وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗ اِلَّا هُوَ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌوَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ

’’اوراگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف دیناچاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اگر وہ آپ کو کوئی بھلائی دے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اپنے بندوں پرغالب، کمال حکمت والااور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ (الانعام: 17،18)

حضرات! سب سے پہلے سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انسان بیماری، پریشانی اور مشکل میں کیوں مبتلا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے بنیادی طور پر اس کی دو وجہ بیان کی ہیں:مصیبت، مشکل، بیماری اور پریشانی کی پہلی وجہ انسان کی اپنی غلطی کا نتیجہ اور اس کی سزا ہوتی ہے۔

وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ(الشورٰى:30)

’’تمہیں جو مصیبت آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے اور اللہ بہت سے گناہوں سے درگزر فر مانے والا ہے۔‘‘

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ (الروم:41)

’’ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کے کیے کی وجہ سے خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا ہے تاکہ اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزا چکھایاجائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔‘‘
دوسری وجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوا کرتی ہے جسے تقدیر بھی کہا جاتا ہے۔

مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ (التغابن:11)

’’اللہ کے اذن کے بغیر کوئی مصیبت نہیں آتی ‘‘۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ (البقرہ: 155)

’’اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے دشمن کے ڈر، بھوک، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے، صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیجیے۔‘‘
صحیح العقیدہ اور بُرے عقیدے کے لوگوں میں فرق یہ ہے کہ بُرے لوگ مصیبت اور پریشانی کو حالات وواقعات کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

وَقَالُوْا مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنَا اِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ (الجاثیۃ: 24)

’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے، گردش ایام کے سوا کوئی چیزہمیں ہلاک نہیں کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس علم نہیں ہے محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔‘‘
جو اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتے ہیں وہ مشکل اور پریشانی کو اپنے رب کی مشیئت سمجھ کر اس سے معافی مانگتے ہیں اور اس کو مشکل کشا اور حاجت روا جانتے ہوئے اس کے حضور دعائیں کرتے ہیں کیونکہ ان کا ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مشکل اور پریشانی سے نجات نہیں دے سکتا۔

وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ (العنکبوت:3)

’’یقیناً ہم ان سے پہلے لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں بس اللہ ضرور دیکھے گا کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔‘‘

وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ (الشعراء:80)

’’اورجب میں(سیدناابراہیم u نے فرمایا )بیمار ہو جاتا ہوں تومجھے بھی وہی شفادیتا ہے ۔‘‘
’’اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے‘‘ کا عقیدہ توحید اور حقیقی ایمان کا بنیادی تقاضا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَ اِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗ اِلَّا هُوَ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَهُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ

’’اور اگر اللہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کر لے تو اس کا فضل کوئی ہٹانے والا نہیں ، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہےدیتا ہے اور وہی بخشنے والا،نہایت مہربان ہے۔‘‘(یونس: 107)
اس فرمان سے پہلےخیر و شر کے اختیار کا ذکر کرتے ہوئےنبی کریمe کو براہ راست مخاطب کیا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو زمین و آسمانوں میں کوئی ہستی نہیں جوآپ کو نقصان سے بچا سکے اگر اللہ تعالیٰ آپ کو بھلائی اور بہتری عطا کرنا چاہے تو زمین و آسمانوں میں کوئی طاقت نہیں جو اس میں رکاوٹ ڈال سکے۔آپ کو براہ راست مخاطب کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ جب رسول معظم eاپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں تو دنیا میں کون ہے جو اپنے آپ کو یا دوسرے کو نفع دے اورنقصان سے بچاسکے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے جو مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی سے بے نیاز کر دیتا ہے اسی عقیدہ کی بنیاد پر مجاہد میدانِ کا ر زار میں اُترتاہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا ذمّہ لیا ہوا ہے۔ اس وقت تک دشمن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور یہی عقیدہ اخلاص کی دولت عطا کرتا ہے۔ جس بنیاد پر ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے پر خلوص محبت کا ناطہ جوڑتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ خیر و شر صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ’’اللہ‘‘ہی اپنے بندوںکو نفع و نقصان پہنچانے والا ہے ۔ اس کے حکم کے سامنے کسی جابر کا جبر اور کسی نیک کی نیکی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ’’اللہ‘‘ ہی اپنے بندوں پر پوری طرح قادر ہے اور وہ اس کی حکمت سے خوب واقف ہے ۔
یہ عقیدہ دین کی ابتداء اور انتہا ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ بار بار مختلف انداز اور الفاظ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ اس پر پکے ہوجاؤ۔ یہ دنیا میں کامیابی اور آخرت کی فلاح کا راستہ ہے۔ اس عقیدہ کی اہمیّت اور فرضیّت کے لیے نبی کریم سے لے کر ہر انسان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ’’اللہ‘‘ کے سوا نہ کسی کی عبادت کرے اورنہ ہی کسی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھے۔ اس سے انسان اور’’اللہ ‘‘ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ ہے کہ انسان ہر قسم کے نفع و نقصان سے بالا تر ہوکر محض اخلاص کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے۔ اس عظیم تصور اور عقیدے کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے رسول کو مخاطب کیا:

وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ (یونس:106)

’’اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکاریں جو نہ آپ کو نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتی ہے، اگر آپ نے ایسا کیا تو بلاشبہ آپ کا شمار ظالموں میں سے ہو گا ۔‘‘
یہاں ظلم سے مراد شرک ہےاوراس کا ارتکاب کرنے والے ظالم ہیں اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بے مثال ہستی اور اس کی عظیم صفات کے ساتھ دوسروںکو شریک بناتے ہیں۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ قُلْ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِيَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖ اَوْ اَرَادَنِيْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ قُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ(الزمر: 38)

’’اگر آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جواب دیں گے کہ’’ اللہ‘‘ ہی نے پیدا کیا ہے۔ فرما دیں کہ اگر ’’اللہ‘‘ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا جنہیں تم اللہ تعالیٰ کے سِوا پکارتے ہو وہ مجھے اس نقصان سے بچا سکتے ہیں ؟یا ’’اللہ‘‘ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک لیں گے ؟ انہیں فرما دیں کہ میرے لیے ’’اللہ‘‘ ہی کافی ہے ،بھروسہ کرنے والے اُسی پر بھروسہ کیا کرتے ہیں۔ ‘‘
قرآن مجید نے ’’اللہ‘‘ کی توحید سمجھانے اوردینِ حق کی پہچان کروانے کے لیے ہر زاویہ سے کوشش فرمائی کہ لوگ ’’اللہ‘‘ کی توحید کا اقرار کریں جو دین حق کی مرکزی اور پہلی اساس ہے ۔ یہاں مشرکین کی سوئی ہوئی حِسّ کو بیدار کرنے کے لیے سوال کیا جارہا ہے کہ زمین وآسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ان کا جواب ہوگا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ ان سے پھر سوال کریں کہ جن کو تم ’’اللہ‘‘ کے سوا پکارتے ہو اگر مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکلیف پہنچے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کر سکتے ہیں؟اگر میرا رب مجھ پر اپنی رحمت کا نزول فرمائے تو زمین و آسمانوں میںکوئی ایسی ہستی اور طاقت ہے جو اللہ کی رحمت کے نزول میں رکاوٹ ڈال سکے ؟ ظاہر ہے کہ اس کے سوا نفع و نقصان کا کوئی مالک نہیں۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خوشی اور غم ،عُسراور یُسر میں اپنے ’’اللہ ‘‘پر بھروسہ کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندے ’’اللہ‘‘ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
اس عقیدہ کی تازگی اور پختگی کے لیے نبی مکرم ﷺنے اپنے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباسw کو یوں فرمایا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللہِ  یَوْمًا فَقَالَ یَا غُلاَمُ اِحْفَظِ اللہَ یَحْفَظْکَ اِحْفِظِ اللہَ تَجِدْہٗ تُجَاھَکَ وَإِذَا سَأَلْتَ فَاَسْأَلِ اللہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِاجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلاَّ بَشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلاَّ بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجُفَّتِ الصُّحُفُ(رواہ أحمد :باب مسند عبداللہ بن عباس) (صحیح)

’’سیدناعبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول کے پیچھے سواری پر سوار تھا۔آپ نے فرمایا: اے بچے! ’’اللہ ‘‘ کے احکام کی حفاظت کرو،اللہ تیری حفاظت کرے گا ۔’’اللہ‘‘ کو یاد کرو تو اُسے ا پنے سامنے پائے گا۔جب مانگو توصرف ’’اللہ‘‘ ہی سے مانگا کرو۔ مدد کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور اس بات کو ذہن نشین کر لو اگر ساری دنیا کے لوگ تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تووہ نفع نہیں پہنچا سکتے ہاں اُتنا ہی جتنا ’’اللہ‘‘ نے تیرے نصیب میں لکھ دیا ہے۔ اگر سب کے سب تجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائیں تو وہ تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اُتنا، جتنا’’اللہ‘‘ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے ۔ قلمیں اُٹھا دی گئیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔‘‘

عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ کَتَبَ مُعَاوِیَۃُt إِلَی الْمُغِیرَۃِ اُکْتُبْ إِلَیَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِیَّe یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ فَأَمْلٰی عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ (رواہ البخاری: باب لامانع لما اعطی اللہ)

’’سیدنا مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد کہتے ہیںکہ سیدنا معاویہt نے مغیرہ کوخط لکھا کہ آپ نماز کے بعد جو نبی کریم e سے دعا سُنا کرتے تھے وہ لکھ کر بھیجئے۔سیدنا مغیرہ tنے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی کریمe کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔ ’’اللہ‘‘ کے علاوہ کوئی معبو دِ برحق نہیں، وہ اکیلاہے، اس کا کو ئی شریک نہیں۔ اے اللہ جسے تو دینا چاہے اسے کوئی روک نہیںسکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں ، تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کو ئی فائدہ نہیں دے سکتی۔‘‘

مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (فاطر :2)

’’اللہ ‘‘لوگوں کے لیے اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے،اسے اُس کے سوا کوئی کھولنے والا نہیں، وہ زبردست اور حکمت والا ہے۔‘‘
مشرکین میں سے ایک گروہ کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ یہاں اس عقیدہ کی کھلے الفاظ میں نفی کرتے ہوئے سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی اور ذات کو رائی کے دانے کے برابر بھی اپنی خدائی میں اختیارات نہیں دیئے۔ وہ کسی کواپنی رحمت سے سرفراز کرنا چاہے تو اسکی رحمت کو کوئی روکنے والا نہیں اگر وہ اپنی رحمت کو روک لے تو اسے کوئی نازل کرنے والا نہیں ہے۔ وہی اپنا حکم او ر فیصلے نافذ کرنے پر غالب ہے ۔پوری طرح غلبہ حاصل ہونے کے باوجود اس کے ہر کا م اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا کہ وہی دینے اور عطا فرمانے والا ہے یہ ایسا عقیدہ اور فکر ہے جس سے انسان نہ صرف مخلوق سے بے نیاز ہو جاتا ہے بلکہ در در کی ٹھوکریں کھانے سے بھی بچ جاتاہے ۔ اس کے اخلاق اور معاملات میں اخلاص کا پہلو غالب رہتاہے۔ وہ کسی کے ساتھ ہمدردی اس لیے نہیں کرتا کہ آنے والے کل کووہ اُسے فائدہ پہنچائے گا، وہ کسی بڑے کو سلام کرتاہے تو اس کے دل میں یہ خوف نہیں ہوتا کہ اگر اس نے اُسے سلام نہ کیاتو یہ اُسے کسی چیز سے محروم کر دے گا۔ کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جو چیز میر ا رب مجھے عطا کرنا چاہے گا اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس چیز کواس نے روک لیا اسے کوئی دے نہیں سکتا۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللہِ  إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ: رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَھْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ (رواہ مسلم:باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ)

’’سیدنا ابو سعید خدریt ذکرکرتے ہیںکہ جب اللہ کے رسولe رکوع سے سر اُٹھاتے تو کہتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین کے درمیان خلاءکے برابر اور اس کے بعد جتنی تو چاہتاہے، تو اِس تعریف کا سب سے زیادہ اہل ہے اور اُس بزرگی کا سب سے زیادہ حقدار ہے جو تعریف اور عظمت تیرے بندے بیان کرتے ہیں ہم سب کے سب تیرے ہی بندے ہیں۔اے اللہ! جو چیز تو عطا فرمائے اُسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اُس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں، تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا نہیں اور نہ کوئی نفع دے سکتا ہے ۔‘‘
حضرات!اسی عقیدے کی دعوت دینےکے لیے نبی کریم eکو مبعوث فرمایا گیا اور سب سے پہلے اسی بات کی طرف بلاتے تھے:

قُلْ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَا اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ (یونس: 104 تا106)

’’فرما دیں!اے لوگو! اگر تم میرے دین کے بارے میںشک کرتے ہو تو میں انکی عبادت نہیں کرتا جن کی تم ’’اللہ‘‘ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ میں تو اس ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیںموت دیتا ہے، مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں ایما ن والوں میں سے ہو جائوں اور مجھےیہ بھی حکم دیاگیاہے کہ میںاپنا چہرہ اسی دین کی طرف سیدھا رکھوں اور مجھے حکم ہے کہ مشرکوں سے ہر گز نہیں ہونا۔اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکاریں جو نہ آپ کو نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتی ہے، اگر آپ نے ایسا کیا تو بلاشبہ آپ کا شمار ظالموں میں سے ہو گا ۔‘‘ ﴾
نبی معظمe کو حکم ہواکہ آپ سرعام اعلان فرمائیں کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے اور تم کسی طرح بھی مطمئن ہونے کے لیے تیار نہیں ہو۔تو یاد رکھو میں اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارے معبودانِ باطلہ کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔میں صرف اس ایک ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرتارہوں گا جو تمہیں اور سب کو فوت کرنے والا ہے۔ کیونکہ میں ایمان لانے والوں میں ہوں۔اس لیے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے آپ کو مکمل طورپر اس دین کے تابع کروں جو ہر اعتبار سے کامل، اکمل اور ہر قسم کی ملاوٹ اور کمی کمزوری سے پاک ہے ۔ میرا مشرکوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔
یہاں دین سے پہلی مراد توحید خالص اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ مشرکین مکہ نے نبی معظمe کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگالیااور وہ ہر اعتبار سے ناکام اورنامراد ٹھہرے تو انہوں نے اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے یہ مطالبہ کیا

وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ ( القلم :9)

’’ اے محمد!کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم اپنا موقف چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اس کے جواب میںیہ فرمان نازل ہوا کہ اے رسولe! مشرکین کی پرواہ کیے بغیر صرف ایک ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرتے رہو اور اس کی توحید کی دعوت دیتے رہو۔ انہیںسمجھائو اور بتائوکہ کیاوہ ان کی عبادت کرتے ہیں جو اپنے اور کسی کے نفع ونقصان کااختیارنہیں رکھتے۔

وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَا اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ (الاعراف:197)

’’اور اسے چھوڑ کرجنہیں تم پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اورنہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں۔‘‘

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِيْلًا اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا (الاسراء:56۔57)

’’فرمادیجیے!بلائو ان کو جنھیں تم نے اللہ کے سوا گمان کر رکھا ہے پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ اسے بدلنے کا۔ وہ لوگ جنھیں یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف ذریعہ قرب تلاش کرتے ہیں جو ان میں سے زیادہ قریب ہیں اور اس کی رحمت ک امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے ۔ ‘‘
اے رسول(e)!ان لوگوںسے کہیںکہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا مشکل کشا ،حاجت روا سمجھتے ہو ان کو بلائو۔ وہ تمہاری تکلیف دور کرنے یا اس کو بدل دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ اپنی مدد کے لیے پکارتے ہووہ تو اپنے رب کے ہاں اس کے قرب کے متلاشی ہیں ۔کہ کون ان میں سے اپنے ر ب کا مقرب بندہ ہے اور کون اس کے عذاب سے ڈرنے والا ہے؟ کیونکہ آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کے لیے ہے ۔ یاد رہے کہ مکہ کے مشرک پتھر،لکڑی او ر مٹی کے بتوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ اور حرمت کے طور پر پیش کرتے تھے ۔ان کا عقیدہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں مگر ان میں ان بزرگوں کی روح حلول کرگئی ہے ۔جن کی عبادت سے خوش ہو کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خدائی میں سے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں ۔اہل مکہ کے عقیدہ کے مقابلے میں یہودو نصاریٰ بتوں کو وسیلہ بنانے کی بجائے انبیاء او ر صلحا ء کی قبروں کو وسیلہ بناتے تھے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ’’اَلَّذِیْنَ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔اس کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ’’اَلَّذِیْنَ‘‘کا لفظ ’’ذی روح‘‘اور ’’ذی عقل‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ظاہر ہے یہ بت نہیں انسان ہیں ۔ تو معنی یہ ہوا کہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ مشکل کشا ، حاجت روا اور وسیلہ سمجھتے ہو ۔وہ تو خود اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں ۔ ان کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے طلبگار اور اس کے عذاب سے لرزاںوترساںرہتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ایسی خوفنا ک چیز ہے جس سے ہر حال میں ڈرنا ہی چاہیے ۔

يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهٗ وَ مَا لَا يَنْفَعُهٗ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُ (الحج :12-13)

’’مشرک ’’اللہ‘‘ کو چھوڑ کر ان کو پکارتا ہے جو نہ اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ دے سکتے ہیں۔یہ پرلے درجے کی گمراہی ہے ۔ وہ اسے پکارتا ہے جس کا نقصان اس کے فائدہ سے زیادہ ہے ،بدترین ہے اس کا مولیٰ اوربدترین ہے اس کا ساتھی۔‘‘
انسان جب اپنے رب کی بندگی چھوڑتا ہے تو پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور جگہ جگہ ماتھا ٹیکتا ہے۔جلد باز اور مفاد پرست طبیعت کی وجہ سے مشرک اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ جس مزار یا بت کے سامنے اپنی حاجت پیش کررہا ہے وہ تو اُسے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی تکلیف پہنچا سکتا ہے، یہ فکر و عمل اس قدر گمراہ کن ہے کہ آدمی ہدایت قبول کر نا تو درکنار، حق بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس کا عمل اس بات کی گواہی دیتاہے کہ یہ شخص گمراہی میں بہت دور جا چکا ہے ، ایسے شخص کو شعور نہیں ہوتا کہ جس کو پکار رہا ہے وہ فائدے کی بجائے اس کے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے شخص کاانجام انتہائی بھیانک ہوگا، بہت ہی بُراعقیدہ اور سہارا ہے جس کو مشرک اختیار کرتا ہے۔ مشرک کو اس سے اس لیے فائدے کی بجائے نقصان پہنچتا ہے کہ اُسے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے ساتھ شرک ٹھہرایا ہے جو تمام نیکیوں کو تباہ کر دیتاہے۔ مشرک حقیقی مشکل کشاکی بجائے کئی مشکل کشاؤں کو پکارتا ہے ،لیکن یہاں جمع کی بجائے ’’الْعَشِیْرُ‘‘ واحد کا لفظ لایا گیا ہے کیونکہ مشرک کے عقیدہ کا محرّک اور سبب شیطان ہوتا ہے اس لیے بتلایا ہے کہ بھلائی کی بجائے شیطان بدترین ورغلانے والا اور بُرا ساتھی ہے۔

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ  قَالَ عَلَّمَنِی رَسُولُ اللہِ  کَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِی الْوِتْرِ إِنَّکَ تَقْضِی وَلاَ یُقْضَی عَلَیْکَ وَإِنَّہُ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ(رواہ ابوداود:باب الْقُنُوتِ فِی الْوِتْرِ)

’’سیدناحسن بن علی سے روایت ہے اُنہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول  نے مجھے وتر میں پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھلائی، الٰہی بے شک توہی فیصلہ کرنےوالا ہے، تیرے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا، جس کا تو دوست بن جائے اُسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا اور جس کے ساتھ تو دشمنی رکھے اُس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔‘‘

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اٰلِهَةً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ وَ لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَيٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا

’’انہوں نے اللہ کو چھوڑکر ایسے معبود بنالیے جنہوں نے کسی چیز کو پیدانہیں کیا وہ تو خود پیداکیے گئے ہیں وہ اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان، موت اور زندگی اور نہ دوبارہ اٹھنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔ ‘‘(الفرقان:3)
عقیدۂ توحید دین کی روح اور اس کی بنیاد ہے، اس کے باوجود شرک کرنے والوںنےمختلف عقائد اور انداز اختیارکررکھےہیں۔ کوئی بتوں، فوت شدہ بزرگوں اور کوئی چاند ستاروں، فرشتوں اور جنات کو اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اوراختیارات میں شریک ٹھہراتا ہے، جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ ’’اللہ‘‘ کے پیدا کردہ اوراس کی مخلوق ہیں اورپکارنے والوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔یہاں تک کہ ان پر کوئی افتادآپڑے تو اپنے آپ کو بھی بچا نہیں سکتے لیکن اس کے باوجود مشرک اپنی اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک سمجھتے ہوئے بچوں کے نام پیراں دتہ ، عبدالعزیٰ وغیرہ رکھتے ہیں اور اپنی اولاد کو لے کر بتوں اور مزارات کا طواف کرتے ہیں اور ان کے سامنے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ یہ شرک پہلے زمانے کے لوگ کرتے تھے آج کل لوگ شرک میں اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ مزارات کے چکر لگاتے ہوئے صاحب قبر سے براہ راست اولاد اور مرادیں مانگتے ہیں۔ حالانکہ صاحبِ قبر خود محتاج ہیں نہ وہ اپنی مدد کر سکتے اور نہ دوسروں کی ۔
اگر واقعی یہ تمہاری کوئی بھلائی کر سکتے ہیں تو انھیں رہنمائی کے لیے بلائو لیکن وہ تمہاری کوئی رہنمائی نہیں کرسکتے ۔ تمہارا ان کو بلانا یا نہ بلانا ان کے لیے یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن فوت شدہ بزرگوں کو تم پکارتے ہو، وہ تمہاری طرح کے ہی بندے تھے یعنی جس طرح تم ’’رب‘‘ کے سامنے بے بس اور بے اختیار ہو اسی طرح وہ اپنے رب کے سامنے عاجز اور بے اختیار تھے اور ہیں۔ جس طرح بیماری اور شفا ، غربت اور دولت ، عزت اور ذلت نفع اور نقصان تمھارے اختیار میں نہیں اسی طرح وہ بھی ان امور پر کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اس کے باوجود تم انھیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو اگر تم اپنے عقیدہ اور دعویٰ میں سچے ہو تو ان کو آواز دو، چاہیے تو یہ کہ وہ جواب دیں لیکن وہ تمھیں کبھی جواب نہیں دے سکتے ۔

اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ (فاطر :14)

’’اگرتم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکارسن نہیں سکتے اور اگر سُن بھی لیں تو اس کا تمہیں جواب نہیں دے سکتے، اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر یں گے ایسی خبر تمہیں ’’ اللہ ‘‘ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔‘‘
ان دلائل کے باوجود مشرکین انبیاء اور موحّدین کو دھمکیاں دیا کرتے ہیں کہ ہمارے معبود یہ، یہ کر سکتے ہیں اس کے جواب میں انھیں چیلنج دیا گیا ہے:

اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْـًٔا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَ وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّلَا اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَتَّبِعُوْكُمْ سَوَآءٌ عَلَيْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ اَلَهُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اَعْيُنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ اِنَّ وَلِيَّ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَا اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا وَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَ هُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ
(الاعراف:191تا 198)

’’کیا وہ انہیں شریک بناتے ہیں جوکوئی چیز پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیداکیے گئے ہیں۔ اورنہ ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں اورنہ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔ اوراگر تم انہیں سیدھے راستے کی طرف بلائو تو وہ آپ کے پیچھے نہیںآئیں گے۔ آپ کے لیے برابر ہے کہ آپ انہیں بلائیں یا آپ چپ رہیں۔ بے شک جنہیں تم ’’اللہ‘‘ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے بندے ہیں، پس انہیں پکارو،پھر اگر تم سچے ہو تو وہ تمہاری بات قبول کریں۔ کیا ان کے پائوں ہیں جن سے وہ چل سکیں؟ یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے پکڑسکیں؟ یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے دیکھ سکیں؟ یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سن سکیں؟ فرما دیں تم اپنے شریکوں کو بلا کر میرے خلاف تدبیرکرواور مجھے مہلت نہ دو۔ بے شک میرا مددگار ’’اللہ‘‘ ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہی نیکوں کا مددگار ہے، اسے چھوڑ کرجنہیں تم پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد کرتے ہیں۔ اگرآپ انہیں سیدھے راستے کی طرف بلائیں تو نہیں سنیں گے اورتو انہیں دیکھتا ہے کہ وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ نہیں دیکھتے۔ ‘‘
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے