پیارے بچو ! سیدنا ابراہیم علیہ السلام ازل سے ہی بے اولاد تھے اور انکی دعوت یہ تھی کہ جو تم سے تکلیف کو دور کرنے اور نفع پہنچانے کی ذرا برابر بھی طاقت نہیں رکھتے آخر تم کیوں انہیں پوجے چلے جا رہے ہو ؟ تمام باتوں کو سننے والا ، تمام چیزوں سے باخبر ، اللہ سے ہٹ کر بےسمع و بصر ، بےضرر و نفع و بےقدر اور قدرت ۔چیزوں کے پیچھے پڑ جانا یہ کون سی عقلمندی ہے؟
یہ تمام جھوٹے معبود کسی چیز پر کوئی قدرت نہیں رکھتے ہر چیز پر قدرت رکھنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے ۔
عزت ، ذلت ، حکومت ، دولت ہر چیز باری تعالی کے ہاتھ میں ہی ہے اس ہی کی طرف لوٹ آؤ اور اس ہی کی عبادت کرو ۔
لیکن تعجب کی بات یہ کہ خود سیدنا ابراہیم علیہ السلام بیٹے جیسی عظیم نعمت سے محروم تھے ۔
قوم والوں نے طعنے دینا شروع کیے کہ عجیب داعی ہے خود اولاد سے محروم ہے ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہر چیز پر اللہ ہی قدرت رکھتا ہے۔
ایک بار دعا فرمائی کہ” اے میرے رب ! مجھے نیک صالح اولاد عطا فرما ۔ ”
اللہ تعالی نے اپنے دوست نبی کی دعا قبول فرما لی اور فرمایا کہ ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی ۔
یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو(وحیٔ الہی کے ذریعے) ایک ننھے منے پیارے بیٹے کی بشارت دی گئی۔
وہ دن جس کا برسوں سے انتظار تھا سیدناخلیل علیہ السلام آنکھوں دیکھ رہے ہیں اور اپنے ننھےمنے پیارے بیٹے کو انگلی سے پکڑ کر گھوماتے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔
اب خلیل کی محبت والفت کی آزمائش شروع ہوئی باری تعالی کی طرف سے تین دن مسلسل خواب میں دکھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں خود ذبح کر رہے ہیں۔
کیونکہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتاہے وہ جان چکے کہ یہ اللہ عزوجل کا حکم ہی ہے ۔
سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام اپنے ننھے منے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے ہاں آئے اور پورا واقعہ کھل کر سنایا پھر فرمایا کہ: میرے پیارے بیٹے ! تیری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا کہ : اباجان ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیں ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔
ہوا بھی یوں ہی کہ سیدنا خلیل علیہ السلام انہیں پیشانی کے بل لیٹا کر چھری چلانے لگے لیکن بیٹے نے اف تک نہیں کہا
حتی کہ وحی الہی ان لفظوں میں نازل ہوئی کہ
قَد صَدَّقتَ الرُّؤْیَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجزِی المُحسِنِینَ
یقیناً تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔
پیارے بچو! ان دونوں باپ بیٹوں کے عظیم قصے سے ہمیں بہت سی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں جیسا کہ
1اللہ تعالی سے نیک اولاد ہی طلب کی جائے ۔
2اللہ عزوجل دعائیں قبول فرماتے ہیں اگرچہ ادائیگی میں (بحکمت) تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔
3والدین کی فرمان برداری کرنی چاہیے ان کی باتیں سن کر نالاں نہ ہونا چاہیے ۔
4وحی الٰہی (یعنی قرآن وسنت) کے ہر حکم پر سرخم کرنا چاہیے ۔
5ہر نیکی کا اچھا بدلا رکھا گیا ہے ۔
6والدین کو اچھے ناموں سے پکارا جائے ۔
7اللہ تعالیٰ ہی نفع ونقصان کے مالک ہیں۔
8 اپنے نیک اعمال کے ذریعے اپنے آپ کو باری تعالیٰ کے محبوب(دوست) بناسکتے ہیں۔
9 اچھے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبکہ برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔
0 نیک آدمی کا سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ تلك عشرة كاملة
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے