دین اسلام اور اس کے ماننے والے ہر دور میں دشمنان اسلام کی سازشوں کا ھدف بنتے رہے اور اس کا آغاز مشرکین مکہ سے ہوا اور پھر سیرت طیبہ میں  یہود نے مکر و فریب و دجل کاریوں کی انتہا کر دی تھی  جب انہوں نے ایک طرف تو مشرکین مکہ کو استعمال کیا تو دوسری جانب مدینہ کے منافقین کو اپنے مذمومانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا اور ارد گرد کے  مشرک قبائل کو بھی دشمنی پر ابھارتے رہے غزوہ احزاب اس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔لیکن ’

’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا‘‘ اور ’’اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ ‘

‘ کے نتیجے میں یہ سب بدترین شکست سے دو چار ہوئے یہاں تک کہ یہود کے ناپاک وجود سے پہلے مدینہ منورہ کو پاک کیا گیا پھر خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں جزیرہ عرب کو بھی ان کے خبیث وجود سے پاک کر دیا گیا ۔ سورہ روم کے عملی انطباق کے اولین مظہر کبیر معرکہ قادسیہ میں فتح کے بعد مغلوبین بھی یہود کے ساتھ ہو گئے۔اور عیسائی بھی اس دشمنی کو نبھانے میں ان دونوں سے پیچھے نہ رہے ۔ اس  مثلث مذموم نے پچھلے چودہ سو سال سے اسلام اور عالم اسلام کو زک پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ جہاں جہاں موقع ملا درندگی اور سفاکیت کے مظاہر دکھاتے رہے ۔
اس مثلث کی ہمہ جہتی یلغار نے عالم اسلام کو شدید نقصان پہنچایا کہیں داخل سے تو کہیں خارج سے لیکن عالم اسلام کی مضبوط عمارت میں اس وقت ایک دراڑ پڑنا شروع ہوئی جب عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور اور پھر اس کا جانشین  مامون العباسی نے یونانی فلاسفہ کی لایعنی اور فضول مباحث پر مبنی کتب کا عربی میں ترجمہ کروانا شروع کیا بظاہر یہ ایک علمی تحریک تھی لیکن پس پردہ جو عناصر متحرک تھے انہوں نے عالم اسلام کی بنیادوں کو مسمار کرنے کی نیت سے فکری یلغار شروع کروائی جس میں علم کلام، علم منطق ، علم فلسفہ، یعنی کیا کیوں اور کیسے کی لایعنی بحث  نے تقویت پکڑی وہاں مسلمان عمل کی طاقت سے محروم ہوتے گئے جبکہ معروف ہے کہ اسلام علم و عمل کا حسین امتزاج ہے اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں قلم یا تلوار کی جگہ تسبیح ، گھوڑے کی ننگی پیٹھ کی جگہ مصلے، دعاؤں کی جگہ خود ساختہ اوراد اور وظائف ، صلوات خمسہ کے مقابل خود ساختہ نمازیںوغیرہ وغیرہ ہر عبادت کا متبادل تلاش کر لیا گیا یہاں تک کہ اب اصل عبادت بغیر روح کے ایک جسم رہ گئی یعنی صرف رسم اور اس کی جگہ  فرضی اور خودساختہ پوجا پاٹ کے مظاہر باقی رہ گئے ۔
اس میں بھی سب سے خطرناک پہلو وہ تھا جو عقائد پر حملہ کی صورت کیا گیا ایمانیات ثلاثہ کو ایک ایک کر کے شکوک و شبہات کا شکار کر دیا گیا ذات باری تعالی کے حوالے سے یونانی فلسفہ اور علم کلام و منطق کے تحت وہ وہ مسائل گھڑے گئے الحفیظ و الامان کہیں اللہ کے سائے پر بات تو کہیں اس کی مثل پر تو کہیں کچھ الغرض ان فکری مباحث کے بعد  بقول شاعر!
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتانہیں
اللہ کا قرب بذریعہ عبادت، دعا و اذکار مسنونہ کے بجائے صوفیانہ مجہول شعارات ، وظائف، چلوں کے ذریعے فنا فی اللہ کا باطل عقیدہ اختیار کر لیا گیا ، انہیں رب ہر چیز میں نظر آنے لگا ۔ رسالت کا وجود مزکی توہین کی زد میں لایا گیا پہلےﷺکے وجود مبارک کو حاضر ناظر  کی بحث کی زد میں لایا گیا ، پھر نور و بشر کی بحث شروع کی گئی جس کا کریہہ ترین مظہر اب یہاں تک آ پہنچا ہے کہ نعوذ باللہ استغفراللہ من ذلک کہ رسول اللہ ﷺکی سالگرہ پر کیک ہی نہیں کاٹے جا رہے بلکہ Happy Birth Day To You Ya Rasool Ullah جیسے واہیات اور مشرکانہ گیت بھی گائے جانے لگے۔اطاعت و اتباع کی جگہ اندھی تقلید اور  رسالت  سے محبت کی جگہ عشق رسول نے لے لی۔ اسوۃ حسنہ کے جامع و مفہوم کامل کو محدود کر دیا گیا ہر فرقہ اپنی ہی لگائی ہوئی ایجاد کردہ عینک سے رسالت کے آفاقی وجود کو زمانی و مکانی قیود کا پابند کر دیا۔کلمہ طیبہ کے دو جزء اور دونوں اجزاء اس فکری الحاد کی بھینٹ چڑھا دیے گئے ۔
اس الحاد کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان قوت عمل سے محروم ہو گیا جس کے نتیجے میں ہر مسئلے کا حل خود ساختہ اور وضعی چلے اور وظائف میں تلاش کرنے لگ گیا اولاد چاہیے تو فلاں آیت اتنی مرتبہ فلاں کیفیت میں پڑھو، مال و دولت چاہیے تو فلاں آیت اس تعداد اور فلاں وقت میں پڑھو، قرآن کتاب ہدایت تھی اسے کتاب وظائف بنا لیا گیا، قرآن کتاب تلاوت تھی تو اسے کتاب مقدس بناکر  غلاف میں لپیٹ کر گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا گیا اور جب بیٹی یا بہن کی رخصتی ہو تو اس کے سائے میں رخصتی کروا دی جائے ۔
جبکہ قرآن مجید کا آغاز ہی اس امر سے ہوا تھا کہ یہ کتاب ہدایت ہے لیکن اس کتاب سے استفادہ کی کچھ شرائط ہیں جو لازمی اختیار کی جائیں ورنہ ماحصل صفر ہو گا لیکن وہی کچھ کیا گیا جو کچھ اسوہ حسنہ کے ساتھ کیا گیا تھا اسوہ حسنہ کی بنیاد میں

’’لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا‘‘

جیسی تین خوبصورت بنیادوں تھی لیکن اسوۃ حسنہ کو بھی ان تین بنیادوں سے الگ کر کے پیش کیا گیا نتیجہ اس ادھورے اور ناقص تصور نے رسالت کے خوبصورت وجود  کے مکمل خدو خال کو بھی سامنے نہیں آنا دیا گیا۔
یہ سب فکری الحاد کے نتیجے میں رونما ہو ااس فکری الحاد کا آغاز عباسی خلفاء کے زمانے سے ہوا جس میں غیر عرب عناصر کا تسلط و غلبہ تھا  پہلے مجوس پھر اتراک پھر آل بویہہ اور جب سلاجقہ کا دور آیا تو اس دور تک وقت اپنی اتنی چالیں چل چکا تھا کہ اس کا مداوا مکمل طور پر ناممکن سا ہو گیا تھا لیکن پھر ایک خوبصورت ماں کا بے مثال پوتا جسے دنیا شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے ممتاز شاگردوں کی ایک بے نظیر جماعت نے ان ملحدین کے سامنے  بند باندھا اور ہمہ جہتی یلغار کے ساتھ قلم و سیف کے ساتھ جہادکیا اور امت اسلامیہ اپنے اس محسن کی قیامت تک مقروض ہی رہے گی بالکل ایسے ہی جیسے اپنے وقت میں سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے فتنہ وضع حدیث کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر دی جسے یہ ملحدین تمام تر مذموم کوششوں کے باوجود نے ڈھا سکے اور نہ ہی اس کا کچھ بگاڑ سکیں گے ۔ بفضلہ تعالی امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے روحانی فرزند ان کے مشن کو بھرپور قوت اور طاقت کے ساتھ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں خواہ ان کی تعداد کم سے کم تر ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ ’

’ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ‘‘

اور بندے کے بچے تو ویسے بھی کم ہی ہوا کرتے ہیں ۔
اس وقت اس الحاد نے ممکنہ جتنی اشکال اختیار کی ہوئی ہیں شاید ہی ازمنہ سابقہ میں اختیار کی ہوں اس کی ایک جہت ذات باری تعالی، تو دوسری جہت رسالت کا وجود مزکی، تیسری جہت قرآن مجید، چوتھی جہت حدیث و سنت ، پانچویں جہت امام بخاری رحمہ اللہ جو اہل حق اور دفاع حدیث ، حجیت حدیث کے حوالے سے ایک مثالی تعبیر بن چکے ہیں کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ دیگر محدثین نے بھی تو احادیث کے مجموعات تیار کیے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اور پھر تابعین عظام رحمہم اللہ اور آئمہ کرام رحمہم اللہ کا ایک طویل سنہری سلسلہ ہے آخر صحیح بخاری کو یہ مقام کیوں حاصل ہوا ؟ میں ایک طالب علم ہوں صرف دو باتیں جانتا ہوں ایک مثالی ماں رحمہا اللہ کی گود، اور دوسرا دو رکعت نماز۔ جی ہاں دو رکعت نماز دنیا و مافیھا سے بہتر ہوا کرتی ہے اور ایسا ہی ہوا امام بخاری رحمہ اللہ نے فتنہ وضع حدیث کا مقابلہ اس دو رکعت نماز کے ذریعے ہی کیا تھا جب کوئی حدیث درج کرنی ہوتی تو دو رکعت نماز ادا کرتے اور اس طرح مشیت الہی بھی شامل ہو جاتی تھی اور پھر یہ مشیت الہی ایسی شامل ہوئی کہ کتاب اور صاحب کتاب دونوں ہی حیات جاوید کے حامل بن گئے یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملحدین کی اتنی جرات تو ہوتی نہیں کہ حدیث پر طعن زنی کریں لیکن اپنے خبث باطن کا ثبوت اس طرح دیتے ہیں کہ حدیث پر طعن امام بخاری رحمہ اللہ کی ذات پر طعن کر کے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جس میں سوشل میڈیا میں متحرک فکر غامدی کے ایک پرچار کنندہ جو اپنے تئیں مفکر اسلام بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ان جیسے بے شمار بے نام جو ’’ابتر‘‘ ہی رہیں گے۔
لیکن اس الحاد نے سب سے خطرناک رخ اس وقت اختیار کیا جب آزادی اظہار رائے کی آڑ میں سوشل میڈیا پر کچھ خبیث افراد نے رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ کو کھلم کھلا دشنام طرازی اور سب و شتم کا نشانہ بنا لیا اور یہ سب کچھ الحادی فکر سے آلودہ ان افراد نے کیا جن کے تانے بانے آج بھی بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ سے جا ملتے ہیں ، کعب بن اشرف ملعون کی روحانی ذریت نے اپنے ملعونین اب و جد کو اس مذموم مہم میں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔گو کہ ان ملعونین کا کیس عدالت میں چل رہا ہے لہذا اس موضوع پر لب کشائی مناسب نہیں لیکن اس حوالے سے اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حرمت رسالت پر مفاہمت کسی بھی مسلمان کے ایمان کا حصہ نہیں اورنہ ہی ہو سکتی ہے اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو دیکھا جائے تو جس طرح ان ملحدین پر قانونی گرفت کی جانی چاہیے تھی نہیں کی گئی جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں شدید تکلیف و اذیت میں ہیں ۔بزبان خلق اس وقت پاکستان کے آئین پر عمل کی ضرورت ہے گوکہ سفراء کی کانفرنس ایک اچھی کاوش ہے لیکن صرف اسی پر انحصار کر کے بیٹھ جانا قطعا مناسب نہیں ہے۔
لیکن اس الحادی فکر کے کھل کر سامنے آنے سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ’’ کچھ لوگ پہچانے گئے‘‘ لہذا  دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرہ  میں صف بندی ہوتی جا رہی ہے ’’ایک طرف دیندار‘‘ اور ’’دوسری طرف دکاندار‘‘ اور حیران کن امر تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان کی معروف سیاسی جماعتیں توہین رسالت کے حوالے سے  سب ایک موقف پر ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیران کن رد عمل تو ان دینی جماعتوں سے ہے جو باقاعدہ سیاسی عمل میں بھرپور شریک ہیں ان کی شراکت اس مہم میں نہ ہونے کے برابر ہے چند ایک سیاسی بیانات اور پریس کانفرنسز اوربس ابھی اگر انہی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف کوئی کچھ کہہ دے تو کارکنان ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جائیں گے اور وہ کچھ بپا کیا جائے کہ الحفیظ والامان
پچھلے چند دنوں سے ایک ہی بات بار بار دل و دماغ میں گونج رہی ہے کہ کیا ان لوگوںنے مرنا نہیں ہے ؟ کس منہ سے سامنا کریں گے ؟ اور شفاعت کے طلبگار کس طرح ہوں گے ؟ کیا مرتکبین توہین رسالت کے سہولت کار رسول اللہ ﷺکی طرف نسبت کرنے کے حق دار رہے ہیں ؟ سیٹیں ، عہدے ، مناصب ، مال ، دولت ، واہ واہ ، جی حضوری، خدارا کوئی ان لوگوں کے کانوں تک یہ بات پہنچائے
سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارا
تو زاد راہ اس وقت ایک ہی ہو گی اور توحید کی بنیاد پر رسالت کا ساتھ، جب رسالت ہی نہ رہی تو توحید بھی نامکمل اور ادھوری بلکہ منہ پر دے ماری جائے گی، کوئی تو ان قد آور قائدین تک یہ آواز پہنچائے۔
کہ رسول اللہ ﷺکا وجود مزکی تو وہ مبارک وجود ہے جس کا احترام رب کائنات نے بھی کیا پورے قرآن میں کہیں محبوب کائنات کو ’’ یا محمد‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ کتنے پیار سے احترام سے پکارا

’’یا ایھا الرسول، یا ایھا النبی، یا ایھا المزمل، یا ایھا المدثر‘‘ الخ

رسول کائناتﷺ کو ان کے منصب سے پکارنا ان کی تعظیم و احترام ہی تو ہے، ہمیں پھر بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ اللہ نے یہ خبر ضرور دی کہ ساری عزت اللہ کی ہےمگر تعظیم کا حکم اپنے لیے نہیں بلکہ انبیاء کی بابت بیان کیا، فرمایا،

وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ

میرے رسولوں پر ایمان لاو اور ان کی تعظیم کرو،

لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ،

تاکہ اے لوگوتم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاو اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو، پھر حبیب کائنات کے لیے خصوصی ارشاد فرمایا:

فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ،

جو ان پر ایمان لائیں اور تعظیم کریں اورا سے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا وہی بامراد ہوئے۔
کوئی تو انہیں بتائے کہ دین و دنیا دونوں ان کے ہاتھ سے جا رہے ہیں اگر توہین رسالت کے مجرمین کو ابھی بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچایا اور ایسے تمام عناصر جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ کوئی انہیں بتائے کہ فتنہ قتل سے بڑا ہوتا ہے اور توہین رسالت کے مجرمین فتنہ پرور ہیں یہ بنو قیقناع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے روحانی جانشین ہیں ان کے ساتھ وہی کچھ ہونا چاہیے جو خود رسول اللہ ﷺنے ان تین قبائل کے ساتھ کیا تھا۔
ہے کوئی ان قائدین کو بتانے والے
پھر ایک بات ذہن میں آتی ہے : ردۃ ولا ابا بکر لھا
کہ ارتداد ہے لیکن کوئی ابو بکر نہیں ، الحاد ہے لیکن کوئی ابو بکر نہیں، دین کا استھزاء ہے لیکن کوئی ابو بکر نہیں ۔
اس الحاد کا مقابلہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے ہمیں کتاب اللہ کے ساتھ علمی و عملی اعتبار سے جڑنا ہو گا یہ واضح رہے کہ عالم الحاد یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار مسلمان کے دل سے رسول اللہ ﷺکی محبت نہیں نکال سکتے لیکن پھر بھی وہ ان مذمومانہ حرکات کو جاری رکھے ہوئے ہیں وہ ہمیں اشتعال میں لا کر ہمیں دین اسلام سے علمی اور عملی طور پر دور کرنا چاہتے ہیں ہم ان کی ان چالوں کو اسی صورت میں ناکام بنا سکتے ہیں جبکہ علم نافع حاصل کریں اور عمل صالح کے ذریعے اس علم نافع کو محفوظ کریں ۔
وگرنہ داستاں نہ ہو گی داستانوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے