اعتراض :

اللہ محی وشافی ہے اور عیسی علیہ السلام بھی اللہ کے حکم سے محی وشافی ہیں چنانچہ اللہ حقیقی مشکل کشا اور نبی ، ولی اللہ کے اذن سے مشکل کشا ہیں جب وہ اللہ کے اذن سے ہوئے تو ان سے حاجب طلب کرنا شرک کیوں ؟

جواب :

قرون اولیٰ کا مسلمان بیک وقت مجاہد،عالم اور مزکی بھی ہوتاتھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تینوں خصوصیات کا ایک مسلمان میں بیک وقت ہونا مشکل امر ہوگیا۔ مغلیہ خاندان کے سپاہیوں نے ہندو راجاؤں سے لڑ کر علاقہ فتح کیا تو علماء نے مساجد آباد کیں اور اولیائے کرام نے مسلمانوں کا تزکیہ کیا ، ان اولیاء اللہ سے اللہ کے اذن کے تحت کرامات کا ظہور ہوتا ہے کہ عام طبقہ انہیں مشکل کشا سمجھ لیتا ہے صاحب بصیرت کے بقول ان کی مثال ٹیوب لائٹ کی سی ہے جب برقی تار میں کرنٹ ہوگا تو ٹیوب روشنی دے گی ورنہ نہیں ۔ اسی طرح اللہ کے اذن سے کرنٹ جاری ہو تو انبیاء کرام علیہم السلام سے معجزات اور اولیاء کرام سے کرامات کا ظہور ہوتاہے جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے تو وہ نیک بندہ اللہ کے دربار میں شکر ادا کرتا ہے جب کنکشن ختم ہوتاہے تو وہ سجدہ میں گر کر اللہ سے رحمت ونصرت طلب کرتا ہے جب روشنی نہ ہوتو آپ لائٹ کے لیے ٹیوب لائٹ سے بھیک مانگیں گے یا کنکشن کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں گے چنانچہ مشکل کشائی کے لیے ان کو مت پکارو جو کنکشن کے محتاج ہوں بلکہ آپ اس وحدہ لا شریک ذا ت کوپکاریں جو ساری کائنات کا خالق ومالک اور علی کل شیء قدیر ہے۔
اعتراض :
عقیدہ توحید کو سمجھانے والے اشتہار’’ ایک سوال کی دس شکلیں‘‘ شائع ہوا تو اس کے جواب میں ایک صاحب نے لکھا کہ اللہ نے قرآن میں مومنوں کو مددگار کہا ہے

اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا

’’اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور اولیاء تمہارے مددگار وکارساز ہیں۔‘‘ (المائدۃ:55)
معلوم ہوا کہ اللہ کی کارسازی بالاصالت ہے رسول مکرم ﷺ اور اولیاء کا مددگار ہونا بالنیابت ہے۔ آیت مبارکہ میں ترتیب اس پر شاہد ہے کہ اولیاء ، رسول ﷺ کے نائب اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے نائب ہیں۔
جواب :
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ولی کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ وہ خود نہیں کھاتا اور دوسروں کو کھلاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔

قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ (الانعام : 14)

’’آپ (ﷺ) فرمادیجیے کہ کیا بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی کو (اپنا) معبود بناؤں( وہ اللہ جو) پیدا فرمانے والا ہے ، آسمانوں اور زمین کو اور وہ (سب کو) کھلاتا اور خود نہیں کھلایا جاتا۔‘‘
معترض نے سورت مائدۃ55 میں ولی کے معنی مددگار کے کیے ہیں۔ سورت انعام کی مذکورہ آیت کی روشنی میں وضاحت مقصود ہے کہ رسول اور مومنین کو کھانے پینے کی حاجت تھی یا وہ ان عیبوں سے پاک تھے؟ دراصل گزارش ہے کہ عربی وسیع زبان ہے جس میں ایک حرف کے کئی حقیقی ومجازی معنی ہیں جو آیت کے شانِ نزول اور سیاق وسباق کے حوالے سے استعمال ہوتے ہیں۔
لفظ ’’توفی‘‘ کے کئی حقیقی ومجازی معنی ہیں آل عمران کی آیت 55 میں ’’إِنِّي مُتَوَفِّيكَ‘‘ کے حقیقی معنی ( میں تجھے پورا لینے والا ہوں) پر امت کا مسلمہ اتفاق ہے، جناب اس طرح المائدۃ کی آیت نمبر 55 میں ولی کے معنی مددگار نہیں بلکہ دوست کے ہیں ، مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس آیت کا ترجمہ اور شانِ نزول اس طرح بیان کیا کہ ’’تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے۔‘‘
شان نزول سیدنا جابررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت سیدناعبد اللہ بن سلام کے حق میں نازل ہوئی انہوں نے سید عالم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ ہماری قوم قُرَیظہ اورنضیر نے ہمیں چھوڑ دیا اور قسمیں کھا لیں کہ وہ ہمارے ساتھ مجالست (ہم نشینی) نہ کریں گے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو عبد اللہ بن سلام نے کہا ہم راضی ہیں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ، اس کے رسول کے نبی ہونے پر ، مؤمنین کے دوست ہونے پر اور حکم آیت کا تمام مؤمنین کے لئے عام ہے سب ایک دوسرے کے دوست اور مُحِب ہیں ۔(خزائن العرفان علی کنز الایمان ، ص:174)
آیت کی تفسیر میں مسلک بریلوی کےباني كا مؤقف تسلیم کرلیں یا اس کے پیروکار علماءکا؟ انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد کائنات میں مروجہ الٰہوں کی نفی کرکے ایک اللہ کے الٰہ ہونے کا اعلان کرنا تھا یا اللہ سے مددگاری کے اختیارات تمام مومنین کو منتقل کرنا تھا؟ کیا آپ اس کا مقعول جواب دے سکتے ہیں؟
شبہ :
ایک ڈاکٹر مولانا نے آل عمران کی آیت 124 تا 125 کا حوالہ دے کر تجزیہ کیا کہ ’’اگر کسی کی مدد کرنے والا خدا ہوتاہے تو پھر فرشتوں کو خدا مانا جائے ، جو کسی کی مدد کرے وہ خدا ہوتاہے ، مدد کرنا منصب الوہیت ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن نے فرشتوں کو خدا بنا دیا۔‘‘
ازالہ :
سرورکائنات محمد عربی ﷺ نے بدر کے میدان میں رب سے مدد مانگی،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے محدود تعداد اور کم وسائل پر صبر وتقویٰ کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیج کر مدد کی ۔

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَ بَلٰٓى اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ (آل عمران : 124۔125)

جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ہاں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا ۔‘‘
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے ترجمہ سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ نے فرشتے بھیج کر مدد کی ،فرشتےسیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دیں یا قوم لوط پر عذاب مسلط کریںوہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے محتاج ہیں چنانچہ بدر کے میدان میں فرشتے خود نہیں آئے بلکہ مدد طلب کرنے پر فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آئے۔ صاحبِ ذی شعور دوا میں شفاء نہیں سمجھتا اگر دوا میں شفاء ہوتی تو لقمان حکیم کے بیٹے کو شفاء ضرور ملتی چنانچہ شفا ء اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ چاہے تو دوا میں شفاء کا اثر مہیا کرے نہ چاہے تو وہی دوا کھانے سے مرض میں شدت پیدا کردے، فرشتوں کی مدد کا سبب بننا سرور کائنات ﷺ کی دعا کا ثمر ہے چنانچہ سبب مددگار نہیں ہوتا ہاں! سبب مہیا کرنے والا مددگار ہوتاہے۔
اعتراض :
بزرگوں کا ادب واحترام کرنے پر شرک کا فتویٰ صادرکر دیا جاتاہے جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ مجھے تمہارے مشرک ہونے کا کوئی خطرہ نہیں

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى المِنْبَرِ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ – أَوْ مَفَاتِيحَ الأَرْضِ – وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا(صحیح البخاری:1344 وصحیح مسلم :2296 دار الفکر)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے آپ نے شہداء اُحد کی قبور پر صلوٰۃ پڑھی جیسے میت پر صلوٰۃ پڑھی جاتی ہے پھر منبر کی طرف تشریف لے آئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میں تمہارا پیش رو ہوں میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اب اپنے حوض کی طرف مسلسل دیکھ رہا ہوں مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! مجھے اپنے بعد تمہارے مشرک ہونے کا کوئی خطرہ نہیں لیکن مجھے تمہاری خزائن ارض میں رغبت کا خطرہ ہے۔ ‘‘
ازالہ :
مرشد کامل محمد عربی ﷺ کی تعلیم وتربیت کا فیض تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تکلیفوں اور اذیتوں کے پہاڑ سہہ کر جان کا نذرانہ دے دیا لیکن اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا اگر کسی نومسلم نے گفتگو کے دوران ادب کی وجہ سے کہا کہ ’’اگر اللہ اور اس کے رسول نے چاہا، تو آپ ﷺ نے فوراً اصلاح کر دی کہ اگر صرف اللہ نے چاہا، قربان جائیں صحابہ کے ایمان پر کہ انہوں نے آپ ﷺ کے ہر فرمان کو سینے میں بٹھا لیا اور پھر زندگی بھر عقیدۂ توحید کی پاسبانی کا فریضہ سرانجام دیا۔
مخبر صادق ﷺ نے تصدیق فرمادی کہ میرے بعد تمہارے مشرک ہونے کاکوئی خطرہ نہیں، نبی کریم ﷺ کو شہداء اُحد سے اس قدر پیار تھا کہ آپ کبھی کبھی وہاں تشریف لے جاتے ، زندگی کے آخری ایام میں بھی آپ ﷺ نے وہاں جاکر شہدائے اُحد کی نماز جنازہ پڑھائی پھر منبر پر بیٹھ کر جہاد کی استقامت پر خطبہ دیا کہ مجھے تمہارے مشرک ہونے کا تو خطرہ نہیں البتہ اندیشہ لاحق ہے کہ دنیا میں رغبت دیکھ کر جہاد میں سست ہوجاؤ گے، مزید فرمایا ’’جہاد کو روکنا نہیں بلکہ اسلام کو غالب کرنا ہے اس خطبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وصیت تھی جنہوں نے صدقِ دل سے اس کو سینہ میں بٹھالیا اور مرتے دم تک جہاد جاری رکھا اور نصف کرئہ ارضی پر توحید وسنت کا پرچم لہرایا ۔
سید الکونین ﷺ کے کسی فرمان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ انہوں نے شرک سے پاک رہنے کی خبر دی البتہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے طویل حدیث مروی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ بھی ہیں :

وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ

’’قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ میری امت کے بہت سے قبائل مشرکین سے جاملیں گے اور حتی کہ میری امت کے بہت سے قبائل بت پرستی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ( سنن ابی داود : 4252)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ امت محمدیہ ﷺ  تدریجی لحاظ سے شرک میں مبتلا ہوگی اس کو سمجھنے کے لیے مثال پیش خدمت ہے دورِ نبوی کے علاوہ خلافت راشدہ کا دور مسلمانوں کے لیے مشغل راہ ہے اس کے بعد بھی نظام خلافت قائم رہا لیکن وہ مسلمانوں کے لیے حجت نہیں کیونکہ نظام خلافت تدریجی لحاظ سے زوال پذیر ہوا اور خلافت کی برکات رفتہ رفتہ سمٹتی گئیں حتی کہ یورپی اقوام نے 1924ء میں مسلم دنیا پر تسلط جما کر خود ساختہ نظام رائج کیا۔
مسلم دنیا کو آزادی حاصل کیے ہوئے پون صدی گزر گئی ہے تاحال قرآن وسنت کو آئینی لحاظ سے سپریم لاء کی حیثیت حاصل نہ ہوسکی جنہوں نے تگ ودو کی وہ اس نظام کا حصہ بن گئے انہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو پس پشت ڈال دیا اسی طرح عالم اسلام میں تدریجی لحاظ سے شرک سرایت کرتا رہا اور کرتا رہے گا حتی کہ قیامت کے قریب چند قبائل مشرکین سے ملیں گے اور بت پرستی شروع کردیں گے۔
عصرِ حاصر کے بعض مسلم گھرانوں میں مذہبی وسیاسی راہنماؤں کی تصویریں ڈرائنگ روم میں سجی ہوتی ہیں خوبصورتی کے لیے جانوروں کے ماڈل رکھے جاتے ہیں اہم شاہراہوں کے چوکوں پر شاہین،شیر اور گھوڑوں کے مجسمے نصب ہیں زمانہ بعید میں مسلمانوں کے پاس قبروں سے تقرب حاصل کرنے کا وقت نہ ہوگا وہ برکت کیلئے نیک لوگوں کے مجسمے بناکر گھروں میں رکھ لیں گے کاروبار پر جانے سے پہلے ان کی زیارت کو برکت کا باعث سمجھیں گے ، قومی راہنماؤں کےمجسمے چوکوں پر نصب ہوں گے ، قومی تہواروں کے موقع پر ان کو سلامی دی جائے گی گویا اس طرح مخبر صادق ﷺ کی زبان اطہر سے نکلی پیشین گوئی سچ ثابت ہوکر رہے گی اللہ ہم سب کو شرک کی بیماری سے محفوظ رکھے ۔ آمین

شبہ :

محمد عربیﷺ ہر سال شہدائے اُحد کی قبر پرتشریف لے جاتے تھے اس لیے ہم بزرگوں کی قبروں پر سالانہ عرس مناتے ہیں۔

ازالہ :

امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ شہدائے احد کی قبور پر غزوہ اُحد کے مقررہ دن تشریف نہ لے جاتے بلکہ کبھی کبھار جاتے تھے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے آپ ﷺ نے شہدائے احد کی قبور پر صلوٰۃ پڑھی جیسے میت کی صلوٰۃ پڑھی جاتی ہے۔ (بخاری:133 ومسلم : 2296)
مذکورہ روایت سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ مخصوص تہوار کے طور پر نہیں گئے بلکہ جب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا تو آپ اسلام کے نام پر جان قربان کرنے والے شہدائے احد کے درجات کی بلندی کے لیے تشریف لے گئے وہاں اس طرح نماز پڑھی جس طرح میت کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ جنازہ میں میت کے لیے دعا کی جاتی ہے لیکن میت کے وسیلہ سے اپنے لیے دعا نہیں مانگی جاتی۔
کسی امتی کے گھر یکے بعد دیگرے نبی کی دو بیٹیاں نکاح میں نہیں آئیں روئے کائنات میں یہ اعزاز صرف سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے جنہیں بے دردی سے شہید کیاگیا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح ہوگئی تو خاندانِ بنی امیہ کی حکومت کئی سالوں تک قائم رہی اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حیات تھے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑائیوں میں شہید ہوئے اور طبعی موت سے بھی رخصت ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے سنت کے پاسبان اور عامل قیامت تک پیدا نہیں ہوں گے اگر نبی کریم ﷺ ہر سال اُحد کے شہداء کا عرس مناتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ودیگر شہداء اور طبعی وفات پانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عرس کیوں نہیں منایا؟ اگر منایا تو مدلل ثبوت پیش کریں۔

شبہ :

غیر اللہ سے منسوب جانور شرعاً حلال ہیں کیونکہ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ (البقرۃ :173)سے مراد وہ جانور ہیں جن کو ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

ازالہ :

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ (البقرۃ :173)

’’ تم پر مردہ اور(بہا ہوا) خون اورسور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے۔‘‘
مسلمان فطری طور پر مردہ ،خون اور سور کے گوشت سے نفرت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا نام پہلے لے کر مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ جس طرح مردار،خون اور سور حرام ہے اسی طرح ہر وہ چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو حرام ہے کیونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس کے سوا کسی اور کانام لینا اللہ کی بجائے کسی اور کی ملکیت تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ سے مراد ہر وہ جانور یا کوئی اور چیز ہے جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے،قرآن حکیم جامع اور آفاقی نوعیت کا کلام ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین کے لقب سے سرفراد کیا، خاتم کی رو سے ہر وہ مدعی کذاب ہوگا جو ظلی وبروزی یاکسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے گا۔
مخبر صادق محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ مثلاً ایک آدمی ہجرت کرتا ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے دوسرا کرتا ہے کاروبار وملازمت کے لیے اور تیسرا وطن چھوڑتا ہے عورت سے نکاح کرنے کے لیے ، یقیناً دل کے رازوں کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا چنانچہ ہجرت کرنے کے بعد پاک وہی ہوتاہے جو خالص اللہ کی رضا کی خاطر تر ک وطن کرتاہے دوسرے ہرگز مصداق نہیں ہوں گے اسی طرح مالی قربانی کا انحصار بھی نیت پر ہے جب انسان کسی مشکل میں پھنس جاتاہے یا اولاد کی طلب میں منت مانتا ہے کہ میں بکرا دوں گا یا دیگ پکاؤں گا ، جائزہ لینا ہے کہ وہ کس کی عقیدت ومحبت کے حصول کیلئے اور کس کی خوشنودی وتقرب یا ڈر اور اُمید رکھتے ہوئے ذبح کرتاہے یا خوردونوش کی اشیاء تقسیم کرتا ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتا ہے تو مالی عبادت میں شمار ہوگا خدانخواستہ وہ اللہ کے علاوہ غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے فعل سرانجام دیتاہے تو گویا وہ اللہ کے علاوہ کسی غیر اللہ کو الٰہ تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا خواہ وہ ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام ہی کیوں نہ لے رہا ہوں ؟
اسلام میں ریاکاری کی ممانعت ہے ، ایک آدمی نماز پڑھتا ہے نمودونمائش کیلئے، حج ادا کرتا ہے دوکان چمکانے کے لیے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے معاشرے میں مقام حاصل کرنے کیلئے تویہ ریاکاری ہے حالانکہ دکھاوے کا عمل کرنے والا زبان سے وہی مسنون اذکار ادا کررہا ہے جو دوسرے نمازی اور حاجی صاحبان ادا کررہے ہیں چونکہ اس نے اپنے عمل میں غیر اللہ کی خوشنودی کو شریک کیا ہے اس لیے یہ شرک اصغر ہے۔ اسی طرح قصاب جانور کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لے رہا ہواگر مالک جانور کے دل میں غیر کی عقیدت ومحبت،رضا مندی،خوف وامید وابستہ ہو تو وہ ’’وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ‘‘ میں شامل ہے۔ جائزہ لے کر تحقیق کرنا اس وقت ضروری ہے جب کوئی عام حالات میں گھر یا محلہ میں ذبح کرے یا کھانا تقسیم کرے لیکن جب وہ غیر اللہ کے آستانوں اور درباروں پر جاکر ذبح کرے یا خوردونوش تقسیم کرے تو پھر وہ یقیناً اس مدفون کا تقرب حاصل کر رہا ہے جس سے وہ آستانہ ، دربار یا مزار منسوب ہے۔
مخبر صادق امام کائنات محمد ﷺ نے غیر اللہ کے آستانہ پر منت پوری کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اونٹ نحر کرے گا ، سرورکائنات ﷺ  نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پوجا کی جاتی ہو؟ اس نے نفی میں جواب دیا تو سرور کائنات ﷺ نے استفسار فرمایا کہ بھلا وہاں جاہلیت کے میلوں میں کوئی میلہ لگتا تھا ؟عرض کی گئی نہیں، حبیب کبریاء ﷺ نے فرمایا ’’ پھر تجھے نذر پوری کرنی چاہیے اور اس نذر کو پورا نہ کیا جائے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور نہ اسے جس کو انسان پورا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہوں۔(ابو داود)
ہم نماز میں اقرار کرتے ہیں : التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ‘‘ ’’سب درود وظیفے اللہ کے لیے ہیں اور سب عجز ونیاز اور سب صدقے خیرات بھی‘‘۔ لیکن خدانخواستہ عملی میدان میں غیر اللہ کے نام پر مالی عبادت کا اظہار کریں تو یقیناً قول وفعل میں تضاد ہے۔ اللہ ہم کو قولی وبدنی اور مالی عبادات میں شرک کی آمیزش سے محفوظ رکھے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین
سورۃ فاتحہ نماز کا اہم رکن ہے جسے ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم ہے ، ہم اللہ کی بارگاہ میں اقرار کرتے ہیں کہ ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے جو کائنات کا رب ہے، رحمان اور رحیم ہے اور روزِ جزا کامالک ہے اس کے بعد ہم پڑھتے ہیں

اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ

’’ ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘ گویا مسلمان رب کے دربار میں عجز وانکساری سے اظہار کرتاہے کہ اے اللہ! ہم خوف وعقیدت اور طمع کی وجہ سے تیری ہی پوجا وپرستش ، اطاعت وفرمانبرداری اور بندگی وغلامی کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم ہر مشکل،مصیبت، تنگی اور سختی کے وقت تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
دعاعبادت کا مغز ہے دعا کیا ہے ؟ پکارنا یعنی مدد طلب کرنا۔ قرآن مجید شاہد ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ کی ہی عبادت کی اور مشکل وقت بھی اللہ کی بارگاہ میں ہی دعا کی۔ سیدنا ایوب علیہ السلام کو بیماری نے ستایا تو التجا کی ۔

اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ (الانبیاء:83)

’’مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
سیدنا زکریا علیہ السلام کے دل میں بیٹے کی حسرت پیدا ہوئی تو رب سے درخواست کی

رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ (الانبیاء : 89)

’’اے میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ تو سب سے بہتر وارث ہے۔‘‘
سیدنا نوح علیہ السلام کو مشکل پیش آئی تو رب کو پکارا

فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ (القمر:10)

’’پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بے بس ہوں تو میری مدد کر۔‘‘
دعا عبادت کا مغز کس طرح ہے ؟ امام کائنات محمد عربیﷺ نے رب کے دربار میں عاجزی کے اظہار کے لیے نماز سکھائی قیام ،رکوع،سجود اور تشہد میں درودشریف کے بعد سلام پھیرنے سے قبل مسنون دعائیں پڑھنے کا حکم دیا جن میں غم اورقرضہ سے نجات، عذاب قبر اورجنہم کی آگ سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ نماز میں کوئی ایسی مسنون دعا نہیں جس میں غیر اللہ سے مدد مانگنے کی طرف اشارہ کیاگیا ہو چونکہ انسان کو ہمہ وقت مشکل وتنگی کے وقت مدد کی ضرورت رہتی ہے اس لیے آیت کے دوسرے حصہ ’’ایاک نستعین‘‘ میں اس امر کا اظہار کیاگیاہے کہ ہم رنج وراحت اور دکھ سکھ میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

شبہ :

انسان پیدائش سے لے کر دفن قبر تک بلکہ قیامت تک بندوں کی مدد کا محتاج ہے ۔

ازالہ :

ظاہری اسباب سے ایک دوسرے سے مدد مانگنا شرک نہیں اور مد د کرنا الوہیت نہیں بلکہ نظام قدرت کے تحت خدمت انسانیت ہے البتہ مافوق الاسباب طریقہ سے مدد طلب کرنا یا مدد کرنے کا دعویٰ کرناشرک ہے۔
(جاری ہے )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے