبی اکرم ﷺ نے بھی سیدنا زیدرضی اللہ عنہ کو بیٹا کہہ کر نہیں پکارا بلکہ آپﷺ نے فرمایا
أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا(بخاری ،کتاب المغازی باب عمرۃالقضاء4251)
’’ آپ ہمارے بھائی اور دوست ہیں ‘‘۔
اور جوشخص غلط انتساب کرتا ہے تووہ سخت گنہگارہے اللہ کے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے

وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا،

وَلَا عَدْلً(مسلم کتاب الحج باب تحريم تولي العتيق غير مواليه)
’’جس شخص نے اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی یاغلام نے اپنے مولی کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی اس پر اللہ تعالی فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی اور قیامت کے دن اس کی نہ نفلی عبادات قبول ہوگی نہ فرضی ۔
اسی طرح سیدناسعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا
مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ (بخاری کتاب الفرائض باب من ادعیٰ الی غیر ا بیہ حدیث6766)
جس نے اپنے آپ کو اپنے سگے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا اوروہ جانتا بھی ہے کہ وہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ كُفْرٌ(بخاری 6768کتاب الفرائض)

’’اپنے والدین کو چھوڑ کر اوروںکی طرف نسبت نہ کرو جس نے ایسا کیا تو اس نے کفر کیا‘‘ ۔
یعنی اللہ تعالی نے جو نسب آپ کو دیا اس سے راضی نہ ہونا کفران نعمت میں آجاتا ہے ۔ سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا

لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا ليْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ(مسلم کتاب الایمان

باب بیان حال ایمان من قال لأخیہ المسلم یا کافر 61)
جوشخص جانتے ہوئے بھی اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف نسبت کی اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اور جس نے کسی ایسی قوم میں ہونے کا دعویٰ کیا جس قوم میں اس کانسب نہیں تووہ اپنا ٹھکانا جہنمبنالے ۔
ایک اور مسئلہ ہے جس کے باپ معلوم نہ ہو تو اسکو دوست یا بھائی کہہ کر پکارا جائے گا لیکن انکے کاغذات میں کیا لکھا جائے گا اسکے لیے (ابن ابیہ) لکھا جاسکتا ہے کیونکہ سلف سے کتب تاریخ ادب میں زیادہ ترابن ابیہ لکھا ہوا ملتا ہے۔مذکورہ احادیث

مطہرہ میں شدید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے