پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی نیک لوگوں کا ولی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں  وہ تنہا اور یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی گزشتہ و پیوستہ لوگوں کا معبودِ بر حق ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ تمام انبیائے کرام اور رسولوں میں افضل ترین ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا [الأحزاب: 70، 71]

اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور ہمیشہ سچ بولو اللہ تمہارے معاملات سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بھی بخش دے گا، جو بھی اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کرے تو وہ بہت بڑی کامیابی پا گیا۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں، یہی اللہ تعالی کی گزشتہ اور پیوستہ سب لوگوں کیلئے تاکیدی نصیحت ہے۔
دورِ حاضر میں کہ جہاں فتنوں کی بھر مار ہے، مشکلات  بہت زیادہ ہیں، امت اسلامیہ پر دشمن مسلط ہو چکے ہیں، ان کی وجہ سے تکالیف کی اقسام بڑھ چکی ہیں، مصیبتیں متنوع ہو چکی ہیں، تو ایسے میں تمام پریشانیوں سے نکلنے کے یقینی راستے مسلمانوں کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے، ہمہ قسم کے دکھ ،درد اور پریشانیوں سے نجات کے حقیقی اسباب بتلانے کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے۔
مسلم اقوام!یہ فانی زندگی اذیتوں اور زحمتوں سے بھری ہوئی ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ [البلد: 4]

یقیناً ہم نے انسان کو مشقت برداشت کرتے رہنے والا پیدا کیا۔
دنیاوی زندگی کی صعوبتوں اور پریشانیوں سے نکلنے کا عظیم طریقہ خلوت و جلوت میں تقوی الہی اپنانے میں پوشیدہ ہے، ان سے خلاصی کیلئے دن ہو یا رات  ہر وقت اللہ تعالی سے رجوع کریں، دکھ سکھ ہر حالت میں اسی کے سامنے اظہارِ عاجزی کریں اور گڑگڑائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ [الطلاق: 2، 3]

اور جو اللہ سے ڈرے اللہ تعالی اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہےاور وہ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا

اور جو تقوی الہی اختیار کرے اللہ اس کے معاملات آسان فرما دیتا ہے۔[الطلاق: 4]
اللہ تعالی کے سامنے اظہارِ عاجزی و انکساری اور سب کچھ اللہ تعالی کے سپرد کرنے کی تعلیمات میں نبی کریم ﷺ کی صحابہ کرام کو کی ہوئی نصیحتیں بھی شامل ہیں کہ صحابہ ان پر دل و جان ،قولاً اور فعلاً عمل کریں، اٹھتے بیٹھتے اسی میں رنگے رہیں؛ چنانچہ آپ ﷺ نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: تم

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

[نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں]کہا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔( بخاری ،مسلم )
سیدناابو ذر tکہتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے تاکیدی نصیحت کی تھی کہ میں زیادہ سے زیادہ
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِکہا کروں
ان احادیث میں اس جلیل القدر ذکر کا تاکیدی حکم ہے، اس ذکر کے الفاظ مختصر لیکن معنی بہت عظیم ہے، اس ذکر کے زبان پر جاری ہونے سے دل کو یقین تام حاصل ہو جاتا ہے کہ فلاح ِ دارین کیلئے صرف اللہ تعالی ہی مدد فرما سکتا ہے، اور جس کی اللہ مدد کر دے تو وہ ہی با مراد ہے، اور جسے وہ رسوا کر دے تو وہی نا مراد ہے۔
اس ذکر کی وجہ سے بندے کو یہ یقینِ محکم ہو جاتا ہے کہ وہ خود یا کوئی اور ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے کی ذاتی طاقت کا حامل نہیں ہے، بندہ اپنا کوئی بھی کام تنہا مکمل نہیں کر سکتا، کسی بھی ہدف کو پانے کیلئے انتہائی مضبوط ، بلند و بالا اور عظمت والی ذات باری تعالی کی جانب سے قوت کا ملنا ضروری ہے۔
اس ذکر میں انسان اپنی حقیقی کم مائیگی اور ناتوانی اپنے پروردگار کے سامنے رکھتا ہے، انسان یہ بھی کہتا ہے کہ اسے اپنے غالب اور زبردست خالق کی ہر وقت اور ہر لمحے ضرورت ہوتی ہے۔
جس وقت یہ ذکر انسانی زبان پر جاری ہو تو عین اس وقت دل عظیم الشان  ذات کی وحدانیت  کا اقرار کر رہا ہوتا ہے؛ کہ اسی سے مدد، کامیابی، تنگی سے نکلنے کا راستہ اور خوشحالی طلب کی جاتی ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا [الطلاق: 7]

عنقریب اللہ تعالی مشکل کے بعد آسانی فرما دے گا۔
ذکر کے باعث فلاح ،کامیابی ، خلاصی اور نجات ملتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے ایمان والو! جب تمہارا کسی دشمن سے ٹکراؤ ہو تو اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو، تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔[الأنفال: 45]
یہ ذکر ہر مسلمان کو اپنی حقیقی زبان اور زبانِ حال دونوں سے ہر وقت کرتے رہنا چاہیے اور حقیقت میں یہی عقیدہ توحید کا  جوہر ہے کہ انسان ظاہری و باطنی ہر اعتبار سے ہمہ وقت اللہ تعالی کے سامنے متواضع رہے، اسی سے تعلق ہو، اللہ تعالی کے سوا کسی سے بھی قوت و طاقت کی وصولی کو مسترد کر دے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” مشکلات کا مقابلہ کرنے اور مصیبتیں جھیلنے کیلئے اس [لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ]ذکر کی حیران کر دینے والی اثر انگیزی ہے، نیز بادشاہوں اور با رعب شخصیات کے سامنے جانے اور پرخطر امور میں بھی یہ ذکر مؤثر ہے۔”
اللہ کے بندو!یہ عظیم واقعہ سنو! اس میں واضح ترین دلیل ہے کہ عقیدہ توحید کی طاقت کے ذریعے بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان ہو جاتی ہے، اور سخت ترین پریشانیاں چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہوں وہ بھی مندمل ہو جاتی ہیں۔
یہ واقعہ متعدد مفسرین اور دیگر اہل علم نے بیان کیا ہے اور اس  کی سندوں کی صحت کم از کم حسن درجے کی ہے واقعہ یہ ہے کہ : عوف بن مالک کے بیٹے سالم کو مشرکوں نے قید کر لیا  تو وہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور کہا:” اللہ کے رسول میرے بیٹے کو دشمنوں نے قید کر لیا ہے اور گھر میں بھی فاقہ کشی ہے”، تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آل محمد کے پاس بھی کل شام تک ایک مد [دونوں ہاتھوں کے بھراؤ کے برابر] غلہ تھا، تقوی  الہی اختیار کرو اور صبر سے کام لو اور “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ”کثرت سے کہو۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں اور ان کے بیٹے کی ماں کو بھی کثرت سے اس ذکر کا حکم دیا، اس پر انہوں نے عمل کیا، عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں ہی تھے کہ ان کا بیٹا واپس آ گیا اور دشمن کو پتا بھی نہ چلا، ساتھ میں وہ دشمن کے اونٹ بھی اپنے والد کے پاس لے آئے ان دنوں ان کی مالی حالت بہت پتلی تھی، اس کے با وجود وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور بیٹے کے بارے میں خبر بتلائی اور یہ بھی بتلایا کہ وہ ساتھ میں دشمن کے اونٹ لے آیاہےتو آپﷺ نے انہیں فرمایا: (تمہیں اختیار ہے ان کا جو مرضی کرو، جیسے تم اپنے اونٹوں کے ساتھ کرتے تھے) اور اس پر یہ آیات نازل ہوئیں:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ

اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہےاور وہ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق: 2، 3]
صحابہ کرام نے قولی اور فعلی ہر دو اعتبار سے اپنی پاکیزہ زندگیوں میں ان نبوی نصیحتوں پر عمل کیا:
چنانچہ ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے کہ ابو عبیدہ محصور ہو گئے اس پر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جانب لکھ بھیجا کہ: انسان کو کوئی بھی تنگی لاحق ہو تو اللہ تعالی اس کے بعد فراخی بھی عطا فرما دیتا ہے، نیز ایک تنگی دوہری آسانی پر غالب نہیں آ سکتی، اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [آل عمران: 200]

خود بھی ڈٹ جاؤ اور دوسروں کو بھی ڈٹنے کی تلقین کرو،  مورچوں میں ہمہ وقت تیار رہو اور اللہ تعالی سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
صحابہ کرام کا نظریہ ہی یہ تھا کہ حقیقی قوت اور طاقت وہی ہے جو عقیدہ توحید اور اللہ تعالی کی بندگی سے ملے۔
حقیقت میں یہ اللہ تعالی کے ساتھ لگاؤ اور توکل کا نتیجہ ہے، اپنی زبان کو ہر وقت ذکرِ الہی سے تر رکھنے کا پھل ہے، اس کی وجہ سے بڑی سے بڑی مصیبت  ہوا ہو جاتی ہے اور اللہ تعالی کی جانب سے نجات کا راستہ مل جاتا ہے۔
فضیل رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اگر تم مخلوق سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر لو اور مخلوق سے کچھ بھی نہ مانگو تو تمہارا مولا تمہاری ساری مرادیں پوری کر دے گا”۔
مسلم اقوام:مشکل کشائی اور پریشانیوں کے خاتمے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان کو جس وقت نصرتِ الہی میں تاخیر ہوتی نظر آئے اور دعاؤں التجاؤں کے بعد مایوسی چھانے لگے ،قبولیت کے اثرات عیاں نہ ہو تو پھر اپنے آپ پر نظر ثانی کرے، اور سچی توبہ کرے، مخلص ہو کر اللہ تعالی سے رجوع کرے، بندہ اللہ کے سامنے اعتراف کرے کہ وہ نازل شدہ آزمائش کا حقدار ہے ، نیز یہ بھی اعتراف کرے کہ وہ مستجاب الدعوات تو نہیں البتہ رحمتِ الہی کا امیدوار ضرور ہے، اسے اللہ تعالی سے معافی چاہیے، تو اس وقت دعا کی قبولیت شروع ہو جاتی ہے، مشکلات کے بادل چھٹنے لگتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی اپنے سامنے عاجزی کرنے والوں کی ضروریات پوری فرماتا ہے، سلف صالحین نے اس اصولِ الہی کو ثابت قرار دیا ہے۔ امت کو اس عظیم منہج پر چلنے کی کتنی زیادہ ضرورت ہے؟!
مسلمانو!ہر وقت اور ہر آن اس عظیم ذکر کی پابندی کرو؛ حاضر قلبی کے ساتھ زبان سے اسے پڑھو اور اپنی حالت سے اس ذکر کی تصدیق پیش کرو؛ کیونکہ اس کے فوائد اور فضائل بہت زیادہ ہیں، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اس دھرتی پر کوئی بھی شخص :

لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، اللہ بہت بڑا، اللہ پاک ہے، تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔
کہے تو اس کے سارے کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔( اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا، جبکہ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)
اسی طرح سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص رات کے وقت  بیدار ہوا، اور اس نے یہ کہا:

لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ

اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، وہ یکتا و تنہا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہی اور تعریفیں اسی کیلئے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، الحمد للہ، سبحان اللہ،  اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اللہ اکبر، نیکی کرنے کی طاقت، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر نہیں ہے۔
پھر اس نے کہا: یا اللہ! مجھے بخش دے، یا کوئی اور دعا مانگی تو اسکی دعا قبول ہوگی، اور اگر وضو کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی۔(بخاری)
یہ ذکر بندے کیلئے خیر و بھلائی اور بندے کے مال و متاع کے تحفظ کا باعث بھی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص گھر سے نکلتے ہوئے کہے:

بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ تعالی پر ہی بھروسہ رکھتا ہوں، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔
تو اسے کہا جاتا ہے: تمہارے لیے اللہ کافی ہے ،تمہیں محفوظ کر دیا گیا ہے اور تمہاری رہنمائی کر دی گئی، نیز شیطان اس سے دور ہٹ جاتا ہے۔(ابو داود، ترمذی)
اس لیے کہ سب کچھ اللہ کے سپرد کر کے ہر چیز اللہ تعالی کے حوالے کرنا اس ذکر کا تقاضا ہے، اور یہ کہ بندے کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، تمام معاملات کی باگ ڈور اللہ تعالی کے ہاتھ میںہے، تمام مخلوقات کے امور اللہ تعالی کے فیصلوں اور تقدیر کے ساتھ منسلک ہیں، کوئی بھی اس  کے حکم پر نظر ثانی نہیں کر سکتا۔
اس لیے اے مسلم ! اپنے عقیدہ توحید کی وجہ سے مکمل طور پر بھروسہ رکھو، مطمئن رہو، پریشان مت ہو، اور یہ یقین رکھو کہ ایک دن ضرور آفتیں اور صعوبتیں ختم ہوں گی، پوری امت کو یہ نظریہ اچھی طرح ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کائنات میں موجود ہر چیز حکمِ الہی کے تابع ہے، اس جہان میں کوئی بھی چیز چاہے وہ کتنی ہی طاقتور ہو، اسے اپنی طاقت پر کتنا ہی گھمنڈ ہو! وہ پھر بھی اللہ تعالی کی قوت ، حکم، قضا اور قدر کے تابع ہے چنانچہ تمام طاقتور اللہ تعالی کے زیر تسلط ہیچ اور کمزور ہیں۔
اب تمہارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو عبادات میں مشغول رکھو، بھلائی کے کام کرو، دکھ ہو یا سکھ مختلف قسم کے اذکارِ الہی خوشی غمی ہر حالت میں کرتے رہو کیونکہ نبی کریم ﷺ  سے ثابت ہے کہ : جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اللہ تعالی تنگی ترشی میں اس کی دعائیں قبول کرے تو وہ خوشحالی میں بھی اللہ تعالی سے ڈھیروں دعائیں کیا کرے۔
پوری امت کو اس ذکر کی اشد ضرورت ہے، امت اس وقت انواع و اقسام کے دکھ اور درد برداشت کر رہی ہے، پوری امت کو چاہیے کہ اس عظیم ذکر کو پہچانیں اور سچائی و اخلاص کے ساتھ اس پر ایمان لائیں اس لیے مسلمانو! ہر وقت ” لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ” کا ورد اپنی زبان پر جاری رکھو، اس سے بھاری بھرکم تکلیفوں اور بحرانوں کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے، اس سے بندے کی عظمت و شان  میں اضافہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔”لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيْمِ” یا اللہ! ہمارے لیے تمام پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ بنا اور تمام تنگیوں سے خلاصی نصیب فرما۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں صرف ایک اللہ کیلئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
توحید پرست، حدودِ الہی کا محافظ ، اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کی اطاعت پر گامزن سچے اور مخلص مؤمن کو اللہ تعالی کی خصوصی معیت اور نصرت حاصل ہوتی ہے، اسی معیت کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ

بیشک اللہ تعالی متقی لوگوں کے اور اعلی درجے کی عبادت کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[النحل: 128]
جس کے ساتھ اللہ تعالی کی معیت اور نصرت ہو تو اس کے ساتھ ناقابل شکست قوت ہے، اس کے ساتھ ہمیشہ بیدار رہنے والا محافظ  اور کبھی راہ سے نہ بھٹکنے والا رہنما ہے، یہ قول قتادہ رحمہ اللہ سے منقول ہے۔
چنانچہ مدد و نصرت اللہ تعالی کی معیت کا تقاضاہے، حفاظت اور اعانت اللہ تعالی کی معیت کا لازم ہے، سنگین آفتوں، صعوبتوں اور مصیبتوں سے بچاؤ بھی معیت الہی کا ثمرہ ہے۔
امت اسلامیہ ! جو شخص اللہ تعالی کو یاد رکھے، حقوق اللہ کا خیال رکھے تو وہ اللہ تعالی کو ہر حالت میں اپنے سامنے پائے گا، جو شخص فراخی میں اللہ تعالی کو یاد رکھے تو اللہ تعالی تنگی میں اسے یاد رکھتا ہے اور اسے تنگی ترشی سے نجات عطا فرماتا ہے۔
جو شخص اپنی خوشحالی کے دنوں میں تقوی الہی اپنائے اور اسی کی بندگی کرے تو اللہ تعالی سخت حالات میں اس کے ساتھ نرمی اور کرم والا معاملہ کرتا ہے۔
مسلمانو! امتِ اسلامیہ! رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ حدیث قدسی سنو فرمانِ باری تعالی ہے: میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قرب کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں، چنانچہ جب محبت کرنے لگوں تو اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے، اور اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے، پھر مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے یقیناً ضرور دونگا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں لازمی اسے پناہ دونگا۔(بخاری)
امت اسلامیہ!ہمیں اس امر کی کتنی ہی زیادہ ضرورت ہے! کیونکہ ہمارے دشمن ہمارے خلاف مکاری اور عیاری میں ہمہ تن مصروف ہیں، وہ ہمارے خطوں اور ملکوں  کے بارے میں منفی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں، ان حالات میں ہمیں دل و جان ، ظاہری و باطنی  طور پر،  صداقت اور عبادت کے ذریعے اللہ تعالی کے ساتھ ہونا چاہیے۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے