الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علٰی من لا نبیّ بعد امابعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا

’’اورکہتے ہیں کہ رحمٰن بیٹا رکھتا ہےایسا کہنے والویہ تو (تم بری بات)زبان پرلاتےہو۔ قریب ہے اس(جھوٹ) سےآسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گِرپڑیں۔ (مریم:88۔90)
عالم عیسائیت سیّدنا یسوع علیہ السلام کوبغیر باپ کی پیدائش کی وجہ سے ’’ اِبن اللہ‘‘خُداکا بیٹاقرار دیکر ان کی پرستش کر رہا ہے:
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے خود دعویٰ کیاتھا یاکیا روح القدس نے خبر دی ؟کیا سید نا عیسٰی علیہ السلام کے شاگردوں نے آپؑ کے خدا کا بیٹا ہونے کی تبلیغ کی یا کسی بیرونی غیر معروف اور مشکوک شخصیت یا الفاظ ہیں :اس بارے میںاناجیل کے بیانات کی کیا حقیقت ہے ؟
بعض واقعات کو صرف ایک انجیل نے بعض کو دو نے بعض کو تین اور بعض واقعات کو چاروں میں بیان کیا گیا ہے:جن واقعات میںاناجیل کا اختلاف ہے وہ قابل قبول نہیں ہو سکتے جن میں متفق ہیں ان پر سوال اٹھایا جائیگا۔ عام عیسائیوں سے امید ہے کہ وہ غیر جانبداری سے ان پر غور کریں گے اور علماء سے امید ہے کہ ان سوالوں کے جواب دیکر مشکور فرمائیں گے۔
1اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے’’ خُدا کا بیٹا‘‘ ثابت کرنے کی کوشش:
’’اور یسُوع بپتسمہ پا کر فی الفورپانی کے پاس سے اوپر چلاگیااورد یکھو آسمان اس کیلئے کھل گیا اور ا س نے خدا وند کے روح کو کبوتر کی مانند ا پنے اوپر ا ٓتے ا ور ٹھہرتے د یکھا اور د یکھو آسمان سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہو ں۔‘‘(انجیل متّٰی:3/16-7)
تضاد:اس واقعہ کو چاروں انجیلوں میں بیان کیا گیا ہے: مرقس(1/9) لوقا (3/22)اور یوحنا (1/32) میں بیان کیا ہے:مرقس اور لوقا کے الفاظ ذرا مختلف ہیں : انہوں نے ’’یہ میرا پیارا بیٹا ‘‘کی بجائے ’’تو میرا پیارا بیٹا‘‘ کہا ہےمتّی کے الفاظ کے مطابق تو آواز بلا واسطہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہے جبکہ مرقس اور لوقا کے مطابق لوگوں سے مخاطب ہے۔ اسلام میں تو یہ بہت بڑا فرق ہے شاید عیسائیت میں اتنے فرق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ بہرحال یوحنّاان تینوں سے ہی بہت مختلف ہےاسلئے اس پر بعد میں گفتگو ہوگی،پہلے ان تینوں انجیلوں کے متفقہ واقعہ کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں:
مذکورہ بالا واقعہ میں تین نقاط قابل توجّہ ہیں:
1 یسُوع علیہ السلام سے بپتسمہ لیا
2 آسمان کھُلااور روح القدّس کبوتر کی کی شکل میں
یسُوع علیہ السلام کے کندھے پر آکر ٹھہر گیا:
3آسمان سے آواز آئی کہ ’’ یہ میر اپیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں‘‘
یاد رہے کہ بپتسمہ گناہوں کی معافی کیلئے لیا جاتا ہے بپتسمہ لینے والا دینے والے کا مرید بنتا ہےسیّدنا یسُوع علیہ السلام نعوذباللہ گنہگار تھے اور انہوں نے اپنے گناہوں کی معافی کیلئے یوحنّاعلیہ السلام سے بپتسمہ لیا اوراُن کے مرید ہوئے۔مرقس10/18اورلوقا 18/19 میں ایک شخص نے سوال کیا’’ایک نیک استاد ! میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟ یسُوع نے اس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا‘‘یسُوع علیہ السلام نے اپنے نیک اورگناہوں سے پاک نہ ہونے کا خود اقرار کیا :متّی نے اس واقعہ کو 19/17میں بیان کیا ہےمگر ا س میں’’تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے‘‘کوبعد میں بدل کر’’تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے‘‘کر دیا گیا ۔حالانکہ عیسائی علماء کے بقول متّی نے چھ سوسے بھی زائد آیات کو مرقس کی انجیل سے اخذکیا ہے: اس دعوے سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت مرقس کے مطابق تھی مگر کسی پادری نے کفارے کے عقیدہ کو زد میں آنے سے بچانے کیلئے یسُوع علیہ السلام کو گناہوں سے پاک ثابت کرنے کی کوشش میں یہ تبدیلی کی ہے: جبکہ پولس نے رومیوں کے نام خط 8/3میں لکھا ہے ’’اُس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلودہ جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کیلئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا‘‘سوال ہے کہ بائبل یسوع علیہ السلام کو گناہگاراور گناہ آلود کہتی ہے مگر عیسائیت انہیں گناہوں سے پاک اور معصوم قرار دیکر ان کی صلیب کو گناہوںکاکفارہ کس طرح کہہ سکتی ہے؟کفارہ رضامندی سے ہوتا ہے مگر یسوع علیہ السلام صلیب پر رضامندبھی نہ تھے ۔
مذکورہ بالا سوال تو ضمناً آگیا ہے :جہاں تک آسمان سے آنے والی آواز’’ تو میرا پیارا بیٹا ہے‘‘کا تعلق ہے اس واقعہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ انبیاء کرام تک اللہ کا پیغام پہنچانے والا فرشتہ روح القدّس سیّدنا یسُوع علیہ السلام کے کندھے پر موجود ہے :اب آواز دینے دو ہی شخصیتیں باقی رہ جاتی ہیں:پہلی رحمٰن اور دوسری شیطان۔ آواز کے الفاظ’’یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں‘‘یا ’’تو میرا پیارا بیٹا ہے ۔ تجھ سے میں خوش ہوں‘‘بتا تے ہیں کہ آواز دینے والا خُود اللہ تعالیٰ ہے ۔
اس حقیقت میں مسلمانوں اورعیسائیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں تک احکامات پہنچانے کیلئے بے شمار انبیاء کرام معبوث فرمائے اورہر نبی کو اپنی تصدیق کیلئے معجزات دیکر بھیجا، بائبل کے مطابق بے شمار انبیاء کرام کونہ صرف جھٹلایا گیابلکہ متعدد کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا ؟مگر اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کی تصدیق کیلئے یا اسے ظلم سے بچانے کیلئے آسمان سے خود آوازنہیں دی :اگر ایسا ممکن ہوتا توکم از کم اپنے بیٹے کو صلیب دیئے جانے پر تو ضرور ہی یہودیوں کو منع فرما دیتا:
جب بائبل کے مطابق اللہ تعالیٰ کا عام انسانوں کو اپنی آواز سے احکامات دینا ناممکن ہے تو پھر یہ آواز کس کی ہو سکتی ہے؟
جواب درکار ہے یا تو اللہ تعالیٰ کا اسطرح مخاطب ہونا ممکن ثابت کیا جائے یا پھر۔؟اب دیکھئے یوحنا کو اس واقعہ کا الہام کیا ہوااور اس نے اس واقعہ کے بیان کرنے میں کیا گُل کھلائے ہیں۔
2یوحنّا (یحییٰu)کی زبان سے غلط گواہی:
’’اور یوحنا نے یہ گوا ہی دی ہے کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح ا ترتے د یکھا ہے اور وہ اس پر ٹھہر گیا ا ور میں تو اسے پہچانتا نہ تھامگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ د ینے کو بھیجا ا سی نے مجھ کو کہا کہ جس پر تو روح کو ا ترتے اور ٹھہرتے د یکھے وہی روح ا لقد س سے بپتسمہ د ینے والا ہے ۔ چنانچہ میں نے د یکھا اور گوا ہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے۔(انجیل یوحنّا1/32)
نوٹ :انجیل لکھنے والا یوحنّا ’’حضرت یوحنّا اصطباغی‘‘ یا ’’یوحنّا بپتسمہ دینے والے‘‘ یا’’حضرت یحییٰ علیہ السلام‘‘ کی گواہی درج کر رہا ہے۔
مذکورہ حوالے پر غور فرمائیں ! صاحب انجیل نے اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت یوحنّا علیہ السلام پر کس قدر گھنائونابہتان باندھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں بتا یا تو یہ گیا تھا کہ جس پر تو روح کو کبوتر کی مانند اترتے دیکھے وہی روح القدّس سے بپتسمہ دینے والا ہوگا: لیکن جب انہوں نے یسُوع علیہ السلام پر روح کو اترتے دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی شہادت دینے کی بجائے اپنی طرف سے اضافہ کر کے گواہی دی کہ یہ خُدا کا بیٹا ہے ۔یقینا اللہ کا پیغمبر اس بہتان سے پاک ہے اورصاحب انجیل اور اس واقعہ کو سچا جان کر اس کی تصدیق کرنے والوں سے ضرور سوال ہوگا اورجواب دیئے بغیر اپنی جگہ سے حرکت نہ کر سکیں گے۔
بہرحال عام فہم انسان بھی اگر غیر جانبداری سے غور کرے تو اس پر واضح ہو جاتا ہے یہ الفاظ اس تحریر کو لکھنے والے کے نہیں ہو سکتےکیونکہ ذرا سی سمجھ بوجھ رکھنے والا راقم اگر خود یسُوع علیہ السلام کو خُدا کا بیٹا لکھنا چاہتا تو پہلے فقرے میںہی جہاں” وہی روح القدّس سے بپتسمہ دینے والا ہے” لکھا ہے اس کی جگہ ہی ” وہی خُدا کا بیٹا ہے” لکھتا ۔ انجیل کا مصنّف اتنا غائب الدماغ نہیں ہو سکتا کہ اگلے فقرے میںاپنے پہلے فقرے تردید کردے اب دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو صاحب انجیل انتہائی جاہل تھا جس نے جڑواں فقرات میں اپنی ہی بات کے الٹ لکھ کر اپنی جہالت کا ثبوت فراہم کر دیا: دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ صاحب انجیل نے” وہی روح القدّس سے بپتسمہ دینے ولا ہے” تک لکھا ہو اور کسی خوف خُدا سے عاری پادری نے بعد میں اپنے خود ساختہ عقیدے کو ثابت کرنے کیلئے” خُدا کا بیٹا ہے” کے الفاظ اللہ کے پیغمبر کے منہ میں ڈال کر بائبل کی تعلیمات کے خلاف اپنے عقیدے پراللہ کے پیغمبر کی مہر ثبت کرنے کی کوشش کی ہے یہی امر غالب نظر آتا ہے تعجّب ہے کہ اضافہ کرنے والا امتحان میں نقل لگانے والے طالب علم کی طرح جلدی بازی سے اضافہ کرتے ہوئے اتنا بھی نہ سوچ سکا کہ نہ صرف پیغمبر اس طرح کے تضاد کا مرتکب نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اضافہ تحریر کو بے ربط کرتے ہوئے اس کی جلد بازی اورجہالت کی چغلی کھاتا رہے گااور صاحب شعور لوگوں سے اسکی چوری پوشیدہ نہ رہ سکے گی :
3بادل سے اللہ تعالیٰ مخاطب ہوا :
د یکھو ایک نورا نی بادل نے ان پر سایہ کر لیا اور ا س سے آوا زآ ئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں اس کی سنو۔(انجیل متٰی: 17/5 )
موازنہ:یہ واقعہ انجیل مرقس (9/8)اور لوقا (9/36) میں بیان کیا گیا ہے ۔ مگر انہوںنے “جس سے میں خوش ہوں”نہیں لکھا :
تجزیہ: مذکورہ واقعہ بھی آسمان سے آنے والی آوازکی طرح ّ (جو روح کے کبوتر کی ماننداترتے وقت آئی تھی) ذرا فرق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس کا تجزیہ بھی وہی ہے جو گزر چکا ہےلیکن اس واقعہ کی جزئیات کے ضمن میں چند سوالات جواب طلب ہیں۔
1اس کی سنو”کا حکم وہاں موجود لوگوں کے لئے تھا یا تمام لوگوں کے لئے؟ اور کیا یہ آواز موجود لوگوں نے سنی یا ساری دنیا میں سنائی دی ؟
اگر کوئی کہے کہ یہ آواز صرف وہاں پر موجود لوگوں نے سنی اور یہ حکم ان ہی کے لئے تھا: واضح ہو اس وقعہ میں یسُوع علیہ السلام کے ساتھ سب سے پہلے ایمان لانے والے تین حواری حضرت پطرس اور زبدی کے دوبیٹے حضرت یعقوب اور حضرت یوحنّا تھے ان کے ایمان ،جانثاری اور یسُوع علیہ السلام کی نظر میں ان کی اہمیّت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بارہ حواریوں میں سے ساتھ لے جانے کیلئے ان تینوں کا انتخاب کیا گیااناجیل کے مطابق ایمان لانے سے پہلے انہوں نے نہ تو کسی معجزے کامطالبہ کیانہ کوئی اور سوال کیا بلکہ صرف اتنا کہنے پر کہ میرے پیچھے ہو لواپنا سب کچھ وہیں چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہوگئےیہاںتک یعقوب اوریوحنّانےاپنے بوڑھےباپ کوکشتی میںاکیلاچھوڑ دیااوراس سے اجازت لئے بغیر یسُوع علیہ السلام کے ساتھ چل دیئے اب سوال ہے کہ وہ تو پہلے ہی عیسٰی علیہ السلام کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہو گئے تھے اور آپ کا ہر حکم سرآنکھوں پر سمجھتے تھے:پھر انہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی زبان سے اس کی سنوکا حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی اور اگرکوئی کہے کہ یہ حکم ان کو نہیں بلکہ باقی تمام لوگوں کو تھا تو ظاہر ہے کہ یہ آواز پوری دنیا میںیاکم از کم پورے ملک میںسنی گئی ہوگی؟
تو سوال ہے کہ جو لوگ وہاںسے دور تھے ان کو کیسے پتہ چلے گا کہ آواز دینے ولا کون ہے اورکون کس کا بیٹا ہے ؟ کیونکہ نہ تو آواز دینے والے نے اپنا نام بتایاکہ میں تمہاراخالق بول رہا ہوں اور نہ یسُوع علیہ السلا م کا نام ہی لیاکہ یسُوع میرا بیٹاہے ۔کیا ان واقعات کو الہامی کہنے والا ان سوالوں کے جواب دینا پسند فرمائے گا۔؟ کیا کوئی باشعور شخص اس من گھڑت او ر بے سرو پا واقعے کو سچا مان سکتا ہے؟
یہ آواز اللّٰہ تعالیٰ کی نہیں ہو سکتی:کیوں؟
اس امر میں مسلمانوںاور اہل کتاب میںکوئی اختلاف نہیں کہ خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان کی راہنمائی کیلئے ان تک اپنے احکامات پہنچانے کیلئے انبیاء ورُسل معبوث فرمائےاپنی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے ہر نبی کو معجزات دیکر بھیجاگیا خود یسُوع علیہ السلام بھی معجزات لے کر آئےاگر اس طرح آواز دیکر انسانوں سے مخاطب ہونا مناسب یا ممکن ہوتا تو اپنا پیغام پہنچانے کیلئے انبیاء کرام کو معبوث فرمانے کی کیا ضرورت تھی معجزات کی بجائے خود ہی تصدیق کیوں نہ فرمادی فرعون نے معجزات کوجادوکہہ کر ردّ کر دیا تھا تو اسے ہی اللہ تعالیٰ نے کیوں نہ بتادیا کہ موسیٰ میر ا پیغامبر ہے اور یہ جادونہیں بلکہ میرے عطاکیے ہوئے معجزے ہیںنہ ہی خالق انسانیت نے کبھی آسمان سے آواز دیکر اپنے کسی نبی کی تصدیق فرمائی نہ انسانوں سے بلاواسطہ مخاطب ہو کر کوئی حکم دیا :عام انسانو ںسے اس طرح مخاطب ہونا خالقِ انسانیت کی شان کے منافی اور سنت کے خلا ف ہے۔
دوسرا یہ کہ عام انسان تو بہت دور کی بات ہے اللہ کے عظیم پیغمبر حضرت موسٰی کلیم اللہ نے اللہ تعالیٰ کی موجودگی کی نشانی آگ دیکھ کر اور اس سے آنے والی آواز سن کر اپنی جان کے لالے پڑھ گئے اوراللہ سے درخواست کی کہ
’’ مجھ کو نہ تو خدا وند ا پنے خدا کی آوا ز پھر سننی پڑے اور نہ اتنی بڑی آگ کا نظارہ ہو تاکہ میں مر نہ جائوں۔( کتاب استثناء 18/16)
جب ایک پیغمبر کا یہ حال ہے تو عام گنہگار انسان کی سماعت اس قابل کہاں کہ وہ اپنے خالق کی آواز کی ہیبت اور اس کے جلال کو برداشت کرسکے:ویسے بھی کسی بادشاہ کے قاصد کا حکم ٹالنے والے کو تو تنبیہہ کی جاتی ہے لیکن خود بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی حکم عدولی پر فوراً سزا واجب ہو جاتی ہے :بیعنہ انبیاء کرام کی تکذیب پر اس زندگی میں توبہ کرنے کی مہلت دی جاتی ہے:لیکن بلاواسطہ خود اللہ تعالیٰ کی زبان سے دیئے گئے حکم کو نہ ماننے والوں کو زندہ نہیں رہنے دیا جا سکتااگر مذکورہ بالا الفاظ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہوتے تو یسوع علیہ السلام کی تکذیب کرنے اور انہیں صلیب پر لٹکانے والا ایک بھی یہودی زندہ نہ رہتا :کیونکہ اگر آپ کی حکم عدولی پر آپ کے ملازم کی سزا نوکری سے جواب ہے تو اللہ کے بلاواسطہ حکم نہ ماننے کی سزا فوری عذاب اور موت ہی ہو سکتی ہے صاحب انجیل نے خود اللہ تعالیٰ کی زبان سے یسُوع علیہ السلام کو اپنا بیٹا کہلوانے کی ناپاک کوشش میں یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے بیان کے مطابق خُدا تعالیٰ کا کیسا کمزرو تصور ابھر کر سامنے آتا ہے:وہ ایک عام انسان کی طرح اہل یہود کو بتا رہے ہیں کہ یہ میر اپیارا بیٹا ہے مگر یہودی نہ صرف اللہ کے بیٹے کی معجزانہ پیدائش اور صداقت کوماننے بجائے انہیںولدالزنا اور بد روح زدہ قرار دیکر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ایک عام انسان کی طرح بے بسی سے نہ اپنے بیٹے کو بچا سکا نہ انہیں کوئی سزادے سکا :صرف کر سکاتو اتنا کہ جس طرح مظلوم مقتول کے ورثاء لاش وصول کرتے ہیں تیں دن کے بعد اپنے مردہ بیٹے کی لاش میں جان ڈال کر اپنے پاس بلالیا: سبحان اللہ عمّا یصفون
4روح القدّس کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش:
(انجیل متٰی:1/20) انجیل لوقا: (1/30-2)
خدا وند کے فرشتہ نے خواب میں د کھائی دے کر کہا ۔ اے یوسف ا بن” فرشتہ نے ا س سے کہا ۔ اے مریم خوف نہ کر کیونکہ خدا وند کا تجھ پر فضل دا ؤد ا پنی بیوی مریم کو ا پنے ہاں لے آنے سے نہ ڈ ر کیونکہ جو کچھ اسکےہو ا ہے ۔ د یکھ تو حاملہ ہو گی ا ور تیرے بیٹا ہوگا ۔ا س کا نام یسوع رکھنا ۔ پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قد رت سے ہے ۔ اس کے بیٹا ہوگا اور وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گاا ور خدا وند ا سے اس کے تو ا س کا نام یسوع رکھنا ۔کیونکہ وہی ا پنے لوگوں کو گناہوں سے پاک کریگا”باپ دا ؤد کا تخت اسے د یگااور وہ یعقوب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کریگا”
متّی کی بشارت میں درج ذیل نقاط قابل ذکر ہیں:
1مریم علیہ السلام کنواری نہیں بلکہ یوسف کی بیوی تھیں۔
2بیٹے کی کی بشارت مریمؑ کی بجائے اس کے فرضی شوہر یوسف کو دی گئی۔
3 اور نام رکھنے کا حکم بھی یوسف کو دیا گیا۔
4مریم علیہ السلام کوبیٹے پیدائش سے بے خبر رکھا گیا۔ جو ناممکنات میں سےہے ۔
5 یسُوع علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو گناہوں سے پاک کریں گے۔
6 غیر قوموں سے انکا کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے