اللہ عز و جل سے ڈریے اور اس کی اطاعت کیجیے!نیک اعمال کیجیے جو آپ کواللہ عز وجل کے غضب اور عذاب سے بچا سکیں اور اس کی رحمت و رضوان کے قریب کردیں ۔یہاں فقط ایک ہی مہلت ہے جس میں انسان یاتو ابدی کامیاب ہوگا یا پھر ابدی ناکام۔

وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر:3 – 1)

’’ زمانے کی قسم! بیشک(بالیقین) انسان سرتاسر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔‘‘
اللہ کے بندو! اس شخص کے خسارہ کے برابر کسی کا خسارہ نہیں جواپنے آپ کو حیات ِ ابدی میں خسارہ سے دوچار کرے اور عذاب زدہ لوگوں میں سے ہوجائے ۔ جب یہ شخص اوروں کو کامیاب اور کامران دیکھے گا تو شرمندہ ہوگا لیکن اس وقت شرمندگی کچھ فائدہ نہ دے گی ۔
یہی اصل نقصان ،ناکامی ،گھاٹا اور خسارہ ہے جس سے قرآن کریم نے ڈرایا ہے ۔ جس کا سبب دراصل دنیا میں دین کا خسارہ ہے ۔
مؤمنین اور متّقین اسی خسارہ سے ڈرکر اور گھبرا کر اپنے ربّ کی عبادت کی جانب دوڑے چلے آتے ہیں ۔ اس خسارہ کے سبب اہل ِ تقوی اپنے اوپر دنیوی کشادگی سے خوش نہیں ہوبیٹھتے ؛ نگاہ ِ عبرت کے خوگر اپنے اموال ، سامان ِ قوت اور جمع پونجی سے کچھ دھوکا نہیں کھاتے اور اہل ِ خشیت دنیا میں اپنی اچھی زندگی پر مبارک بادی کے متمنی نہیں ہوتے ۔ ایسے لوگ قبروں کی جانب اٹھائے گئے جنازوں کو دیکھ کر ہر گھڑی یہی سوچتے ہیں کہ یہ کامیاب ہونگے یا ناکام ۔
مومن بھائیو! خسارے ، گھاٹے ، ناکامی اور زیاں کے اسباب اور زیاںکاروں کے اعمال کی معرفت بے حد ضروری ہے کیونکہ ان کی پہچان خود ان سے بچنے کے لیے لازمی ہیں ۔
یاد رہے کہ ہر درجہ کا کفر خسارے کی جانب ایک سفر ہے۔ ہر کافر اور انکاری ناکام اور خسارے سے دوچار ہے ۔ ہر معصیت خسارے کا باعث ہے اور نافرمان اپنی معصیت کے بقدر خسارے میں مبتلا ہوتا ہے ۔
اللہ عز و جل کے ساتھ کفر سب سے بڑھ کر خسارہ ہے ۔
کیونکہ یہ ابدی زیاں کا موجب ہے ۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللّٰهِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (العنکبوت 52)

’’جو لوگ باطل کے ماننے والے اور اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والے ہیں وہ زبردست نقصان اور گھاٹے میں ہیں۔‘‘

وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الزمر:65)

’’یقینا تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا۔‘‘
موجب ِ خسارہ کفر کی ایک صورت ‘ اللہ تبارک و تعالی کی
آیات کے ساتھ کفر کرنا‘ ہے ۔ خواہ یہ آیات ‘کونی (کائناتی
قوانین سے متعلق) ہوں یا شرعی یعنی آیات ِقرآنی ہوں ۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ

’’ جن جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا‘ وہی خسارہ پانے والے ہیں ۔ ‘‘ (الزمر:63)

وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (یونس:95)

’’اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا ‘ کہیں آپ خسارہ پانے والوں میں سے نہ ہو جائیں ۔‘‘
اللہ عز وجل خود قرآن کریم کی بابت فرماتے ہیں :

وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ(البقرۃ:121)

’’جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے۔‘‘
جزا اور بعثت بعد الموت کی تکذیب بھی خسارے کا باعث ہے ۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ (یونس 45)

’’و اقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدائت پانے والے نہ تھے۔‘‘
کوئی بھی سمجھنے والا یہ مت سمجھ بیٹھے کہ کفار کوئی بھی دین اختیار نہیں کرتے اور ایسے کوئی عمل ‘جنھیں وہ اچھا جانتے ہیں ‘ بجا نہیں لاتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔بیشتر کفار ’دین‘ بھی اختیار کرتے ہیں اور’ اعمال‘ بھی سرانجام دیتے ہیں ۔ لیکن ایسے سب عمل دنیا میں تھکان ہیں تو آخرت میں خسارہ ہونگے ۔

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًااُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ (الکہف:103-105)

’’کہہ دیجئے کہ اگر(تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟وہ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کارہوگئیںاوروہ اسی گمان میںرہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا۔۔‘‘
کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں کو ’’دین ِ اسلام‘‘ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اس اسلام میں مشروع ومقرر عبادات اور احکام کو بجا لانے کی بھی تلقین فرمائی ہے لہذا جو بھی اسلام سے ہٹ کر کوئی دین اختیار کرے گا یا اسلام سے باہر کسی عمل کو بجا لائے گا تو یہ سب کچھ‘ کرنے والے پر خسارہ کا موجب ہوگا ۔

وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (ال عمران 85)

’’جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے ‘اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔‘‘
اس سے ایک طرف دین ِ حق یعنی ’’اسلام‘‘ کی جانب راہنمائی جیسی اللہ عز وجل کی عظیم نعمت ہم پر منکشف ہوتی ہے تو دوسری طرف بنی بشر میں ضلالت کا حجم بھی بے حد نمایاں ہوجاتاہے ۔ اگرچہ ایسے لوگ ایٹم دریافت کرلیں ، تہذیب بپا کر دیں ، آفاق تسخیر کرلیں اور سمندروں کی تہوں اور گہرائیوں میں اترجائیں ۔
کفار کی اطاعت بھی دنیا اور آخرت ہر دو جہانوں میں خسارہ لے کر آتی ہے ۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَرُدُّوْكُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ

’’اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیںمانو گے تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹا دیں گے ( یعنی تمہیں مرتد بنا دیں گے) پھر تم نا مراد ہو جائو گے۔‘‘ (آل عمران:149)
کچھ لوگوں کا ایمان دنیا کی خاطر ہوتاہے ۔ جب یہ لوگ اپنے ایمان کے ذریعے مال ، وجاہت اور انعامات سمیٹتے رہیں تو ایمان سے جڑے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر انہیں ان کے ایمان کے باعث آزمایا جائے تو وہ اپنے ایمان سے منحرف اور کنارہ کش ہوجاتے ہیں ۔ ایسے لوگ شدید ترین خسارہ کے حامل ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ایمان کو دنیا پانے کا وسیلہ بنایا لیکن دنیا کو اپنے ایمان کے فروغ کے لیے وسیلہ نہیں بنایا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ (الحج:11)

’’بعض لوگ ایسےبھی ہیںکہ ایک کنارےپر( کھڑے) ہوکر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آ گئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقعی یہ کھلا نقصان ہے۔‘‘
قرآن کریم کے ساتھ کفر ‘اس میں کچھ فرق نہیں کہ مکمل قرآن کریم کے ساتھ کفر کیا جائے یا بعض کے ساتھ ‘ بہرصورت یہ خسارہ ہی کی جانب کھلنے والا ایک باب ہے۔کچھ لوگ بسااوقات قرآن کریم میں وارد کسی حکم کو ردّکرتے ہیں اور یہ تک نہیں جانتے ہوتے کہ حکم ِ قرآنی کی تردید کے باعث یہ خاسرین اور زیاں کار ہوجائیں گے ‘اگرچہ یہ نمازی بھی ہوں ۔دورِ حاضر میں ایسا طرز ِ عمل بے حد کثرت سے وقوع پزیرہے کہ منافقین اور فاسقین نے شریعت پر حد درجہ جرأت و تعدی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہیں اس سے باز آجانا چاہیے!

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (البقرۃ:121)

’’جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے ۔‘‘
عجیب بات تویہ ہے کہ قرآن کریم جوکہ انسانیت کے لیے ہدایت کا منبع و مصدر ہے لیکن اس کے باوجود اہل ِ خسارہ اس سے نفع نہیں اٹھا پاتے بلکہ قرآنی آیات و احکام کی تکذیب کے باعث مزید خسارہ میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قرآنی مواعظ و قصص سے متمتع نہیں ہوپاتے ۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا

’’ یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔‘‘ (الإسراء :82)
کچھ اعمال بھی ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے‘ ایسے اعمال کی شناعت اور کثرت ِ وقوع کے باعث‘ خسارہ و زیاں کاری سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ تاکہ ایسے اعمال سے انسان باز رہیں ۔ مثلاً ناحق خون بھانا

فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِيْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (المائدۃ:30)

’’پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر دیا اس نے اسے قتل کر ڈالا جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا۔‘‘
مثلاً عہد شکنی ، قطع رحمی اور زمین میں فساد بھی خسارہ ہیں ۔

الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِه وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ اُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ

’’وہ لوگ االلہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کوتوڑ دیتے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ،انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ،یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ‘‘ (البقرۃ:27)
اللہ عز وجل کی تدبیر اور پکڑسے نڈراور بے خوف ہوجانا ‘بھی خسارہ کا باعث ہے ۔

فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ

’’سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔‘‘ (الاعراف:99)
اللہ سبحانہ و تعالی کی بابت سوئے ظن ‘خسارہ ہی کی جانب لے جانے والا راستہ ہے ۔

وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ (فصلت:23)

’’ تمہاری اس بد گمانی نے ‘جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی‘ تمہیں ہلاک کر دیا اور با لآ خر تم زیاں کاروں میں ہو گئے۔‘‘
مال ا ور اولاد کی خاطر یادِ الٰہی سے غفلت ‘ خسارے تک پہنچا دیتی ہے ۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (المنافقون:9)

’’اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں اور جو ایساکریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔‘‘
نماز میں کوتاہی اور تقصیر خسارہ کے لیے بہت بڑا سبب ہے ۔ فرمان ِ نبی ﷺ ہے :

إِنَّ أَوَّلَ ما یُحَاسَبُ بِہٖ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلَاتُہٗ ، فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسَرَ۔( رواہ التّرمذی)

’’روز ِ قیامت بندے کے اعمال میں سے جس کا سب قبل حساب لیا جائے گا ‘ وہ نماز ہوگی ۔ اگر نماز درست نکلی تو بندہ فلاح و نجات سے ہمکنار ہوگا ۔ اگر نماز کا معاملہ خراب رہا تو بندہ ناکام و نامراد ہوگا ۔‘‘
اموال میں حقوق اللہ کی عدم ِ ادائیگی بھی زیاں کا موجب ہے ۔
حدیث ِ ابو ذرّ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

إِنْتَہَیْتُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ فَلَمَّا رَآنِی قَالَ ہُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ قَالَ فَجِئْتُ حَتَّی جَلَسْتُ فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی مَنْ ہُمْ قَالَ ہُمْ الْأَکْثَرُونَ أَمْوَالًا إِلَّا مَنْ قَالَ ہَکَذَا وَہَکَذَا وَہَکَذَا مِنْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ وَعَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ وَقَلِیلٌ مَا ہُمْ ۔ (رواہ الشّیخان)

’’میں نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا ۔ آپ ﷺ کعبہ کی سایہ میں بیٹھے تھے ۔ آپ ﷺ نے مجھے دیکھا کر فرما: ’’ربّ ِ کعبہ کی قسم ! وہ لوگ بے حد خسارے اور زیاں سے دوچار ہیں ۔ ‘‘میں آکر آپ کے پاس بیٹھا ۔ پھر بے قرار ہوکر اُٹھ کھڑا ہوا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !’’وہ لوگ‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے ؟فرمایا:بہتیرے مال والے ہاں مگر جس نے ایسے ،ایسے اور ایسے یعنی آگے، پیچھے ،دائیں اور بائیں (فقراء اور مساکین وغیرہ مستحقین پر) خرچ کیا ۔ لیکن ایسے بہت تھوڑے ہیں ۔ ‘‘
ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں اسباب ِ خسارہ سے دور رکھے ، ہماری فوز و فلاح کے راستوں کی جانب راہنمائی فرمائے اور ہمیں اپنے صالحین بندوں میں سے بنا دے !
آخرت کے خسارے اور زیاں سے کوئی خسارہ اور زیاں نہ زیادہ بڑا ہے اور نہ زیادہ رسوا کن ۔

قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ

’’ کہہ دیجئے! کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے، یاد رکھو کہ کھلم کھلا نقصان یہی ہے۔‘‘ (الزمر:15)
بعض زیاں کاروں کا زیاںو خسارہ کلی ہوتاہے ۔ یہ لوگ ’’اصل ِ ایمان ‘‘ سے عاری ہوتے ہیں اور ان کے ہاں ’’بنیادی ایمان ‘‘ ہی ناپید ہوتاہے ۔ یہ جہنم میں ہمیشگی مستحق ہیں اور ان پر کلمہ ٔ عذاب برحق ثابت ہوگیا۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ (الاحقاف18)

’’وہ لوگ ہیں جن پر( اللہ کے عذاب کا ) وعدہ صادق آ گیا ان جنات اور انسانوں کے گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے یقینا یہ نقصان پانے والے تھے۔‘‘
بعض خسارہ سے دوچار لوگوں کا خسارہ ‘جزوی ہے ۔ مثلاوہ شخص جس نے گناہوں کا ارتکاب کیا اور کبھی وہ آخرت میں عذاب میں مبتلا ہو۔ایسے خسارہ سے دوچار لوگوں میں ادنیٰ ترین خسارہ کا حامل وہ شخص ہے جو دنیا میں حسنات اور نیکیاں کمانے میں ناکام اور پیچھے رہا ۔ جس کے نتیجے میں وہ جنت کے اندر بلند درجات پانے سے رہ جائے ۔
بندگان ِ خدا!آخرت کی ابدی زندگی میں خسارہ اور زیاں سے سلامتی و نجات ‘ اسباب ِ خسارہ سے بچے بغیر ممکن ہی نہیں اس کے لیے کفر و گناہ سے بچنا ضروری اور ایمان و عمل ِ صالح پر عمل پیراہونا لازمی ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رہے کہ خطا ‘بشرکی خصائص اور علامات میں سے ہے ۔ کوئی بھی معصیت کا مرتکب خسارہ سے بچ نہ پائے گا مگر ربّ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے خاص معافی ، مغفرت اوررحمت کے بسبب ۔ لہذا ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم کثرت سے توبہ و استغفار کیا کریں ۔ یہی صالحین کا وطیرہ رہا ہے جب بھی ان سے (بتقاضا ئے بشر)خطا سرزد ہوئی(یا ترک ِ اولیٰ ایساکوئی عمل سرانجام پایا۔مترجم) کیونکہ خسارہ سے بچنے کی خاطر انبیاء وصالحین توبہ و استغفار کی جانب بے حد تیزی کے ساتھ لپک کر گئے ۔ ہمیں بھی اللہ عز و جل نے انہیں کے طریقہ کی اقتداء کا حکم دیاہے ۔
جب ابوالبشر سیدناآدم علیہ السلام او ر ان کی زوجۂ محترمہ امّاں حوّاءنے درخت کھا کر غلطی کر لی ‘ تو وہ خسارہ سے خائف ہوگئے ۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَالَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف:23)

’’دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘

اللہم جنبنا أسباب الخسران، واجعلنا من الفائزین.
اللہم إنا نستغفرک ونتوب إلیک، اللہم اغفر لنا وتب علینا؛ إنک أنت التواب الغفور الرحیم.
اللہم إنا نسألک الجنۃ وما قرّب إلیہا من قول أو عمل، ونعوذ بک من النار وما قرّب إلیہا من قول وعمل.
۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے