اللہ رب العالمین نے اس امت کی ہدایت وراہنمائی کے لیے قرآن کریم میں بہت سے احکامات نازل فرمائے اور ان میں سے کچھ ایسے جو ارکان خمسہ کے نام سے ہے اور ان پانچ میں سے ایک رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے ۔اللہ رب العالمین نے اپنے کلام حمید میں رمضان کے روزوں کو فرض قرار دیا اور فرمایا

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ

اے مؤمنو!تم پر رمضان کے روزے اس طرح فرض کیے جس طرح پہلی امتوں پر فرض کیے تھے روزوں کی فرضیت کے تذکرے کے بعد رمضان کے احکام ومسائل بیان فرمائے اور پھر اسی رکوع کو رمضان کےمسائل کے لیےوقف کردیا پھر اس رمضان کے تذکرے میں اللہ رب العزت قرآن مجید کے نزول کی خبر سنا رہے ہیں یہ بات ہمیں سمجھ آتی ہے کہ رمضان کے تذکرے میں قرآن کاذکر کیوں ہوا کیو نکہ یہ قرآن اسی رمضان کے مہینے میں نازل ہوااور اس رمضان کو جو تقدس اور شرف حاصل ہوااس قرآن کی وجہ سے لیکن انسان ان آیات کی تلاوت کرتے کرتے اس آیت پر پہنچ جاتا ہے اور اللہ رب العالمین ایک ایسی بات کا تذکرہ فرماتے ہیں جس کابظاہر رمضان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اس پورے رکوع کے اندر اللہ رب العالمین رمضان کا تذکرہ کر رہے ہیں پہلے بھی رمضان کا تذکرہ بعد میں بھی رمضان کا تذکرہ پہلے بھی روزوں کے مسائل بعد میں بھی روزوں کے مسائل لیکن درمیان میں کہا

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ   (البقرۃ:186)

؁جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں کہ اللہ کہاں ہیں تو ان کو کہیے کہ وہ تمہارے بالکل قریب ہیں اور جب کوئی پکارنےوالا مجھے پکارتا ہے ابھی اس کی پکار زبان سے جدانہیں ہوتی میں اس کی پکار قبول کر لیتا ہوں لیکن اے میرے نبیﷺ ان کو کہیں کہ مجھے پکا ر کر دیکھیں تو سہی مجھ پر یقین تو کرے لیکن جو بات واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ رمضان کے تذکرے میں دعا کا ذکر کہاں سے آگیا پہلے بھی رمضان کا تذکرہ بعد میں بھی رمضان کے تذکرے کیا جوڑہے آپس میں کیا تعلق ہے۔
اللہ رب العالمین نے یہ دعا کا ذکر رمضان کے تذکرے میں اس لیے کیاہے کہ بندہ مصیبتوں میں گرا ہو، پریشانیوں میں مبتلا ہو،بیماریوں میں الجھا ہوا ہو،مقدما ت میں پھنسا ہوا ہو،اپنے مسائل میں گرفتارہو تو اپنے رب سے مانگتا ہے کبھی یہاں بیٹھ کر مانگتا ہے کبھی وہاں بیٹھ کر مانگتا ہے لیکن نہ بیمار کو شفاملے نہ بے روزگارکو روزگار ملے نہ بے اولاد کو اولاد ملے نہ فقیر کو رزق ملے نہ محتاج کو مال ملے نہ پریشان حال کی پریشانیاں دور ہوں کہاں جائے اپنے رب کی بارگاہ میں آتا ہے مانگتاہے لیکن اس کی ما نگ میں کوئی اثرپیدا نہیں ہوتا نہ اس کی مانگ پوری ہوتی ہے سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ دل کے اندر کھوٹ ہے زبان میلی ہے گناہوں سےلتھـڑا ہواہے اور زبان کے اندر وہ تاثیرنہیں جو اس کی دعا کو عرش معلی تک پہنچاسکے لیکن رمضان کے مقدس مہینے میں جب آدمی روزہ رکھتا ہے اپنے نفس کو روکتا ہے حرام سے نہیں بلکہ حلال سے بھی اپنے آپ کو بچاتا ہے اور روزے کا معنی کیا ہے حرام کے قریب نہیں جانابلکہ حلال کے قریب بھی نہیں جانا کھانا حلال کا پانی حلال کا لیکن اللہ کے حکم پر حلال چیزوں کو بھی ترک کردیا حلال کمائی سے بنی ہوئی روٹی کو بھی نہیں کھاتا پاک پانی نہیں پیتا اس قدر اللہ کی حکم کی تابعداری کرتا ہےکہ اللہ اس کے نتیجے میں اسکی برائیوںاور سیئات کو دور کردیتا ہے اس کی زبان میں تاثیر پیدا کردیتا ہے اور یہ انسان روزے رکھ کر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ ادھر اسکی زبان سے بات نکلتی ہے ادھر رب پورا فرمادیتا ہے اس لیے اللہ پاک نے رمضان کے تذکرے میں دعا کے ذکر کو بطور خاص رکھ دیا ہے اور اللہ تعالی فرماتے ہیں آؤمومنوں اس بات کا شکو ہ کرنےوالوں کہ اللہ ہماری نہیںسنتالیکن اللہ فرماتے ہیں آجاؤ رمضان کے روزے رکھ کر اب تم نےاپنے نفسوں کو پاک کرلیا اپنی بے تاثیر زبانوں میں تاثیر پیدا کرلی اب ہاتھ اٹھا کر رب سے مانگھ کر دیکھو ابھی تمھارے الفاظ جدا نہیں ہونگے کہ اللہ تعالی اسے پورا فرمادیں گے اور میں قربان جاؤں عرش معلی کے مالک ہونے پر کہ دنیامیں کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا جومنگتوں کو خود کہے کہ آجاؤ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گابلکہ اللہ رب العالمین یہ کہتے ہیں کہ آج مانگ کر دیکھو تمھا رے لبوں سے جدا نہیں ہوگی میںتمھاری پکار کو پورا کر دوںگا اس میں شرط کیا ہے ؟شرط ایک ہے کہ دعاہے کہ ساتھ ایمان اور یقین کے ساتھ اللہ پر توکل کرکے اور اس یقین کے ساتھ مانگے کہ اللہ کے سواکوئی نہیں عطا کرسکتا اور اس امید سے مانگے کہ آج اللہ رب العالمین سے لے کر جانا ہے سرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا جب بندہ اسطرح اپنے رب سے مانگتا ہے تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو بلا تا ہے کہ اے فرشتوں دیکھو میرا بندہ مجھ سے خلوص نیت کےساتھ مانگ رہا ہے اور میں اس کی دعا کو اس کے ہاتھ نیچے جانے سے پہلے ہی پورا کردوں گا اور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں مجھے اپنے منگتوں کو خالی لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے دنیا کیا کہے گی کہ سب سے بڑی بارگاہ سب سے بڑی درگاہ اور منگتا آیا خالی ہاتھ لوٹ گیا مجھ کو شرم آتی ہے کہ میرے جناب میں آئے اورخالی ہاتھ لوٹ جائے نہیں فرشتوں گواہ رہو میں نے اپنے اس بندے کی ہر مانگ کو پورا کردیا اس لیے اللہ رب العزت نے رمضان کے تذکرہے میں دعاکا ذکربطور خاص کورکھ دیا ہے۔اور سرور کائنات ﷺنے ارشاد فرمایادعاکی قبولیت کے تین طریقے ہیں اللہ رب العالمین دعاکو قبول فرماکر انسان کو تین راستے دیے ہیں ۔
-1یاتو اسکی دعاکو اسی وقت قبول فرما کر اس کا بدلہ عطا کر دیتے ہیں ۔
-2یااسکی دعا کی وجہ سے اس پر آنے والی مصیبت ٹال دی جاتی ہے ۔
-3یا اس کی دعا کو اللہ رب العالمین محفوظ کر لیتے ہیں۔ انسان جب قیامت کے دن اپنا نامہ اعمال دیکھے گا تو اس میں ایک ڈھیر نیکیوں کا وہ نظر آئے گا جو اس نے کی نہیں ہونگی اللہ تعالی سے بندہ پوچھے گا اللہ میںنے تو یہ نیکیاں نہیں کی پھر یہ کہاں سے آئی تو اللہ فرمائےگا اےبندے تونےدنیا میں دعا کی تھی بندہ کہے گا جی اللہ تواللہ پوچھے گا کیا وہ پوری ہوئی تھی کہے گا نہیں اللہ فرمائے گا یہ وہی دعائیں ہیں جو تو دنیا میں کرتا رہا اور پوری نہ ہوئی آج قیامت کے دن تمہیں اس کا ثمرہ مل رہا ہے۔لیکن اللہ تو دعا کو سنتا بھی ہے یہ کہیں مانگ کو پورا کرتا بھی ہے یا نہیں اسکے لیے میں دو سے تین مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔
1۔اللہ کی نا فرمانی کی وجہ سے آدم علیہ السلام اور حوا دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا کئی سال تک زمین میں بھٹکے رہےآخر اللہ رب العالمین کی طرف رجوع کیا اور کہا اللہ غلطیاں ہم کرتے ہیں معاف تو کرتا ہے ہماری غلطی کو معاف فرما ۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف:23)

’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔‘‘
یہاں آدم علیہ السلام ہمیں معافی مانگنے کا طریقہ بتلا رہے ہیں لیکن ہمارا دعا مانگتے ہوئے رد عمل کیا ہوتاہے دل کہیں اور دماغ کہیں اور اس نیت سے مانگتے ہیں کہ اگر یہاں سے نہ ملی تو کہیں اور سے لے لیں گے نہیں بلکہ خلوص نیت اور پوری یکسوئی کے ساتھ دعا مانگو تو پھر اللہ قبول فرمالے گا۔
2۔ اسی طرح سیدنا زکریا علیہ السلام بوڑھے ہوچکے ہیں مگر گھر بچے کی آواز سے خالی ہے اور یہ تمنا اور آرزو بھی ہے کہ اللہ اولاد عطا کردے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہیں کیا کہتے ہیں قرآن کریم کے الفاظ

 اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا  قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّلَمْ اَكُنْۢ بِدُعَاۗىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا  وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَاۗءِيْ وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا فَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا (مریم :3۔5)

جب سیدنا زکریا علیہ السلام نے اپنے رب کو بہت ہلکی آواز میں پکارا اور کہا کہ اللہ میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں میرے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں اور سب سے بڑی بات ڈاکٹروں اور طبیبوں نے میری بیوی کو بانجھ قراردے دیا ہے لیکن پھر بھی دنیا سے مایوس ہوں تیری بارگاہ سے مایوس نہیں ہوں میں بیٹے کی خواہش کرتا ہوں مجھے بیٹا عطا فرما اور بیٹا بھی عام نہیں بلکہ وہ جس کے سر پر تاج نبوت ہو میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی وارث بنے۔
کتنی بڑی دعا کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما کر کیا کہا

يٰزَكَرِيآ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِۨ اسْمُهٗ يَحْــيٰى ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا (مریم:7)

’’اے زکریا! ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا ۔‘‘
ذرا دیکھو اللہ تعالیٰ ہلکی سے ہلکی آواز میں مانگی ہوئی دعا کو بھی قبول فرمالیتے ہیں اور ہر مایوس شخص کی مایوسی کو ختم کردیتے ہیں اور یہ بھی مت سوچنا کہ یہ تو پیغمبر تھے جن کی دعا کو اللہ نے قبول کیا ،نہیں بلکہ اللہ دعا کو قبول کرنے میں کوئی فرق نہیں رکھتا سب کی دعا کو قبول فرماتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال اس صحابیہ عورت کی جن کا نام خولہ رضی اللہ عنہا تھا ان کے خاوند نے ان کو ماں کہہ دیا اور عرب کا دستور تھا جو اپنی بیوی کو سزا دینا چاہتا وہ اس کو ماںکہہ دیتا ’’أنت علی کظھر امی ‘‘اور وحی نازل ہونے سے پہلے یہ تھا کہ وہ عورت اپنے خاوند پر حرام ہوجاتی ان کے شوہر نے بھی ان کو ماں کہہ دیا یہ پریشان بچے چھوٹے چھوٹے کیا کرے گی کہاں جائے گی ؟ بھاگتی ہوئی مسجد نبوی میں تشریف لائی صحابہ مسجد میں موجود تھے صحابہ سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا اب تو اپنے خاوند پر حرام ہوچکی ہے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے پریشان حال اس حالت میں حجرئہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتی ہے دروازہ کھٹکھٹاتی ہے اللہ کے نبی ﷺ باہر تشریف لاتے ہیں انہوں نے مسئلہ بتایا تو نبی کریم ﷺ نے بھی وہی جواب دیاکہ تو اپنے خاوند پر حرام ہوچکی ہےاس پر صحابیہ نے کہا آپ کوئی حل نکالیں آپ ﷺ نے فرمایا بی بی میں وحی کے بغیر نہیں بول سکتا اس نے کہا آقا آپ تو ایسا نہ کہیں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کہاں جائیں گے ان کا کوئی والی وارث نہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں کوئی حل نہیں پیش کر سکتا جب تک وحی نازل نہیں ہوتی اس صحابیہ کے دل پر چوٹ لگی وہی مسجد نبوی میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے دنیا والوں نے تو مایوس کردیا ہے اے اللہ تیری بارگاہ سے مایوس نہیں ہوئی اس عورت کی دعا عرش معلی تک پہنچی ادھر سے اللہ تعالیٰ نے جبرائیل امین علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ میرے نبی ﷺ کے ذریعے سے ساری کائنات اور اس عورت کو بتلا دو کہ اللہ نے تیری پکار کو سن کر اس مسئلے کو تبدیل کردیاہے ۔

قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ڰ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ    (المجادلۃ:1)

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے۔‘‘
مثالیں تو بہت ہیں مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے مانگو سچے دل اور خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر دعا کو سنتا بھی ہے اور شرف قبولیت سے بھی نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی نیک خواہشات نیک تمناؤں اور نیک مقاصد کو پورا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے