اکیسویں صدی کے معروف ماہر طبیعیات ،جنھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا زیادہ تر کام بلیک ہول، نظریاتی کونیات (کونیات) کے میدان میںتھا ۔ ان کی ایک کتاب’’ وقت کی مختصر تاریخ‘‘ A brief History of Time ایک مشہور کتاب ہے ۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک کاوش ہے جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وہ ایک خطرناک بیماری سے دو چار تھے اور کرسی سے اٹھ نہیں سکتے تھے۔ ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتے اور بول نہیں سکتے تھے۔ لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند رہے اور اپنا کام جاری رکھا۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی يہ بیماری ان کو تحقيقی عمل سے روک نہ سکی۔شاید وہ شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے سب سے زیادہ ممتاز حیثیت اختیار کر گئے تھے وہ ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ ہے۔ اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا، ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ بظاہر طور پر وہ انتہائی روشن ہونے کے باوجود اس کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس نے کبھی بھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر 1962ء میں نقطۂ انقلاب آیا۔ اس نے آکسفورڈ سے جب سند حاصل کی اسکے بعد پہلی دفعہ اس نے بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease) کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے ان پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ مرض ان عصبانیوں کو تباہ کر دے گا جو اس کے جسم کے تمام حرکت دینے والے افعال کو قابو میں رکھتے ہیں نتیجتاً وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کر جائے گا۔ شروع میں تو یہ خبر انتہائی دل گرفتہ تھی۔ پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ ہوگا جب اس نے جلد ہی مر جانا تھا؟
اسٹیفن ہاکنگ 21 سال کی عمر میں ایک انتہائی کم یاب اور مہلک بیماری ‘موٹر نیورون کا شکار ہونے کے بعد عمر بھر کے لیے معذور اور وہیل چیئر تک محدود ہوگئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں۔اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں۔ تو تم لوگ جن کے سارے اعضا سلامت ہی، جو چل سکتے ہیں اور جودونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے،جوکھا پی سکتے ہیں، اورجو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں؟
مگر اسٹیفن ہاکنگ رب کے وجود کا انکاری ،انسان کے وجود کا پجاری اور خود اپنے نفس پر بھاری جو علم تخلیق کائنات اور سائنس کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتا تھا جو مقام کبریائی کو سائنس کے ذریعے زیر کرنے کی لگن میں مگن رہتا تھا وہ جو بس ایک سانس کے رک جانے کی وجہ سے موت کی وادی میں چاپہنچا جس کہ خود ساختہ دعووں کی سوئی پچاس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک اٹکی رہی وہ اسٹیفن جسے موجودہ دور کا آئن اسائنEiensteinسائنسدان کہا جاتا تھا جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے ہاں البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ ایک معذور انسان تھا اس نے معذوری کے باوجود وہ اپنی ریسرچ جاری رکھی اور یہی اس کا میزہ خاص تھا جو دوسروں سے اسے ممتاز کرتا تھا کیونکہ ہ بول اور چل نہیں سکتا اور نہ کوئی چیز پکڑ سکتا تھا اس مجبوری اور محرومی کی حالت میں رب کے قریب ہونے کی بجائے رب تعالی کے وجود کے تصور ہی سے وہ دور ہوگیا۔اسٹیفن کا یہ نظریہ تھا کہ یہ کائنات کو کسی ما ورائی طاقت یعنی رب نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ خودبخود تخلیق ہوگئی ہے۔
اسٹیفن کی علم طبیعات میں بے شک خدمات ہوگی لیکن رب کے وجود کا انکار کرنا صرف ایک دعویٰ ہے جس کی تائید ایک ملحد ہی کرسکتاہے۔ ابو جہل عرب کا ایک بہت بڑا شاعر اور ادیب مانا جاتا تھا مگر رب کو نہ ماننے کی وجہ سےابو جہل کہلوایا، باوجود اس کے کہ اس نے ہزار ہا مرتبہ اپنے اردگرداللہ تعالی کی نشانیاں بھی دیکھیں اس طرح اسٹیفن باکمال سائنسدان تو ہوسکتاہے مگر وہ دورِ حاضر کا ابو جہل ہی تھا کہ جسے اپنے جسم میں پوشیدہ لاکھوں نشانیاں نظر نہ آئیں جو اس کے خالق کا پتہ دیتی ہیں۔مگر قرآن کریم ہر انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ
﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ ،(القیامۃ:14) “بلکہ انسان خود اپنے اوپر آپ حجت ہے ۔”
انسان کا ضمیر اس کے اپنے حق میں بالکل جائز اور درست فیصلہ کرسکتا ہے بشرطیکہ انسان اس ضمیر کو مسخ کرکےڈھیٹ پن کا ثبوت نہ دے۔ کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی بے شمار نشانیاںہیں اور قرآن کریم میں بار بار ان میں غورو فکر کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات 21)
یہ گردش لیل و نہار ، یہ مو سموں کی تبدیلی اور ان میں تدریج کا دستور ،یہ بارش کا نظام ،اس سے مردہ زمین کازندہ ہونا۔
مختلف قسم کی نباتات ، غلے اور پھل اگانا اور اسی پیدا وار سے ساری مخلوق کے رزق کی فراہمی زمین کےاندر مدفون خزانے ،سمندر وں اور پہاڑوں بلکہ کائنات کی اکثر چیزوں اورچوپایوں پر انسان کا تصرف اور حکمرانی ۔غرض ایسی نشانیاں ان گنت اور لا تعداد ہیں ،ان سب میں قدر مشترک کے طورپر جو چیز پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کےفائدے کے لیے بنائی گئی ہیں اور ان سب میں ایک ایسا نظم و نسق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ انسان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں اگر ان میں ایسا مر بوط نظم و نسق نہ پایا جاتا تو ایک ایک چیز انسان کو فنا کرنے کے لیے کافی تھی ،یہی بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ان سب کا خالق و مالک صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرے اس بات پر کہ کائنات کے اس مربوط نظم و نسق کا کوئی مفید نتیجہ بھی بر آمد ہو نا چاہیے اور وہ نتیجہ آخرت ہے ۔
انسان کا اپنا وجود اور اس کے اند رکی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میںجود نشانیاں ہیں وہ کائنا ت اکبر کی نشانیوںسے کس طرح کم نہیں ۔ انسان کامعدہ ایک چکی کی طرح دن رات کام میں لگا رہتا ہے جو غذ اکو پیس کر ایک ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے جب یہ فا رغ ہوجائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے ہم بھوک کہتے ہیں اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگرمیں چلا جاتا ہے جہاں اچھالنے والی ،دفع کرنے والی ،صاف کرنےوالی ، کھنچنے والی مشینیں اور قوتیں کا م کر رہی ہیں ،یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں ،فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے سے خارج کر دیتے ہیں ۔قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوجاتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر بھی مجبور ہوجا تا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑ جاتا ہے پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں جن کا سوراخ خوردبین کے بغیر نظر ہی نہیں آسکتا ،انہی کے ذریعے انسان کے جسم کے حصے کو خون پہنچتا ہے اس سلسلہ میں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے ۔پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک الگ پورا نظام ہے سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کے ساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا بھی فتور آجائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے انسان کا جسم ابتدا سے ہی حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہو ہے مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردہ راز میں ہیں ۔ان جسم کی نشانیوں میں بھی غور کرنے سے وہی دو نتائج حاصل ہوتےہیں جو کائنات کے نظام میں غور کرنے سے حاصل ہوتے ہیں ۔مگر یہ مشہور اور کامیاب سائنسدان اپنے وجود پر غور کرنے میں ناکام رہا اگر اپنے آپ پر غور کرتا تو اسے رب تعالی پتہ مل جاتا۔جیسا کہ شاعر مشرق نے کہا ۔
بلند بال تھا ، لیکن نہ تھا جسور و غیور حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
دو مذہبی جماعتوں کا انضمام ایک خوش آئند اقدام :
14 سال بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نے حافظ ابتسام الہی ظہیرحفظہ اللہ کی قیادت میںفضیلۃ الشیخ پروفیسر ساجد میرحفظہ اللہ کی غیر مشروط امارت قبول کرتے ہوئے ساتھ چلنےاور اپنے تمام اختلافات ختم کرکےاپنی جماعت جمعیت اہل حدیث کو مرکزی جمعیت اہل حدیث میں ضم کردیا،سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی طرف سے زبردست خیر مقدم کیا ۔تفصیلات کے مطابق علامہ احسان الہی ظہیر شہیدرحمہ اللہ کے صاحبزادے عرصہ14 سال قبل مرکزی جمعیت اہل حدیث سے الگ ہوگئے تھے اب انہوں نےاپنے بھائیوں حافظ معتصم الہی ظہیر، حافظ ہشام الہی ظہیر ،علما ء اور کارکنوں سمیت مرکزی جمعیت اہل حدیث میں شمولیت کا اعلان کردیا ہ، لاہور پریس کلب میں پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ اور ڈاکٹر سینیٹرحافظ عبدالکریم حفظہ اللہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ابتسام الہی ظہیر نے کہا کہ ہمارا مسلک، ہمارا عقیدہ ایک ہے ، ملک میں قرآن وسنت کی بالادستی اور ملکی استحکام بھی ہمارا مشترکہ نعرہ ہے ،بعض تنظیمی امور اور معاملات پر رائے کا اختلاف تھا جو الحمد للہ آج دور ہو گیا ہے، ہم پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ کو اپنا بزرگ اور امیر تسلیم کرتے ہیں، ہم نے ماضی کی تمام رنجشیں بھلا کر متحدہو کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ ہم حافظ ابتسام الہی ظہیر انکے بھائیوں ،علما ء اور کارکنوں کو دل کی اتھا ہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں ، ا ن شا ء اللہ انہیں جماعت میں باوقار اور باعزت مقام دیں گے، جیسا کہ حافظ ابتسام نے بھی کہا کہ ہمارا عقیدہ اور فکر ایک ہے سیاسی امور میں اختلاف رائے کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے ،جس اخوت اور بھائی چارگی کے جذبے اور بغیر کسی شرط کے ساتھ انہوں نے ہمارے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کااعلان کیا ہے ہم اس کا خیر مقد م کرتے ہیں ۔ پروفیسر ساجد میرصاحب نے مزید کہا کہ ہماری جماعت کے دروازے باقی لوگوں کے لیے بھی کھلے ہیں،ہم قرآن وسنت کے حاملین کو ملک کی بڑی طاقت بنائیں گے، اعلائے کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے سب کو ایک صف میں لائیں گے،یہ مارچ کا مہینہ شہید اسلام علامہ احسان الہی ظہیررحمہ اللہ اور انکے رفقا ء کی قربانیوں کا مہینہ ہے ،ہم شہادتوں کے اس مہینے میں عزم کرتے ہیں کہ ان کا مشن آگے لیکر چلیں گے،اسلام کے پرچم کو سربلند رکھیں گے، ملکی سلامتی اسکے دفاع اور استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے،فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، تحفظ حرمین شریفین کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے،سیکولر قوتوں کامقابلہ کریں گے، ملک میں دینی اقدار کے تحفظ کے لیے دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر چلیں گے ۔
ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ،دوہم عقیدہ جماعتوں کے متحد ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مبارک باد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ رب العزت اس اتفاق و اتحاد کو اسلام ،ملک وملت کی کما حقہ خدمت کرنے کا ذریعہ بنائے ۔آمین ،یا رب العالمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے