’’اللہ‘‘ نے رزق کے اسباب پیدا کیے:

وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِي الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ (الاعراف:10)

’’بلاشبہ ہم نے تمہیں زمین میں ٹھہرایا اور تمہارے لیے اس میں زندگی کے اسباب بنائے، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بھیجتے وقت یہ ہدایت دی تھی کہ اب تیرا جینا ، مرنا اور محشر کے دن اٹھنا اسی زمین سے ہوگا۔ لہٰذا زمین ہی تیرا ٹھکانہ اور اس میں تیرے رہنے سہنے کا سامان ہے ۔ ہاں یا درکھنا میری طرف سے تمہاری رہنمائی کے لیے احکام نازل ہوتے رہیں گے جس نے ان کے مطابق زندگی بسر کی اسے کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔

وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ وَ مَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِيْنَ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىِٕنُهٗ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (الحجر: 20۔21)

’’ہم نے تمہارے لیے زمین میں کئی قسم کے اسباب پیدا کیے ہیں او ران کیلئے بھی جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو ۔ کوئی ایسی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیںاو رہم اسے ایک معلوم اندازے کے مطابق اُتارتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا کرشمہ اور اس کا ناقابل ِفراموش احسان ہے کہ اس نے ہر چیز کو ایک متعین شکل و صورت اور مقدار میں پیدا کیا ہے۔ جنس انسانی کے حوالے سے اگر دنیا میں ہمیشہ مردوں یا عورتوں کی بہتات رہتی تو سلسلۂ تخلیق کس طرح متناسب رہ سکتا تھا۔ یہی صورتِ حال نباتات کی ہے۔ ایک علاقے میں ایک جنس کی پیداوار زیادہ ہے تو دوسرے علاقے میں کسی دوسری چیز کی پیداوار زیادہ ہو گی۔ اس کے ساتھ یہ بات بتلائی کہ زمین کو صرف فرش کے طور پر ہی نہیں پھیلایا گیا بلکہ اس میں تمام جاندار چیزوں کی معیشت اور رزق کا نہایت مناسب نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ انسان تو اپنی روزی خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن زمین اور اس کے اندر یہاں تک کہ فضاؤںمیں بسنے والی مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ رزق مہیا کرتاہے اور ہر کسی کو اس کی روزی اس کی ضرورت کے مطابق پہنچائی جا تی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس ہر چیز کے لا محدود خزانے ہیں جسے وہ ہر دور میں مناسب اور اپنے ہاں متعین کردہ مقدار کے مطابق نازل کرتا رہتا ہے۔

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَهُ اَنْدَادًا ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بٰرَكَ فِيْهَا وَ قَدَّرَ فِيْهَا اَقْوَاتَهَا فِيْ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ

’’اے نبی! ان سے کہو کیا تم اُس ’’اللہ ‘‘ کا انکار کرتے ہو

اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو

دنوں میں بنایا، وہی پوری کائنات کا رب ہے۔ اُس نے زمین بنانے کے بعد اُس پر پہاڑ جما دیے اور ان میں برکتیں رکھ دیں اور زمین میںسب طلبگاروں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق ٹھیک اندازے کے مطابق خوراک کا انتظام فرما دیا، یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔‘‘(حٰمٓ السجدۃ: 9۔10)

قرآن مجید نے یہ بات بھی بار ہا دفعہ بتلائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے بنانے میںکوئی اللہ تعالیٰ کا شریک تھا ۔اس لیے کفّار سے استفسار کیا گیا ہے کہ کیاتم اس ذاتِ کبریا کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دودنوں میں پیدا فرمایا ۔ اس کے باوجود تم بتوں ،بزرگوں اوردوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو حالانکہ تمام جہانوں کا پیداکرنے والا ایک ’’ اللہ ‘‘ ہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی نے زمین پر پہاڑ بنائے اورزمین میں برکت پیدافرمائی اور اس میں ہر قسم کا معیشت کا سامان رکھا جو ضرورت مندوں کیلئے یکساں حیثیت رکھتا ہے۔ اسی اصول کے تحت ہر حکومت معدنیات اور قدرتی وسائل کو حکومت کا خزانہ اور قومی ملکیت سمجھتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر چیز کا ذخیرہ فرمادیا تاکہ زمین میں رہنے والی مخلوق قیامت تک اپنی ضروریات پوری کرتی رہے اس میں پہاڑ ،سمندر،صحراء اورہر چیز شامل ہے اس میں اس بات کا بھی خیال رکھاگیا کہ کسی ایک علاقے کی بجا ئے مختلف چیزوں کو زمین کے مختلف طبقات میں رکھا جائے تاکہ تمام لوگ ایک دوسر ے کے ضرورت مند ہوں اور آپس میںرابطہ رکھنے کی ضرورت محسوس کرتے رہیں ،اس لیے سائلین کا معنٰی حاجت مند بھی کیاگیاہے۔اللہ تعالیٰ نے زمین ،سمندر اورپہاڑوں میں اس طرح خزانے چھپادئیے ہیں کہ ہر دور کے انسان اپنی کوشش اورصلاحیت کے مطابق نکالتے رہیں گے اور ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ لیکن پھر بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہیں جو سب سے بڑا گناہ اور جرم ہے ۔

اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآىِٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَهَا اَنْهٰرًا وَّ جَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَ جَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ

’’بھلا وہ کون ہے؟ جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایاپھر اس کے ذریعہ سبز وشاداب باغ اُگائے جن کااُگانا تمہارے بس میں نہیں تھاکیا اللہ کے ساتھ کوئی الٰہ ہے؟ بلکہ یہ لوگ حق سے پھرنے والے ہیں اور کون ہے؟ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس میں دریا چلائے اور اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور دودریائوںکے درمیان پردہ حائل کر دیا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ بلکہ اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘(النمل:20۔21)

اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت اور براہین کے دلائل اور توحید کے ثبوت مختلف الفاظ اور انداز میں انسان کے ذہن نشین کرتا ہے تاکہ انسان اپنے خالق کی پہچان حاصل کرے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز آجائے گویا کہ ربوبیّت کے دلائل دینے کا مقصد الوہیّت ثابت کرنا ہے ’’ اللہ‘‘ کی الوہیت کو بلاشرکتِ غیر ے مانے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی، کیا ایک درخت بھی اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کر سکتا ہے؟ ایک درخت کے لیے سب سے پہلے تو ایسی زمین ہونی چاہیے جس میں روئیدگی کی قوت موجود ہو، جہاں درخت اپنی جڑیں پھیلا سکے پھر اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے پھر روشنی اور اندھیرے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ہوا بھی ناگزیر ہے نہ معلوم ایک بیج کو پودے کی شکل اختیار کرنے کے لیے کس کس چیز کی ضرورت ہے ۔’’ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی ان چیزوں کو جانتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے۔

لوگو! بتائو کہ کس نے زمین میں ٹھہرائو پید ا کیا ، اس میں دریا اور نہریں چلائیں ،کس نے مضبوط پہاڑ بنائے اور انہیں زمین میں گاڑ دیا اور کس نے دو سمندروں کے درمیان ایک پردہ حائل کیا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بنانے والا ہے ؟جس نے یہ کام کیے ہوں ۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے یہ کام نہیں کیے۔ توحید کے دلائل جاننے کے باوجود لوگوں کی اکثریت توحید کے علم سے نابلد ہے یہاں سوالات کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین قدرتوں کا ذکر کیا ہے ۔

قرار کے لفظ پر آپ جتنا غور کریں گے اُتنے ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی شانِ ربوبیّت کے کرشمے نظر آئیں گے۔ انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے زمین میں کس کس خاصیّت کا پایا جانا ضروری ہے اورکون سی ایسی صلاحیتیں ہیں جو زمین میں موجود نہ ہوں تو انسانی زندگی اپنی رعنائیوں اور مسرتوں سے یکسر خالی ہو جائے، جس سے انسان کی زندگی کا دامن معمور ہے۔ وہ کون سی چیزیں ہیں جن کا سراغ نہ لگایا جا ئے تو بے پناہ پوشیدہ خزانے زمین میں بیکار ہو جائیں۔ قرار کے لفظ پر آپ جتنا غور کرتے چلے جائیں گے اتنا ہی معارف ومعانی کا لا متناہی سلسلہ ضوء فشاں ہو تا جائے گا۔

’’اللہ‘‘ ہی رزق دینے والا ہے:

وَ كَاَيِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَ اِيَّاكُمْ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (العنکبوت:20)

’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق نہیںاُٹھائے پھرتے، اللہ ہی انہیں اور تمہیں رزق دیتا ہے وہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔‘‘

روزی کے بارے میں تسلّی دی جا رہی ہے کہ ہر انسان غور کرے کہ کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق جمع نہیں کرتے مگر انہیں بھی ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی عطا کرتا ہے، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے یعنی وہ تمہارے وطن میں ہی نہیں بلکہ تم جہاں بھی ہوتے ہو تمہارا حال جانتا ہے اور تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے ۔ رزق کی فراہمی کے بارے اپنے رب کا یہ اصول یاد رکھو کہ زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کا رزق’’ اللہ ‘‘ کے ذمّہ ہے وہ سب کے رہنے سہنے کی جگہ اور ان کے مرنے کا مقام بھی اس کے علم میں ہے اس نے سب کچھ کھلی کتاب یعنی لوح محفوظ میں درج کر رکھا ہے۔

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ

 ’’اور زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ اس کے قیام اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے ۔‘‘ (ھود:6)

’’دابۃ‘‘ ہر جاندار کوکہا جاتا ہے لیکن یہاں خطاب انسانوں سے کیا جارہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کاذمہ لے رکھا ہے۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے والی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد ہروہ چیز ہے جو ایک ذی روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہوا ، پانی ،خوراک اور رہن سہن کی ضروریات شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس نے اپنا دسترخوان اتنا وسیع بنایا ہے کہ ہر کھانے والے کو اس کی خوراک مل رہی ہے گوشت کھانے والے درندے کو گوشت مل رہا ہے اور دانہ دُنکا لینے والے کو دانہ دنکا صبح وشام میسر ہے۔ چند جمع کرنے والوں کے سوا باقی کھانے والے صبح وشام تازہ خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے اس کا رزق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے البتہ حکم ہے کہ اللہ کا رزق تلاش کیا کرو۔ اس کے لیے محنت ومشقت کرنا لازم ہے لیکن رزق کی کمی وبیشی کاانحصار انسان کی محنت پر نہیں۔اگر رزق محنت کی بنیاد پر دیا جاتا تو معذور اور لاچار بھوکے مر جاتے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے مطابق ہے جس کے تحت وہ لوگوں کا رزق بڑھاتا اور گھٹاتا رہتا ہے۔ اگر کہیں قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصول کے مطابق ہوتی ہے جس کا سبب بنیادی طور پر انسان ہی ہوا کرتا ہے۔ بے شک وہ قحط سالی پانی کی قلت اور بارش کی کمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ وہ انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ وہ لوگوں کی مستقل قیام گاہوں اور عارضی رہائش کو جانتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کو رزق پہنچانا اور ان کے اعمال اور ضروریات سے باخبر رہنا اس کی صفت کاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہرلحاظ سے باخبر رہتا ہے بلکہ اس نے انسان اور زمین و آسمانوں کے بارے میں سب کچھ لوحِ محفوظ میں ثبت کررکھا ہے۔ ’’مُسْتَقَرَّهَا‘‘کامعنیٰ’’مستقل قیام گاہ اور ’’مُسْتَوْدَعَهَا‘‘ کا معنیٰ عارضی ٹھہرائو۔ مفسرین نے ’’مُسْتَقَرَّهَا‘‘سے مراد بطن مادر اور ’’مُسْتَوْدَعَهَا‘‘ کا معنی دنیا کی زندگی لیا ہے اور کچھ اہل علم نے ’’وَمُسْتَوْدَعَهَا‘‘ کا معنٰی دنیا کی زندگی او ر ’’مُسْتَقَرَّهَا‘‘ قبر کا قیام لیا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نہ صرف انسان کے ہر قول وفعل اور اس کی ضروریات سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ اس نے انسان کی زندگی کا پورا ریکارڈ اپنے ہاں محفوظ کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کے اناج میں بھی اضافہ کرتا ہے۔1965ء تک پاکستان میں گندم کی فی ایکڑ پیدا وار پندرہ ،سولہ من سے زیادہ نہیں تھی ۔ لیکن آج فی ایکڑ پیداوار تین گنا بڑھ چکی ہے ۔ یہی اضافہ چاول اور دیگر اجناس میں پایا جاتا ہے ۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِt قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِeلَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا(رواہ الترمذی :باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللہِ[صحیح])

سیدنا عمر بن خطابt بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول e نے فرمایا: ’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کروجس طرح توکل کرنے کاحق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں سے لوٹتے ہیں۔‘‘

وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا(الاسراء:31)

’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم ہی انھیںاور تمھیں رزق دیتے ہیں۔ بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ ‘‘

بخل کا بنیادی سبب مال کم ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ اسی اندیشہ کی وجہ سے لوگ اپنی اولاد کو قتل کرتے آرہے ہیں۔ بخل اور اولاد کا قتل اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہ صر ف سنگین جرم ہیں ۔ بلکہ ان کے پیچھے آدمی کے عقیدہ کی کمزوری کا بڑا عمل دخل ہوا کرتا ہے ۔ ایسے سنگین جرائم سے روکنے اور عقیدۂ توحید کے ضعف سے بچانے کے لیے یہ بات سمجھائی ہے کہ رزق کی کمی وبیشی انسان کے بس کی بات نہیں ۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ وہ جس کا رزق چاہے کشادہ فرمائے اور جس کاچاہے تنگ کر دے، وہ اپنے بندوں کی ضروریات اور فطرت کو اچھی طرح جانتا اور دیکھتا ہے ۔ رزق کی تنگی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے والے کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جس رب نے میری پرورش کی ہے ۔ وہی اس کی اولاد کو بھی روزی مہیا کرنے والا ہے ۔ اولاد کو معیشت کی تنگی کی وجہ سے قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے ۔ قتل ِاولاد کے پیچھے ہمیشہ سے یہ فکر رہی ہے کہ اگر اولاد زیادہ ہوگی تو اس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ اسی کے پیش نظر پہلے لوگ اپنی اولاد کو قتل کیا کرتے تھے اور آج ترقی یافتہ دور میں پڑھے لکھے لوگ انفرادی طور پر نہیں بلکہ بڑی بڑی حکومتوں نے بچے قتل کرنے کے لیے مستقل وزارتیں قائم کر رکھی ہیں ۔ جو صبح شام میڈیا کے ذریعے کروڑوں روپے خرچ کرکے لوگوں کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ ’’بچے دو ہی اچھے ‘‘ ، ’’چھوٹا خاندان زندگی آسان ‘‘، ’’چھوٹا خاندان خوشحالی کی ضمانت ہے‘‘وغیرہ وغیرہ۔ منفی پروپیگنڈہ کے ساتھ خطیر سرمایہ میڈیسن پر خرچ کیا جاتا ہے ۔اس کے باوجود ہر سال نسل ِانسانی میں اضافہ کی رپورٹس شائع ہوتی ہیں ۔ حالانکہ اگر یہی سرمایہ زراعت اور آمدنی کے حصول کے ذرائع پر خرچ کیا جائے تو اناج کی قلت سے بچا جا سکتا ہے۔ اولاد کو قتل کرنا صرف اخلاقی جرم نہیں بلکہ اس کے پیچھے شرک جیسا ناقابل معافی گناہ بھی پایا جاتا ہے ۔ جس سے اللہ کے رزاق ہونے کی نفی ہوتی ہے۔

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (یونس:۳۱)

’’فرما دیں کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یا کون ہے جو تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے؟ وہ فوراً کہیں گے ’’ اللہ‘‘ تو فرما دیں پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ ‘‘

اس سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مشکل کشا ہونے کے دلائل دیئے تھے ۔جس کا اقرار مشرک صرف بھنور میں پھنسنے کے وقت کرتے تھے۔ مشرک اور موحد کے درمیان فرق یہ ہے کہ مشرک جب اپنے مشکل کشائوں سے مایوس ہو جاتا ہے تب صرف ایک اللہ کو پکارتا ہے ، موحد ہر حال میں ایک اللہ کو پکارتا ہے ۔ اب توحید کے وہ دلائل دیے جاتے ہیں۔ جن کا مشرک ہرحال میں اقرار کرتے ہیں۔ چنانچہ رسول محترمe اورہر مؤحدکو کہا گیا ہے کہ آپ مشرکین سے سوال کریں کہ زمین و آسمان سے تمہیں کون رزق دینے والا ہے؟ پھر ان سے پوچھیں کس نے تمہیں سننے کے لیے کان،دیکھنے کے لیے آنکھیں عطا فرمائیں ؟کون ہے جو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے؟پوری کائنات کے نظام کو سنبھالنے اور چلانے والا کون ہے؟ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ صرف اللہ ہی سب کچھ کرنے اور کائنات کا نظام چلانے والا ہے ۔ ان سے پوچھیں پھر تم اللہ سے ڈر کر شرک و کفر کیوں نہیں چھوڑتے؟ توحید فطرت کی آواز ہے اس لیے انسان کو اس کا اقرار کیے بغیر چارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کا مشرک توحید کے ٹھوس اور واضح دلائل کے سامنے خاموش ہوجاتا ہے۔ یہی حالت مکہ کے مشرکین کی تھی جب ان سے ’’اللہ‘‘ کے خالق، مالک ، رازق اور قادرِ مطلق ہونے کے بارے میں سوال کیاجاتا تو وہ برملا اس کا اقرار اور اظہار کرتے تھے کہ ’’اللہ‘‘ ہی ہمارا خالق، مالک اور رازق ہے۔

’’اللہ‘‘ کے علاوہ کوئی رازق نہیں:

اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (العنکبوت: 17)

’’تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم جھوٹ گھڑ رہے ہو،حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیںرز ق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو ۔ تم اسی کی طرف پلٹ کرجانے والے ہو۔‘‘

مشرکین کی شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مزارات ، بت اور مورتیوں کے بارے میں ذاتی اور جماعتی مفاد کی خاطر داستانیں پھیلاتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں مزار پر گیاتو اُسے نرینہ اولاد مل گئی ،فلان شخص فلاں مقام پر پہنچا تو اُس کی مشکل حل ہو گئی، فلاں فوت شدہ بزرگ نے فلاں جگہ پہنچ کر فلاں شخص کی مدد کی، یہ صاحبِ قبر اس مشکل کا تریاق رکھتا ہے اور وہ قبر والا فلاں پریشانی کو دور کرتا ہے یہ اقتدار اور اقبال عنایت کرتا اور وہ گنج بخش اور شکر گنج ہے اور اپنے ماننے والوں کی روزی میں اضافہ کرتا ہے ۔ اس طرح کی کہانیاں ہر دور کے مشرک بالخصوص متولی ، مجاوراور غلط عقیدہ رکھنے والے علماء بناتے اور پھیلاتے رہتے ہیں ۔ رزق کی کشادگی کی خواہش انسانی فطرت کی کمزوری ہے اس لیے نام نہاد مذہبی لوگ مزارات پر اور کافر بتو ں کے سامنے نذو نیاز پیش کرتے ہیں تاکہ اُن کی روزی اور وسائل میں اضافہ ہو جائے یہی عقیدہ ہزاروں سال پہلے سیدنا ابراہیم uکی قوم کا تھا جس سےسیدنا ابراہیم uنے اپنی قوم کو منع کیا تو اُنھوں نے سیدنا ابراہیم u کو آگ میں پھینک دیاجب سیدنا ابراہیم uآگ سے سلامت نکلے تو پھر قوم ، حکومت اور ان کے باپ نے بالاتفاق ابراہیمu کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ سیدنا ابراہیم uکی دعوت اور اس کے رد عمل کی طرف توجہ دلاکر نبی اکرم e اور آپ کے ساتھیوں کو بتلایا ہے کہ آپ کے جدّ امجد کو کن کن مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس طرح وہ اور ان کے ساتھی ثابت قدم رہے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو بھی استقامت اور صبر و استقلال کا مظاہر کرنا ہو گا ، جس طرح آپ کو جھٹلایا جا رہا ہے اسی طرح جدّ اعلیٰ اور پہلے انبیاء کرام oکو جھٹلایا گیا ۔ لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں رسول پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کھول کھول کرعقیدہ توحید بیان کرے اور پوری جُرت و استقلال کے ساتھ شرک کی تردید کرتا رہے ۔

وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ شَيْـًٔا وَّ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ

’’اور اللہ کے سواان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دینے کے مالک ہیں اورنہ وہ اس کا اختیار رکھتے ہیں۔‘‘(النحل:73)

یاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لا اِلٰهَ اِلَّا هُوَفَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ (فاطر:۳)

’’اے لوگو !تم پرجو اللہ کے انعامات ہیں انہیں یاد رکھو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو اپنی رحمت اورنعمتوں سے نوازنے والا ہے اس کے سواکوئی کسی کوادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی عطانہیں کرسکتا وہی منعمِ حقیقی اورخالقِ کل ہے اس کا ارشاد ہے کہ لوگو!میری نعمتوں کو یاد رکھا کرو جس انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہو جائے کہ مجھے صرف اللہ ہی نوازنے والاہے، وہی میرا رازق اور خالق ہے تو پھر اس کے حاشیہ خیال سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ مجھے کوئی اور بھی رزق دے سکتا ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ لوگوں سے استفسار فرماتا ہے کہ بتائو اللہ کے سوا تمہارا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے رزق فراہم کرتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی خالق اوررازق نہیں۔ جب اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر کس بنیاد پرتم دوسروں کوداتاو دستگیر، حاجت روا ،مشکل کشا کہتے اور سمجھتے ہو؟ یاد رہے کہ یہاں الٰہ کا لفظ خالق اوررازق کے معنٰی میں استعمال کیاگیا ہے۔جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق اوررازق نہیں تو پھر اس کوچھوڑ کر یا اس کے ساتھ دوسروں کو شامل کرنا شرک ہے جس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُوْنَ

کیا تیرے رب کے خزانے ان کے پاس ہیں؟ یا اُن پر ان کا کنٹرول ہے؟(الطور:37)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں لوگوں سے رزق نہیں مانگتااورنہ ہی اس بات کا مطالبہ کرتاہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ رزق تو سب کو اللہ ہی دینے والا ہے وہ بڑا طاقتور اورمضبوط ہے۔

مَا اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَا اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ (الذاریات:57، 58)

’’میں اُن سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا ہے وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ ‘‘

عربوں نے زرِخرید غلام رکھے ہوتے تھے جو ان کے لیے مزدوری اورمختلف قسم کے کام کرتے اوران کا معاوضہ اپنے آقا کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔یہاں پہلی بات یہ سمجھائی کہ یہ تمہارا طریقہ ہے کہ تم اپنے غلاموں کی کمائی کھاتے ہو، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کھاتا نہیں بلکہ انہیں کھلاتاہے، اسی بات سے یہ بھی سمجھو کہ جنہیںتم مشکل کشا سمجھتے اوران کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیں کچھ نہیں دیتے البتّہ تم ضرور انہیںکچھ نہ کچھ دیتے ہو، اللہ تعالیٰ تمام حاجات سے پاک اور بے نیاز ہے وہ اپنی مخلوق کو دیتا اور کھلاتا ہے اس کے عطاکرنے اور دینے کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ کوئی اس کے نظام میں دخل نہیں دے سکتا۔

رزق کا کم اور زیادہ ہونا:

لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَقْدِرُ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (شورٰی: 12)

’’آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے اُسے ہر چیز کا علم ہے۔‘‘

اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ يَقْدِرُ لَهٗ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (العنکبوت:62)

’’اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کرتا ہے یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا١ۙ وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِيّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ ١وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يٰمَرْيَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (آل عمران:73)

’’اس کے پروردگار نے اسے اچھی طرح قبول فرما لیا اور بہترین پرورش فرمائی اور اس کی کفالت زکریا کو سونپی گئی۔ جب کبھی زکریا ان کے حجرے میں جاتے تو اس کے پاس رزق پاتے ،وہ پوچھتے اے مریم! یہ رزق تمہارے پاس کہاں سے آیا؟انہوں نے کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘

سیدہ مریم [ جب بڑی ہوئیں تو انہیںسیدنا زکریا u کی کفالت میں دیا گیا ۔ اس زمانے کے مذہبی رواج کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف لوگ تارک الدّنیا ہوکر مسجد ِاقصیٰ میں تعلیم وتربیت اورذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے معاملات سے الگ کرلیا ہوتا تھا۔ چنانچہ سیدہ مریم علیہا السلام انہی ذاکرات میں شامل ہوکر اپنے حجرے میں محو ِعبادت رہا کرتی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے خالو سیدنا زکریاu کے سپر دتھا ۔ایک دن زکریاu ان کے ہاں حجر ے میں تشریف لائے تو ان کے پاس غیر موسمی عمدہ پھل دیکھ کر ششدر رہ گئے ۔ حیران ہوکر پوچھتے ہیں کہ مریم بیٹی یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ مریم علیہا السلام نے جواب دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بلا حساب رزق سے نوازتا ہے ۔

وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰى مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيْهِ سَوَآءٌ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ (النحل:71)

’’اوراللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فوقیت دی ہے ،پس وہ لوگ جنہیں فوقیت دی گئی ہے جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں کسی صورت اپنا رزق غلاموں کو دینے والے نہیںکہ وہ اس میں برابر ہو جائیں،تو کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکا ر کرتے ہیں ؟‘‘

اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسانوں کی زندگی کے مختلف مراحل مقرر کیے ہیں اسی طرح اس نے لوگوں کے درمیان جسمانی، روحانی اور معاشرتی اعتبار سے امتیازات قائم فرمائے ہیں ۔ایسے ہی اس نے معاشی حوالے سے لوگوں کے درمیان فرق قائم کیا ہے۔ تا کہ لوگ ایک دوسرے کی ضرورت بن کر زندگی بسر کریں۔ ایک شخص زمیندار ہے دوسرا اس کا مزارع، ایک کارخانہ دار ہے دوسرا اس کا ورکر، ایک مالدار ہے دوسرا اس کا ملازم گویا کہ معاشی اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ ملازم کے بغیر مالدار کا کاروبار آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کاریگر اور ورکر کے بغیر فیکٹری کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔مزارع کے بغیر زمین میں زراعت نہیں ہو سکتی۔ یہی اسباب رزق کی کمی وبیشی کا سبب ثابت ہوتے ہیں۔یہاں رزق کے حوالے سے مشرک کو عقیدۂ توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ

ایک لینڈ لارڈمزارع کو اور کارخانہ دار ملازم کو اپنے کاروبار اور زمین میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔مگر مشرکانہ ذہن رکھنے والے لوگ فطرت سلیم اور انصاف کے اصولوں کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بناکر شرم محسوس نہیں کرتے ۔یہاں ان کی مردہ فطرت کو جگانے کے بعد ان سے سوال کیا گیا ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو اور اپنے ضمیر سے پوچھو ۔کیا تم اپنے غلاموں، نوکروں اور مزارعوں کو اپنے کاروبار میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار ہو؟یقیناً تم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ مگرتم خدا کی خدائی میںزندہ اور مردہ یہاں تک کہ بتوں کو شریک بناتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک کرنے کی وجہ سے تمہارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے تم نہ صرف شرک سے اجتناب نہیں کرتے بلکہ شرکیہ عقیدہ کی خاطر جھگڑتے ہو۔ دراصل تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔ اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقیدۂ توحید ہے جس سے انسان میں خودداری اور اللہ کے سوا باقی سب سے بے نیازی پیدا ہوتی ہے۔

قرآن مجید لوگوں کو صرف دلائل کی بنیاد پر عقیدہ توحید اور حقائق تسلیم کرنے پر زور نہیں دیتا بلکہ وہ لوگوں کا ضمیر بیدار کرنے کے لیے ان سے استفسار کرتا ہے کہ زمین وآسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور چاند و سورج کو کس نے تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے؟قرآن مجید مکہ میں نازل ہوا تھا اس لیے سب سے پہلے انہی سے سوال کیا گیا کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانے والوں!بتاؤ کہ زمین وآسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اورتمہارے لیے شمس و قمر کو کس نے مسخر کر رکھا ہے؟توحید انسان کی فطرت کی آواز ہے اور یہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اس لیے مشرکین مکہ بے ساختہ جواب دیتے کہ انہیں صرف ایک ’’اللہ‘‘ ہی نے پیدا کیاہے اس اقرار پر انہیں جھنجھوڑا گیا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کیوں کھاتے پھرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے صرف زمین و آسمانوں اور شمس و قمر کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ وہ تمہیں کھلاتا اور پلاتا بھی ہے ۔جس طرح زمین وآسمانوں اور شمس و قمر کو کسی اور نے پیدا نہیں کیا اسی طرح اللہ کے سوا تمہیں کوئی رزق دینے والا نہیں۔ نہ صرف کوئی رزق دینے والا نہیں بلکہ تمہارے رزق میں کوئی ایک دانے کے برابر بھی کمی وبیشی نہیں کر سکتا ۔’’اللہ ‘‘ہی اپنی حکمت کے تحت اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود مشرک اپنے رب کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔

اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَقْدِرُ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ (الروم:37)

’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ جس کا اللہ چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اورجس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے عبرت کا سبق ہے جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘

اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ انہیں کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ خود کفیل کرتا ہے تو وہ اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اترانے لگتے ہیں اگر انہیں کسی غلطی یا کمزوری کی وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوجاتے ہیں بالخصوص رزق کے معاملے میں اکثر لوگوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ مال کی فراوانی ہو تو اتراتے ہیں اور مال اللہ کی نافرمانی کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں سمجھایا جائے تو ان کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مال کے نشے میں اپنے آپ سے باہر ہوئے جا رہے ہیں ۔کاروبار میں نقصان ہو تو ان کی بے بسی دیکھنے والی ہوتی ہے اور اکثر دفعہ ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ سننے والا محسوس کرتا ہے کی یہ اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہو چکا ہے حالانکہ جو رب تکلیف کے بعد راحت دینے والا ہے وہی رزق کو کشادہ اور کم کرنے والا ہے۔ رزق کامعاملہ ٹریفک کے مانند ہوتا ہے جس میں کبھی تیزی آتی ہے اور کبھی ٹھہرائو آجاتا ہے اس لیے انسان کو ہرحال میں اپنے رب سے تعلق مضبوط رکھنا چاہیے یہی مسلمان کی شان ہے کیونکہ تکلیف کے بعد سہولت اور سہولت کے بعد تکلیف ،کشادگی کے بعد تنگی اور تنگی کے بعد کشادگی اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت عمل میں آتی ہے ایمان دار لوگ اس حکمت سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور اپنے رب کے اور قریب ہو جاتے ہیں ۔

جہاں تک رزق کے بڑھنے اور کم ہونے کا معاملہ ہے دنیا میں کوئی ایسا انسان ہوا ہے اورنہ ہوگا جسے ایک ہی مقدار اوررفتار کے ساتھ رزق مل رہاہو اگر کوئی زمیندار ہے تو بے شک وہ کتنی ہی محنت اور فصل کی نگرانی کرلے ۔ ہر سال اس کی فصل ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اگر کاروباری آدمی ہے اور بے شک وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو اس کے کاروبار میں بھی اتارچڑھائو آتا رہتا ہے حالانکہ کاروبار ی آدمی کی ہر وقت سوچ اور کوشش ہوتی ہے کہ کاروبار میں نقصان کی بجائے منافع ہی ہوتا رہے، اسی طرح ایک مزدور اورغریب آدمی کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہتاہے کہ کبھی وہ اس قدر تنگ دست ہوجاتا ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے مزدوری بھی نہیں ملتی اورکبھی مسلسل مزدوری ملنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ایک حد تک آسودہ دیکھتا ہے ۔رزق میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اوربعض دفعہ انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ میرے رزق میں کمی بیشی کا سبب کیا ہے امیر ہویا غریب اسے ہر حال میں یہ سوچنا اورعقیدہ اپنانا چاہیے کہ رزق کی کمی ،بیشی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیارمیں نہیں وہی ذات ہے جو ہر کسی کے رزق میں کمی بیشی کرتی ہے۔

اَوَ لَمْ يَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ(الزمر:52)

’’اور کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘

کیالوگوں کو معلوم نہیں کہ ’’اللہ‘‘ ہی رزق بڑھانے اور تنگ کرنے والا ہے بلا شبہ اس میںبھی ایمان لانے والوںکے لیے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس فرمان میںپہلا سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی داتا نہیں وہ ہر چیز کا مالک ہے اور وہی اپنی حکمت کے تحت لوگوں کورزق عطا کرتاہے اس میںدوسرا سبق یہ پایا جاتاہے کہ کسی مالدار کو اپنے مال پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ رزق کی کشادگی اورتنگی کسی کی لیاقت اورمحنت پر منحصر نہیں ۔دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو شب و روز محنت کرتے ہیں مگر رزق کی کشادگی دیکھنا ان کے نصیب میں نہیں ہوتی کچھ ایسے ہیںجو اپنی محنت سے کہیں گنا زیادہ پاتے ہیں۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے زمیندار کی مثال سامنے رکھیں زمین ایک ہی ہے اس کا پانی ،موسم اور بیج یکساں ہوتاہے اور دیگر ذرائع بھی ایک جیسے ہوتے ہیں استعمال کیے جاتے ہیںمگر فی ایکڑ کے حساب سے ایک قطعہ کی فصل بہت اچھی ہوتی ہے اور دوسرے کی بہت کم یہی صورتِ حال منڈی اور بازار میںدیکھی جاتی ہے ایک ساتھ دوکانیں اور ایک جیسا مال ہونے کے باوجود ایک کو سر کُھجانے کی فرصت نہیں اور دوسرا خالی ہاتھ بیٹھا ہوتا ہے ایسا کیوں ہے ؟یہ اس لیے ہے کہ رزق بڑھانا اورکم کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لیے مالدار کو اپنے مال پر اترانے کی بجائے اپنے رب کاشکر گزارہونا چاہیے اورتنگ دست کو اپنی حالت پرصبر کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور دعا کرنی چاہیے ۔

اللَّہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلاَلِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ (رواہ الترمذی : باب فی دعاء النبیe )

’’اے اللہ! مجھے حرام سے بچا کر حلال رزق وافر عطا فرما اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے اپنے سوا ہر ایک سے بے پرواہ کر دے۔‘‘

بتاؤ تمہیں کون رزق دیتا ہے؟

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ هَلْ مِنْ شُرَكَآىِٕكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ (الروم:40)

’’ اللہ ہی ہے جو تمہیں پیدا کرتا ہے پھر تمہیں رزق دیتا ہے پھر تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا، کیا ان میں سے کوئی کام تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی کرسکتا ہے ؟اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک اوربہت بلند و بالا ہے ۔‘‘

اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ

’’اور وہ کون ہے جس نے مخلوق کی ابتدا کی اور پھر اسے لوٹائے گا اور کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اورالٰہ ہے؟فرمائیں کہ بلاؤ اگر تم سچے ہو ۔‘‘ (النمل:۶۴)

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہرچیز کو زندگی اوربقا کے لیے جو کچھ اور جس قدر چاہیے اُسے اسی حالت اورمقام پر پہنچایا جارہاہے ،پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہاہے، مرغی کا بچہ انڈے میںپل رہا ہے ،مچھلیاں دریامیں ،پرندے ہوامیں اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک اورماحول میں مطمئن اورخوش وخرم دکھائی دیتے ہیں ہر دانہ اپنی آغوش میں زندگی اوربیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے ۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی عناصر ہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے یہ اتنے ارزاں اوروافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے ۔ اس لیے قرآن مجید نے اللہ کی ہستی اور اس کے نظامِ ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اوراسی کے تابع فرمان رہناہے جس نے مجھے پید ا کیاہے یہ نظام اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی منتظم کے بغیر جاری اور قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات ونشانات دیکھتاہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتاہے۔

فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ (المؤمنون :14)

’’اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیداکرنے والا ہے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے