سوشل میڈیا ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار ممکن نہیں ۔کیونکہ سوشل میڈیا لوگوں کو تبادلہ خیالات اور اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے آج کے دور میں جبکہ ہر فرد کو اپڈیٹ رکھنے کا شوق سر چڑھ کر بول رہا ہے اور میڈیا اس سلسلے میں بھرپور متحرک ہے اور حقیقت پر مبنی یا غیر حقیقی معلومات کی طرف بھرمار ہے تو اس عالم میں سچائی کو تلاش کرنا بہت ہی مشکل ہوچلا ہے۔ میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا کم از کم ایک ایسا ٹول ہے کہ جس پر استعمال کنندہ کی گرفت ہوتی ہے اور جو وہ چاہے پھیلا سکتا ہے اسی لئے پیمرا کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اس میڈیم کے مثبت اور قومی یکجہتی کے فروغ میں استعمال کی کوئی خاص شکل وضع کرے تاکہ استعمال کنندہ اس میڈیم کے مثبت استعمال ہی کا پابندہو، تبھی یہ ممکن ہوگاکہ سوشل میڈیا کے اس بے لگام گھوڑے کو لگام دی جا سکے گی۔
سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جس پہ انفارمیشن کی ریل پیل ہے اور ہر دوسرا فرد اپنی مرضی سے ہر وہ چیز شئیر کرنے پہ تلا ہوا ہے کہ جس کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج نوجوان نسل اس میڈیم کی رنگینیوں میں مست ہے ، وقت کے ضیاع یا ذہنی تناو کی طرف کسی کی توجہ نہیں ۔ نوجوان نسل میں اخلاقی پستیوں کی بڑی وجہ بھی یہی سوشل میڈیا ہے کیونکہ اس میڈیم کے ذریعے آپ جب اور جہاں چاہیں پہنچ سکتے ہیں۔ نازیبا اور فحش مواد تک اسی رسائی نے نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ کو جنم دےکر معاشرے سے دور کر دیا ہے اور آج آپ دیکھ لیجئے یہی نوجوان معاشرے کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں حالانکہ ان کو پاکیزہ تفریح اور سیر کے ساتھ ساتھ کھیل کے مواقع فراہم کرکے ان بیماریوں سے دور کیا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں میں یہی نقائص پیدا کر نے کےلئے اغیار نے سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پہ لیا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کر رہے ہیں انہوں نے اس کا بھرپور استعمال کرکے ہمارے نوجوان کو حالت جنگ میں مبتلا کر رکھا ہے ، ایک ایسی جنگ جو غیر واضح ہے یہی وجہ ہے آج کا نوجوان اس کو جنگ سمجھنے پہ آمادہ ہی نہیں ۔
مغرب نے انفارمیشن کے ذریعے ذہنوں پہ کنٹرول کا جو منصوبہ شروع کر رکھا ہے ہمارا نوجوان اس سے بے بہرہ ہے
معاشرے کے ذمہ داران کو چاہئیے کہ وہ ان فارغ نوجوانوں کو مثبت مصروفیات فراہم کرکے ان کی سوچوں کا رخ و محور بدل دیں تاکہ یہ نوجوان نسل ملک کے لئے مفید ثابت ہو۔
تبدیلی دو قسم کی ہوا کرتی ہے ایک تو وہ جو نظر آتی ہے اور دوسری وہ جو نظر نہیں آتی، سوشل میڈیا یہ دوسری قسم کی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے ایک ایسی تبدیلی جو نظریات و
عقائد سوچ اور جذبات میں آرہی ہے لیکن نظر نہیں آتی،
کیا یہ کم خطرناک بات ہے ۔
آج کے مسلم نوجوان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں معلومات اسی سوشل میڈیا سے لیتا ہے اور اس میڈیم کی رنگین پوسٹوں سے اس کا ایمان بڑھتا ہے ،جبکہ ہمارے پیارے نبی علیہ السلام نے دین اسلام کو مکمل کرکے ہم تک پہنچا دیا تھا ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ مسلم نوجوان ایک لیڈر ہوتا کیونکہ لیڈر کو
اپنی منزل واضح نظر آرہی ہوتی ہے۔وہ مستقبل سے بھی آگے دیکھ رہا ہوتاہے مسلم نوجوان کو لیڈ کرنے والا ہونا چاہئیے تھا کیونکہ لیڈر ایک انڈر پرفارمنگ یونٹ کو ہائی پرفارمنگ یونٹ میں تبدیل کردیتا ہے لیکن سوشل میڈیا نے اس کے عزائم اور ترجیحات کو پس پشت ڈال دیا ہے جو کہ الارمنگ سیچوئشن ہے۔
سوشل میڈیا جہاں کئی نقصانات کا حامل ہے وہیں یہ بہت سے فوائد بھی رکھتا ہے مثال کے طور پہ ایک تاجر یا بزنس مین لوگوں تک اپنی پراڈکٹس کی خبر پہنچانے کے لئے اس پلیٹ فارم کا سہارا لے سکتا ہے ۔ فیس بک ، ٹوئیٹر اور وٹس ایپ کے ذریعے یہ لوگ کم وقت میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا کر اپنے بزنس کو بڑھا سکتے ہیں ، اسی طرح ایک پروفیشنل اپنی کامیابیوں کا سوشل میڈیا پہ بھرپور انداز میں ذکر کرکےاپنے لئے رائے عامہ ہموار کرسکتا اور مزید کامیابیوں کی راہیں کھول سکتا ہے ۔
سوشل میڈیا تجارتی،اور پیشہ وارانہ برانڈ سازی کے لئے زبردست امکانات رکھتا ہے نیز اگر ہم سوشل میڈیا کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھ کر لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھیں تو انٹرنیٹ عوام کےلئے زیادہ حوصلہ بخش ماحول فراہم کر سکتا ہے ۔
اسی طرح کسی بھی خاص چیز کے بارے عوام کی رائے معلوم کرنے کی خاطر اسی پلیٹ فارم پہ پول بھی بنائے جاتے ہیں۔
ہم سوشل میڈیا پہ قرآن وسنت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ عقیدے کی درستگی کا کام بھی احسن اندا ز میں کر سکتے ہیں
یہ سب مثالیں ہیں جو بتا رہی ہیں کہ سوشل میڈیا مثبت پہلو بھی رکھتا ہے ہمیں اسی مثبت پہلو کو استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو اپنے لئے اور ملک و ملت کے لئے مفید بنانا ہے۔
پاکستان مخالف
پاکستان مخالف ،اسلام مخالف ، ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے مخالف اور بنیادی اسلامی عقائد مخالفین کے لیے اس تحریر میں چند پوائنٹس پوشیدہ ہیں۔
ایسے مخالفین جو ہیں تو مسلم لیکن جدیدیت کے بتوں سے متاثر ہوکر اپنے ہی بنیادی عقائد کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اوریورپ کی کھوکھلی چکا چوند سے متاثر ہوکر اپنی اصل کو نظر انداز کر چکے ۔
جدیدیت کے بتوں میں سے ایک بت میڈیا اور انتہائی جدید دور میں سوشل میڈیا ہے جس کے بارے میں میں نے لکھا کہ اس میڈیم نے نوجوانوں کی ترجیحات کو پس پشت ڈال دیا ہے کیونکہ وہ وقت کے ضیاع سے بے خبر اس میڈیم کی روشنیوں میں مگن ہوگیا ہے ۔
ایک نقصان تو یہ ہوا
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ یورپ نے انفارمیشن کے ذریعے اذہان پر کنٹرول کا جو منصوبہ شروع کیا تھا اس کا لازمی اور انتہائی جلد نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہمارے نوجوان ہمیں سے خائف ہوئے، مسلم نوجوان اسلام سے دور ہوئے۔
انتہائی پیچیدہ شکوک کو پھیلانے میں اسی سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا اور آج کا نوجوان صرف اسی بات کو درست سمجھتا ہے جس پر کمبخت فیس بک ٹویٹر انسٹاگرام ٹمبلر کی مہر ثبت ہو ۔
سوشل میڈیا پر اس یقین نے اللہ واحد سے یقین اٹھا دیا ہے جس کے نتیجے میں آج کا نوجوان جہاں ایک طرف آزاد خیالی کا مرتکب ہوا ہے وہیں دوسری طرف آخرت اور قبر سے اس کا یقین جاتا رہا ہے ۔
آزاد خیالی ہی کا نتیجہ ہے کہ یہ نوجوان دھڑلے سے اپنے ہی مذہب پر حملہ آور ہے (یہ حملہ خواہ قلمی صورت میں ہے یا مسلح جدوجہد کی شکل میں) اور پاکستان میں رہ کر بھی پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں پر لاف زنی کا مرتکب ہے ۔
یہ یاد رکھئے کہ خوبیاں اور خامیاں سبھی میں ہوتی ہیں لیکن یہ بھی عجیب ہے کہ جس خوبی کو سوشل میڈیا خامی کہہ دے ہمارا نوجوان اس کو خامی سمجھ کر متعلقہ فرد یا ادارے کو رگڑا لگانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ۔
آپ دیکھ لیجئے ماضی قریب سے شروع ہونے والا قصہ کہ کیسے سوشل میڈیا پر سعودیہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا گیا اور آج ہر نوجوان کی زبانی، قلمی اور فکری توپ کا رخ سعودی عرب ہی کی طرف ہے اسی کے ساتھ ساتھ دفاعی اداروں کو بدنام کرنے کی خاطر جو مہم شروع کی گئی اس میں بھی اسی سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
جبکہ دوسری ہی طرف یورپ کی خامیوں کو خوبیاں بناکر پیش کیا گیا اور ہمارا نوجوان عقل سے پیدل ہوکر یورپ کی تقلید کو اپنی نجات کا سبب گرداننے لگاکیونکہ یورپ صرف ظاہری حالت پر یقین دلاتا ہے اور اس کی ہر تان مادیت پرستی پر ٹوٹتی ہے ۔
اور کون نوجوان ہوگا جو مال و ذر کا شیدائی نہیں لہذا لازمی طور پر ہر نوجوان یورپ کا شیدائی ٹھہرا ۔
یورپ میں قتل، ریپ، اغواء اور دیگر سبھی جرائم کی شرح پاکستان سے ہزار درجہ زیادہ ہے لیکن کوئی ایک بھی خبر کہیں نہیں ملتی کیونکہ یہی تو انفارمیشن پر کنٹرول ہےجبکہ دوسری طرف پاکستان یا اس کے اداروں میں بشری تقاضوں کے تحت ریزے کے برابر بھی کوئی غلطی مل جائے تو اسے برابر اور بھرپور اچھالا جاتا ہے اس سب کشمکش نے آج کے نوجوان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔
اور اس کے عقائد اور جذبات میں نظر نہ آنے والی تبدیلی رونما ہوچکی ہے جس کا لازمی نتیجہ اپنے ہم مذہبوں سے نفرت اور اپنی ہی وطن سے اکتاہٹ کی صورت میں نکلا ہے ۔
اس کی لیڈر شپ صلاحیتوں کو جس برے طریقے سے سوشل میڈیا نے قتل کیا ہے اس کے بعد یہ بےچارہ خود تو عضو معطل ٹھہرا ہی ہے لیکن دوسروں کو اس کے فرائض سے غافل کرنے میں مصروف ہے ۔
یہاں پر بصری آلودگی کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ یورپ ہمارے نوجوان کو وہی دکھاتا ہے جو یورپ کو مطلوب ہوتا ہے اور یورپ کی طرف سے دکھایا جانے والا ہر منظر حقیقت میں اس سراب کی مانند ہے جو صحرائی سفر میں کسی مسافر کو نظر آتا ہے اور سراب کی حقیقت تو آپ سب جانتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی چکا چوند نے اس نوجوان کو سراب کی حقیقت سے نا آشنا کر رکھا ہے اور جب حقیقت اس پر آشکار ہوگی تب بہت کچھ سر سے گزر چکا ہوگا ۔
اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے دیگر عوامل بھی ہیں جن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں لیکن تحریر کی طوالت آڑے آرہی ہے لہذا دیگر عوامل کو پھر پر اٹھا رکھتے ہیں۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے