پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئےہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد –اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقہ ڈرو، اور خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان سمجھو۔

مسلمانو! قدر دانی اور کرم نوازی اللہ تعالی کی صفات ہیں، اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے عبادت گزاروں کو عبادت کے اثرات دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے تا کہ جنت کے وعدے لوگوں کے لیے سچے اور پکے ہو جائیں۔

ماہ رمضان میں لوگ رب العالمین کی رحمتوں اور نعمتوں سے خوب بہرہ ور ہوئے کہ ان کا اللہ تعالی سے ناتا استوار رہا، ان کی شرح صدر ہوئی، دل پاکیزہ ہو گئے؛ تا کہ لوگ سارا سال اپنے رب کی عبادت پر ثابت قدم ہو جائیں اور ایسی نعمتیں ہر شخص کو مل جائیں جو ان کا مقصود اور مطلوب ہیں، جن کی بدولت دلی مسرت اور خوشی ملتی ہے، ساری مخلوقات ایسی نعمتوں کی تمنا کرتی ہیں۔ اور ان نعمتوں میں سے کامل ترین نعمت یہ ہے کہ انسان اسلام کا علم حاصل کرے اور پھر اس پر عمل پیرا ہو کیونکہ مسلمان ہی دنیا، برزخ اور آخرت میں دائمی نعمتیں حاصل کریں گے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (الانفطار: 13)

یقیناً نیک لوگ[ہمیشہ]نعمتوں میں ہوتے ہیں۔

اللہ تعالی دنیا میں مسلمانوں کی اسلام کیلئےشرح صدر فرما دیتا ہے، ان کی زندگی اسلام پر ہی گزرتی ہے اور وہ اسی سے روشنی حاصل کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا (الأنعام: 122)

ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا ؟!

 پھر اللہ تعالی نے انہی لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں رحمت بھی لکھ دی ہے، چنانچہ فرمایا:

أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ (التوبۃ: 71)

یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی عنقریب رحم فرمائے گا۔

اللہ تعالی نے انہیں دنیا میں سعادت اور اجر دونوں سے نوازا؛ لیکن آخرت کا اجر بہت عظیم اور بڑا ہو گا۔ فرمانِ باری تعالی ہے:

لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ (النحل: 30)

اچھے کام کرنے والوں کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ہی بہت بہتر ہے۔ اور وہ پرہیز گاروں کے لئے کیا ہی اچھا گھر ہے ۔

دنیا میں اللہ تعالی کی مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ انہیں دین کی محبت عطا کی، دین کو دلوں کی زینت بنایا، اپنی اطاعت کی مٹھاس انہیں دی، اس طرح ان کا باطن بھی دینی عقائد اور حقائق سے پیراستہ ہو گیا، ان کا ظاہر دینی احکامات کی تعمیل سے آراستہ ہو گیا، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ

اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا ۔[الحجرات: 7]

اس لیے ہر وقت اللہ تعالی کی جانب توجہ، انابت، اللہ تعالی اور اس کے فیصلوں پر رضا مندی فوری ثواب کا باعث اور دنیا کی جنت ہیں۔

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سعادت مندی کا محور اور بنیاد ہیں، دل میں ایمان کی مٹھاس اس بات کی علامت بھی ہے کہ اسلام دین حق ہے؛ جیسے کہ ہرقل نے ابو سفیان سے ہمارے نبی محمد اور آپ کے دعوائے نبوت کی صداقت کے متعلق پوچھتے ہوئے کہا تھا: “میں نے تم سے پوچھا کہ : کوئی اس کے دین کو قبول کرنے کے بعد متنفر ہو کر مرتد بھی ہوتا ہے؟ تو تم نے کہا کہ: نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ تو ایمان کی حقیقت بھی یہی ہے کہ جب ایمانی مٹھاس دلوں میں رچ بس جائے تو دل کبھی اس سے نفرت نہیں کرتا۔(متفق علیہ)

اہل ایمان لوگوں میں سب سے اچھی زندگی گزارتے ہیں، ان کے حالات بہت اچھے ہوتے ہیں، ان کی شرح صدر ہو چکی ہوتی ہے، ان کے دل سب سے زیادہ مسرور ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (يونس: 62، 63)

سن لو ! یقیناً اللہ کے دوستوں پر، نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور تقوی اپناتے ہیں۔

ان کی سعادت مندی کا کمال دیکھیں کہ امن و امان کی دولت ان کے دلوں اور زندگی کے تمام گوشوں کو اپنی آغوش میں لیے ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (الأنعام: 82)

جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا۔ انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔

دنیا میں ایسی کوئی لذت اور نعمت نہیں ہے جس کا مقام اللہ تعالی کی معرفت اور اللہ تعالی کی پہچان سے زیادہ ہو، چنانچہ جس وقت انسان اپنے رب کو پہچان لے تو انسان اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسی کی بندگی کرتا ہے۔

شرح صدر اور قلبی خوشی حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالی کی وحدانیت کے اقرار سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، کمال درجے کی خوشیاں اللہ تعالی سے ملتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (يونس: 58)

آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں۔ 

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی اللہ تعالی کی ذات سے خوش ہونے کے تابع ہے؛ اسی لیے مومن اپنے رب پر اتنا راضی ہوتا ہے کہ کسی اور چیز سے اتنا خوش نہیں ہوتا، دل کو اسی وقت حقیقی فرحت ملتی ہے جب اللہ کی ذات سے خوش ہونے کی لذت پا لے اور اس کے اثرات چہرے پر رونما ہو جائیں”

بندہ جس قدر معرفت الہی میں پختہ ہو گا اس کی محبت بھی اسی مقدار میں مضبوط ہوگی ، انسان کو جتنی مسرت اللہ کی محبت اور قرب میں ملتی ہے کسی اور چیز میں نہیں ملتی، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة: 165)

اور ایمان والے اللہ سے شدید ترین محبت کرتے ہیں۔

تخلیق کائنات اور دین کا ہدف صرف ایک اللہ کی بندگی ہے، لوگوں کو نعمتیں اور عزتیں اسی کی بنیاد پر ملیں گی، یہی وجہ ہے کہ نماز مسلمانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، آپ کا فرمان ہے: ’’اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘(مسند احمد)

مومن نماز سے سکون کیوں نہ حاصل کرے!؟ نماز کے دوران ہی تو اللہ تعالی مومن کے سامنے ہوتا ہے ، نیز نماز کے دوران سجدے میں انسان اللہ تعالی کے قریب ترین ہوتا ہے، حتی کہ مشرکوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ایک جنگ میں کہہ دیا تھا کہ: “ان کے ہاں نماز کا وقت ہونے والا ہے جو انہیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہے” (مسلم) چنانچہ جس قدر بندہ نماز کی مٹھاس پائے گا  اسی مقدار میں نماز کی جانب کھنچتا چلا آئے گا، اور نماز فوری ادا کرے گا۔

زکاۃ اور نماز کے مابین چولی دامن کا ساتھ ہے، اگر کوئی شخص دل کی خوشی سے زکاۃ ادا کرے تو اللہ تعالی اسے ایمان کی مٹھاس چکھا دیتا ہے، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “صدقہ دینے والا شخص جب بھی صدقہ دیتا ہے تو اس کی شرح صدر ہو جاتی ہے، دل کشادہ ہو جاتا ہے، اس کی فرحت اور مسرت پائیدار ہو جاتی ہے، اگر صدقہ کرنے میں محض یہی فائدہ ہوتا تو زیادہ سے زیادہ اور فوری صدقہ کرنے کی ترغیب کیلئےبندے کو یہی کافی تھا ۔

روزے کی اپنی لذت اور روزے داروں کے لیے الگ فرحت ہے، آپ کا فرمان ہے: ’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطاری کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔‘‘( متفق علیہ)

ایسے ہی حج کرنے کیلئےبھی لوگوں کے دل کھنچتے چلے جاتے ہیں، ارکان حج ادا کر کے دل خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے، لوگ مشاعر مقدسہ کی جانب سر پٹ دوڑتے ہیں صرف اس لیے کہ وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائیں گے جیسے وہ آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

عبادت اور اخلاقی برتری کے ذریعے تزکیہ نفس کامیابی کا راز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (الشمس: 9)

کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اپنا تزکیہ کر لے۔

اسی طرح اللہ تعالی کی جانب دعوت دینے والا شخص بھی کامیاب ہے، وہ دائمی نعمتوں اور خوشیوں میں رہے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران: 104)

’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ ‘‘

علم نافع بھی شرح صدر کا باعث بنتا ہے، یہ دل کو کشادہ  اور بندے کو اللہ کے قریب تر کر دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: 28)

بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ایمان اور معرفت کے علاوہ اس دنیا میں ایسی کوئی نعمت نہیں ہے جو آخرت کی نعمت جیسی ہو ۔اللہ کا ذکر بھی شرح صدر کا باعث ہے، ذکر الہی کے ذریعے دل پر سکون رہتا ہے، ذکر تمام عبادات میں سے آسان ترین عبادت ہے، لیکن اس کی وجہ سے ملنے والی فرحت اور مسرت سب سے زیادہ  ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 28)

جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’انسان کو دل میں اللہ کے ذکر، حمد اور نعمتوں کے تذکرے سے اتنی لذت ملتی ہے جو کسی اور عمل سے نہیں ملتی۔‘‘

سب سے عظیم ذکر قرآن کریم ہے ، یہ مومنوں کے لیے ہدایت ، شفا اور رحمت ہے، قرآن کریم اللہ تعالی کی ایسی دولت اور رحمت ہے جس کے ذریعے بندے فرحت پاتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ (الرعد: 36)

اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ آپ کی طرف نازل کی گئی وحی سے خوش ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جس وقت مومن آیات کی تلاوت سنتا ہے تو خوشی سے نہال ہو جاتا ہےکیونکہ مومن کو ان آیات سے اطمینان اور سکون ملتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (التوبۃ: 124)

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا؟  تو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کر دیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اگر آپ اپنے اور کسی دوسرے میں اللہ کی محبت جانچنا چاہتے ہیں تو دل میں قرآن سے محبت اور تلاوت سننے پر ملنے والی لذت کو دیکھ لیں۔‘‘

قرآن کریم کی مٹھاس شہد سے بھی بڑھ کر ہے، چنانچہ “ایک آدمی رسول اللہ کے پاس آ کر کہتا ہے: میں نے رات کو خواب میں ایک سایہ دار بادل دیکھا اس میں سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے عرض کیا: مجھے اس خواب کی تعبیر بیان کرنے دیں” تو آپ نے فرمایا: چلو تم اس کی تعبیر بتلاؤ،تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سایہ دار بادل سے مراد اسلام ہے، اور اس سے ٹپکنے والا گھی اور شہد قرآن ہے، یعنی قرآن اپنی مٹھاس ٹپکا رہا ہے۔ ( متفق علیہ)

اللہ کے اطاعت گزار بندے اس وقت تک نعمتوں میں رہیں گے جب تک کمال درجے کی نعمت یعنی جنت نہیں پا لیتے، پھر جنت میں بھی اعلی ترین نعمت یہ ہو گی کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا دیدار ہو اور اللہ تعالی کی گفتگو اللہ تعالی سے سنیں، آپ کا فرمان ہے: جب اللہ تعالی حجاب ہٹائے گا، تو جنتیوں کو اللہ کا دیدار تمام حاصل شدہ نعمتوں سے زیادہ محبوب ہو گا۔(صحیح مسلم)

اور آپ اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے

وَأَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ 

’’اور میں تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کا شوق چاہتا ہوں۔‘‘ (سنن نسائی)

ایمان کی مٹھاس ایک بار پا لینے والا اس سے سیراب نہیں ہوتا، اسی لیے وہ مزید نیکیوں کی کوشش کرتا ہے اور ان نیکیوں کے اثرات اس کی زبان اور اعضا پر رونما ہوتے ہیں، وہ کسی بھی ایسے کام سے محفوظ ہوتا ہے جو اسے دینی طور پر نقصان پہنچائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (الحجرات: 7)

لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس محبت کو تمہارے دلوں میں سجا دیا۔ اور کفر، عناد اور نافرمانی سے نفرت پیدا کر دی ۔ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

امام ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: جس وقت دل ایمان کی مٹھاس پا لے تو اسے کفر، فسق اور گناہوں کی کڑواہٹ بھی محسوس ہوتی ہے، یہی وجہ تھی کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا:

رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ (يوسف: 33)

اے میرے پروردگار ! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے ۔

جس وقت انسان کو ایمان کی مٹھاس مل جائے تو پھر وہ لوگوں کے ستائشی کلمات کا رسیا نہیں  رہتا، اللہ تعالی اسے دین پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ دائمی عبادات کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے۔

دین کی مٹھاس اگر کسی کو مل جائے تو دنیا جہان کی آسائشیں اس پر قربان کر دے، اس کے لیے ہمہ قسم کی تکلیفیں جھیلنے کیلئےتیار ہو جائے، جیسے جادو گروں نے ایمان کی مٹھاس پا لینے کے بعد فرعون سے کہا تھا:

إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (طہ: 73)

ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں اور ہر اس کام کو معاف کر دے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا اللہ ہی بہتر ہے اور وہی ہمیشہ رہنے والا ہے۔

پھر جب فرعون نے انہیں قتل اور سولی چڑھانے کی دھمکی دی تو یہ بھی کہہ دیا:

فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا

تو جو کرنا چاہتا ہے کر لے۔ تو تو بس اس دنیا کی زندگی کا ہی خاتمہ کر سکتا ہے۔ [طہ: 72]

ایمان کی نعمت اخلاص کے ساتھ مشروط۔ اخلاص، دوسروں کی خیر خواہی ، ملت اسلامیہ کا التزام قلبی سلامتی اور شرح صدر کا باعث ہیں، رسول اللہ کا فرمان ہے: تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل کمی نہیں کرتا: اخلاص کے ساتھ اللہ کی بندگی۔ مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی، ملت اسلامیہ کا التزام ۔(سنن ترمذی)

ایمانی حلاوت اللہ تعالی سے محبت کے زیر اثر ہوتی ہے، یعنی جب یہ محبت کمال درجے کی ہو اور اللہ کے سوا کسی کی محبت دل میں نہ ہو تو ایمانی حلاوت ملتی ہے، آپ کا فرمان ہے: تین چیزیں جس میں ہوں وہ ان کے ذریعے ایمان کی مٹھاس پا لیتا ہے: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ بندے کے ہاں محبوب ہوں۔ آدمی کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے ۔ اور کفر میں لوٹنا اس کے لیے ایسے ہی ناگوار ہو جیسے آگ میں پھینکا جانا اسے ناگوار ہے۔ ( متفق علیہ)

بندے کو اس وقت اطاعت گزاری سے مانوسیت ہوتی جب وہ اپنے دین اور اپنی عبادت پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے، اللہ اور اس کے رسول کی سختی کے ساتھ اطاعت کرے، آپ کا فرمان ہے: اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ تعالی کو اپنا رب مان لے، اسلام کو اپنا دین مان لے اور محمد کو رسول مان کر راضی ہو جائے۔ (صحیح مسلم)

اللہ تعالی سے دعا مانگنا اور حسن ظن رکھنا تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے میرے بارے میں گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔

قضا اور قدر پر ایمان رکھنے والا شخص سعادت مندی حاصل کرتا ہے، اور ایمانی حلاوت اس کے بغیر حاصل نہیں ہو گی، چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: “میرے بیٹے! تم اس وقت تک حقیقی ایمان کی مٹھاس نہیں پا سکتے جب تک تم یہ ذہن نشین نہ کر لو کہ جو کچھ تمہیں مل گیا وہ تم سے چوک نہیں سکتا تھا اور جو چیز تمہیں نہیں ملی اسے تم حاصل ہی نہیں کر سکتے” ابو داود

ابراہیم حربی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہر قوم کے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ: جو شخص تقدیری فیصلوں کے مطابق نہیں چلتا وہ کبھی بھی خوشحال نہیں ہو سکتا۔ انسان کی خوشحالی کا طریقہ یہ ہے کہ: جب اللہ تعالی اسے نعمت سے نوازے تو شکر کرے، اگر اسے آزمائش میں ڈالا جائے تو صبر کرے اور اگر اس سے گناہ ہو جائے تو استغفار کرے۔

کثرت کے ساتھ نوافل کی ادائیگی ، صبر اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد کی طلب بندے پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتی ہے، ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: میرا بندہ نفل عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔(صحیح بخاری)

اگر کسی کو یہ محسوس ہو کہ اس کی شرح صدر نہیں ہو رہی، نہ ہی اسے ایمان کی مٹھاس مل رہی ہے، نورِ ہدایت سے وہ محروم ہے تو وہ کثرت کے ساتھ توبہ استغفار کرے اور ممکنہ حد تک اس کے لیے کوشش کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا

اور جنہوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم ضرور انہیں اپنے راستے دکھائیں گے۔ (العنكبوت: 69)

نفس کو حرام کاموں سے روکنے پر ہی لذت اور سلامتی حاصل ہوتی ہے، حرام کاموں کی طرف نظر اٹھانا در حقیقت ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، اگر کوئی شخص اللہ کے خوف سے ان پر نظر بھی نہ ڈالے تو اللہ تعالی اسے ایسا ایمان عطا کرتے ہیں جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، امام مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے صرف نظر اللہ کی محبت پیدا کرتا ہے۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو! لوگوں کو نعمتیں ، مسرتیں اور خوشیاں اسی وقت ملیں گی جب وہ اللہ کی معرفت حاصل کریں اور اس سے محبت کریں، اللہ کی اطاعت پر فرحت محسوس کریں ۔ تو آخرت میں ان کے لیے نعمتیں جنت اور دیدار الہی کی صورت میں ہیں، تو یہ دو طرح کی جنتیں ہیں دوسری جنت میں وہی جائے گا جو پہلی جنت میں داخل ہو گا۔ اگر کسی شخص کو اطاعت گزاری میں لذت نہیں ملتی تو وہ اپنے آپ اور اپنے کردار کو قصور وار ٹھہرائے؛ کیونکہ اللہ تعالی تو ہر عبادت گزار کی عبادت کی قدر فرماتا ہے۔

اس پر تعجب نہیں کہ کس کو اطاعت کی لذت نہیں ملتی! تعجب تو اس پر ہے جو عبادت کی لذت پانے کے بعد عبادت چھوڑ دے!

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

 جو بھی مرد یا عورت حالت ایمان میں نیک عمل کرے تو ہم یقیناً اسے نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔ [النحل: 97]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئےقرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئےہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

مسلمانو! عید کے دن مسلمانوں کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں، اس دن اللہ کی نعمتیں اور عنایتیں عیاں ہوتی ہیں، اس لیے عید کے دن خوشی اور مسرت کا اظہار کریں، اپنے آپ اور اہل خانہ پر شرعی دائرے میں رہتے ہوئے دل کھول کر خرچ کریں، عید کی خوشی میں بھی تقوی اور اللہ کو مت بھولیں، اللہ کی عنایتوں پر اس کا شکر ادا کریں۔

بیوی پر لازمی ہے کہ اپنے خاوند کو خوش و خرم رکھے، حسن معاشرت کا عملی پیکر بنے، اپنے بچوں کی بہترین انداز میں تربیت کرے، والد کا احترام سکھلائے، خواتین پر یہ بھی لازمی ہے کہ حجاب، حیا، حشمت، عفت اور اطاعتِ الہی کے ذریعے رضائے الہی کی جستجو میں لگی رہیں، ماہ اطاعت کے بعد اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کریں۔ مستقبل کے لیے بھی اللہ تعالی سے کامیابی اور قبولیت مانگیں؛ کیونکہ رمضان نیکیوں کی بہار ہے تو اس کے بعد بھی نیکیوں کے مواقع ہیں۔

اللہ تعالی کو اپنے بندوں سے ایسے اعمال پسند ہیں جو دائمی کئے جائیں چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہوں۔ جو شخص ماہ رمضان کے پورے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو گویا اس نے پورا سال روزے رکھے۔

اللہ کے بندو!اور اگر جمعہ اور عید اکٹھے ہو جائیں جیسے کہ آج ہوئے ہیں تو عید کی نماز ادا کرنے والے کیلئےجمعہ یا ظہر کی نماز دونوں میں سے ایک پر اکتفا کرنا جائز ہے۔

یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے